آزاد ہندوستان میں جماعت اسلامی ہند کا سفرِ عزیمت

مختلف میدانوں میں ہمہ جہتی خدمات۔ خوبیاں و خامیاں بیک نظر

محمد انور حسین ،ناندیڑ

 

جماعت اسلامی ہند کا قیام 1941ء میں عمل میں آیا جب 73 نفوس پر مشتمل ایک چھوٹے سے قافلے نے راہ خدا میں جانفشانی کے لیے رخت سفر باندھا تھا۔ امید تھی کہ یہ قافلہ جلد ہی تیز گام ہو جائے گا لیکن اس سے پہلے کے باطل سے نبرد آزمائی شروع ہو اپنوں کے ستم کی داستاں شروع ہو گئی اور پھر یہ دراز ہوتی چلی گئی اور طرفہ تماشہ یہ ہوا:
ستم پر شرطِ خاموشی بھی اس نے ناگہاں رکھ دی
کہ اک تلوار اپنے اور میرے درمیاں رکھ دی
کچھ ہی عرصے بعد ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوگیا لیکن یہ آزادی ملک کی تقسیم کی صورت میں سامنے آئی۔ آزادی سے قبل بانی تحریکِ اسلامی نے مدراس کے ایک اجتماع میں تاریخی خطاب کیا جو خطبہ مدراس کے نام سے مشہور ہوا جو جماعت اسلامی ہند ہی نہیں بلکہ پوری امت کے لیے رہنمایانہ خطوط فراہم کرنے والا ہے۔ یہ خطبہ ایک کتابچہ کی شکل میں ہے جسے ہندوستان کے ہر مسلمان کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ مولانا مودودی پاکستان ہجرت کر گئے۔ آزادی کے بعد جماعت اسلامی ہند کی تشکیلِ نَو ہوئی اس کا ایک دستور ترتیب دیا گیا اور مولانا ابواللیث ندوی کی قیادت میں جماعت اسلامی ہند کا قافلہ رواں دواں ہوگیا۔ حالات نازک تھے مسلمانوں میں اعتماد کی بحالی اور اپنے تشخص کی بقاء دو اہم کام تھے۔ آزادی کے بعد کا سفر ایک انتہائی دشوار سفر تھا لیکن اللہ کی مدد و نصرت کی بناء پر یہ قافلہ پھلتا پھولتا آگے بڑھتا گیا اور دس ہزار سے زائد ارکان، لاکھوں کارکنان اور کروڑوں چاہنے والوں کے ساتھ یہ تحریک آج ایک جانی پہچانی تحریک بن گی ہے۔ جماعت اسلامی کے سامنے آزمائشیں بہت آئیں، ایمرجنسی کے زمانے میں جماعت اسلامی پر پابندی لگی اس کے ذمہ داروں کو قید وبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ لیکن ان بہترّ سالوں کے طویل سفر میں آزمائشوں اور چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے جماعت نے حرکت وعمل سے کبھی غفلت نہیں برتی بلکہ مسلسل جدوجہد کرتی رہی۔ جماعت اسلامی ہند نے اپنے دستور کی بنیاد قرآن و سنت پر رکھی اور اپنا نصب العین اقامت دین طے کیا۔ ابتدا سے ہی شورائیت، تربیت اور احتساب کے عمل کو باقی رکھا گیا۔ ستر سال سے زائد آزاد کے اس سفر میں وہ کونسے اہم کارہائے نمایاں ہیں جو جماعت اسلامی ہند نے انجام دیے اور کونسے پہلو کمزور رہ گئے اس کا تجزیہ کیا جانا ضروری ہے۔ تجزیہ اور احتساب کا عمل جماعت کی خصوصیت رہی ہے۔ میں نے اس سلسلے میں متعدد اہل علم و دانش سے سوالات کیے اور رائے جاننے کی کوشش کی جس میں دو سوالات اہم تھے۔ پہلا یہ کہ آزاد ہندوستان کے اس سفر میں جماعت اسلامی ہند کے کارہائے نمایاں کونسے ہیں اور دوسرا، وہ کونسی کمزوریاں ہیں جو جماعت کے تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے میں مانع ہیں۔ بیشتر افراد نے اپنی رائے میں مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کو پیش کیا ان سب کی آراء کا مختصر خلاصہ یہاں پیش خدمت ہے۔
ابتدا میں ان کاموں کا تذکرہ کیا جائے گا جو لوگوں کی نظر میں جماعت اسلامی ہند کی جانب سے انجام دیے گئے اہم کام ہیں اور جن کا اثر ملتِ اسلامیہ اور دیگر اقوام و ملل پر غیر معمولی طور پر محسوس کیا گیا۔
آزادی کے بعد ملتِ اسلامیہ مایوسی اور انتشار کا شکار تھی چنانچہ جماعت اسلامی نے اس کے اندر حوصلہ و اعتماد پیدا کرنے اور انسانیت کی تعمیر میں مثبت رول انجام دینے کی طرف راغب کیا۔ تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ لوگوں کے سامنے اسلام کو ایک مکمل دین اور ایک واحد نظام حیات کے طور پر پیش کیا، دین کے صحیح تصور کی وضاحت کی اور اس کے لیے وسیع پیمانے پر ملکی و علاقائی زبانوں میں گراں قدر لٹریچر تیار کیا۔ امت میں قرآن فہمی کی روایات کو دوبارہ زندہ کرنے اور قرآن کی بنیاد پر امت کو متحد ہونے کی دعوت دی گئی۔ برادران وطن کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی گئی اور ان کے اندر اسلام سے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ ساتھ ہی ملتِ اسلامیہ ہند میں یہ شعور پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ دعوت دین ان کا فریضہ منصبی ہے لہٰذا وہ اسے ادا کرنے کے لیے جماعت اسلامی کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ ان کو اور ان کے ساتھ برادران وطن کو بتایا گیا کہ قرآن ساری دنیا کے انسانوں کے لیے دستورِ حیات ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت کے لیے رہنما بنا کر دنیا میں بھیجے گیے ہیں۔ قرآن کا ملک کی تقریباً تمام زبانوں میں ترجمہ کروایا گیا اس طرح قرآن کو برداران وطن میں وسیع پیمانے پر متعارف کروانے کا کام کیا گیا۔ خدمتِ خلق کے میدان میں بہت سے نمایاں کام انجام دیے گیے۔ جہاں جہاں فسادات پھوٹ پڑے اور اور قدرتی آفات سے تباہی آئی وہاں وہاں بہت بڑے پیمانوں پر ریلیف کے کاموں کو انجام دیا گیا۔ ملک بھر میں دواخانے، رفاہی و فلاحی ادارے، تعلیمی ادارے، مائکرو فینانس، بلا سودی ادارے وغیرہ قائم کیے گئے۔ ویژن 2026 کے نام سے خدمت خلق کے بہت بڑے منصوبے پر عمل آوری جاری ہے۔ موجودہ کورونا وائرس کے بحرانی دور میں جماعت اسلامی کے شعبہ خدمت خلق کی بے مثال خدمات نے پورے ملک کے با ضمیر اور انسانیت کا درد رکھنے والے شہریوں کے لیے مہمیز کرنے کا کام کیا۔
جماعت اسلامی نے خواتین میں اسلامی شعور کو پیدا کرنے اور عملی میدان میں ان کو سرگرم بنانے کا نمایاں ترین کام انجام دیا۔ حلقہ خواتین اور گرلس اسلامک آرگنائزیشن کی نام سے خواتین کے دو بڑے شعبے قائم کیے۔
ملت کے نوجوانوں، طلبا اور بچوں میں اسلام کے صحیح تصور کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں الٰہی ہدایات کے مطابق معاشرے کی تعمیرِ نو کے لیے تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا اور یوتھ ونگ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
ان کاموں کے علاوہ امت میں اعتماد کی بحالی، اس کے اندر مثبت، تعمیری اور اعتدال پر مبنی سوچ و فکر کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے اس کے لیے ہر گروپ ہر فکر اور ہر مسلک کے ماننے والوں کو جمع و مخاطب کیا جاتا ہے۔امت کی تعمیر و ترقی کے لیے مثبت تعمیری اور عملی پروگرام دیے جاتے ہیں۔ وقت اور حالات کے مطابق امت مسلمہ کو جو کام انجام دینے چاہئیں ان کا بہترین روڈ میاپ اس کی پالیسی اور پروگرام میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
معاشرے میں انسانوں کی خدمت ان کے مسائل کے حل، حکومت سے نمائندگی اور قانونی رہنمائی کے لیے ایم پی جے، اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سوِل رائٹس جیسی ذیلی تنظیمیں وجود میں لائی گئیں۔
مختلف مذاہب کے درمیان صحت مند گفتگو کا ماحول پیدا کیا گیا اس کے لیے سدبھاونا منچ جیسے اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ساتھ ہی مخلوط سماج میں دینی شناخت کو باقی رکھنے کی کوشش کی گئی۔
ملت و ملک کو درپیش مسائل کا حل اور حکومت کی پالیسیز پر رائے مشورہ اور اظہار خیال پُر زور انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ ملتِ اسلامیہ میں عصری تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ملک بھر میں تعلیمی بیداری مہمات چلائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے طول وعرض میں مختلف تعلیمی اداروں کا بڑے پیمانے پر قیام جماعت اسلامی کے پیش نظر رہتا ہے۔ جماعت اسلامی نے امت کے اندر اجتماعی زندگی گزارنے کا شعور پیدا کیا اور ان کے سامنے اسلام میں اجتماعیت کے تصور کو واضح کیا اور خود کو مضبوط اجتماعیت کی بہترین مثال کے طور پر پیش کیا۔ دنیا کے سامنے اسلام کے صحیح شورائی نظام کا نہ صرف تعارف کروایا بلکہ خود اپنے اندر نظامِ شورائیت کو قائم کیا چنانچہ ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی جماعت اسلامی میں انتخابات کا صاف اور شفّاف عمل دیگر جماعتوں کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے کیونکہ شورائیت کے معاملہ میں جماعت کو دیگر تنظیموں اور اداروں میں امتیازی وصف حاصل ہے۔
جماعت اسلامی نے مسلکی اختلافات سے اوپر اٹھ کر علمائے دین اور دیگر جماعتوں و اداروں کے ساتھ تعاون و اتحاد کو پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ کئی اجتماعی پلیٹ فارمس قائم کیے اور جو پہلے سے قائم تھے ان کو مضبوط کرنے کی بھرپور جدوجہد کی مثلاً مسلم پرسنل لا بورڈ، مجلس مشاورت وغیرہ۔ جماعت اسلامی نے اپنے وابستگان کے لیے نہایت منظم، قابل عمل اور تسلسل کے ساتھ چلنے والا تربیت و تزکیہ کا نظام ترتیب دیا جس کے نتیجے میں ایک بہت بڑا سرگرم، با اخلاق اور پرعزم کیڈر تیار ہوا۔
جماعت اسلامی نے ابتداء سے ہی تحقیق وتصنیف کے کاموں کو اہمیت دی اور کئی تحقیقی ادارے قائم کیے اور نئے اسلامی موضوعات پر لٹریچر تیار کروایا جو اس صدی کی ایک گراں قدر کوشش ہے۔
جماعت اسلامی سے وابستگی اور خیر خواہی رکھنے والوں کی طرف سے پیش کیے گئے یہ چند اہم اور نمایاں کاموں کا تذکرہ ہے جو جماعت اسلامی ہند پچھلے ستر سال سے زائد عرصہ میں ملک عزیز میں انجام دیتی آ رہی ہے چنانچہ اس کے زبردست اثرات ملک و معاشرے میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔فرد ہو، قوم ہو یا کوئی اجتماعیت ہو جب تک اس میں احتساب کا عمل باقی ہے وہ زندہ رہ سکتی ہے۔ احتساب اور تنقید کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ ہمارے وابستگان اور خیر خواہ حضرات نے جماعت اسلامی ہند کے بعض کمزور پہلوؤں اور ناکامیوں پر بھی کھلے دل سے اظہار خیال کیا ہے ہم یہاں ان نکات کو بھی مختصراً پیش کریں گے۔
جماعت اسلامی کو اقامت دین کے نصب العین کو پوری امت مسلمہ کا نصب العین بنانے میں ابھی تک خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ ملت کی ایک کثیر تعداد اب بھی اس تصور سے نا آشنا ہے جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی ہند اپنی تحریک کو اس ملک کی عوامی تحریک نہیں بنا سکی ہے۔ کئی اہم فیصلوں اور اقدامات کے باوجود سیاسی میدان میں جماعت اسلامی ہند کا کوئی زور محسوس نہیں ہوتا۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ دعوت کے میدان میں بہت سے کام کرنے کے باوجود بھی جماعت اسلامی معیارِ مطلوب سے کافی دور معلوم ہوتی ہے۔ تربیت کا نظام ایک میکانیکی قسم کا نظام محسوس ہوتا ہے۔ کچھ حضرات نے شمالی اور جنوبی ہندوستان کی جماعت اسلامی میں فکری ہم آہنگی کی کمی کو بھی واضح کیا ہے۔ اداروں کے قیام اور اس کے چلانے کا شعور رکھنے کے باوجود جماعت اسلامی کے پاس عصری، دینی اور رفاہی اداروں کی مزید کمی ہے اور موجود ادارے بھی مطلوبہ معیار پر نظر نہیں آتے۔ بعض ذیلی اداروں میں غیر شورائیت کا عنصر بھی کسی حد تک پروان چڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ ستر سال کے طویل عرصہ کے بعد بھی ملک کے علماء کے ساتھ تعلقات کمزور نظر آتے ہیں۔ ساتھ ہی ملک کے نامور دینی درس گاہیں، دارلعلوم دیوبند ،ندوة العلماء وغیرہ سے ہم آہنگی کمزور محسوس ہوتی ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ ہیومن ریسورسیس کو حاصل کرنا اور اس کی تربیت کرنا ایک اہم چیلنج ہے اس میں جماعت اسلامی اب بھی کمزور نظر آتی ہے۔ امت کا ایک بڑا طبقہ جو ذہین اور با صلاحیت افراد پر مشتمل ہے جماعت اسلامی سے دور نظر آتا ہے۔ بیشتر حضرات کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی میں تنظیمیت بہت زیادہ حاوی ہوتی جا رہی ہے جو جماعت اسلامی میں سست روی کی ذمہ دار ہے۔ بعض حضرات تو اس سے بھی آگے بڑھ کر جماعت اسلامی کو تحریک نہیں بلکہ ایک این جی او قرار دے رہے ہیں۔ ایک اہم نکتہ جسے بیشتر افراد نے بیان کیا ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت عوامی قیادت نہیں بن سکی۔ جو قیادتیں بھی جماعت اسلامی میں ابھریں وہ صرف وابستگانِ جماعت کی ہی قیادت کرتی رہیں سیاسی سماجی اور مذہبی سطح پر جو انتشار بپا ہے اس کو دور کرنے کا کام بھی جماعت اسلامی نے خاطر خواہ طریقے سے انجام نہیں دیا ہے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی اس ملک میں صرف اپنی کوششوں سے سماجی یا سیاسی دباؤ بنانے یا تبدیلی لانے کے موقف میں نہیں ہے۔ وہ تکثیری سماج میں ملک میں بسنے والے تمام ہی انسانوں کے لیے قیام عدل وقسط کے سلسلے میں اپنا بیانیہ درج نہیں کرواسکی ہے۔ اس کے ساتھ کیوں یہ مجبوری بن جاتی ہے کہ بہت سے سماجی و سیاسی مسائل کو اٹھانے اور ان کے حل کی کوشش کرتے وقت اسے مذہب بیزار اور کیمونسٹ پارٹیوں پر منحصر رہنا پڑتا ہے؟ تحفظ امت کے سلسلے میں، بابری مسجد کے تحفظ میں، مسلم پرسنل لا پر حملے کی روک تھام میں اور اوقافی جائیدادوں کی حفاظت کے ضمن میں بھی جماعت اسلامی کمزور نظر آتی ہے۔ شہریت کے قانون اور یکساں سِول کوڈ کے متوقع مسائل میں جماعت کو ایک زبردست چیلینج سے نبرد آزما ہونا ہے۔ میڈیا کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس کرنے اور اس کا شعور رکھنے کے باوجود بھی موثر میڈیا کا نظام قائم کرنے میں جماعت اسلامی ناکام محسوس ہوتی ہے۔ بڑے پیمانے پر لٹریچر کی اشاعت کے باوجود مزید نیا اور زمانے سے ہم آہنگ لٹریچر تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جماعت کے تحقیقی ادارے اب بھی پیشہ وارانہ معیارات سے دور ہیں۔ اس کے علاوہ علاقائی زبانوں میں اسلامی ادب پر کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوسکا ہے۔یہ ہے وہ جائزہ جو جماعت اسلامی کے بعض خیر خواہ حضرات نے جماعت سے متعلق پیش کیا ہے۔ یقیناً جہاں بہت سے میدانوں میں جماعت اسلامی کی غیر معمولی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے وہیں اس کی کمزوریوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔
مذکورہ بالا سوالات کے مدلل و شافی جوابات تو ملت کے دانشور حضرات ہی دیں گے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک کی جماعت کی پالیسیوں اور پروگراموں پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوگا کہ جماعت کے پاس وسیع، ہمہ جہت اور مقاصد سے ہم آہنگ ایسا منصوبہ موجود ہے جو اس ملک میں کسی دوسری جماعت کے پاس نہیں ہے۔ تحریک کے منصوبوں میں رنگ تحریک کے کارکنان ہی بھرتے ہیں اس کے لیے وقت، صلاحیت، مال اور جان کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ چودہ سو سالہ اسلامی تحریک کی تاریخ ایسی ہی قربانیوں سے زندہ اور تابندہ رہی ہے۔ اگر ملک میں مسلمانوں کی آبادی 20 کروڑ بھی مان لی جائے اور جماعت اسلامی کا کیڈر جو کہ تقریباً 10 ہزار سے کچھ زائد ہے اگر اس کا تناسب نکالا جائے تو امت مسلمہ کی صرف %005۔ 0 افرادی قوت جماعت اسلامی ہند کے پاس ہے۔ اس قدر معمولی تعداد کے باوجود آج ملک بھر میں جماعت کا اچھا خاصا وزن محسوس کیا جاتا ہے تو اگر امت کی صرف 20 فیصد افرادی قوت بھی جماعت کا حصہ بن جائے تو ملک کے مستقبل کی تصویر کتنی شاندار ہوگی اس کا اندازہ آپ بخوبی سکتے ہیں۔ مسلکی اور فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اقامت دین کے فریضہ کو زندگی کا مقصد اور نصب العین بنا کر اگر یہ امت عملی میدان میں اترتی ہے تو دنیا میں سر بلندی کا اللہ کا یہ وعدہ قرآن میں اس کے لیے نہیں تو پھر کس کے لیے ہے؟
’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے ، ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالے نے ان کے حق میں پسند کیا ہے ، اور ان کی ﴿موجودہ ﴾ خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا ، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ 83 اور جو اس کے بعد کفر کرے 84 تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں‘‘ ۔ (سورة النور 55)
لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قرآن کے اس پیغام کو سمجھیں اور اجتماعیت سے وابستہ ہو کر بامقصد اور حرکت وعمل سے بھر پور زندگی کی طرف پیش قدمی کریں۔اللہ اپنے وعدے کو ضرور پورا کرے گا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرونِ دریا کچھ نہیں
***

جماعت اسلامی کو اقامت دین کے نصب العین کو پوری امت مسلمہ کا نصب العین بنانے میں ابھی تک خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ ملت کی ایک کثیر تعداد اب بھی اس تصور سے نا آشنا ہے جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی ہند اپنی تحریک کو اس ملک کی عوامی تحریک نہیں بنا سکی ہے۔