آزادی کی لڑائی سےملک کی ہمہ جہت ترقی تک ہر شعبہ میں مسلمانوں کی خدمات
تاریخی حقائق کو تعصب کے اندھیروں میں گم کرنے کی کوششوں کا حوصلہ مندی سے مقابلہ کرنے کی ضرورت
محمد اسلم غازی، ممبئی
تمام باشندگان ملک کو ۷۴ واں یوم آزادی مبارک ہو ۔ یہ خوشی کا موقع ہے لیکن یہ موقع یہ جائزہ لینے کا بھی ہے کہ مسلمان اس ملک میں آزادی کے بعد کس حال میں ہیں۔ جب سے فسطائی پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ہے ملک میں مسلمانوں کے مسائل روز افزوں ہیں۔
موجودہ فسطائی حکومت کے پاس کامیابی سے ملک چلا نے کے لیے کوئی مثبت پالیسی پروگرام نہیں ہے ۔ اس کے پاس اپنی حکومت کو مستحکم اور طویل کرنے کا ایک ہی پروگرام ’’مسلم دشمنی‘‘ ہے ۔ اپنی مسلم دشمنی میں یہ حکومت اتنی پستی میں گر چکی ہے کہ گزشتہ چار ماہ سے ملک کرونا جیسی عالمی وبا (Pandemic)کے شکنجے میں بری طرح گرفتار ہے جس سے تقریباً ۳۰ ؍لاکھ افراد متاثر ہیں ،جن میں سے ۴۵ ہزار لقمہ اجل بن گئے۔ روزانہ ساٹھ ہزار سے زائد نئے مریض سامنے آ رہے ہیں اور ہزار سے زائد لوگ زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں ۔ اس خطرناک صورتحال میں بھی جبکہ حکومت کا اولین فرض اس وبا سے جنگی پیمانے پر مقابلہ کرکے بھارتی باشندوں کی جان اور صحت و تندرستی کی حفاظت کرنا ہے ،حکومت مسلم دشمنی سے باز نہیں آتی ۔ وہ اور اس کا زر خرید میڈیا مسلمانوں کو کورونا وائرس پھیلانے کا الزام لگا کر بدنام کرتے رہے۔ ملک کے سمجھدار طبقات اور مسلمانوں نےاس الزام کو یکسر مسترد کر دیا ۔ عدالتوں میں بھی یہ بات ثابت ہو گئی کہ مسلمانوں پر کورونا پھیلانے کا الزام حکومت اور میڈیا کی ایک سازش ہے ۔ اس الزام کے علی الرغم مسلمانوں نے کورونا سے متاثر بیمار اور ہلاک شدگان ، لاک ڈاؤن کی مصیبت میں پھنسے بیروزگار غریب اور بھوکے انسان اور بڑے شہروں سے اپنے وطن پیدل ، بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے ہجرت کرنے والے بیکس و بے بس مہاجر مزدور ،ان سب کے مسائل اور دکھ کم کرنے میں ان کی دامے ، درمے قدمے سخنے مدد کی ۔ریلیف کا زبردست کام ملک میں مسلمانوں نے اتنےبڑے پیمانے پر انجام دیااور اپنی بے لوث خدمات سے یہ ثابت کردیاکہ مسلمان جیسا خیر خواہِ انسانیت اس ملک میں کوئی دوسرا نہیں ۔ان کاموں کی جھلکیاں برادرم سید شجاعت اللہ حسینی صاحب نے اپنے مضامین میں دکھائی ہیں جوہفت روزہ دعوت کی زینت بھی بنے ہیں۔
اسی دوران حکومت نے مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے بابری مسجد کی زمین پر رام مندر کا سنگ بنیاد رکھ دیا ۔اس شیلا نیاس سے مسلمان بالکل خوفزدہ نہیں ہیں کیونکہ پہلے بھی اس مقام پر ۲ بار شیلانیاس ہو چکا ہے۔ مسلمانوں کو کامل یقین ہے کہ بابری مسجد اللہ کا گھر ہے اور اللہ خود اپنے گھر کی حفاظت کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔
فسطائی حکومت کا نیا حربہ نئی تعلیمی پالیسی ہے جس کی چوطرفہ مذمت ہو رہی ہے ۔ اندیشہ ہے کہ اس سے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی میں اضافہ ہوگا ۔کیونکہ اس پالیسی کے تحت تعلیم بھی اب صحت و تندرستی کی طرح پرائیویٹ ہاتھوں میں چلی جائےگی جس کی وجہ سے اس کا حصول بہت مہنگا ہو جائے گا اور غریب طبقات کی طرح مسلمان بھی اس سے محروم رہیں گے ۔ نئی تعلیمی پالیسی میں ہندتوا کے اثرات بہت گہرے ہیں جس کے ذریعہ ملک کی روادار اور سیکولر تاریخ پر مزید گرد ڈال دی جائے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ سیکولر حکومت میں مسلمان مسائل سے دو چار نہیں تھے ۔ وطن عزیز کا المیہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد تقریباً ۶۵ سال ملک پر سیکولر کانگریس کی حکومت تھی لیکن مسلمان اس طویل مدت میں ایک دن بھی مسائل سے آزاد نہیں رہے۔
بھارت کو مسلمان اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ اس پر جتنا دوسروں کا حق ہے اتنا ہی مسلمانوں کا حق بھی ہے اس لیے مسلمانوں نے اس ملک کی ہمہ جہت تعمیر میں اپنا خون پسینہ ایک کر کے اپنی ذمہ داری ادا کی اور اپنا رول بخوبی نبھا یا ہے ۔ آزادی اپنے ساتھ تقسیم ملک کا سانحہ لائی تھی۔ شمالی، مشرقی اور مغربی بھارت سے تعلیم یافتہ اور متمول مسلمانوں کی بڑی اکثریت پاکستان ہجرت کر گئی۔ جو مسلمان بھارت میں رہ گئے ان کے ساتھ حکومتوں نے سوتیلا سلوک روا رکھا۔ پولیس ایکشن، فسادات اور حکومتی پالیسیوں کے ذریعے مسلمانوں کے جان و مال، عزت و آبرو، صنعت و حرفت، تجارتی و تعلیمی اداروں کو منصوبہ بند طریقے سے برباد کیا گیا۔ ان سب زبردست رکاوٹوں کے باوجود آزادی کے بعد ملک کی ہمہ جہت ترقی میں مسلمانوں کا رول غیر معمولی رہا ہے۔ اگر درج ذیل میدانوں کا تحقیقاتی جائزہ لیا جائے تویہ بات بالکل واضح ہو جائیگی۔
٭ سائنس اور ٹیکنا لوجی: انٹارکٹیکا پر پہونچنے والے پہلے جنوبی ایشیائی ڈاکٹر سید ظہور قاسم ،ماہرین طیور ڈاکٹر سالم علی اور میزائل مین ڈاکٹر عبدالکلام کے نام تو ملک کے بچے بچے کی زبان پر ہیں۔ ممبئی میں بھابھا ایٹامک ریسرچ سنٹر کے ریٹائرڈ ڈاکٹر عبدالرب اور ڈاکٹر ظہیر خان پوکھران میں پہلا ایٹمی دھماکہ کرنے والی بھارتی سائنسدانوں کی ٹیم میں شامل تھے۔لیکن پردۂ خفا میں کتنے مسلم سائنسدانوں کے نام ہیں یہ ریسرچ کا موضوع ہے۔ مسلمان اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے لیےمسلمانوں کی سائنسی خدمات معلوم کرکے بتائیں۔
٭ میڈیسن میں مسلمانوں کی خدمات: اس وقت ملک کے مشہور ترین ہارٹ ،کڈنی اور کینسر اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی فہرست میں مسلمان بھی بڑی تعداد میں ہیں۔
٭ ایلو پیتھی ،یونانی اور ہومیوپیتھک دوا سازی : مسلمانوں کی عظیم خدمات ہیں۔ ووکہارٹ، طوبیٰ (ڈاکٹر جاوید مکرم اورنگ آباد کی کمپنی جو کینسر کی بہت سستی اور کامیاب نئی دو بنانے میں مشغول ہے۔ ڈاکٹر جاوید مکرم کی خود کی دریافت سینکڑوں پیٹنٹ دوائیں ہیں) ہمالیہ ڈرگس (جسکی 52 – Liv پیلیا اور جگر کی بیماریوں میں تیر بہدف دوا مشہور ہے) سپلا اور میڈلی وغیرہ فارمیسی کمپنیاں مشہور ہیں۔ ہمدرد، دہلوی، ریکس، طبیہ اور کئی مشہور بین الاقوامی یونانی دوا ساز کمپنیاں ہیں۔ گزشتہ رمضان میں ہمدرد کا روح افزا شربت بازار میں دستیاب نہیں تھا تو بین الاقوامی خبر بن گئی تھی۔
٭ علم، زبان و ادب : مسلمانوں کی خدمات سب پر اظہر من الشمس ہیں۔اس پر ایک انسائیکلو پیڈیا تیار کیا جا سکتا ہے۔
٭ تعلیم و تدریس : علی گڑھ، جامعہ ملیہ، جامعہ عثمانیہ، جامعہ ہمدرد، جامعہ اسلامیہ شانتا پورم، انجمن اسلام اور انجمن خیر الاسلام ممبئی، ایکسی لینس یونیورسٹی سیکر راجستھان اور الامین کرناٹک کے علاوہ مشرقی شمالی مغربی اور جنوبی بھارت کے بے شمار اداروں کی خدمات ہیں۔
٭ صنعت و حرفت : مسلمان اب بھی بہت آگے ہیں۔ خاص طور سے اسمال اسکیل انڈسٹریز میں بہت سی صنعتوں و حرفتوں میں مثلاً کپڑا بافی، ظروف اور دھاتوں کی اشیاء سازی، چمڑے کی مصنوعات، بیگ اور جوتا سازی، شیشہ کے سامان اور چوڑیاں بنانے میں مسلمانوں کا کوئی مد مقابل اب بھی نہیں ہے۔
٭ تجارت : شیروانی، پریم جی، میمن، بوہرہ، خوجہ، ملیالی، تامل، کوکنی، حیدرآبادی، بھٹکلی، بنگالی راجستھانی مسلمانوں کی بڑی بڑی کمپنیاں ہیں۔ جن میں پریم جی، الانہ، اکبر علیز تو کارپوریٹ کمپنیاں ہیں۔اس کے علاوہ مسلمان آزادانہ تجارت کرنے کو ملازمت پر ترجیح دیتا ہے۔ چنانچہ فٹ پاتھوں اور راستوں پر چلنے والی غریبوں کی تجارت میں بھی مسلمانوں کا تناسب ان کی آبادی سے بہت زیادہ ہے ۔
٭ آرکیٹیکچر اور تعمیرات : ممبئی میں کریم نورانی اور افتخار محمد قادری کے پائے کے آرکیٹکٹ ابھی تک نہیں ہوئے۔ اور بھی کئی مشہور نام ہیں۔ تعمیرات میں مسلمانوں کی بڑی خدمات ہیں۔ مجھے بھی راجستھانی ہونے کی حیثیت سے یہ فخر حاصل ہے کہ ممبئی ، پونے اور ملک کے دیگر بڑے شہروں کی تعمیر میں میری برادری کا بہت اہم رول ہے۔
٭ملک کو بیرونی زر مبادلہ حاصل کرانے میں ملیالی، راجستھانی، حیدرآبادی اور دیگر مسلمانوں کا خاص رول ہے۔
٭ اسپورٹس : تمام شاخوں خصوصاً کرکٹ ، فٹ بال ، ہاکی، پہلوانی ، ٹینس ، ٹیبل ٹینس وغیرہ میں مسلمانوں کی بڑی خدمات ہیں۔
٭ فلمیں ، ڈرامےاور موسیقی : مسلمانوں کی خدمات پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔
٭ مسلمانوں کی سیاسی، فوجی اور انتظامی خدمات بھی ہیں جو ضرور سامنے آنی چاہئیں۔ ملکی صدارت سے لے کر بلدیاتی اداروں تک مسلمانوں کی خدمات کا ذکر کیا جائے تو بہت ضخیم ڈاٹا تیار ہوگا۔
درج بالاتمام اور دیگر شعبہ ہائے حیات میں مسلمانوں کی خدمات پر گہری ریسرچ ہونی چاہئے اور ملک کے سامنے یہ بات لائی جانی چاہئے کہ مسلمان اس ملک کو اپنا وطن سمجھتے ہیں ۔ وہ یہیں پیدا ہوئے اور اس خاک میں دفنائے جائیں گے اور وطن کی ہمہ جہت ترقی میں مسلمان دیگر اقوام سے ہر گز پیچھے نہیں بلکہ تناسب کے لحاظ سے ان کی خدمات اور قربانیاں دوسروں سے زیادہ ہی ہیں ۔
ایسا نہیں ہے کہ سیکولر حکومت میں مسلمان مسائل سے دو چار نہیں تھے ۔ وطن عزیز کا المیہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد تقریباً ۶۵ سال ملک پر سیکولر کانگریس کی حکومت تھی لیکن مسلمان اس طویل مدت میں ایک دن بھی مسائل سے آزاد نہیں رہے۔ بھارت کو مسلمان اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ اس پر جتنا دوسروں کا حق ہے اتنا ہی مسلمانوں کا حق بھی ہے اس لیے مسلمانوں نے اس ملک کی ہمہ جہت تعمیر میں اپنا خون پسینہ ایک کر کے اپنی ذمہ داری ادا کی اور اپنا رول بخوبی نبھا یا ہے ۔
۷۴ویں یوم آزادی کی مناسبت سے ملک کی آزادی میں مسلمانوں کی جد وجہد اوور قربانیوں کی ایک جھلک پیش کی جارہی ہے۔
ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کا کردار:
٭ بہ نظر غائر دیکھا جائے تو بھارت کی جنگ آزادی کا آغاز سترہویں صدی میں شروع ہو گیا تھا ۔ انگریزوں کی لوٹ کھسوٹ اور سیاسی طاقت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے شہنشاہ اورنگ زیب نےسب سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی سے ۱۶۸۶ میںسورت اور پٹنہ میں ان کی کوٹھیاں چھین لیں اور ہندوستان چھوڑنے کے لیے کہا۔ (حوالہ: مسلمانوں کا شاندار ماضی صفحہ ۱۶۸ )
٭ انگریزوں کے خلاف پہلی جنگ ۱۹۴۷ سے لگ بھگ ۲۰۰سال پہلے لڑی گئی تھی۔ بنگال میں پلاسی کی جنگ جس میں نواب سراج الدولہ کو غداری اور فریب کے ساتھ ۱۷۵۷ میں انگریزوں نے شکست دی تھی۔ (حوالہ: مسلمانوں کا شاندار ماضی صفحہ ۱۶۹)
٭ انگریزوں کے خلاف فتح کی پہلی علامتیں میسور میں نظر آئیں جہاں نواب حیدر علی نے۱۷۷۶ تا ۱۷۸۲ انگریزوں کے خلاف۳ جنگیں لڑیں۔ اس کے بعد اس کے بیٹے نواب فتح علی ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے ۱۷۹۱ سے ۱۷۹۹ تک چار جنگیں لڑیں۔ پہلی تین جنگوں میں انگریزوں کو نقصان اٹھانا پڑا لیکن آخری جنگ میں غداری اور فریب دہی سے شکست ہوئی اور ۱۷۹۹ میں وہ شہید ہوگئے۔ ٹیپو سلطان جنگ میں میزائل استعمال کرنے والا پہلا جنرل تھا۔ (حوالہ: مسلمانوں کا شاندار ماضی صفحہ ۱۷۲ تا۱۷۶)
٭ تحریک مجاہدین : سید احمد شہیدؒ اور اشاہ اسماعیل شہیدؒ کی سربراہی میں ۱۸۲۴ تا ۱۸۳۱کے دوران سرگرم عمل رہی۔ مولوی سید اسماعیل شہید ؒنے ہندوستان کو دارالحرب ہونے اور انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا۔انہوں نے شمال مغربی صوبے میں برطانوی اقتدار سےلڑنے کے لیے آزاد حکومت قائم کی اورسید احمد شہید کو خلیفہ نامزد کیا لیکن یہ آزاد حکومت بہت دیر تک قائم نہ رہی اوردونوں قائدین ۱۸۳۱ میں انگریزوں سے لڑتے ہوئے بالا کوٹ کے مقام پر شہید ہو گئے۔ (حوالہ: ایضاً صفحہ ۱۷۷ اورکتاب کربلا سے بالاکوٹ تک)
٭ آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر نے ۱۸۵۷ میں جنگ آزادی کی قیادت کی۔ اس سے قبل تمام جد وجہد آزادی مسلمانوں نے تنہا انجام دی تھیں۔ پہلی بار جدو جہد آزادی میں غیر مسلم شریک ہوئے۔ ۳۱ مئی ۱۸۵۷کو ایک ملک گیر جنگ بیک وقت شروع ہونا تھی ، لیکن اس سے پہلے ہی ۱۰مئی ۱۸۵۷ کو برطانوی فوج میں شامل ہندوستانی فوجیوں نے میرٹھ میں بغاوت شروع کر دی اور جیل توڑ کر قید ہندوستانی فوجیوں کو آزاد کرالیا ۔ (حوالہ : ایضاً صفحہ ۱۷۹ )
٭ ایک زبردست تاریخی سچائی یہ ہے کہ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی اور اس کے بعد انگریزوں کی انتقامی کارروائی میں ۵ لاکھ مسلمان شہید ہوئے جن میں ۵۲۱۰۰ صرف علماء تھے۔ کہا جاتا ہے کہ دہلی سے کلکتہ تک گرینڈ ٹرنک روڈ پر ایک بھی درخت ایسا نہیں تھا جس پر کسی عالم کی لاش کئی دن تک لٹکی ہوئی نہیں ملی۔(حوالہ : ایضاً صفحہ ۱۶۷ تا ۱۸۳ )
٭ ہندوستانی علماء نے انگریزوں کے خلاف ۱۸۲۴ میں جہاد کا اعلان کیا اور ہندوستان کو دارالحرب (دشمنوں کے زیر قبضہ علاقہ) قرار دے دیا۔ اس اعلان کی گونج پورے ملک میں سنی گئی اور مسلمان انگریز کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔۱۹۴۷ تک جد جہد آزادی میں ہزاروں علماء نے جنگ آزادی کی قیادت اور اس میں شرکت کی۔
٭ نوآبادیاتی سلطنت کے ثقافتی اور تعلیمی بندھنوں سے ملکوں کو آزاد کروانے کے لئے ، دارالعلوم دیوبند ، ندوۃ العلماء لکھنؤ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور جامعہ عثمانیہ حیدر آباد جیسے اہم مراکز تعلیم انیسویں صدی کے آخر میں قائم ہوئے جو آج بھی ہندوستان کے ممتاز مدارس میں شمار ہوتے ہیں۔
٭ ریشمی رومال تحریک کا آغاز ۱۹۰۵ میں شیخ الاسلام مولانا محمود حسن اور مولانا عبید اللہ سندھی نے انگریزوں کے خلاف تمام ہندوستانی ریاستوں کو متحد کرنے کے لئے کیا تھا۔ مولانا محمود اسی کے لئے کالا پانی میں قید کیے گئے ۔جہاں انہوں نے جام شہادت پیا۔( حوالہ : ایضاً صفحہ ۲۰۱)
٭ ہندوستانی نیشنل کانگریس کے قیام سے لے کر آزادی تک اس کے ۹صدور مسلمان تھے۔
٭ بیرسٹر ایم کے گاندھی نے جنوبی افریقہ میں ایک مسلمان کی ملکیت والی قانونی فرم میں خدمات انجام دیں جو اپنے خرچ پر گاندھی جی کو ۱۹۱۶ میں ہندوستان لائی تھی۔ یہاں انہوں نے علی برادران کے تحت اپنا احتجاج شروع کیا۔
٭ کیرالا میں موپلہ تحریک : ۱۹۲۱ تا ۱۹۳۷ میں مسلمانوں نے زبردست قربانیاں دیں۔۱۹۲۱ کی ایک ہی جنگ میں ۲۳۰۰مسلمان شہید ۱۶۳۰ زخمی اور ۵۷۱۲ گرفتار ہوئے۔ (حوالہ: ایضاً صفحہ ۲۲۲)
٭ عدم تعاون تحریک اور سودیشی موومنٹ میں مسلمانوں کی زبردست شرکت دیکھی گئی۔ اس وقت کے شکر کے سب سے بڑے تاجر جناب صابو صدیق نے بائیکاٹ کی شکل میں اپنا کاروبار ترک کردیا تھا۔ خوجا اور میمن برادریاں اس وقت کے سب سے بڑے کاروباری گھروں کی مالک تھیں۔وہ بائیکاٹ کی حمایت کرنے کے لئے اپنی قیمتی تجارتوں سے الگ ہوگئے تھے۔
٭ ۱۹۴۲کی ہندوستان چھوڑو تحریک دراصل مولانا ابوالکلام آزاد نے شروع کی تھی۔ انہیں ۸؍اگست کو قید کیا گیا اور احمد نگر جیل بھیجا گیا جس کی وجہ سے گاندھی جی کو ۹؍اگست کو اس تحریک کی قیادت کرنا پڑی۔
٭ مسلم قائدین نے ہمیشہ دلت کاز کی حمایت کی۔ مسلمانوں کے تمام مطالبات تسلیم کرنے کی عوض دلت کاز کو ترک کرنے کا لالچ لندن میں منعقدہ گول میز کانفرنس میں مولانا محمد علی جوہر کو دیاگیا۔ لیکن مولانا جوہر نے دلتوں کی حمایت کو ترک کرنے سے انکار کردیا۔(حوالہ : ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر حیات اور کارنامے ۔ صفحہ ۱۵۰ تا ۱۶۲)
٭ جب ڈاکٹر بی آر امبیڈکر ۱۹۴۶ کے مرکزی انتخابات نہیں جیت سکے تو بنگال مسلم لیگ نےاپنا تعاون ڈاکٹر امبیڈکر کو پیش کیا۔ اسطرح ڈاکٹر امبیڈکر مسلم لیگ کی مدد سے دستور ساز اسمبلی میں داخل ہوئے ۔(حوالہ: ایضاً صفحہ ۲۸۵ )
٭ جلیان والا باغ کا سانحہ ہو یا چورا چوری واقعہ کا کوری ڈکیٹی کیس یا پشاور خانی بازار حادثہ جنگ آزادی کی تحریک میں مسلمان ہر جگہ پیش پیش نظر آئے ہیں۔ستیہ گرہ ، سول نافرمانی تحریک ، نمک سازی ڈانڈی مارچ ، چرخہ تحریک ، آرمی بل ، آزاد ہندوستانی فوج ، سمندری بغاوت وغیرہ تمام مرحلوں میں مسلمان نسبتاً زیادہ تعداد میں شریک رہے ۔ ( حوالہ: مسلمانوں کا شاندار ماضی ۔ صفحہ ۲۰۴تا ۲۲۴ )
٭ تحریک آزادی میں ابتدا سے آخر تک مسلمان خواتین بھی ہمیشہ شریک رہی ہیں ۔
٭ مسلمان شاعروں اور ادیبوں نے بھی جنگ آزادی میں بہت اہم رول ادا کیا ہے ۔
٭ آزادی پسند مسلمان صحافت کے میدان میں بھی سرگرم عمل تھے۔ متعدد بار نوآبادیاتی طاقتوں کے روکنے کے باوجود مولانا آزاد نے انگریزوں کے خلاف اپنا قلم استعمال کیا۔ در حقیقت ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کے نتیجے میں شہید ہونے والا پہلا صحافی مولانا باقر علی بھی ایک مسلمان تھا۔
تو پھر یہ حقائق اور اسی طرح کے بہت سارے دیگر حقائق ہماری تاریخ میں نظر کیوں نہیں آتے؟ یہ واقعات ہماری تاریخ کی کلاسوں میں کیوں نہیں پڑھائے جاتے؟ہمارے بچوں کی درسی کتابیں ان تاریخی حقائق سے کیوں خالی ہیں؟ یہ تعصب کیوں ہے؟ مسلمانوں میں احساس کمتری پیدا کرنے اور انہیں دفاعی موقف پرلانے کے لئے اور مسلم قیادت اور مسلم عوام کو بدنام کرنے کی یہ دانستہ کوشش ہے۔ مسلمانوں سے پوچھا جاتا ہےآزادی کے فوائد کے مستحق بننےکے لئے آپ نے کیا کیا؟ درج بالا سطریں اور مسلمانوں کی سچی تاریخ ثبوت ہے کہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں مسلمانوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ تمام ہندوستانیوں کو تاریخ کے اس چھپائے گئے پہلو سے آگاہ کیا جائے۔ نئے تعلیمی نصاب میں تو اس موضوع کو چھوا بھی نہیں جائے گا اس لیے ہمیں اپنے طور پر کو شش کرنی ہو گی۔یہ کام مسلم دانشوران اور علماء کے کرنے کا ہے۔
***