نئی دہلی، اگست 18: افغانستان کی سیاسی تبدیلیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے امید ظاہر کی کہ ان تبدیلیوں سےافغانستان میں برسوں سے جاری بدامنی اور خون خرابہ ختم ہوگا اور خطے میں امن و امان کے قیام اور افغان عوام کے حقوق کی بحالی میں مدد ملے گی۔ بیس سال پہلے فوج کشی کے ذریعہ حکومت کا خاتمہ ، استعماری فوجوں کے ذریعہ معصوم عوام پر بہیمانہ مظالم، بمباری اور شہروں کو تاراج کرنے کا پیہم سلسلہ اور وہاں کے عوام پر پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی مسلسل کوشش، یہ حالیہ تاریخ کا افسوس ناک اور قابل مذمت باب ہے ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ افغان عوام کی استقامت اور جدوجہد کے نتیجے میں اس ملک سے استعماری افواج کا انخلا عمل میں آیا۔ امیر جماعت نے کہا کہ اس واقعے سے استعماری طاقتوں کو سبق لینا چاہیے اور اپنے مفادات کی خاطر غریب ملکوں کے معاملات میں ناپاک مداخلت کی پالیسی سے ہمیشہ کے لیے باز آنا چاہیے۔اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو بھی اس واقعہ سے سبق لینا چاہیے اور طاقتور ملکوں کی جانب سے چیرہ دستیوں اورمداخلتوں کی روک تھام کا مضبوط نظام بنانا چاہیے۔
امیر جماعت نے اس بات پر خوشی و اطمینان کا اظہار کیا کہ حکومت کی منتقلی کا عمل پر امن طور پر بغیر کسی بڑے خون خرابے کے مکمل ہوا۔
اپنےبیان میں امیر جماعت نے طالبان کو توجہ دلائی کہ اس وقت ساری دنیا کی نظریں ان پر ٹکی ہوئی ہیں اور ان کے طرز عمل اوراقدامات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہیں۔ طالبان کو یہ موقع حاصل ہے کہ وہ اسلام کے نظام رحمت کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں۔ ہم اس موقع پر انہیں متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام امن و امان کا داعی ہے۔ وہ عقیدے کی آزادی دیتا ہے۔ اقلیتوں سمیت تمام انسانوں کے جان و مال کا تحفظ اسلام کی نہایت اہم قدر ہے۔ خواتین کے حقوق کے تعلق سے بھی اسلام نہایت حساس ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ افغانستان کے نئے حکمراں اسلام کی ان تعلیمات پر سختی سے عمل پیرا ہوں گے اور ایسی فلاحی مملکت کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں گے جہاں ہر ایک کو خوف و دہشت سے آزادی حاصل ہو اور ترقی و خوشحال زندگی کے بھرپور اور مساوی مواقع حاصل ہوں۔
ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ اسلام کی جمہوری و شورائی روح کے مطابق وہاں جلد سے جلد عوام کی رائے سے بننے والی ایسی حکومت تشکیل پائے گی، جو ملک کے تمام طبقات کی نمائندگی کرے اور افغان عوام کے درمیان پائیدار اتحاد و استحکام کا ذریعہ ثابت ہو۔
یہ اطلاعات خوش آئند ہیں کہ طالبان نے عام معافی کا اعلان کیا ہے، سکھوں، ہندووں اور دیگر اقلیتوں کو امن و امان کا تیقن دیا ہے اور دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ مذاکرات اور تعاون و اشتراک کا عندیہ دیا ہے۔
امیر جماعت نے ہند افغان تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک ہندوستان اور افغانستان کے تعلقات دیرینہ ہیں۔ حالیہ برسوں میں افغانستان کی تعمیر و ترقی میں بھی ہمارے ملک کا اہم رول رہا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ان تعلقات میں اور استحکام پیدا ہوگا اور اس کی خاطر دونوں جانب سے گرم جوشی کا مظاہرہ ہوگا۔ ہم ہندوستانی حکومت کو بھی اس کی یہ ذمے داری یاد دلاتے ہیں کہ وہ افغانستان کی نئی حکومت سے صحت مند روابط کا آغاز کرے اور افغانستان کی تعمیر و ترقی میں اور پورے جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔