اپوزیشن پر نامناسب تبصرے وزیر اعظم کے لیے زیبا نہیں

پی ایم او کے ٹویٹر ہینڈل سے بی جے پی کے لیے پرچار ۔پی ایم کا وقار مجروح

اکھلیش ترپاٹھی ،لکھنؤ

حکمرانوں کوجمہوریت میں عوامی طاقت کا احساس ہونا چاہئے
اگر ہم یہ کہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی یوپی میں دوبارہ بی جے پی کی حکومت بنانے کے لیے اپنے عہدے کا غلط استعمال کر رہے ہیں تویہ کہنا غلط نہیں ہو گا۔ پی ایم مودی اندرا گاندھی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے عہدے کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ پی ایم او کے ٹوئٹر ہینڈل پرحزب اختلاف کے بارے میں غلط ٹویٹ کرکے بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی شبیہ کو داغدار کیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے 7 ڈسمبر کو یوپی کے گورکھپور میں کھاد فیکٹری، ایمس گورکھپور اور آئی سی ایم آر کے علاقائی میڈیکل ریسرچ سینٹر کو قوم کے نام وقف کرتے ہوئےسماج وادی پارٹی پر سخت تنقید کی۔ ایس پی پر تنقید کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ اس اپوزیشن پارٹی کے دہشت گردوں سے تعلقات ہیں اور ایس پی سے چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے کہا’’لال ٹوپی کے ساتھ یوپی کے لیے ریڈ الرٹ۔ یہ خطرے کی گھنٹیاں ہیں۔ ان کے ساتھ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ سرخ ٹوپیوں والے لوگوں کو اگر اقتدار ملا تو یہ دہشت گردوں پر رحم کریں گے۔ انہیں جیل سے نکالنے کے لیے آگے بڑھیں گے۔ سرخ ٹوپی والوں کو اقتدار کی ضرورت ہے۔ انہیں حکومت بنانی ہے اور انہیں عوام کے دکھوں کی پرواہ نہیں ہے‘‘۔
وزیر اعظم نریندر مودی کا اپوزیشن پارٹی کے بارے میں ایسی بات کہنا بالکل غلط ہے۔ یہ اس لیے بھی غلط ہے کہ وہ ملک کے وزیر اعظم کے طور پر گورکھپور آئے تھے اور ترقیاتی اسکیموں کا آغاز کررہے تھے۔ وہ تقریب ایک سرکاری تقریب تھی نہ کہ بی جے پی کا کوئی پروگرام۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے سیاسی اقدار کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ انہوں نےسرکاری پروگرام کے پلیٹ فارم سے اپوزیشن پارٹی ایس پی کو دہشت گردوں کا ہمدرد قرار دیا۔
مودی نے حکومتی پروگرام کے پلیٹ فارم سے اپوزیشن کو دہشت گردوں کے حمایتی کے طور پر پیش کرکے اپنے عہدے اور طاقت کا غلط استعمال کیا۔ اسےکسی بھی طرح جائز نہیں کہا جا سکتا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہئے تھا کہ وہ سرکاری پروگرام کے پلیٹ فارم سے ترقیاتی اسکیموں کی خوبیاں بتاتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اقتدار کے غرور میں اپوزیشن پارٹی ایس پی کو دہشت گردوں کا حامی قرار دیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے حکومت کے پروگرام کو بی جے پی کا پروگرام سمجھ کر اپوزیشن پارٹی کے تعلقات کو دہشت گردوں سے جوڑنے کا کام کیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ایس پی کو دہشت گردوں کا حامی کہہ کر وزیر اعظم کے عہدے کے وقار کو داغدار کیا۔ انہوں نے ریاست کا اقتدار حاصل کرنے کے لیے سیاسی اقدار اور اخلاقیات کو پامال کیا۔ انہوں نے ایس پی کو دہشت گردوں کا حامی کہہ کر غدار ثابت کرنے کی کوشش کی اور خود کو محب وطن اور بی جے پی کو قوم پرست کہنے کا کام کیا۔
اپنے اس اقدام سے وزیر اعظم نے ہندو ووٹروں کو راغب کرنے اور ہندو ووٹوں کو مجتمع کرنے کا داؤ چلا۔ یہ داؤ بی جے پی کے لیے کتنا فائدہ مند ثابت ہوگایہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اقتدار کے حصول کے لیے اپوزیشن پردہشت گردوں سے روابط رکھنے کی بات کہنا بہت ہی نچلی سطح کی سیاست ہے، یہ کام وزیر اعظم کے عہدے پر بیٹھے شخص کو زیب نہیں دیتا۔اگر بی جے پی کے علاوہ کوئی پارٹی اقتدار حاصل کرنے کے لیے کام کرتی ہے تو وہ مودی کی نظر میں دہشت گردوں کی حامی بن جاتی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی باتوں سے ایسالگتاکہ انہوں نے ہی حب الوطنی کا ٹھیکہ لیا ہے۔ بات یہ ہے کہ ملک کے کسی بھی شہری کو حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے نریندر مودی، بی جے پی اور آر ایس ایس کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ ملک کے ہر شہری کی حب الوطنی ملک کے لیے کیے گئے اس کے کام سے ظاہر ہوتی ہے نہ کہ کسی کے دیے گئے سرٹیفکیٹ سے۔
اقتدار کے غلط استعمال کے معاملے میں وزیر اعظم نریندر مودی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں بلکہ ان سے بھی آگے بڑھ رہے ہیں ۔ وہ ملک کی ہر ریاست میں بی جے پی کی حکومت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اتناہی نہیں بلکہ ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت بنانے کے لیے وزیر اعظم کے دفتر کے وقار تک کو مجروح کررہے ہیں۔ وزیراعظم کویہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جب اندرا گاندھی نے سیاسی فائدے کے لیے اقتدار کا غلط استعمال کیا تو الہ آباد ہائی کورٹ نے ان کے انتخاب کوہی کالعدم قرار دے دیا تھا۔
یاد رہے کہ 1971 کے لوک سبھا انتخابات اور پھر پاکستان کے ساتھ جنگ میں کامیابی نے اندرا گاندھی کوبہت غرور میں مبتلا کیا تھالیکن ان کے خلاف لوک سبھا کا الیکشن لڑنے والے راج نارائن نے ان کے انتخاب کو الہ آباد ہائی کورٹ میں یہ کہتے ہوئے چیلنج کیا تھاکہ’ انتخابات میں انہیں ہرانے کے لیے سرکاری مشینری اوروسائل کا استعمال کیا گیا ہے اور ووٹ خریدنے کے لیے پیسے بھی تقسیم کیے گئے ہیں اس لیےاندرا گاندھی کا انتخاب منسوخ کر دینا چاہیے‘۔
اس کیس کی سماعت 15 جولائی 1971 کو الہ آباد ہائی کورٹ میں شروع ہوئی۔ سماعت کے دوران ہی راج نارائن اور اندرا گاندھی سپریم کورٹ گئے۔ مارچ 1975 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس جگموہن لال سنہا نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ اندرا گاندھی عدالت میں پیش ہوئیں۔ جسٹس سنہا نے 12 جون 1975 کو اپنا فیصلہ سنایا اور اندرا گاندھی کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا۔ جسٹس سنہا نے انہیں سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کی مہلت دی، سپریم کورٹ کے جج جسٹس وی آر کرشنا ائیر نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی۔ جسٹس ائیر نے 24 جون 1975 کے اپنے فیصلے میں اندرا گاندھی کو وزیر اعظم کے طور پر پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی اجازت دی لیکن انہیں لوک سبھا کے رکن کے طور پر ووٹ دینے سے روک دیا۔
اندرا گاندھی نے اس فیصلے کو اپنی توہین سمجھا اور اگلے ہی دن اندرا گاندھی نے کابینہ کی باضابطہ میٹنگ کیے بغیر صدر سے ایمرجنسی نافذ کرنے کی سفارش کی۔ 25 اور 26 جون 1975 کی درمیانی رات صدر مملکت نے اس پر دستخط کیے اور اس طرح ملک میں ایمرجنسی نافذ ہو گئی۔ ایمرجنسی کے دوران ملک میں جو کچھ ہوا اس سے سب واقف ہیں لیکن ایمرجنسی کے بعد ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں کانگریس کو بری طرح شکست ہوئی اور اندرا گاندھی کو وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ اس طرح اختیارات کے ناجائز استعمال کا نتیجہ سامنے آیا۔اس لیے فی الحال حکمرانوں کو جمہوری نظام میں طاقت کے غلط استعمال سے بچنے کی ضرورت ہے۔
پی ایم او کے ٹوئٹر ہینڈل پر اپوزیشن پارٹی ایس پی کے بارے میں جس طرح سے ٹویٹ کیا گیا ہے، اس سے بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی شبیہ خراب ہوئی ہے۔ پی ایم او کا ٹویٹر ہینڈل بین الاقوامی سطح پر دنیا کے سربراہان مملکت سے منسلک ہوتاہے۔ ساتھ ہی بین الاقوامی سطح پر تمام ممالک کے سفارت کار بھی اس سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ایسے میں پی ایم او کے ٹویٹر ہینڈل پر ایک اپوزیشن پارٹی کے بارے میں یوپی میں اسمبلی انتخابات جیتنے کے لیے ایسے الفاظ کے استعمال نے بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی شبیہ کوداغدار کیا ہے۔
(مضمون بشکریہ انڈیا ٹومارو ہندی، مضمون نگار انڈیا ٹومارو ہندی کےلیے کام کرتے ہیں)

 

***

 اقتدار کے غلط استعمال کے معاملے میں وزیراعظم نریندر مودی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں بلکہ ان سے بھی آگے بڑھ رہے ہیں ۔ وہ ملک کی ہر ریاست میں بی جے پی کی حکومت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اتناہی نہیں بلکہ ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت بنانے کے لیے وزیر اعظم کے دفتر کے وقار تک کو مجروح کررہے ہیں۔ وزیر اعظم کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جب اندرا گاندھی نے سیاسی فائدے کے لیے اقتدار کا غلط استعمال کیا تو الہ آباد ہائی کورٹ نے ان کے انتخاب کوہی کالعدم قرار دے دیا تھا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 تا 25 دسمبر 2021