اہانت اسلام کے بڑھتے واقعات اور دو مثبت تبدیلیاں
پوتین کا توہین رسالتؐ کے خلاف بیان اور امریکی ایوان نمائندگان میں اسلاموفوبیابل
سید خلیق احمد،دلی
کیا نریندر مودی حکومت روس اور امریکا سے سبق لے گی؟
دسمبر 2021دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کی روک تھام سے متعلق دو اہم تبدیلیوں کا گواہ بنا۔ امریکا اور یوروپی ممالک گزشتہ چند دہوں سے اسلام کےخلاف نفرت اور اسلام دشمنی کا مرکز و محور رہے ہیں لیکن 2020اور 2021کے دوران اسے مزید نمایاں طور پر دیکھا گیا۔
امریکا اور یوروپ کے علاوہ اسلاموفوبیا کے واقعات میں بھارت، سری لنکا، میانمار، آسٹریلیا، اور سنگاپور مں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے۔ فروری 2021 میں تنظیم اسلامی تعاون (او آئی سی) کی جانب سے تیار کردہ ’’اسلامو فوبک مانیٹرنگ‘‘ کے مطابق حکومتوں کی امتیازات پر مبنی پالیسی، زبانی و جسمانی حملے، نفرت انگیز تقاریر، آن لائن نفرت کا پھیلاو، حجاب مخالف واقعات اور مساجد پر حملے اسلاموفوبیا کی مختلف شکلیں ہیں۔
اسلام بالخصوص پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ جنہیں ساری دنیا کے مسلمان اللہ کا رسول مانتے ہیں اور اپنی جانوں سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، آپؐ کی شخصیت کو مسلسل نشانہ بنانے کے پس منظر میں دو پیش رفتیں نہایت اہم ہیں۔ خاص طور پر مغربی یوروپی ممالک میں رسول اللہ کے خاکے اتار کر آپؐ کی شخصیت کی اہانت کرنا اور متعلقہ حکومتوں سے فعال گٹھ جوڑ کے ساتھ بالخصوص فرانس میں پیغمبر اسلام کی توہین پر مبنی لٹریچر کی اشاعت ایک فیشن بن گیا ہے۔ مغربی یوروپ اسلاموفوبیا پر اعتراض کرنے والے ہر شخص کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔
دو تبدیلیوں میں زیادہ اہم روسی صدر ولادیمیر پوٹین کا 24دسمبر کو کیا گیا اعلان ہے۔ یہ اعلان انہوں نے کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ عیسائیوں کی جانب سے ان کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰؑ کے سالانہ یوم پیدائش سے ایک دن قبل کیا۔واضح رہے کہ آرتھوڈوکس عیسائی جو مشرق یوروپی ممالک میں آباد ہیں اور ان میں سے زیادہ تر روس میں بستے ہیں، ان کا تعلق مشرقی آرتھوڈوکس چرچ سے ہے جو 7جنوری کو کرسمس ڈے مناتے ہیں ۔ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ چرچوں اور ماسکو کے آرتھوڈوکس چرچ کے درمیان مذہبی اختلافات کو یوروپ اور روس کے درمیان سیاسی اختلافات کے پیچھے کار فرما وجہ سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہی وہ نظریاتی اختلاف ہے جس نے روس کو اب سیاسی وفوجی گروہ بندی سے نزدیک تر کردیا ہے جو کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائی نظریات کے حامی امریکا و مغربی یوروپ کی فوجی، سیاسی اور معاشی بالادستی کو چیلنج کرتا ہے۔
ایک پریس کانفرنس میں پوتین نے کہا کہ پیغمبر اسلام کی توہین ’’مذہبی آزادی کی خلاف ورزی اور اسلام کی پیروی کرنے والوں کے مقدس جذبات کی خلاف ورزی ہے۔‘‘ انہوں نے واضح طور پر نشاندہی کی کہ پیغمبر اسلام کی توہین آرٹ کی آزادی کی تعریف میں نہیں آتی۔ یہ بتاتے ہوئے کہ فنکارانہ آزادی کے اپنے حدود ہوتے ہیں، روسی صدر نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کی روایات کا احترام کرنا چاہیے۔ پوتین نے جو کچھ کہا وہ ایک پیغام ہے جسے اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری غیر مسلم دنیا میں پھیلایا جانا چاہیے۔
روسی صدر نے کہا کہ اس طرح کی کارروائیاں ان گروہوں کی طرف سے شدت پسندانہ ردعمل کو جنم دیتی ہیں جن کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے پیرس میں چارلی ہیبڈو میگزین کے دفتر پر حملے کی مثال دی۔ میگزین نے 2015 میں پیغمبر اسلام کے انتہائی توہین آمیز کارٹون شائع کیے تھے۔
چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے جارحانہ کارٹونوں کی اشاعت کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے حملے کو دہشت گردی قرار دیا تھا۔ اس معاملے پر میکرون کے اسلاموفوبک موقف کے نتیجے میں کئی ممالک، خاص طور پر ترکی، پاکستان اور ملائیشیا میں ردعمل سامنے آیا۔ امریکہ اور یورپ میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے واقعات کے خلاف اقوام متحدہ میں بعض مسلم ممالک کے سربراہوں نے بھی آواز اٹھائی۔ اس مسئلہ پر ترک صدر طیب رجب ایردوان کے سخت موقف نے فرانس کے ساتھ ترکی کے سیاسی اور سفارتی تعلقات مزید خراب کر دیے۔نائن الیون کے بعد اسلاموفوبیا میں زبردست اضافہ دیکھا گیا۔ معروف صحافی ٹریور ایرونسن کی کتاب "The Terror Factory: Inside the FBI’s Manufactured War on Terror” میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایف بی آئی کے ایجنٹ، نائن الیون حملوں کے بعد خود مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے جس نے امریکہ اور مغربی دنیا میں اسلامو فوبیا کو فروغ دیا۔ اس سے ایف بی آئی کو اپنے لیے بڑے پیمانے پر فنڈنگ حاصل کرنے میں مدد ملی اور یوں مغربی دنیا کو ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا آغاز کرنے پر مجبور کیاگیا۔
امریکی پروفیسرز جان ایل ایسپوسیٹو اور ابراہیم کالن نے بھی اپنی کتاب ’’اسلامو فوبیا: اکیسویں صدی میں تکثیریت کا چیلنج‘‘ میں کہا ہے کہ 11/9 کے حملوں نے اسلاموفوبیا کو بڑھاوا دیا۔ ایک مضمون میں ایسپوسیٹو نے کہا کہ ’’اسلام کی تصویر کشی کو ایک تین طرفہ خطرے (سیاسی، تہذیبی اور آبادیاتی) کے طور پر بہت سے صحافیوں اور اسکالرز نے آگے بڑھایا ہے جو مسلم دنیا میں سیاسی، سماجی اور مذہبی حرکیات کی پیچیدگی کو معمولی سمجھتے ہیں‘‘ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر میں اسلاموفوبیا میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
کئی مسلم رہنماؤں نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی توجہ اس طرف مبذول کرائی اور مشورہ دیا کہ وہ اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے فوری اور موثر اقدامات کریں۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے مغربی یورپ کی حکومتوں سے کہا کہ وہ پیغمبر اسلام کی توہین کرنے والوں کے ساتھ وہی سلوک کریں جو ہولوکاسٹ کا انکار کرنے والوں کے خلاف کیا جاتا ہے۔
فرانس اور جرمنی سمیت کئی یورپی ممالک ہولوکاسٹ سے انکار کو غیر قانونی سمجھتے ہیں اور مجرموں کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ عمران خان نے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی اور توہین کرکے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کو بھی ایسی ہی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
بھارت میں2014 سے اسلاموفوبیا میں تیزی سے اضافہ
بھارت میں بھی عیسائی دنیا کے متوازی اسلاموفوبیا میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مئی 2014 میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ یہ زیادہ نمایاں ہوگیا۔ ہندو برادری کے کئی فرنگی عناصر، جن میں سے بعض نے جو اپنے بارے میں مذہبی پیشوا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، کھلے عام پیغمبر اسلام کی شان میں توہین آمیز الفاظ استعمال کیے تھے۔ ان میں سے کچھ نے پریس کانفرنسوں میں پیغمبر اسلام کی توہین کی، جس پر حکومت نے مؤثر طریقے سے روک تھام نہیں کی۔ تازہ ترین واقعہ یاتریوں کے شہر ہریدوار میں پیش آیا، جہاں بہت سے مذہبی رہنماؤں نے ہندوؤں سے اپیل کی کہ وہ بھارت کو ’’مسلم مکت‘‘ یا مسلمانوں سے پاک بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے قتل عام کے لیے ہتھیار حاصل کریں۔ چونکانے والی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی، جو چھوٹے موٹے مسائل پر تبصرے اور ٹوئٹس کرتے ہیں، انہوں نے اس بیان پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ داخلی سلامتی کے ذمہ دار ان کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی ایک لفظ نہیں کہا۔ اچھی بات یہ رہی کہ مسلمانوں نے اس پر کسی قسم کا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا کیونکہ انتہا پسندوں نے جو کچھ کہا ہے وہ خود ریاست کی اتھارٹی کے لیے کھلا اور براہ راست چیلنج ہے۔
امریکا میں اسلاموفوبیا کے خلاف بل منظور
اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے دوسری اہم پیش رفت امریکی ایوان نمائندگان یا کانگریس (لوک سبھا) سے 14 دسمبر کو اسلاموفوبیا کے انسداد کے لیے منظورکروایا گیا بِل ہے۔ یہ بل اس تاریک دور میں جبکہ اسلاموفوبیا ایک عالمی رجحان بن چکا ہے، چاندی کی ایک پرت کی طرح ہے۔
یہ بل اس وقت منظور کیا گیا جب ریپبلکن کانگریس کی خاتون لارین بوئبرٹ نے اپنی ڈیموکریٹ ساتھی الہان عمر کے خلاف جو ایک مسلمان ہیں اسلام کے تئیں نفرت ظاہر کرنے والا تبصرہ کیا۔ بوبرٹ نے الہان عمر کو ’’جہاد اسکواڈ‘‘ کا رکن کہا تھا۔ ان تبصروں کی وجہ سے ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کی جانب سے بوئبرٹ پر سخت تنقیدیں کی گئیں اور ایوان نمائندگان میں بوئبرٹ کو تمام ذمہ داریوں سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
کانگریس نے بل کا مسودہ تیار کرنے کا کام خود الہان عمر کو سونپا۔ اطلاعات کے مطابق یہ بل اسلاموفوبیا کی نگرانی اور اس سے نمٹنے کے لیے خصوصی نمائندے کی تقرری کی اجازت دے گا۔ سفیر کی رپورٹ میں حکومت کی سالانہ انسانی حقوق کی رپورٹ میں حکومت کی سرپرستی میں مسلم مخالف واقعات کو شامل کیا جائے گا۔
کیا بھارتی حکومت امریکہ سے سبق لے گی؟
اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ہند امریکہ سے سبق لے گی؟ گجرات نے فروری-مارچ 2002 میں جبکہ مودی وزیراعلیٰ تھے، ملک کے بدترین مسلم مخالف فسادات دیکھے تھے۔ اس کے بعد دلی نے مودی کی وزارت عظمیٰ کے تحت فروری 2020 میں بدترین مسلم مخالف تشدد دیکھا۔ کیا ہم ملک کی اقلیتوں پر شدید حملے دیکھ کر بھی خاموشی اختیار کر کے ’’وشوا گرو‘‘ بننے کا خواب دیکھ سکتے ہیں؟
(مضمون نگار ’انڈیا ٹومارو‘ کے ایڈیٹر ہیں)
***
***
اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ہند امریکہ سے سبق لے گی؟ گجرات نے فروری-مارچ 2002 میں جبکہ مودی وزیراعلیٰ تھے، ملک کے بدترین مسلم مخالف فسادات دیکھے تھے۔ اس کے بعد دلی نے مودی کی وزارت عظمیٰ کے تحت فروری 2020 میں بدترین مسلم مخالف تشدد دیکھا۔ کیا ہم ملک کی اقلیتوں پر شدید حملے دیکھ کر بھی خاموشی اختیار کر کے ’’وشوا گرو‘‘ بننے کا خواب دیکھ سکتے ہیں؟
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 09 جنوری تا 15 جنوری 2022