ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کا ہمہ گیر اثر

معاشی بحالی کے لیے مالی تعاون اور برآمدات میں اضافہ ضروری

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

مرکزی حکومت نے دو معاشی اعداد و شمار شائع کیے ہیں اور دونوں کچھ بہتر اشارے نہیں دے رہے ہیں ۔ پہلا، امسال فروری میں خردہ شرح مہنگائی 5.03 فیصد ہو گئی ہے۔ جنوری میں یہ شرح مہنگائی 4.06 فیصد تھی۔ دوسرا اعداد و شمار صنعتی پیداوار سے متعلق ہے جس کی شرح ترقی منفی 1.6 فیصد رہی۔ یعنی جنوری 2020 کے مقابلے صنعتی پیداوار میں کمی آئی ہے۔ جاریہ مالی سال کے ابتدائی دس ماہ یعنی اپریل 2020 تا جنوری 2021 کے دوران صنعتی پیداوار میں 12.2 فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ صنعتی پیداوار میں جنوری میں تخفیف اس لیے بھی قابل تشویش ہے کہ دسمبر 2020 میں ایک فیصد کا اضافہ درج کیا گیا تھا اور خیال تھا کہ برے دن گئے اب اس میں بہتری آئے گی۔ اب مہنگائی میں تازہ اضافہ پٹرولیم اشیا کی آسمان چھوتی قیمتوں کے چہار طرفہ اثر کی وجہ سے ہوا ہے۔ حالانکہ شرح مہنگائی آج بھی آر بی آئی کے متعین کردہ حد سے اندر ہی ہے۔ اشارہ یہ بھی ہے کہ اس ماہ بھی شرح مہنگائی گزشتہ ماہ کے مقابلے زیادہ ہی ہوگی۔ غائر نظر سے دیکھیں تو صنعتوں کی حالت ابتر بنی ہوئی ہے۔ جنوری میں غذائی پیداوار میں 26، ٹیکسٹائل میں 5.6، ملبوسات میں 20.2 لیدر اور لیدر پروڈکٹ میں 4.9، کاغذ میں 12.5، فارما سیوٹیکل میں 2.8، تمباکو میں 10.8، شراب میں 8.5، کمپیوٹر میں 1، الکٹریکل میں 2.8، مشنری اور مشینری پیداوار میں 7.8 فیصد گراوٹ درج کی گئی ہے۔ سبھی مینو فیکچرنگ شعبوں میں دیکھیں تو 2 فیصد کی گراوٹ آئی ہے جو بتاتا ہے کہ معیشت میں 15فیصد اور روزگار میں تقریباً 40 فیصد معاون بڑی صنعتوں کی حالت اچھی نہیں ہے کیونکہ تیل اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے خسارہ کا دباو بڑھایا ہے جس سے انتہائی کمزور معیشت پر بڑی مار پڑ رہی ہے۔ اب غذائی قیمت میں اضافے کا ڈاٹا گزشتہ جمعہ کو کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) گزشتہ جنوری میں مالی خسارہ کو 4.06 فیصد پر رکھا ہے۔ غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ فروری میں بڑھ کر 3.83 فیصد ہو چکا ہے۔ اس کے پہلے ماہ میں 1.89 فیصد تھا۔ یہ ڈاٹا این ایس او نے شائع کیا ہے۔ غذائی اجناس کی سبزیوں کی قیمتوں میں فروری میں 6.27 فیصد کمی ہوئی تھی۔ اس سے بھی پہلے مہینہ میں 15.84فیصد درج کی گئی تھی۔ ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ نقل و حمل اور کمیونیکیشن ضروریات پر 11.4 فیصد اضافہ ہوا۔ کیر ریٹنگس کے چیف اکانومسٹ نے کہاہے کہ مالی خسارہ زیادہ ہونے کی وجہ سے کورونا وبا کے بعد زیادہ تر صنعتوں نے اپنی پیداوار کی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ اسی اثنا میں صنعتی پیداوار 1.6 فیصد سکڑ گئیں۔ گرچہ ہم نے جی ڈی پی میں 0.4 فیصد کی مثبت بہتری دکھائی۔ فی الووقت کانکنی اور مینو فیکچرنگ شعبوں کا حال بھی اچھا نہیں ہے۔ منسٹر آف اسٹیٹسکس اینڈ پروگرام امپلی منٹیشن (MoSP) کے ڈاٹا کی بنیاد پر غور کریں تو ہماری ملکی کمپنیوں کی پیداوار جاریہ مالی سال اپریل تا جنوری میں 12.2 فیصد گھٹ گئی ہے کیونکہ یہ زبردست بے ترتیبی اور جلد بازی میں لگائے گئے سخت ترین لاک ڈاون کی وجہ سے ہوا۔ کل پیداوار نومبر 2020 میں 2.1 فیصد کم ہو گئی جبکہ جنوری 2020 میں 2.2 فیصد بڑھی تھی۔ حالیہ دنوں میں ایندھن کی کھپت میں زبردست کمی آئی ہے۔ ستمبر ہی سے قیمتوں میں اچھال کی وجہ سے طلب میں بڑی کمی آئی ہے۔ پٹرولیم پیداوار کی کھپت فروری میں 4.9 فیصد کم ہو کر 17.21 ملین ٹن ہو گئی ہے۔ ڈیزل جو سب سے زیادہ استعمال میں آنے والا ایندھن ہے اس میں 8.5 فیصد کی تخفیف کے ساتھ 6.55 ملین ٹن کی کمی آئی اور پٹرول کی کھپت 6.5 فیصد کم ہو کر 2.4 فیصد ہوئی۔
اس کے علاوہ تشویش اس پر بھی ہے کہ فروری میں تھوک قیمت انڈیکس (wholesale price index) میں شرح مہنگائی بڑھ کر جنوری سے دوگنی ہو گئی ہے۔ وزارت صنعت و تجارت کے ذریعے جاری کیے گئے اعداد و شمار میں فروری میں تھوک مہنگائی 4.17 فیصد ہو گئی ہے۔ یہ گزشتہ27 ماہ کے ریکارڈ سطح پر ہے۔ جنوری 2021 میں تھوک مہنگائی 2.03 فیصد تھی جبکہ ایک سال قبل فروری میں 2.26 فیصد تھی۔ غذا، مشروب کے علاوہ ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ آر بی آئی نے گزشتہ ماہ مالی ضابطہ کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود کو غیر متبدل رکھا ہے۔ تھوک غذائی انڈیکس فروری میں بڑھ کر 3.03 فیصد ہو گیا ہے جبکہ جنوری میں یہ 0.26 فیصد تھا۔ اس طرح پھلوں کی قیمت میں 9.48 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ فروری میں فینو فیکچرڈ پیداوار کی تھوک مہنگائی 5.81 فیصد پر رہی جبکہ جنوری میں یہ 5.13 فیصد درج کی گئی تھی۔ تجارتی میدان میں بھی ہماری کارکردگی اچھی نہیں رہی۔ ملک کا تجارتی خسارہ بڑھ کر 12.62 ارب ڈالر تک پہنچا۔ ملک کا اکسپورٹ فروری 0.67 فیصد بڑھ کر 27.93 ارب ڈالر رہا جبکہ 6.96 فیصد بڑھ کر 40.54 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ گزشتہ پیر کو جاری اعداد و شمار کے مطابق فروری میں خسارہ بڑھ کر 12.62 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو ایک سال پہلے اس ماہ میں 10.16 ارب ڈالر تھا۔ اپریل 2020 سے فروری 2021 کے دوران برآمدات 12.23 فیصد گھٹ کر 256.18 ارب ڈالر رہیں۔ ایکزم بینک کے اندازہ کے مطابق گزشتہ مالی سال 2019-20 کی مارچ سہ ماہی میں کمرشیل اشیا کا ایکسپورٹ 79.9 ارب ڈالر تھا جبکہ غیر تیل اشیا کا اکسپورٹ65.9 ارب ڈالر رہا تھا۔ بینک کے مطابق جاریہ سال کے مقابلے 10.8 فیصد رہے گا ایسے میں غیر تیل پیداوار کا برآمدات 256.8 ارب ڈالر رہ سکتا ہے۔ یہ اعداد و شمار ایک سال قبل کے برآمدات کے مقابلے 5.6 فیصد کم ہے۔
ملکی معیشت کے کورونا کے وبائی اثرات سے باہر نکلنے کی رفتار نہایت ہی سست ہے۔ ایسے میں آر بی آئی کے سابق گورنر پروفیسر رگھو رام راجن نے خبردار کیا کہ ملک کے مالی منصوبہ کے ڈھانچہ میں کسی طرح کی بڑی تبدیلی باؤنڈ بازار کو اتھل پتھل کرکے رکھ دے گی کیونکہ موجودہ سسٹم مالی خسارہ کو قابو میں رکھنے اور معاشی ترقی میں معاون ثابت ہوا ہے۔ بھارت کا 2024-25 میں 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کی ایک بڑی خواہش ہے۔ وبا سے قبل بھی اس ہدف کو لے کر احتیاط سے کام نہیں لیا گیا۔ پی ٹی آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے پروفیسر راجن نے بتایا کہ اتنے بڑے مالی خسارہ کو بغیر مالی ڈھانچہ (فریم ورک) بنائے ہم قابو میں نہیں کر سکتے۔ فی الوقت آر بی آئی ے مالی خسارہ کے ہدف کو 2 سے 6 فیصد کے درمیان رکھا ہے۔ اصلاحات کے نقطہ نظر سے رگھو رام راجن نے کہا کہ 2021-22 کے بجٹ میں نجکاری پر بہت زور ہے مگر نجکاری کو لے کر حکومت کا ریکارڈ کافی اتار چڑھاو ابھرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ بجٹ ٹیکس وصولی اور نہ ہی مالی شعبوں کی سرگرمیوں کے سلسلے میں شفاف ہے۔ سابقہ بجٹوں میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ حکومت نے 1.75 لاکھ کروڑ روپے پبلک سیکٹر کمپنیوں اور مالی اداروں کی فروخت سے حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں دو پبلک بینکوں اور ایک بیمہ کمپنی بھی شامل ہے۔ راجن نے کہا کہ یہ بینکوں کو صنعتی گھرانوں کو فروخت کرنا فاش غلطی ہو گی۔ کسی اچھے حجم کے بینک کو غیر ملکی بینک کو فروخت کرنا بھی سیاسی اعتبار سے بہتر نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ 10 لاکھ سے زائد بنک ملازمین کا بینکوں کی کی نجکاری کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

’’بینکوں کو صنعتی گھرانوں کو فروخت کرنا فاش غلطی ہوگی۔ کسی اچھے حجم کے بینک کو غیر ملکی بینک کو فروخت کرنا بھی سیاسی اعتبار سے بہتر نہیں ہوگا‘‘۔(رگھو رام راجن)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 مارچ تا  3 اپریل 2021