آخرت میں اعمال ہی نظر آئیں گے
عزیز صائب مظاہری
حضرت عدی ابن حاتمؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن تم میں سے کوئی بھی ایسا شخص نہیں کہ اس سے اس کا رب کلام (جواب طلبی) نہ فرمائے گا اور (پیشی اور جواب طلبی اس طرح بے واسطہ اور براہ راست ہو گی کہ) بندے اور اس کے رب کے درمیان کوئی ترجمانی کرنے والا نہیں ہو گا۔ پھر بوقت حساب وہ اپنے دائیں جانب نظر دوڑائے گا تو اسے سوائے اپنے حاصل عمر (اعمال) کچھ نظر نہ آئے گا۔ پھر وہ اپنے بائیں جانب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے کرتوتوں کے جو اپنی مہلت حیات میں کما کر ریکارڈ کراچکا ہے کچھ نہ دیکھے گا۔ پھر جب وہ اپنے چہرے کے بالکل سامنے والی سمت میں نظر دوڑائے گا تو بھڑکتی ہوئی جہنم کو دیکھے گا۔
غمگسارِ انسانیت حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ آج اس حیات فانی میں جو کچھ مواقع اور اسباب حاصل ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے چہرے اور وجود کو اس آگ سے بچانے کی جو بھی فکر اور کوشش کرسکتا ہو کرلے اگرچہ وہ کھجور کے ٹکڑے کے ذریعہ ہی ہو‘‘۔
اور دوسری روایت میں ہے کہ اگر صدقہ کے لیے کھجور کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہو تو پھر ایک بھلا بول ہی سہی‘‘
رب رحیم نے اپنی کتاب اور نبی رحمت کے ذریعہ بندوں پر روشن دلائل سے واضح فرما کر اتمام حجت کر دیا ہے کہ بعد موت ایک ابدی حیات ہے اس عالم کی سرمدی راحتوں کے حصول اور اس کے ہمشیہ ہمیشہ کے دکھوں سے بچانے کے لیے اس فانی زندگی کے عارضی سرمایہ حیات سے اس عالم کے لافانی فوز و فلاح کے حاصل کرنے کی تدبیریں بھی سمجھائی اور بتلادی ہیں۔ قرآن ابن آدم کے دل میں زندگی بعد موت کا ایسا یقین پیوست کرنا چاہتا ہے کہ آدمی آج کی حاصل پونجی آج ہی خرچ نہ کر ڈالے اور قیامت کے دن خالی ہاتھ پیش ہو بلکہ بعد موت کو ہمہ وقت پیش نظر رکھ کر زندگی گزارے جس کے نتیجے میں اس دنیا میں بھی آدمی شر وفساد میں مبتلا نہ ہو اور کل قیامت میں جہنم اور اس کے عذابوں سے دوچار نہ ہونا پڑے۔
حساب اور جوابدہی کا یقین ہی آدمی کو انسانیت کے جامے میں رہنے پر مطمئن کر سکتا ہے خالق و مالک کے عدل و رحمت کا تقاضا ہے کہ ایک یومِ جزا اور حساب ہو۔ عقل انسانی بھی اس کی تائید کرتی ہے کہ ہیروشیما پر ایٹم بم برسانے والا ظالم جس کے ظلم سے ہزاروں ہزار خدا کی مخلوق مرکر مٹی ہو گئی ہے، اب کوئی حساب و عدالت نہ ہو تو یہ دنیا ایک اندھیر نگری اور خالق کی یہ پوری کائنات ایک فعلِ عبث بن کر رہ جاتی ہے جو علم اور عدل و رحمت کے سراسر منافی ہے۔ حساب کا یقین آدمی کو سرفرازی عطا فرماتا ہے اور اگر بعد موت حیات نہ ہو، حساب کتاب نہ ہو تو اس عقیدہ کے نتیجہ میں آدمی کی اپنی بھی توہین ہے اور (نعوذ باللہ) اس کے پیدا کرنے والے کی بھی۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 تا 25 دسمبر 2021