انسانوں کے شر سے اللہ کی پناہ

نفرت سے آلودہ ذہنوں کو نظام فطرت سے روشناس کروانے کی ضرورت

ڈاکٹر خان مبشرہ فردوس

ملک کے بگڑتے ہوئے حالات سے ہر ذی شعور واقف ہے۔ سماج میں نفرت کا ماحول گردش میں ہے، اخلاقی حدود کا پاس و لحاظ نہیں کیا جا رہا اور عدل وانصاف کو مطلق نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ نفرت آمیز ذہنیت کی وجہ سے نوجوان نسل کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔
پہلے ’سلی ڈیل‘ کے نام سے گٹ ہب پر مسلمان جہد کار خواتین کی تصاویر کی فروخت والی نازیبا خبریں سامنے آئیں، پھر اس کے ایک ماہ بعد’بلی بائی‘ کے نام سے گٹ ہب پر ایپ بنا کر سو مسلم خواتین کی تصاویر کی بولی لگائی گئی۔ اخلاقی گراوٹ، سفاکی اور جہالت کی حد اس وقت پار ہوئی جب نجیب کی والدہ اپنے گم شدہ بیٹے کو ڈھونڈتے ہوئے فریادی بنیں لیکن سوشل میڈیا کے بعض بد خو، بد اطوار اور خبیث عناصر نے انہیں بھی نشانہ بنایا۔ ان اسفل سافلین کی بیہودگی کی انتہا یہ ہوئی کہ چند دن بعد ہی کلب ہاؤس پر بیس بائیس سال کے نوجوانوں کی انتہائی فحش گفتگو سوشل میڈیا پر گونجنے لگی۔ یہ اندھ بھکتی اور گندی ذہنیت کا مظہر نہیں تو اور کیا ہے۔ ہمارے جمہوری ملک میں فاشسٹ طاقتیں جس طرح کا ماحول پروان چڑھانا چاہتی ہیں اس کے پیش نظر انہوں نے ملک کی 80 فیصد آبادی کے سامنے 20 فیصد آبادی کو مٹانے کا ایجنڈا رکھ دیا گیا ہے تاکہ وہ ملک کی ترقی کی بابت سوال پوچھنے کی فرصت نہیں پا سکے۔
بھارت کی نوجوان نسل کدھر جارہی ہے؟ یہ سوال تو ملک کے دانشوروں سے پوچھنا چاہیے۔ ملک کا قیمتی اثاثہ طلبا ہیں لیکن اس اثاثے کو غلط راہ پر ڈال کر ملک کے سیاست داں خوش ہیں کہ وہ ملک کی اقلیت سے انتقام لے رہے ہیں۔ ایسے حالات میں یہ آیت ایک نئے انداز سے سامنے آتی ہے :
قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِۙ مِنۡ شَرِّ مَا خَلَقَ
کہو! میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی۔
اس آیت میں چند باتیں قابل غور ہیں۔ ان چیزوں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو اس نے پیدا کی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مخلوق کو شر کے لیے پیدا نہیں کیا ہے بلکہ اس کا ہر کام خیر اور کسی مصلحت کے تحت ہی ہوتا ہے۔ البتہ مخلوقات کے اندر نیک اوصاف اس نے اس لیے پیدا کیے ہیں تاکہ ان کی تخلیق کی مصلحت پوری ہو۔ اس کا ذکر سورۃ الناس میں بھی کیا گیا ہے ’’خواہ وہ جنوں میں سے ہوں یا انسانوں میں سے‘‘ مخلوق میں شر کے ابھرنے کا پہلو بعید از قیاس نہیں ہے۔ شر سے پناہ مانگنے میں دو مفہوم اور بھی شامل ہیں: ایک یہ کہ جو شر واقع ہو چکا ہے، بندہ اپنے خدا سے دعا مانگ رہا ہے کہ وہ اسے دفع کر دے۔ دوسرے یہ کہ جو شر واقع نہیں ہوا ہے، بندہ یہ دعا مانگ رہا ہے کہ خدا اسے اس شر سے بھی محفوظ رکھے۔
جیسے جیسے انسان ذہنی ارتقاء‎ کے عمل سے گزرتا ہے، آیت ایک مختلف طریقے سے انسان پر کھلنے لگتی ہے۔ ایسے حالات میں اپنے بچوں کو ہمیں جینے کا سلیقہ سکھانے کی ضرورت ہے۔ ہر جہالت کا جواب توازن اور حکمت کے ساتھ دینا ہو گا۔ اقتدار کی بھوک میں انسانوں کو بھی غلام بنا کر ان کی نفسیات سے کھیلنا کوئی نیا قصہ نہیں ہے۔ اقتدار کا بھوکا بھی نفسیاتی مریض ہوتا ہے، جو دلوں پر حکومت نہ کرسکے تو غلاموں کے ذریعہ طاقت کا مظاہرہ کرواتا ہے۔
رومن ریپبلک میں دوسری صدی قبل مسیح میں ایک بڑے اسٹیدیم نما تھیٹر میں جسے’ فلیوین ایمفی تھیٹر‘ کہا جاتا ہے، نہتے قیدیوں کو بھوکے شیروں کے سامنے پھینک دیا جاتا تھا۔ اسٹیڈیم میں موجود تماشائی، جو کہ عموماً نچلے طبقے کے ہوتے تھے، جوش و وحشت کے جنوں آمیز نعرے بلند کرتے تھے اور نہتے انسان کی تکہ بوٹی ہوتے دیکھتے تھے۔ اس وحشت اور بربریت کے نظارے کو آخر وہ کیوں دیکھتے تھے؟ یہ سوال آج زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس محروم طبقے کے پاس دل بہلانے کا کوئی اور ذریعہ نہ تھا۔ ان کی تفریح بس یہی خونی وحشت آمیز تماشا تھی۔ یہ تماشائی جوش اور وحشت میں بھی موت کا خوف یاد رکھتے تھے۔ رومن دور میں موت کی سزا کا یہ ایک دردناک طریقہ تھا۔ جب کہ کچھ رضاکار اپنی بہادری و مردانگی ثابت کرنے کے لیے یا معاوضے کے عوض جنگلی جانوروں سے موت کا کھیل کھیلا کرتے تھے۔ جیت کی صورت میں زندگی، نقد انعام یا شہرت وخطاب سے نوازے جاتے۔ ہارنے کی صورت میں درد ناک موت ان کا نصیب ہوتی۔
اب ان واقعات پر کوئی غور کرے تو محسوس ہو گا کہ اقتدار کی ہوس نے انسان اور جانور میں تمیز ختم کر دی ہے۔ ایک طرف طاقتوروں نے کمزور انسانوں کو کھلونا تصور کر لیا تو دوسری طرف زیرِ دست طبقے میں بھی انسان ہونے کا احساس ختم ہو گیا۔ اس نے طاقتور کی غلامی کو دل سے تسلیم کر لیا۔ انسان کے چیتھڑے اڑنے کے منظر کو دیکھتے ہوئے معاشی بدحال اور غلام طبقہ تالیاں بجاتا رہا ہے۔ یہ تماشا ایک شخص کو بغاوت کی سزا کے لیے رکھا جاتا اور اس کے ذریعے سے نفسیاتی طور پر ہر باغی کو کچلنے کی ایک کوشش اس کے پیچھے کار فرما تھی۔ کیا تاریخ کے اس وحشت ناک دور کا اثر آج محسوس نہیں ہو رہا ہے؟ ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ وہاں حکمراں عوام کے منتخب کردہ نہیں تھے، اس لیے عوام غلام تھے لیکن یہاں عوام نے جنہیں اقتدار پر بٹھایا انہوں نے عوام کو غیر محسوس طریقے سے غلامی کا طوق بڑی خوبی کے ساتھ پہنا دیا ہے۔
کیا آج اقتدار کے لیے عوام کو نفرت کا نشہ پلا کر ان کی نسلوں میں نفرت و درندگی کا زہر بھرنے کی سازش نہیں رچی جا رہی ہے؟ افسوس کہ ہمارا ضمیر اس پر خاموش ہے۔ یہ بات غلط ثابت ہو رہی ہے کہ انسان متمدن دور میں داخل ہوچکا ہے یا یہ کہ اس دور میں انسان نے غلامی ترک کر دی ہے؟ انسانوں پر قابو پانے کا منصوبہ ہر دور میں بنایا گیا لیکن جدید طریقوں نے انسان کو بالادستی قائم رکھنے اور غلام بنانے کے نئے سانچے فراہم کیے ہیں۔
آج دنیا کو انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر صرف ایک خدا کی غلامی میں دینے والے نظام کی ضرورت ہے۔ اگرچہ یہ دعوت نقار خانے میں طوطی کی آواز مانند ہے لیکن زمین پر یہ آواز دی جاتی رہے گی۔ آج بحیثیت داعی ہمیں انسانوں کو اسلام کی حیات بخش اور اعلیٰ اخلاقی تعلیمات کو پوری حکمت کے ساتھ موجودہ نسل کے سامنے پیش کرنا ہو گا۔ امت مسلمہ کو طاغوت کی شر انگیزی اور مکر وفریب سے پوری طرح باخبر رکھنا اور خود بھی باخبر رہنا ہو گا۔
خالق اپنی مخلوق کی صفات سے بخوبی واقف ہے۔ اسی لیے قرآن نے انسانوں کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ قرآن کی اس آیت پر کہ ’میں انسانوں کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں‘ کے ساتھ ایک سبق آموز ناول یاد آ گیا جو برٹش ناولسٹ ویلیم گولڈنگ نے 1954 میں لکھا تھا۔ ناول، نوبل پرائز یافتہ ہے۔ اس کی تھیم یہ ہے کہ برطانیہ میں جنگ کی صورتحال ہے اور انسانوں کو انسانوں سے خطرہ ہے۔ متفکر والدین نے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک مخصوص جزیرے پر بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بچوں کی عمریں بارہ سے پندرہ سال تھیں۔ انہیں پلین میں سوار کیا گیا۔ وہ گروہ صرف لڑکوں ہی کا تھا۔ غیر متوقع طور پر ان کا پلین حادثے کا شکار ہوا اور وہ ایک آئس لینڈ پر اتر گئے۔ بے سروسامان لڑکوں نے آپس میں اتحاد کے ساتھ زندگی کی بقا کی کوشش کا منصوبہ بنایا۔ ایک دوسرے کو کام تقسیم کیا۔ انسانی نفسیات بحالت مجبوری انسان میں امداد باہمی کا جذبی پیدا کرتی ہے۔ انسانی تعامل انفرادیت کے بجائے اجتماعی مفاد کے حق میں ہوتا ہے۔ یہاں بھی ان کی یہی فطرت کار فرما ہوئی۔ انہوں نے باہمی مفاہمت سے کسی کو شکار کی ذمہ داری دی تو کسی کو رہائشی ذمہ داریاں اور اس طرح وہ زندگی محفوظ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس ناول میں گروپ تھنکنگ کو پیش کرتے ہوئے انسانی نفسیات واستحکام کے حصول کے بعد انسان کی انفرادیت کو باقی رکھنے کی کشمکش اس کو کس طرح وحشی بنادیتی ہے، اسے اگلے حصہ میں اجاگر کیا گیا ہے کہ جب استحکام آجائے تو انسان اپنی کی بقا کے لیے نفس اور جذباتیت کے ہتھے چڑھ کر دوسرے کی جان کا دشمن بن جاتا ہے۔ مذکورہ گروہ نے بھی آپس میں اپنی غذا کے لیے تلاش کیے جانے والے جانوروں کو نوچ کر کھانے کی طرز کو اپنے ہی ساتھیوں پر اپنانا شروع کردیا اور ایک دوسرے کو نوچنے لگے اور ان کا گروہ تباہ کن نتیجے پر پہنچ گیا۔
مذکورہ منظر کو ہمارے ملک میں منطبق کرکے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ برسرِ اقتدار اور مستحکم ہیں، وہ نسلوں کو ذہنی امن فراہم کرنے کی بجائے ان کے دماغوں کو نفرت سے بھر کر انہیں نوچنا سکھا رہے ہیں۔ ویلیم گولڈنگ کے ناول کی طرح یہ انسانوں میں درندگی کی نفسیات پیدا کررہے ہیں اور آپسی عداوت ودشمنی کی آگ کو بھڑکا رہے ہیں۔ ان حالات میں ایک مومن برسر اقتدار طبقے کی اس ظالمانہ روش سے مظاہرے سے نہ ڈرتا نہ گھبراتا ہے۔ وہ اس بات سے آگاہ ہوتا ہے کہ یہ انسانوں پر انسانوں کی بالادستی کا نظام ہے اور انسانوں کو بالآخر نظام فطرت کو قبول کرنا ہی ہو گا۔ ہمیں قرآن نے انسانوں کے شر سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے اور ہم ہر طرح کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 فروری تا 19فروری 2022