انتظار نعیم
یہ لطیفہ نہیں ، بلکہ واقعہ ہے کہ ایک روز جیل کے ہمارے ایک ساتھی نے بڑی معصومیت سے سوال کیا کہ اسلام تو بڑا پرانا ہے اور اکبر بادشاہ تو بہت بعد میں ہوا ہے، پھر آپ اذان میں ہمیشہ اس کا نام کیوں لیتے ہیں؟ میں نے اذان کے اکبر اور ہندوستان کے بادشاہ اکبر کی وضاحت کی تو اس دوست کو حیرت کے ساتھ خوشی ہوئی۔ مختصر یہ کہ ہماری جیل اور بعد میں رہا ہوکر جب میں احباب سے ملاقات کے لیے ملک کے مختلف علاقوں اور جیلوں میں گیا تو اکثر کے متعلق یہی رپورٹ ملی کہ جگہ جگہ ماحول خوش گوار اور مسلم و غیر مسلم سیاسی قیدیوں کے درمیان یگانگت کی فضا قائم تھی۔
تقریباً پانچ مہینے بعد ضمانت پر میری رہائی ہوئی تو باہر آکر محسوس ہوا کہ اصل جیل تو باہر کی دنیا ہے۔ اندرا گاندھی کے صاحبزادے سنجے گاندھی کے نس بندی کے شوق کی تکمیل کے لیے ملک کو دہشت گردی اور ظلم و ستم کے واقعات سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ دہلی کے ترکمان گیٹ علاقہ میں سرکاری ظلم و ستم کی داستان پورے ملک میں عام ہوگئی تھی۔ میڈیا بھی سرکاری دہشت گری کا شکار تھا۔ خبروں پر سنسر تھا۔ بعض اخبار و رسالے سرکاری عتاب کا بہ طور پر خاص نشانہ تھے۔ جماعت اسلامی ہند کے ہم خیال اخبارات کے دفاتر سیل کردیے گئے تھے اور ان کا اسٹاف قید کردیا گیا تھا یعنی ایک جابر و ظالم حکمراں کی آرزوؤں بلکہ ہوس کی تکمیل کے لیے ضروری اقدامات کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی گئی تھی!
لیکن شب ظلمات تو آخر ختم ہوتی ہے، لہٰذا احتجاج اور مطالبات کے مسلسل جاری ماحول میں 22ماہ کے بعد ملک سے ایمرجنسی کی سیاہ رات کا خاتمہ ہوا۔ جماعت اسلامی ہند بھی بحال اور سرخ رو ہوئی۔
جماعت نے کوشش کی کہ غیر مسلم برادران وطن سے جیل کے دوران جو خوش گوار روابط قائم ہوئے تھے وہ باقی اور جاری رہیں۔ لیکن ملک کے جن گروہوں نے جماعت اسلامی ہند پر پابندی پر شادیانے بجائے تھے، اخباروں میں اظہار مسرت کے اداریے تحریر کیے تھے۔ ان کو جیلوں میں جماعت اسلامی کے افراد کے ذریعے اسلامی اخلاق و کردار پیش کرکے مختلف طبقات کے درمیان خوش گوار روابط کے قیام کی جو کوشش ہوئی تھی وہ بھی کَھل گئی!
انہوں نے فتنہ پردازی اور شر انگیزی کرتے ہوئے پورے ملک میں جماعت اسلامی اور آرایس ایس کے مابین Pact ہوجانے کی افواہ پھیلا کر اس کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش کی۔ یہ ’فریضہ‘ انجام دینے والے لوگ آج غور فرمائیں کہ جماعت اسلامی کو نقصان پہنچانے کی ان کی کوشش نے اسلام کو ، ملت اسلامی ہند کو اور ملک کو کیا فیض پہنچایا؟ اس مہم میں جو مسلمان حضرات شریک تھے، کیا وہ واقف نہیں تھے کہ اللہ رب العالمین نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سرکش فرعون کے پاس جاکر اس کو دعوت حق دینے کی ہدایت نہیں فرمائی تھی؟ کیا دیگر تمام انبیائے کرام اسی فریضے کی ادائیگی پر مامور نہیں کیے گئے تھے؟ کیا نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کام کے لیے اپنی جان مبارک کھپائے نہیں رکھی تھی؟ کیا رسول رحمتؐ نے اپنے دور میں موجود تمام ذرائع دعوت حق کے فروغ کے لیے استعمال نہیں فرمائے تھے؟ اور وہی خدمت انجام دینے کی کوشش جماعت اسلامی نے کی تو معتوب کیوں ٹھیرائی گئی؟
بہرحال 1975سے 2020تک مسلمان ہند پر اور کیا کیا قیامتیں نہیں گزر گئیں۔ بابری مسجد کی شہادت، اس کے مقدمے کا غیر منصفانہ فیصلہ، مسلم کش فسادات کا تسلسل، ہجومی تشدد اور دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے قتل کا سلسلہ، مسلمانوں کی شہریت کو مشکوک بناکر ان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے ناپاک منصوبے، مسلم تعلیم گاہوں کو نشانہ بنانے کی سازش، مسلم اجتماعیت میں بکھراؤ پیدا کرنے کی خفیہ تدبیریں اور مسلم ہندو تعلقات کو زہر آلود کرنے کے فتنے، پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کی کردار کشی اور ان کے خلاف ماحول بنانے کی کوششیں۔ مسلم خواتین کے تحفظ کے نام پر شریعت پر حملوں کا سلسلہ ، اوقاف کی اربوں روپیوں کی جائیدادوں کی تباہی اور پورے ملک میں اسی گروہ کے ذریعے غیر اعلانیہ ایمرجنسی کا نفاذ ، جو 1975میں خود ایمرجنسی کے مظالم کا شکار تھا۔
یہ حالات مسلم تنظیموں اور جماعتوں اور نیز عام غورو فکر اور موثر منصوبہ بندی اور اس پر عمل آوری کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان مشکل مراحل سے سرخ روئی کے ساتھ نکلنے کے لیے مضبوط اجتماعیت شرط اول ہے۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ مسلم تنظیموں کے درمیان مخلصانہ روابط قائم رہیں اور کوئی فتنہ پرداز ان کے تعلقات میں فاصلے پیدا نہ کرسکے۔ ہماری تنظیمیں اپنے اپنے ذرائع سے مسلم عوام کی مثبت ذہن سازی کرکے ان میں اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا کریں۔ اجتماعیت کے ذریعے ہی ملت اپنے مسائل اور مشکلات کا تدارک کرسکتی ہے۔
چاروں طرف پھیلے ہوئے مسائل مسلم نوجوانوں کو ذہنی انتشار میں مبتلا کررہی ہیں اور وہ سماج میں اپنا حقیقی مسلم کردار اور اسلامی تشخص پیش نہیں کر پارہے ہیں۔ نوجوانوں کی جو تنظیمیںملک میں سرگرم عمل ہیں ان کو اپنی ہمہ جہت جدوجہدکا رخ اور تیز کرنا چاہیے تاکہ وہ بہتر ہندوستان کی تعمیر میں بڑی قوت کے ساتھ آگے بڑھ سکیں اور مستقبل ان کی خدمات کو سنہری حرفوں میں محفوظ کرنے میں فخر محسوس کرے۔
ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی سے پیدا ہورہے جس ناسور کا مندرجہ بالا سطور میں ذکر کیا گیا ہے ان میں ایک اہم پہلو ملک کے مختلف مذاہب و طبقات میں خیر سگالی اور روادری کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ یہی کام اور کوشش ملک کے ایک خاص طبقے کو ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے اور موجودہ حالات میں وہ مختلف عنوانات سے ملکی فضا کو منتشر و پراگندہ کرنے کی خاص طور پر کوشش کرتا رہتا ہے، اور وہاں جہاں اس طبقے کی حکومتیں ہیں وہ اس طرح کی کوششوں کی سرپرستی کرتی ہیں۔
بہرحال اندھیرا جتنا گہرا ہے روشنی اتنی ہی تیز کرنی چاہیے۔ ماحول کی ناسازگاری کو محبت و خدمت اور رحمت و رواداری کے ذریعے سازگار بنایا جاسکتا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے ایمرجنسی 1975کے کردار و عمل کا تذکرہ پھر موضوع گفتگو بنے تو آج بھی ان شاء اللہ حالات میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ ملک کے غیر مسلم برادران سے روابط و تعلق میں ارشادات ربانی، اقوال رسالتؐ ، اور ان کی روشنی میں خود اپنی میٹھی باتیں اور سندر بول سے مدد لی جاسکتی ہے۔ سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا محمد سراج الحسن ؒ ایک بار ٹائمز آف انڈیا کے مدیر جناب دلیپ پڈگاونگر سے ملاقات کے لیے ان کے گھر پہنچے تو ان کی بیٹی کے ذریعے پانی پیش کیے جانے پر فرمایا کہ بیٹی خدا آپ کو خوش رکھے! اس مختصر سے جملے سے بے حد متعجب و مسرور بیٹی نے اپنی ماں سے اس کا تذکرہ کیا اور کہا کہ ماں ! ہمارے گھر بہت سے لوگ پاپا سے ملنے آتے ہیں لیکن اتنی اچھی بات کسی نے کبھی نہیں کہی! یعنی ہم دوسروں کے لیے دعا کرنے والے اور خیر بانٹنے والے بن جائیں تو نہ جانے کتنے دلوں کو مسخر کرکے ملک میں امن و سلامتی کا ماحول پیدا کرسکتے ہیں۔
اس وقت جاری غیر اعلان شدہ ایمرجنسی میں لاک ڈاون کے نفاذ نے ملک کو جس کرب و اضطراب سے دوچار کر رکھا ہے اس کو عام طور پر محسوس کیا جارہا ہے۔ اس تکلیف دہ ماحول میں جماعت اسلامی ہند کے وابستگان اور دیگر تنظیموں اور انجمنوں کے افراد نے جس اخلاص و ہمدردی کے ساتھ پرشان لوگوں کی خدمت کی ہے اس کی تحسین و تعریف کا سلسلہ ہر طرف جاری ہے۔
کچھ اتنا ٹوٹ کے چاہا تھا میرے دل نے اسے
وہ شخص میری مروت میں بے وفا نہ ہوا
(قیصر الجعفری)
(مضمون نگار سابق اسسٹنٹ سکریٹری جماعت اسلامی ہند ہیں)
بہرحال اندھیرا جتنا گہرا ہے روشنی اتنی ہی تیز کرنی چاہیے۔ ماحول کی ناسازگاری کو محبت و خدمت اور رحمت و رواداری کے ذریعے سازگار بنایا جاسکتا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے ایمرجنسی 1975کے کردار و عمل کا تذکرہ پھر موضوع گفتگو بنے تو آج بھی ان شاء اللہ حالات میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے