’اُجالوں میں سفر‘ ایک اسم بامسمیٰ کتاب

کتاب پڑھتے ہوئے قاری اجالوں کا مسافر بن جاتا ہے

کتاب: اُجالوں میں سفر (خود نوشت)
مصنف: انتظار نعیم
صفحات: 422، قیمت: پانچ سو روپے
ناشر: شاہکار پبلیشرز، بارہ دری، بلی ماران، دہلی۔ موبائل: 9810686944
تبصرہ نگار: سہیل انجم

پر کشش خود نوشت سوانح عمر ی ، دلکش اسلوب نگارش کا حسین مرقع
راقم السطور کو خودنوشتوں، سفرناموں اور خاکوں سے خصوصی دلچسپی ہے۔ اگر کہیں ان اصناف سے متعلق کوئی کتاب نظر آجائے تو میں اسے فوری طور پر حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لہٰذا جب جناب انتظار نعیم نے ایک پروگرام میں شرکت کے موقع پر مجھے بتایا کہ ان کی خود نوشت شائع ہو رہی ہے تو میں نے ان سے گزارش کی کہ وہ اس کا ایک نسخہ مجھے ضرور عنایت کریں۔ تقریباً ایک ماہ کے بعد ان کا فون آیا کہ کتاب چھپ کر آگئی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میں خود آپ کے درِ دولت پر حاضر ہو کر اسے حاصل کروں گا۔ بہرحال کتاب موصول ہوئی اور جب میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا تو یقین جانیے کہ اسے جدا کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ غرضیکہ میں نے دو راتوں میں اس کتاب کو ختم کر دیا۔
کہنے کو تو یہ ایک خود نوشت ہے لیکن خود نوشت کے ساتھ ساتھ یہ ایک تاریخ بھی ہے۔ یہ کتاب ایک دینی تحریک سے وابستہ ایک مخلص فرد کی نصف صدی پر مشتمل آپ بیتی تو ہے ہی یہ تحریک اسلامی کی سرگرمیوں کا ایک مخلصانہ اظہار بھی ہے۔ عام طور پر بعض انسانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسم با مسمیٰ ہیں۔ لیکن میں کہوں گا کہ یہ کتاب اسم با مسمیٰ ہے۔ واقعی یہ اجالوں میں سفر ہے اور یہ سفر صرف مصنف کا نہیں بلکہ قاری کا بھی ہے۔ اس کتاب کو پڑھیے تو ایسا لگتا ہے کہ ہم خود اجالوں کے مسافر ہو گئے ہیں۔ اس میں علم کی روشنی ہے، تجربات کی روشنی ہے، حق گوئی کی روشنی ہے، ایک مومن کے مومنانہ کردار کی روشنی ہے اور ایک کل ہند اسلامی تنظیم یعنی ’’جماعت اسلامی ہند‘‘ کی سرگرمیوں کی روشنی ہے۔ اس کتاب میں جہاں 1967 سے لے کر 2020 تک کے واقعات کا ذکر ہے اور جماعت اسلامی کے تشکیلی مراحل میں ارکان و عہدہ داران جماعت کی خدمات کی تفصیل ہے وہیں انتظار نعیم کے بے داغ اور مومنانہ کردار کی ایک جھلک بھی ہے۔ کتاب کچھ واقعات کو سرسری طور پر بیان کرتی ہے تو کچھ واقعات کو تفصیل کے ساتھ۔ مثال کے طور پر جہاں ایمرجنسی کے دوران جماعت کے رہنماؤں کی گرفتاری، ان کے قید و بند، ان کے اور ان کے اہل خانہ کے صبر و استقلال اور جیل میں آر ایس ایس کے رہنماؤں اور کارکنوں سے ان کی ملاقاتوں اور قربت اور دوستی کا بہت سبق آموز انداز میں مفصل ذکر ہے، وہیں جماعت کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے انتقال پُرملال اور ہندستان سے ایک وفد کی آناً فاناً پاکستان روانگی اور پاکستان میں اس وفد کی عزت افزائی و پذیرائی کا بہت ہی والہانہ انداز میں تذکرہ ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی وفات کا ہندستان، پاکستان اور پوری دنیا پر جو اثر پڑا اس کا بھی دلسوز اور محبت آمیز انداز میں تذکرہ موجود ہے۔
انتظار نعیم کی جماعت اسلامی سے قربت اور پھر اس سے وابستگی کا ذکر بڑا دلچسپ ہے۔ وہ اس وقت ممبئی میں جہاں ان کے اہل خانہ قیام پذیر تھے اور اب بھی رہتے ہیں۔ انہوں نے 1965 کے آس پاس کے دینی ماحول کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ایک روز میرے گھر سے بالکل قریب ہی واقع سینٹ زیوئیر اسٹیڈیم میں اسکول کی اسپورٹس میٹ میں میرے پاس ہی بیٹھے ہوئے میرے اسکول کے ایک ٹیچر جناب محمد شمیم اعظمی نے دوران گفتگو فرمایا کہ دہلی سے ایک اخبار نکلتا ہے دعوت۔ آپ اس کو پڑھا کریں۔ موصوف نے کچھ اور نہیں کہا کہ وہ کس کا ترجمان ہے یا اس کا تعلق کس جماعت سے ہے۔ میں نے بھی شفیق استاد کے ارشاد کو سر آنکھوں پر رکھتے ہوئے دعوت کا مطالعہ شروع کر دیا ۔۔۔ اب ایک دوسرا واقعہ: حسب معمول عشا کی نماز کے بعد ہوٹل کی نشست جاری تھی۔ ایک روز ہوٹل بند ہونے کے بعد ہوٹل کے باہر سڑک کے کنارے کھڑے کھڑے برادرم ابراہیم شاہ اور دیگر دوستوں سے گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک ساتھی نے مجھ کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ دور پر ہماری طرف آتے ہوئے ایک صاحب کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ وہ بہت ہی خطرناک آدمی ہیں ان سے بچنا۔ اتنے میں ان صاحب نے ہمارے درمیان پہنچ کر محبت آمیز سلام کے ساتھ سب سے مصافحہ کیا۔ انہوں نے کچھ بات کی تو ہونٹوں سے پھول برسے۔ معلوم ہوا کہ یہ ایل وائی شیخ صاحب ہیں۔ بیسٹ میں ملازم اور جماعت اسلامی ہند کے رکن ہیں۔ ذرا سی دیر کی گفتگو کے بعد انہوں نے اپنے بیگ سے ایک کتاب نکال کر مجھ کو مطالعے کے لیے پیش کی۔‘‘
بہر حال ان ’’خطرناک‘‘ شخص سے ان کا رابطہ بڑھتا گیا اور وہ ان کے گھر سے مولانا مودودی اور جماعت کے دیگر مصنفین کی کتابیں لا کر پڑھنے لگے۔ اس طرح انتظار نعیم جماعت اسلامی سے قریب ہوتے گئے۔ پہلے انہوں نے ممبئی میں اعزازی طور پر جماعت کے لیے خدمات انجام دیں اور پھر امیر حلقہ شمس پیرزادہ کی ایما پر ان کوجماعت کا رکن نامزد کر دیا گیا۔
جون 1972 میں انتظار نعیم کو دہلی بلا لیا گیا۔ ابتدا میں وہ دہلی کے ماحول میں خود کو فٹ نہیں کر پا رہے تھے لیکن جب ذمہ داریاں انجام دینے لگے تو پھر دہلی ہی کے ہو کر رہ گئے۔ دہلی میں انہیں جماعت کی تمام مرکزی شخصیات، امرائے حلقہ جات اور مجلس نمائندگان و مجلس شوریٰ سے قربت اور گہرے ربط ضبط اور استفادے کا موقع ملا۔ ان کی ذمہ داریاں بڑھتی گئیں اور ان کے منصب میں بھی ترقی ہوتی گئی۔ انہوں نے 1972 سے 2019 کے درمیان جماعت کے تمام امرا اور دیگر ذمہ داروں کے ساتھ کام کیا۔ متعدد اداروں اور سوسائٹیوں کے ذمہ دار رہے۔ انگریزی جریدہ ریڈینس ویکلی کے ایک عرصے تک ڈائرکٹر ہے۔ عزیز بگھروی کے ساتھ مل کر ماہنامہ پیش رفت کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے ساتھ ان کا معاملہ محض ملازمت یا ایمپلائی اور ایمپلائر تک محدود نہیں تھا، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اگر وہ جسم ہیں تو ان کے لیے جماعت اسلامی روح کا درجہ رکھتی ہے۔ جماعت کے ساتھ ان کا تعلق بربنائے خلوص تھا اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جماعت کے لیے بہت قربانیاں دیں اور کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات نقصان بھی اٹھایا لیکن زبان سے اف تک نہیں کی۔
اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوا کہ انتظار نعیم کا ذہن کتنا زرخیز اور دینی و ملی جذبے سے کس قدر لبریز ہے۔ انہوں نے دہلی اور بیرون دہلی، جہاں بھی ملت کے لیے کچھ کرنے کا موقع دیکھا از خود بڑھ کر ذمہ داری اٹھائی۔ اسکول قائم کیے، مساجد و قبرستانوں کی واگزاری میں حصہ لیا اور ملت کی فلاح و بہبود کے لیے اداروں کا قیام کیا۔ اس دوران ان کا واسطہ برادران وطن سے بھی خوب رہا اور ان کے ایک سچے مسلمان کے کردار نے بہت سے غیر مسلموں کو ان کا بھائی، دوست اور گرویدہ بنا دیا۔ کچھ غیر مسلم خواتین بہنیں بھی بن گئیں۔ یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان کی کوششوں نے کئی غیر مسلموں کو اسلام کی آغوش میں پہنچا دیا۔ قبول اسلام کرنے والوں میں ایک آئی اے ایس کے لال اور بھوپال کی دو لڑکیوں کا واقعہ بہت حوصلہ بخش ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اگر صحیح ڈھنگ سے اسلام کی دعوت پیش کی جائے اور اسلام کے بارے میں بہتر انداز میں لوگوں کو بتایا جائے اور صبر و تحمل اور دلجمعی کے ساتھ کام کیا جائے تو پوری دنیا کو اسلام کے دامن رحمت میں داخل کیا جا سکتا ہے۔ انتظار نعیم کی یہ خوبی ہے کہ وہ جہاں بھی جاتے اور جس سے بھی ملنے کا اتفاق ہوتا اس سے بہت ہی ملائمت اور نرم روی کے ساتھ گفتگو کرتے اور مخلصانہ انداز میں جماعت کا لٹریچر پیش کرتے۔ انہوں نے کسی بھی غیر مسلم سے گفتگو کے دوران اپنی مومنانہ شان ترک نہیں کی۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں اسلام اور ملت کی آن بان اور شان کی بات آجاتی وہاں وہ ڈٹ جاتے اور کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اس سلسلے میں انہوں نے 1975 میں ملک میں نافذ ایمرجنسی کے خاتمے کے بعد ایک ٹرین کے سلیپر کوچ کے سفر میں غیر مسلم خواتین کے واقعہ کی جو تفصیل تحریر کی ہے اور اس موقع پر انہوں نے اپنا جو کردار پیش کیا وہ قابل ستائش ہے۔ اسی طرح لکھنؤ میل کے ایک سفر کا دلدوز واقعہ بھی قابل مطالعہ ہے۔ ٹرین میں برپا ہونے والے طوفان بدتمیزی کے موقع پر انہوں نے جس عقل و فراست سے کام لیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس واقعہ میں انسانوں کے ایک غول بیابانی کا شکار غیر مسلموں کے ہی ہاتھوں پنڈت نما ایک غیر مسلم ہو رہا تھا۔ انہوں نے جس طرح اس کی مدد کی وہ بہرحال قابل تحسین ہے۔ اس واقعہ میں ان کی فراست نے ایک غیر مسلم کو ان کا انتہائی قریبی دوست بنا دیا جس سے آج تک مراسم قائم ہیں۔
جماعت اسلامی کے ایک اعلیٰ عہدے دار کی حیثیت سے نہ صرف دہلی بلکہ پورے ملک کی مخلص مسلم شخصیات سے ان کے گہرے روابط قائم ہوئے اور انہوں نے ان روابط کو ملت کی فلاح وبہبود میں استعمال کیا۔ انتظار نعیم ایک مخلص انسان اور انتہائی شریف النفس آدمی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت سے وابستہ ہونے کے باوجود مسلمانوں کے تمام حلقوں میں انہیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک بات اور عرض کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ انتظار نعیم کی شخصیت میں جو شرافت رچی بسی ہے وہی شرافت وشائستگی ان کی تحریر میں بھی نظر آتی ہے۔ کہیں بھی ان کا قلم بہکا نہیں ہے یا کہیں بھی ایسا نہیں محسوس ہوتا کہ سنجیدگی کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا ہو۔ ان کا اسلوب نگارش انتہائی پرکشش اور زبان بے حد سادہ، سلیس اور نفیس ہے۔ میں اس خود نوشت کے لیے انتظار نعیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور یہ امید کرتا ہوں کہ یہ کتاب نہ صرف جماعت کے حلقوں میں بلکہ جماعت کے باہر بھی پسند کی جائے گی اور اس کی پذیرائی بھی ہو گی۔ یہ کتاب یقیناً جماعت اسلامی ہند کی ایک مختصر تاریخ ہے۔ کم از کم 1970 سے لے کر 2020 تک کی تاریخ کو ایسے سمیٹا گیا ہے جیسے کہ کوئی ماہر فن دریا کو کوزے میں بند کر دے۔
[email protected]
***

 

***

 حسب معمول عشا کی نماز کے بعد ہوٹل کی نشست جاری تھی۔ ایک روز ہوٹل بند ہونے کے بعد ہوٹل کے باہر سڑک کے کنارے کھڑے کھڑے برادرم ابراہیم شاہ اور دیگر دوستوں سے گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک ساتھی نے مجھ کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ دور پر ہماری طرف آتے ہوئے ایک صاحب کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ وہ بہت ہی خطرناک آدمی ہیں ان سے بچنا۔ اتنے میں ان صاحب نے ہمارے درمیان پہنچ کر محبت آمیز سلام کے ساتھ سب سے مصافحہ کیا۔ انہوں نے کچھ بات کی تو ہونٹوں سے پھول برسے۔ معلوم ہوا کہ یہ ایل وائی شیخ صاحب ہیں۔ بیسٹ میں ملازم اور جماعت اسلامی ہند کے رکن ہیں۔ ذرا سی دیر کی گفتگو کے بعد انہوں نے اپنے بیگ سے ایک کتاب نکال کر مجھ کو مطالعے کے لیے پیش کی۔‘‘


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 تا 25 دسمبر 2021