ایغور مسلمان انسانیت سوز برتاوکا شکار

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی ہائی کمشنر کی رپورٹ

مسعود ابدالی

چینی مظالم پر مغربی ممالک کی تشویش بجا ہے لیکن فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم پرخاموشی کا جواز کیا ہے؟
گزشتہ ہفتہ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر محترمہ مِشل بیچلیٹ نے سنکیانگ کے بارے میں رپورٹ جاری کر دی، جس کے مطابق چینی صوبے سنکیانگ (مقامی تلفظ شنجاک) میں ایغور مسلمانوں سے جو سلوک ہو رہا ہے اسے انسانیت کے خلاف جرائم سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
مِشل بیچلیٹ کہتی ہیں:
سنکیانگ میں ایغور اقلیت کے خلاف 2017 سے 2019 کے درمیان چینی حکومت نے پکڑ دھکڑ شروع کی تھی جس کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف مہم کا نام دیا گیا تھا۔ تاہم اس حوالے سے ہمیں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ بین الاقوامی قانون کے تحت خدشات کو جنم دیتی ہیں۔
سنکیانگ میں انفرادی اور اجتماعی حقوق سلب کر لیے گئے ہیں
سنکیانگ کے 10 لاکھ ایغور افراد کو حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے
ایغوروں اور قازق مسلمانوں سے ہونے والی بدسلوکی میں تشدد، جبری نس بندی، جنسی استحصال اور ماں باپ سے بچوں کی علیحدگی شامل ہے۔
ایغوروں کی بڑے پیمانے پر نگرانی کی جاتی ہے جس کا مقصد اسلامی شناخت کو تباہ کرنا ہے۔
رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ’ہیومن رائٹس واچ چائنا‘ کی ڈائرکٹر سوفی رچرڈسن نے کہا کہ اس رپورٹ سے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کا پتہ چلتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو اس رپورٹ کی روشنی میں انسانیت کے خلاف جرائم کی جامع تحقیقات کرواکے ذمہ دار افراد کو جواب دہ ٹھیرانا چاہیے۔
دوسری طرف چین نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں چین کے مندوب ژانگ جن (Zhang Jun) نے کہا کہ سنکیانگ کے من گھڑت مسئلے کے پیچھے سیاسی محرکات ہیں، جن کا مقصد چین کے استحکام کو نقصان پہنچانا اور اس کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ چینی مندوب نے اپنی حکومت کا یہ موقف دہرایا کہ امریکہ جنہیں حراستی کمپاؤنڈ قرار دے رہا ہے وہ دراصل پیشہ ورانہ تعلیم کے مراکز ہیں، جن کا مقصد وہاں زیر تربیت لوگوں کے انتہا پسندانہ نظریات کی درستگی اور دہشت گردی کا انسداد کرنا ہے۔
ایک سال قبل لندن کے آزاد بین الاقوامی ٹریبونل نے بھی چینی حکومت کو سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں اور دوسری لسانی اقلیتوں کی نسل کشی، بہیمانہ تشدد اور بدسلوکی کا مرتکب قرار دیا تھا۔ تحقیقات کے دوران ایغور متاثرین سمیت 30 گواہ پیش ہوئے جن میں عالمی شہرت یافتہ وکیل اور دانشور شامل ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے بیانات کے حق میں ناقابل تردید ثبوت فراہم کیے تھے۔
ٹریبونل کے سربراہ سر جیفری نائس نے ستمبر 2021 میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ چینی حکومت ایغوروں کی آبادی کم کرنے کے لیے جبری بانجھ پن کے گھناونے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں موصول ہونے والے تمام شواہد مستند اور ہر قسم کے شکوک و شبہات سے پاک ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ظلم و ستم کی یہ کارروائی وفاقی حکومت کے ایما اور حکم پر ہو رہی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ایغور مسلمانوں کو غیر انسانی اور ناقابل بیان تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بائیس مربع میٹر کی کھولیوں میں 15 افراد ٹھنسے ہوئے ہیں جو سخت سردی میں گرم کپڑوں اور کمبل کے بغیر کنکریٹ کے فرش پر سلائے جا رہے ہیں۔
ستمبر 2020 میں قائم ہونے والے اس ٹریبونل کو کسی حکومت کی مدد یا سرپرستی حاصل نہیں تھی اور اس کے اخراجات دنیا بھر کی غیر سرکاری تنظیموں کے اتحاد NGO Coalition for Genocide Responseنے اداکیے تھے۔ ٹریبونل اس وقت قائم کیا گیا جب عالمی عدالت انصاف یا ICJ نے اس معاملے کی تحقیق کا یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ چین ICJ کا رکن نہیں ہے۔ عالمی عدالت انصاف اس اعتبار سے ایک مہمل و مفلوج ادارہ ہے جسے افغانستان میں اسے امریکی فوج کی مبینہ زیادتیوں کی تحقیق سے روک دیا گیا ہے۔ غزہ اور فلسطین میں اسرائیلی فوج کی مجرمانہ سرگرمیوں کی تحقیق کا عدالت نے وعدہ کیا لیکن اب تک سماعت کا آغاز تک نہیں ہوا۔ عدالت کی طرف سے نوٹس جاری ہوتے ہی امریکہ کی نائب صدر کملا دیوی ہیرس نے اسرائیلی وزیر اعظم کو فون کر کے یقین دلایا کہ امریکہ عالمی عدالت کو اسرائیل کے اندرونی معاملے میں مداخلت اور دہشت گردوں کو معصومیت کی سند عطا کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
ستم ظریفی کہ کملا جی کی انتظامیہ اپنے سیاسی مخالف ڈونالڈ ٹرمپ پر الزام لگارہی ہے کہ سابق صدر اپنے عہدِ صدارت کی تکمیل پر اہم دستاویزات دفتر سےاٹھا کر لے گئے جن میں سے کئی 6 جنوری 2021 کو انتخابی ووٹوں کی گنتی کے دوران کانگریس (امریکی پارلیمنٹ) پر حملے کے متعلق تھیں۔ بائیڈن انتظامیہ اس حملے کو امریکی آئین کے خلاف مسلح بغاوت یا Coup قرار دے رہی ہے۔ امریکی محکمہ انصاف کا خیال ہے کہ دستاویز ’چرانے‘ کا مقصد بغاوت کے ذمہ داروں کومحاسبے سے بچانا ہے چنانچہ سابق امریکی صدر پر فراہمیِ انصاف کی راہ میں رکاوٹ کا مقدمہ دائر کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ اگر ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں بائیڈن سرکار کی منطق کو درست مان لیا جائے تو ڈراونے ڈرون اور تاریخ کے سب بڑے غیر جوہری بم سے رزق خاک بننے والے معصوم افغانوں، غزہ کے نہتے شہریوں پر بمباری، مغربی کنارے کے شہروں اور دیہاتوں میں ہدف بنا کر فلسطینی نوجوانوں کے شکار کی تحقیق سے عالمی عدالت انصاف کو روکنا بھی انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ان الزامات پر صدر بائیڈن اور اسرائیلی قیادت کے خلاف عالمی عدالت انصاف کو از خود نوٹس لینا چاہیے۔
افغانستان اور فلسطین کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل کے ہٹ دھرمی پر مبنی موقف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چینی حکومت نے تحقیقات میں تعاون سے انکار کرتے ہوئے سر جیفری نائس سمیت ٹربیونل کے ارکان پر سفری پابندیاں عائد کردی تھیں۔ چینی حکومت کا کہنا ہے کہ ٹربیونل چین کے خلاف سفید جھوٹ کا پرچار کر رہا ہے۔
گزشتہ برس اپریل میں برطانوی پارلیمان بھی ایک قرارداد منظور کر چکی ہے، جس میں ایغور مسلمانوں سے بدسلوکی کو نسل کُشی قرار دیا گیا تھا۔ تجویز کنندہ کشمیری نژاد قدامت پسند رکن پارلیمان نصرت منیر الغنی نے کہا کہ ایغور خواتین کو بانجھ بنایا جا رہا ہے۔ چینی حکومت کے اعداد وشمار کے مطابق 2014 میں ایک سال کے دوران دو لاکھ خواتین کی نسوانی نس بندی کی گئی اور اب اس آپریشن میں 60 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ نصرت غنی نے کہا کہ جبری نس بندی نسل کشی کی بدترین شکل ہے۔ ایسی ہی قرارداد اس سے پہلے کینیڈا کی پارلیمان بھی منظور کر چکی ہے۔
لندن ٹربیونل کے فیصلے اور برطانوی اور کینیڈا کی پارلیمان کے قراردادوں پر چین نے اس شان سے کان دھرا کہ سر جیفری نائس سمیت ٹربیونل کے ارکان پر سفری پابندیاں عائد کردی گئیں۔ کچھ ایسا ہی سلوک نصرت غنی کے ساتھ بھی کیا گیا۔
اس سے پہلے جنوری 2021 میں امریکی پارلیمان کے ایگزیکیوٹیو کمیشن برائے چین (CECC) نے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانک سے ملنے والے نئے شواہد کی بناپر ایغوروں کی نسل کشی کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ یہ اعلیٰ اختیاراتی کمیشن امریکی وزارت تجارت، وزارت خارجہ اور وزارت محنت کے ایک ایک سینئر رکن کے علاوہ امریکی ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کے 9 اور 9 سینیٹروں پر مشتمل ہے۔
مسلمانوں سے برے سلوک کی چین کی طرف سے تردید پر تعجب کی کوئی بات نہیں۔ دوسری جانب مغربی ممالک ایغور مسلمانوں کی حالتِ زار کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ایغوروں کو سب سے زیادہ افسوس اور مایوسی مسلمان ممالک کی بے حسی پر ہے۔ چین سے اچھے تعلقات کی توقع پر مسلمان ممالک ایغوروں کی حالتِ زار پر گفتگو نہیں کرتے۔ اسلام آباد میں منعقد ہونے والی 57 اسلامی ملکوں کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں نہ صرف اس مسئلے کو نظر انداز کیا گیا بلکہ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے اس اعلیٰ سطحی کانفرنس میں بطور خاص شرکت کی۔ مارچ میں ہونے والی اس کانفرنس کا افتتاح سابق وزیر اعظم عمران خان نے کیا تھا اور کپتان نے بھی اس موضوع پر گفتگو سے گریز کیا تھا۔
ایغوروں کی کسی حد تک حمایت ترکیہ کر رہا ہے۔ اسلام آباد وزرائے خارجہ کانفرنس میں بھی صرف ترک وزیر خارجہ میلوت چاوش اوغلو نے اس مسئلے کو اٹھایا۔ جولائی میں چین ترک پارلیمانی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترکیہ کے اسپیکر مصطفےٰ شینتوپ نے کہا ہم چین سے دوستی اور تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں لیکن ایغوروں کے معاملے سے بھی لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ ترک رہنما کا کہنا تھا کہ ایغوروں سے ہمارا گہرا سماجی، اخلاقی اور دینی تعلق ہے جسے کسی بھی صورت پسِ پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ ترکیہ چین سے سیاسی و تجارتی تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے لیکن ایغوروں کے معاملے میں ہمارا موقف بہت دوٹوک، واضح اور مبنی بر انصاف ہے۔ سمعی و بصری رابطے پر ہونے والی اس بیٹھک میں مصطفےٰ صاحب کی تقریر کے بعد چینی وفد کے قائد نیشنل پیپلز کانگریس (قومی اسمبلی) کے سربراہ لی زانشو (Li Zhanshu) نے کہا کہ ترک چین تعلقات کی بنیاد صاف گوئی، بے تکلفی شفافیت اور باہمی احترام پر ہے۔ ہم ہر معاملے پر اپنے ترک دوستوں سے رابطے میں ہیں۔ چین انسانی حقوق کو بہت اہمیت دیتا ہے اور اس حوالے سے ہمارے پاس چھپانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
بیجنگ نے کئی بار ’تربیتی کیمپوں‘ کا دبے لفظوں اور مبہم انداز میں اعتراف بھی کیا ہے۔ ان اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے ایک بار لکھا ’کچھ اقدامات تکلیف دہ ضرور ہیں لیکن ان سخت اقدامات ہی کی وجہ سے یہ خطہ ’شام‘ یا ’لیبیا‘ بننے سے محفوظ رہا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان سمیت دنیا کے 18 مسلم ممالک نے چین کے اس موقف کی بھر پور حمایت اور ذہنی تربیت کے ذریعے شدت پسندی کے علاج کو قابل تحسین قرار دیا ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 بیجنگ نے کئی بار ’تربیتی کیمپوں‘ کا دبے لفظوں اور مبہم انداز میں اعتراف بھی کیا ہے۔ ان اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے ایک بار لکھا ’کچھ اقدامات تکلیف دہ ضرور ہیں لیکن ان سخت اقدامات ہی کی وجہ سے یہ خطہ ’شام‘ یا ’لیبیا‘ بننے سے محفوظ رہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  11 ستمبر تا 17 ستمبر 2022