اور ایک طوطا’ہوں‘ پنجرے میںہوا قید !

کیا ممبئی پولیس طوطے کے خلاف جانچ میں ثابت قدم رہے گی؟

 

دعوت نیوز ڈیسک
ممبئی میں 4نومبر کو ہائی وولٹیج ڈراما چلا جس کی شروعات کئی مہینے پہلے ہو چکی تھی۔ سشانت سنگھ کی خودکشی اور پال گھر ماب لنچنگ کیس’میں‘ مرکزی اور مہاراشٹر حکومتیں آمنے سامنے تھیں۔ سشانت سنگھ کیس بہار پولیس بمقابلہ ممبئی پولیس چل رہا تھا۔ ان سب کے بیچ ریپبلک ٹی وی کے ایڈیٹر ان چیف ارنب گوسوامی مرکزی حکومت کی نہ صرف ترجمانی کر رہے تھے بلکہ مہاراشٹر حکومت اور ممبئی پولیس کو للکار بھی رہے تھے۔ ظاہر ہے ان تمام باتوں میں دودھ کا دھلا کوئی نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنی جگہ بیٹھ کر اپنی حیثیت کے اعتبار سے ایک دوسرے پر حملہ آور تھا۔ چاہے بی ایم سی کے ذریعے کنگنا رناوت کے مبینہ غیر قانونی آفس کو توڑا جانا ہو یا پھر کنگنا رناوت کے ذریعے ممبئی کو پاک مقبوضہ کشمیر قرار دینا ہو۔ چاہے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے حملے ہوں یا پھر ارنب گوسوامی کا چیف منسٹر مہاراشٹر ادھو ٹھاکرے کو چیلنج کرنا ہو اور ممبئی پولیس کو نکمی قرار دینا ہو۔ ایسے میں ممبئی پولیس تو گاندھی جی کے ’پروچن‘پر عمل پیرا تو ہوگی نہیں کہ اسے برا بھلا کہا جائے اور وہ خاموش بیٹھی رہے۔ اسے اپنی طاقت کا بھی اندازہ ہے اور استعمال کرنے کا طریقہ بھی آتا ہے اور ہوا بھی یہی 4 نومبر 2020 کو رائے گڑھ کی پولیس نے ارنب گوسوامی کو ان کی رہائش گاہ سے علی الصبح دو سال پرانے خودکشی کے ایک مقدمہ میں گرفتار کر لیا۔ ارنب گوسوامی کو آئی پی سی سیکشن 306 اور 34 کے تحت گرفتار کیا گیا۔ ارنب گوسوامی کی صحافتی خدمات سے جو لوگ اختلاف رکھتے ہیں وہ بھی پولیس کی اس کارروائی پر سوال اٹھانے لگے۔
مشہور صحافی رویش کمار اپنے فیس بک پیج پر لکھتے ہیں کہ ’’بھارت کی پولیس پر آنکھ بند کر کے اعتماد کرنا اپنے ہی گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال لینے کے مترادف ہے۔ جھوٹے معاملے میں پھنسانے سے لے کر جیل میں کسی کو پیٹ پیٹ کر مار دینا، کسی غریب دوکاندار سے ہفتہ وصول کرنا اور کسی کو بھی بربادی کے دہانے پر پہنچا دینا ان کی تاریخ رہی ہے‘‘۔ یہ الگ بات ہے کہ رویش کمار نے ارنب گوسوامی کو ایک صحافی ماننے سے انکار کیا ہے اور اپنے بلاگ میں ان کو جم کر تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کے جنرل سکریٹری سنجے کپور نے ایک نجی چینل سے بات چیت میں کہا کہ ’’ارنب گوسوامی جس طرح کی جانب دارانہ صحافت کرتے ہیں وہ ہرگز پسندیدہ نہیں تاہم ان کے خلاف اس طرح کی کارروائی بھی درست نہیں ہے‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’حکومتیں کسی نہ کسی بہانے صحافیوں کے خلاف کارروائیاں کرتی رہی ہیں جو قابل مذمت ہے اور اسی وجہ سے ہم نے ارنب گوسوامی کا بھی دفاع کیا ہے ‘‘۔ ارنب گوسوامی کی حمایت میں صحافیوں کا اترنا سمجھ میں آتا ہے مگر مرکزی حکومت کا ارنب کی حمایت میں بولنا ’چہ معنی دارد‘؟ بلکہ بی جے پی کی اعلیٰ کمان ہی ارنب گوسوامی کی حمایت میں میدان میں کود پڑی ہے۔
ریپبلک ٹی وی کے مالک ارنب گو سوامی کی گرفتاری کے بعد سے بھاجپا میں ہلچل مچ گئی اور مرکزی وزیر داخلہ اور بھاجپا صدر کے ساتھ متعدد وزراء نے ٹویٹ کرکے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے ٹویٹ کر کے کہا کہ ’’کانگریس اور اس کے اتحادیوں نے ایک بار پھر جمہوریت کو شرمسار کیا ہے۔ ریپبلک ٹی وی اور ارنب گوسوامی کے خلاف ریاستی طاقت کا غلط استعمال انفرادی آزادی اور جمہوریت کے چوتھے ستون پر حملہ ہے، یہ ہمیں ایمرجنسی کی یاد دلاتا ہے۔ آزاد پریس پر حملے کی مخالفت کی جانی چاہیے اور کی جائے گی‘‘
بی جے پی صدر جے پی نڈا جو اس وقت بہار اسمبلی انتخابات کی سرگرمیوں میں مصروف تھے انہوں نے پٹنہ ایئر پورٹ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک صحافی کو گرفتار کرنا انتہائی افسوسناک بات ہے اور آج کا دن صحافت کے لیے کافی برا دن ہے‘‘۔ نڈا نے کہا کہ ’’ایمرجنسی کے بعد سے آج تک کانگریس نے جو بھی کام کیا ہے وہ یقیناً قابل مذمت ہے اور اس بار ہم صحافیوں پر حملے کی پرزور مذمت کرتے ہیں‘‘۔ وہیں مرکزی وزیربرائے اطلاعات و نشریات پرکاش جاؤڈیکر نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’’ممبئی میں پریس صحافت پر جو حملہ ہوا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ یہ ایمرجنسی کی طرح ہی مہاراشٹر حکومت کی کارروائی ہے‘‘۔ جبکہ دوسری طرف بی جے پی کارکنان ارنب گوسوامی کی حمایت میں سڑکوں پر بھی نظر آئے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ارنب گوسوامی ایک صحافی کم بی جے پی لیڈر زیادہ ہے۔مشہور صحافی شکیل شمسی کا کہنا ہے کہ ’’ارنب کی گرفتاری کو سیاسی رقابت کا نتیجہ قرار دینے والے بی جے پی والے یہ بھی بتائیں کہ جب منی پور میں ایک صحافی کشور چند کو وہاں کے وزیر اعلیٰ کے خلاف ایک پوسٹ ڈالنے کے جرم میں 130 دنوں تک جیل میں رکھا گیا، اس وقت صحافیوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی یاد انہیں کیوں نہیں آئی‘‘ بلکہ صحافیوں کے گرفتاریوں کی تو ایک طویل فہرست ہے۔ 5 اکتوبر 2020 کو ملیالم کے ایک صحافی کو یو پی پولیس نے صرف اس لیے گرفتار کیا تھا اور اس پر یو اے پی اے لگائے تھے کیونکہ وہ ہاتھرس اجتماعی عصمت ریزی کے معاملے کی کورنگ کے لیے ہاتھرس پہنچے تھے۔ 18 اگست 2020 کو پرشانت کنوجیا کو یو پی پولیس نے گرفتار کیا، ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ انہوں نے ایک ٹویٹ کیا تھا۔ 16جولائی 2020 کو آسام کے صحافی راجیو شرما کو گرفتار کیا گیا کیوں کہ وہ مویشی اسمگلنگ (cattle smuggling) کی تفتیشی اسٹوری لکھنا چاہتے تھے۔ 12 مئی 2020 کو گجرات کے وز یراعلیٰ پر تبصرہ کرنے کی وجہ سے ایک صحافی دھاول پٹیل کی گرفتاری ہوتی ہے اور ان پر ملک سے غداری کا چارج لگا دیا جاتا ہے۔ 3 ستمبر 2019 کو یو پی میں مڈے میل میں بچوں کو نمک روٹی دینے والا ویڈیو شیئر کرنے پر ایک صحافی کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ 23 ستمبر 2020 کو گجرات میں صحافی آکار پٹیل کو پی ایم مودی پر ٹویٹ کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا صحافیوں کا تذکرہ تو صرف ایک ہلکی سی جھلک ہے ورنہ اس کی فہرست تو کافی طویل ہے لیکن ان تمام صحافیوں پر ہو رہے ظلم کے خلاف کبھی بھی بی جے پی لیڈروں کے منھ سے آواز نہیں نکلی۔ کیا وہ سب آزادی رائے پر حملے نہیں تھے؟
ارنب گوسوامی کیوں گرفتار ہوئے؟
2018 میں ریپبلک ٹی وی کے بانی ارنب گوسوامی پر ایک 53 سالہ انٹیریئر ڈیزائنر انویے نایک کو خودکشی کے لیے اکسانے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔رواں برس مئی میں انویے نایک کی بیٹی ادنیہ نائک نے مہاراشٹر کے وزیر داخلہ انل دیشمکھ سے ملاقات کر کے اس کیس کی دوبارہ جانچ کرانے کا مطالبہ کیا تھا جسے وزیر داخلہ نے قبول کرتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا۔ واضح رہے کہ 2018 میں 53 سالہ انویے نایک انٹیریئر ڈیزائنر اور ان کی والدہ نے علی باغ میں واقع اپنے گھر پر خودکشی کر لی تھی اور خودکشی کے بعد ان کے پاس سے ایک سوسائڈ نوٹ برآمد ہوا تھا جس میں انھوں نے ارنب پر اپنی کروڑوں کی بقایا رقم ادا نہ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق سوسائڈ نوٹ میں انویے نایک نے مبینہ طور پر یہ لکھا تھا کہ ارنب اور دیگر دو افراد نے ان کی بقایا 5.40 کروڑ کی رقم ادا نہیں کی تھی جس کی وجہ سے وہ مالی مشکلات سے دوچار ہو گئے اور انھیں خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔ ارنب گوسوامی کی گرفتاری کے بعد متوفی انویے نایک کی بیوہ اکشیتا نائک نے ارنب کی گرفتاری پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم ایک عرصے سے اس کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے، پولیس نے پہلا قدم اٹھایا ہے۔ ہم غیر جانب دارانہ انصاف چاہتے ہیں‘‘۔ انویے نایک کی بیٹی ادانیائک نے بھی کہا کہ ’’ہم نے ممبئی کے اعلی افسران اور دیگر افسران سے ملاقاتیں کیں اور ان سے کارروائی کرنے کی اپیل کی، حتیٰ کہ ہم نے وزیر اعظم کے دفتر کو بھی خط بھیجا لیکن کسی نے بھی ہماری مدد نہیں کی۔‘‘
ارنب گوسوامی صحافی ہیں بھی یا نہیں؟
ریپبلک ٹی وی کے مالک ارنب گوسوامی کی صحافت پر اشارتاً یا پھر براہ راست تنقید کی جاتی رہی ہے۔ کورونا وائرس کے بیچ لاک ڈاؤن کے درمیان تبلیغی جماعت پر ریپبلک ٹی وی کی بے بنیاد جرنلزم جگ ظاہر ہے وہیں پال گھر ہجومی تشدد و قتل معاملے میں تو ارنب گوسوامی پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کا بھی الزام لگا ہے جس کے خلاف بامبے ہائی کورٹ اور کرناٹک ہائی کورٹ میں عرضیاں دائر کی گئی تھیں جس میں ریپبلک ٹی وی کے براڈکاسٹ اور ارنب گوسوامی کے ذریعے کچھ بھی براڈ کاسٹ کرنے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ دونوں عرضی گزاروں نے عدالت سے پال گھر میں دو سادھوؤں اور ان کے ڈرائیور کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے کے واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے اور اس واقعہ پر کانگریس صدر سونیا گاندھی پر الزام لگانے کے لیے ارنب گوسوامی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دینے کی درخواست کی تھی۔ عرضی میں کہا گیا تھا کہ ’’ارنب گوسوامی نے بے حد غیر اخلاقی، قابل مذمت اور صحافت کے پیشہ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پال گھر میں ہوئی ماب لنچنگ کے معاملے کو بار بار فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی ہے‘‘
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ارنب گوسوامی کی صحافت پر سوال ضرور اٹھنے چاہئیں لیکن ممبئی پولیس کی کارروائی کو شک کے دائرے میں رکھا جانا مناسب ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ ارنب گوسوامی نے ہمیشہ پولیس کی حمایت کی ہے چاہے وہ بے سوشانت سنگھ معاملے پر بہار کی پولیس ہو یا پھر ہاتھرس اجتماعی عصمت ریزی وقتل معاملے میں یو پی کی پولیس ہو ارنب گوسوامی ہمیشہ پولیس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے نظر آئے۔ وہیں انہوں نے تبلیغی جماعت اور شمال مشرقی دلی تشدد کیس میں بھی پولیس کا حوصلہ بڑھایا تھا۔ جبکہ ڈاکٹر کفیل خان کی گرفتاری پر بھی ارنب گوسوامی پولیس کے حامی نظر آئے تھے۔ اب ارنب گوسوامی کا معاملہ عدالت میں ہے۔ پولیس کی تفتیش اور عدالت کی کارروائی کے بعد ہی یہ طئے ہو گا کہ ارنب گوسوامی قصور وار ہے یا نہیں۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020