اٹل اور مودی کا فرق گجرات اور منی پور کے تناظر میں
وزیراعظم کی لب کشائی کے لیے اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لانے پر مجبور
ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
وزیر اعظم نریندر مودی نے تادمِ تحریر منی پور فساد کے نوے دنوں بعد بھی منی پور کا دورہ نہیں کیا اور نہ آگے اس کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ویسے انتخاب کی وجہ سے اگر دورہ کرنا پڑ جائے تو اسے پرچار منتری کی ذمہ داری میں شمار کیا جائے گا۔ وزیر اعظم اس کوتاہی کے لیے نظم و نسق کا بہانہ بھی نہیں بنا سکتے کیونکہ اب تک نہ صرف مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ بلکہ راہل گاندھی بھی تشدد زدہ منی پور کا دورہ کر چکے ہیں ۔
گجرات اور منی پور فساد کے درمیان نریندر مودی کی شخصیت اس فرق کے ساتھ مشترک ہے کہ کل کا وزیر اعلیٰ آج کا وزیر اعظم ہے۔ اس کے علاوہ یہ یکسانیت بھی ہے کہ یہ دونوں شرمناک سانحات ’ڈبل کمل سرکار‘ کے تحت ہوئے یعنی ہر دو مرتبہ مرکز اور ریاست میں کمل کھلا ہوا تھا۔ اس موقع پر گجرات کی کرونولوجی کا منی پور سے موازنہ کیا جائے تو اٹل اور مودی کی وزارت عظمیٰ کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔ ستائیس فروری 2002 کوصبح ساڑھے آٹھ بجے گودھرا کے سابرمتی ایکسپریس میں آگ لگی اور ستاون کارسیوکوں کے مرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ وہ چونکہ انٹرنیٹ کا زمانہ نہیں تھا اس لیے وزیر اعلیٰ مودی کو سانحہ کی اطلاع ملنے میں آدھا گھنٹہ لگ گیا۔ شام ساڑھے چار بجے گجرات اسمبلی کے اجلاس سے فارغ ہوکر وہ گودھرا پہنچ گئے اور پولیس کو فسادیوں کے خلاف دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکام صادر کردیا۔ رات ساڑھے دس بجے انہوں نے گاندھی نگر میں اہم سرکاری افسروں کے ساتھ اہم نشست میں تشویشناک علاقوں میں کرفیو لگانے اور حفظِ ماتقدم کے طور پر گرفتاریوں کا حکم دے دیا۔
گجرات میں چودہ گھنٹوں کے اندر جو کچھ کیا گیا وہ سب منی پور میں کیوں نہیں ہوا؟ وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ نے اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلا کر اس میں فسادات پر تبادلہ خیال کیوں نہیں کیا؟ فساد سے متاچرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد سرکاری افسروں کے ساتھ بیٹھ کر ٹھوس اقدامات کرنے کا فیصلہ کیوں نہیں کیا؟ وزیر اعظم نریندر مودی نے انہیں کوتاہی کا احساس دلا کر یہ سب کرنے کی تلقین کیوں نہیں کی؟ ان سوالات کا جواب دونوں کو دینا ہوگا ورنہ ان پر تشدد کے روک تھام میں ناکامی کا الزام لگے گا جس سے وہ بچ نہیں پائیں گے۔ گجرات فساد کے پہلے دن تو سب ٹھیک تھا مگر اگلے روز وشوا ہندو پریشد نے ریاست گیر بند کا اعلان کردیا اور وزیر اعلیٰ کو اس ’آپدا میں اوسر‘ (مشکل میں موقع) نظر آگیا۔ اٹھائیس فروری 2002ء کی صبح بند سے پیدا شدہ حالات کو قابو میں کرنے کے لیے ایک خصوصی کنٹرول روم قائم کیا گیا جس نے فساد کو روکنے کے بجائے اس کو بھڑکانے کا کام کیا تاکہ تشدد کی آگ پر سیاسی روٹیاں سینکی جاسکیں۔ یہ سلسلہ بیس سال بعد بھی جاری ہے۔ گزشتہ سال وزیر داخلہ امیت شاہ نے انتخابی مہم کے دوران فساد کو بھنایا بھی۔
گجرات فساد کے دوسرے دن دوپہر بارہ بجے مودی نے مرکزی حکومت سے رابطہ کرکے فوج کی آمد پر تبادلہ خیال کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ سرحد پر تعیناتی کے سبب صرف دو بٹالین بھجوائی جاسکتی ہیں۔ شام چار بجے مودی نے وزیر داخلہ اڈوانی سے فوج بھیجنے کی گزارش کی۔ سات بجے وزیر اعظم کی صدارت میں قومی سلامتی کی کابینی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں گجرات کی درخواست پر غور کیا گیا اور رات ساڑھے گیارہ بجے احمد آباد کے لیے فوجی کمک روانہ ہوگئی۔ اسی رات ڈھائی بجے فوجی اور پولیس افسران نے حالات پر غورو خوض کیا اور دوسرے دن صبح آٹھ بجے فوج کا فلیگ مارچ ہوگیا۔ اٹل جی کی مرکزی حکومت نے حالات پر قابو پانے کے لیے جو سرعت دکھائی تھی اس کا عشرِ عشیر بھی مودی انتظامیہ نے نہیں دکھایا۔ منی پور کی بابت دلی میں چھائے ہوئے سناٹے کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یا تو مودی جی پر کبرسنی چھا گئی ہے یا ان کی بے حسی وگھمنڈ میں بے شمار اضافہ ہوگیا ہے۔ ویسے مرکزی حکومت کی کوششوں کو کیسے ناکام کرکے فوج کو اپنی ذمہ داری کرنے سے روکا گیا اس کا اظہار معروف اداکار نصیر الدین شاہ کے بڑے بھائی ضمیر الدین شاہ کی کتاب میں تفصیل سے موجود ہے۔ نائب سپہ سالار کی حیثیت سے وہ اس کے چشم دید گواہ تھے اور بعد میں علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہوئے۔ منی پور میں بھی فی الحال فوجیوں کی بڑی تعداد تعینات ہے لیکن اس کے ساتھ بیرین سنگھ گجرات کی تاریخ دہرا رہے ہیں۔
ستائیس فروری 2002کو برپا ہونے والے گجرات فسادات کے بعد چار اپریل 2002 کو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے فساد زدہ گجرات کا دورہ کیا تھا۔ اٹل جی نے پینتیس دنوں کی تاخیر کے لیے ریاست کی مودی حکومت کو موردِ الزام ٹھیرایا جس نے نظم و نسق کا بہانہ بنا کر انہیں دورہ کرنے سے روک دیا دیا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے تادمِ تحریر منی پور فساد کے نوے دنوں بعد بھی منی پور کا دورہ نہیں کیا اور نہ آگے اس کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ویسے انتخاب کی وجہ سے اگر دورہ کرنا پڑ جائے تو اسے پرچار منتری کی ذمہ داری میں شمار کیا جائے گا۔ وزیر اعظم اس کوتاہی کے لیے نظم و نسق کا بہانہ بھی نہیں بنا سکتے کیونکہ اب تک نہ صرف مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ بلکہ راہل گاندھی بھی تشدد زدہ منی پور کا دورہ کرچکے ہیں۔ ان دونوں کے دوروں میں فرق یہ تھا کہ جہاں راہل گاندھی نے زخموں پر مرہم لگانے کی کوشش کی وہیں امیت شاہ نے اپنی دھونس دھمکی سے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوا کیونکہ تشد کا بازار ہنوز گرم ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی میں تو یہ اخلاقی جرأت ہی نہیں ہے کہ اٹل جی کی مانند امپھال جاکر وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ کو ’راج دھرم‘ کے پالن کا اپدیش دیں کیونکہ ایسا کرنا دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت والی بات ہو جائے گی۔
منی پور میں بھڑکنے والے تشدد کے بعد اب تو حزبِ اختلاف کے ارکانِ پارلیمنٹ کا ایک وفد بھی اپنے دو روز ہ دورے پر دور افتادہ شمال مشرقی ریاست میں پہنچ گیا ہے۔ اس دورے کا مقصد صورت حال کا جائزہ لے کر ریاست میں تین ماہ سے جاری تشدد کے خلاف کارروائی کے لیے مودی حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے۔ ’انڈیا‘ نامی اپوزیشن کے اس نئے اتحاد میں شامل پندرہ سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بیس ارکان پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس کے دوران تشدد زدہ ریاست کا دورہ حالات کی سنگینی کا ثبوت ہے۔ اس کا مقصد وہاں جاری تشدد اور خونریزی سے متاثر ہونے والے ہزاروں بے گھر افراد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہے۔ ریاست کے دارالحکومت امپھال پہنچنے کے بعد اس وفد کے ارکان نے ضلع چورا چندپور کے دو امدادی کیمپوں کا دورہ کیا اور نقلِ مکانی پر مجبور ہونے والے لوگوں کے علاوہ مقامی رہنماؤں سے بھی گفت و شنید کی۔ حزب اختلاف کے وفد میں شامل کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ادھیر رنجن چودھری نے اس موقع پر کہا کہ منی پور میں تنازع تشدد کے پیمانے کی وجہ سے ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے۔ وہ لوگ مشکل کی اس گھڑی میں منی پور عوام کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کے لیے وہاں گئے ہیں اور ان کی اولین ترجیح جلد از جلد حالات کو معمول پر لانا ہے۔
ارکان پارلیمنٹ نے مذکورہ بالا مقصد کے حصول کی خاطر راحتی کیمپوں میں متاثرین سے ملنے کے بعد اور دوسرے روز امپھال میں راج بھون جاکر منی پور کی گورنر انوسویا اوئیکے سے بھی ملاقات کی۔ انڈیا نامی وفاق کے وفد میں شامل کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ادھیر رنجن چودھری نے گورنر سے ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایا کہ ’’تمام اکیس ارکان پارلیمنٹ نے گورنر کو مکتوب پیش کیا‘‘۔ موصوف کے مطابق گورنر نے ان لوگوں سے بات چیت کے دوران خود اپنے درد اور دکھ کا بھی اظہار کیا۔ اس دو روزہ دورے کے دوران وفد نے جو مشاہدہ کیا وہ اس سے متفق تھیں۔ گورنر نے مل جل کر تمام برادریوں کے مشورے سے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کا مشورہ دیا۔ محترمہ انوسویا اوئیکے نے اپوزیشن کے ساتھ حکمراں پارٹی کے مشترکہ کل جماعتی وفد کی تجویز پیش کی تاکہ لوگوں میں عدم اعتماد کے احساس کو دور کیا جاسکے۔ ادھیر رنجن چودھری نے بھی گورنر کو منی پور کی صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے سب کو مل کر کام کرنے کا مشورہ دیا۔
یہ عجیب صورتحال ہے کہ گورنر اور اپوزیشن تو تعاون و اشتراک کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں مگر حکومت اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کے لیے ’انا‘ کی اہمیت عوام کے جان و مال سے زیادہ ہے۔ پچھلے ماہ سونیا گاندھی کے بیان نے بڑی مشکل سے امیت شاہ کو کل جماعتی میٹنگ کے لیے راضی کیا لیکن اس میں کوئی ٹھوس بات طے نہیں ہوئی۔ اس نشست میں اگر مشترکہ وفد کا منصوبہ بنتا تو اس کی قیادت خود بی جے پی کرتی اور بہت اچھا پیغام جاتا مگر بے حس حکومت نے وہ موقع گنوا دیا۔ اب اپوزیشن کے وفد نے اعلان کیا ہے کہ وہ مرکزی اور ریاستی حکومت کی کوتاہیوں کو عوام کے سامنے لائے گی۔ ادھیر رنجن نے مرکزی حکومت سے بلا تاخیر تحریک عدم اعتماد کو قبول کرنے اور منی پور مسئلہ پر بحث کرنے کی اپیل کی۔ ان کے مطابق صورتحال بگڑنے سے قومی سلامتی کے خدشات بڑھ رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ موقع ملنے پر وہ ایوانِ پارلیمنٹ میں مرکزی حکومت پر دباؤ ڈالیں گے۔
کانگریس رہنما جے رام رمیش نے گورنر کو پیش کیے گئے میمورنڈم کی کاپی شیئر کر کے ٹویٹ کیا کہ ’’منی پور کے عوام کے غصے، پریشانی، درد، تکلیف اور دکھ سے وزیر اعظم کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ کروڑوں ہندوستانیوں پر اپنے ’من کی بات‘ مسلط کرنے میں مصروف ہیں جبکہ ٹیم انڈیا کے اکیس ارکان پارلیمنٹ کے وفد نے منی پور کی گورنر سے ملاقات کر کے انہیں مکتوب پیش کیا ۔‘‘ ریلیف کیمپ کی حالتِ زار بیان کرتے ہوئے کانگریس کی رکن پارلیمنٹ پھولو دیوی نیتام نے کہا کہ ’’چار تا پانچ سو لوگ ایک ہال میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ریاستی حکومت انہیں صرف دال چاول فراہم کر رہی ہے، بچوں کو دن بھر کھانے کے لیے اور کچھ نہیں مل رہا ہے، نہ بیت الخلا ہیں اور نہ ہی باتھ روم کی سہولت۔ کیمپوں میں لوگ جس طرح سے رہ رہے ہیں وہ بہت دل دہلا دینے والی کیفیت ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم اپنی تیسری میقات میں ملک کو دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بنانے کا خواب بیچ رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اس سپنوں کے سوداگر کو منی پور کے کیپمپ دکھا کر ہوش میں لایا جائے اور اگر وہ خمار سے نہیں نکلتا تو آرام کے لیے گھر بھیج دیا جائے۔
منی پور کی سنگین صورتحال کا جائزہ لے کر اس سے نمٹنے کی توفیق بی جے پی کی کسی سرکاری یا پارٹی وفد کو نہیں ہوئی کیونکہ ان لوگوں کو ایوانِ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سیاست کے سوا کچھ نہیں سوجھتا۔ کسی ریاستی انتخاب کے اعلان سے بہت پہلے یہ لوگ تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں انتخاب کی دھمک سن کر بی جے پی حرکت میں آگئی ہے۔ اپنے فرض منصبی سے غافل وزیر داخلہ ہر بوتھ کے لیے کارکنان کا تعین کر کے انہیں ہدایتیں دے رہے ہیں۔ بھکتوں کی تربیت کر کے ان کی مدد سے انتخاب لڑا جاتا ہے اور الیکشن کے بعد ان کارکنان کو دنگا فساد کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ منی پور میں تشدد کے لیے بھی وہی لوگ ذمہ دار ہیں۔ بی جے پی والے انتخابی مہم کے دوران بنگلورو میں یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ گوہاٹی سے ہیمنتا بسوا سرما کو احمد آباد بلایا جاتا ہے لیکن جب منی پور میں فساد ہوجاتا ہے تو یہ سارے لوگ گدھے کے سینگ کی طرح غائب ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کو امن و امان قائم کرنے کی نہ تو تربیت دی گئی اور ضمیر انہیں اس کے لیے آمادہ کرتا ہے۔
آنجہانی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے فساد زدہ گجرات کا جو دورہ کیا تھا اس کے بیس دن بعد ایوان پارلیمنٹ میں ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر بحث کی تجویز پیش ہوئی اور اسے منظور بھی کیا گیا یعنی اس وقت دو ماہ بعد جو کچھ ہوا تھا اس بار اسے تقریباً تین مہینے لگ گئے پھر بھی فرق ہے۔ اس وقت ووٹنگ سے ایک دن پہلے رام ولاس پاسوان نے مرکزی وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کا اب کوئی امکان نہیں ہے۔ فی الحال ان کے بھائی پشوپتی اور بیٹے چراغ پاسوان میں مودی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مسابقت چل رہی ہے۔ اکیس سال پہلے اور آج کے حالات میں یہ فرق بھی ہے کہ ایوانِ زیریں میں گجرات پر اپوزیشن کے زیر اہتمام تحریک پیش کرنے سے چند گھنٹے قبل سابق صدرِ مملکت کے آر نارائنن نے ایک پیغام میں کہا تھا کہ ’’میں گجرات اور دیگر جگہوں پر امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو درہم برہم کرنے والے پرتشدد واقعات اور ہلاکتوں پر شدید غمزدہ اور دکھی ہوں۔‘‘ موجودہ دورِ ظلم و جبر میں اس کی کسی کو توقع نہیں ہے۔
یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ منی پور میں قبائلی سماج تشدد کا شکار ہوا ہے اور حالیہ صدر مملکت دروپدی مرمو بھی قبائلی ہیں، اس کے باوجود انہوں نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ وہاں پر خواتین کی برہنہ پریڈ کا دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا اس کی ویڈیو دیکھ کر بھی خاتون صدر کا دل نہیں پسیجا اور انہوں نے اس کی مذمت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ کسی نظام حکومت کے اندر ملک کا اولین شہری بھی اگر اس قدر مجبور ہو تو اس کی تعریف و توصیف میں آسمان و زمین کے قلابے ملانے والوں کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے۔ منی پور معاملے میں بھی کانگریس اور دیگر پارٹیوں نے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جسے ایوانِ زیریں کے اسپیکر اوم برلا نے منظور کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی لیڈروں سے صلاح و مشورہ کے بعد اس پر بحث کے لیے وقت کا تعین کیا جائے گا۔ یہ تحریک عدم اعتماد تو دراصل منہ چھپا کر بھاگنے والے وزیر اعظم کو اس مسئلہ پر بولنے کے لیے مجبور کرنے کی ایک کوشش ہے ورنہ اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ نے اس سے پہلے سیاہ لباس پہن کر ایوان میں آنا شروع کر دیا جو منی پور تشدد کے خلاف اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ کا احتجاج تھا۔
کانگریس سمیت بیشتر اپوزیشن جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ منی پور تشدد کے معاملے میں ایوانِ بالا کے اندر آئین کی شق 267 کے تحت تفصیلی بحث کی جائے۔ اپوزیشن جماعتوں کا اس معاملے میں وزیر اعظم کے پارلیمانی بیان پر اصرار ہے تاکہ اس کی روشنی میں بحث ہو لیکن اس معقول مطالبے پر حکومت اور صدرِ مجلس نے مختصر دورانیے کے بحث کی منظوری دے کر تفصیلی بحث سے انکار کر دیا۔ یہ کس قدر شرم کا مقام ہے کہ منی پور پر برطانوی پارلیمنٹ کے اندر رشی سونک کی قیادت میں بحث و مباحثہ تو ہوتا ہے مگر ہندوستانی ایوان میں کبھی اس کو روکا جاتا ہے تو کبھی ٹالا جاتا ہے۔ حکومت کا یہ رویہ چور کی داڑھی میں تنکے کی مصداق ہے اور یہ بتاتا ہے کہ چھپن انچ کے سینے والے وزیر اعظم میں خود اپنی ایوان پارلیمنٹ کا سامنا کرنے ہمت و جرأت نہیں ہے۔ منی پور میں تشدد کے بعد مرکزی وزیر داخلہ کے رسمی دورے کا کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا۔ اس کے بعد راہل گاندھی اور اب انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوسیو الائنس (انڈیا) کے ایک وفد نے امن کی اپیل کرتے ہوئے دونوں برادریوں کے درد، تکلیف اور دہشت کی کہانیاں سننے کے لیے منی پور کا دورہ کیا مگر بعید نہیں کہ ایوان پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کی بحث کے دوران سمرتی ایرانی جیسے بی جے پی ارکان پارلیمنٹ اس تشدد کے لیے راہل کے ساتھ وفد کو بھی ذمہ دار قرار دیں کیونکہ مودی ہے تو کچھ بھی ممکن ہے۔ اٹل بہاری واجپائی کے زمانے میں تشدد تو ہوا مگر کم از کم اس طرح کی بہتان تراشی تو نہیں ہوئی اور نہ میڈیا نے ایسا منفی کردار ادا کیا۔ مودی اور اٹل کے دور میں یہ بھی ایک بہت بڑا فرق ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
ریلیف کیمپ کی حالتِ زار بیان کرتے ہوئے کانگریس کی رکن پارلیمنٹ پھولو دیوی نیتام نے کہا کہ ’’چار تا پانچ سو لوگ ایک ہال میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ریاستی حکومت انہیں صرف دال چاول فراہم کر رہی ہے، بچوں کو دن بھر کھانے کے لیے اور کچھ نہیں مل رہا ہے، نہ بیت الخلا ہیں اور نہ ہی باتھ روم کی سہولت۔ کیمپوں میں لوگ جس طرح سے رہ رہے ہیں وہ بہت دل دہلا دینے والی کیفیت ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم اپنی تیسری میقات میں ملک کو دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بنانے کا خواب بیچ رہے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اگست تا 12 اگست 2023