امن کا پیغام دینے والے ڈاکٹر پر تشدد کا الزام
ڈاکٹر محمد احتشام انور سےہفت روزہ دعوت کی خاص ملاقات
جس شخص نے حیوانیت کے ننگے ناچ کے درمیان انسانیت کا پیغام دیا، آج اسی انسان کو پولیس نے تشدد کا ملزم بنادیا ہے۔ یہ عظیم الشان کارنامہ دلی پولیس کاہے۔
ڈاکٹر محمد احتشام انور جو 24 و 25 فروری کو اپنے الہند اسپتال میں شمال مشرقی دلی فسادات کے شکار افراد کا علاج کررہے تھے، انہی کو دلی پولیس نے اس فرقہ وارانہ تشدد کے دوران ایک قتل کے معاملے میں ملوث ہونے کے الزام میں چارج شیٹ میں نامزد کیا ہے۔ الزام یہ بھی ہے کہ برج پوری پولیا کے فاروقیہ مسجد کے پاس شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف مظاہروں کے منتظم ڈاکٹر محمد احتشام انور ہی تھے۔ اور اسی مظاہرے کے شرکاء دلی میں ہونے والے تشدد میں ملوث تھے۔
دلی پولیس کے اس الزام کے بعد ہفت روزہ دعوت نے ڈاکٹر محمد احتشام انور سے بات چیت کی۔ اس بات چیت میں ڈاکٹر محمد احتشام انور نے بتایا کہ جس دن یہاں فساد ہورہا تھا۔ سیکڑوں لوگ لہولہان تھے، انہیں فوراً اسپتال پہونچانا سخت ضروری تھا، لیکن پولیس ایمبولنس کو آنے نہیں دے رہی تھی۔ اسی رات جسٹس ایس مرلی دھر نے مجھ سے فون پر بات کی تھی، جس میں مَیں نے جج صاحب کو ساری معلومات دی تھی۔ میری ان اطلاعات سے سسٹم اور پولیس بے نقاب ہوگیا تھا اس لیے اب مجھے نشانے پر لیا گیا ہے اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جج صاحب کے اس آرڈر کی وجہ سے ان کا سارا پلان چوپٹ ہوگیا ورنہ شاید زیادہ لوگ علاج کے انتظار میں دم توڑ دیتے اور شاید پولیس بھی یہی چاہتی تھی۔ جج صاحب کی پھٹکار کے بعد ہی انہوں نے ایمبولنس کو اس علاقے میں آنے کی اجازت دی۔۔۔
جج صاحب نے کیا پوچھا تھا اور آپ نے کیا اطلاع دی تھی؟ اس سوال پر ڈاکٹر انور نے بتایا کہ جج صاحب نے یہاں کے طبی حالات کے بارے میں پوچھا تھا تو میں نے بتایا تھا کہ میرا کلینک بہت چھوٹا ہے، یہاں صرف زخمیوں کو فرسٹ ایڈ ہی دیا جا سکتا ہے۔ بہت سے شدید طور پر زخمی لوگ پڑے ہوئے ہیں، ان کی زندگی خطرے میں ہے۔ اگر انہیں جلد ہی طبی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں تو ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ لیکن پولیس نے بیریکیڈ لگا کر ایمبولنس کو آنے سے روک دیا ہے، انہیں کسی بھی طرف سے نہیں آنے دیا جارہا ہے۔ میری اس بات چیت کے بعد جج صاحب نے اسی وقت پولیس کو ڈانٹ لگائی اور کہا کہ فوراً ایمبولنس کو آنے کا راستہ دیا جائے۔ اس کے بعد ہی درجنوں زخمیوں کو بڑے اسپتال لے جایا گیا۔
واضح رہے کہ شمال مشرقی دلی میں جب کہ فساد میں لوگوں کے مرنے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا، تب ’کنسرن سیٹیزن فار پیس’ نامی تنظیم کی جانب سے ڈاکیومنٹری فلم میکر راہل رائے نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ سماجی کارکن ہرش مندر کی بیٹی سرور مندر اس درخواست میں راہل رائے کی وکیل تھیں۔ موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس درخواست کی سنوائی جسٹس ایس مرلی دھر کے گھر پر رات کو تقریباً ساڑھے بارہ بجے ہوئی تھی۔ سماعت کے دوران وکیل سرور مندر نے جسٹس مرلی دھر سے اسپیکر فون پر الہند اسپتال کے ڈاکٹر انور سے بات کروائی تھی۔ تبھی دلی ہائی کورٹ کو مصطفی آباد کے الہند اسپتال سے زخمیوں کو بڑے اسپتال منتقل کرنے کو یقینی بنانے کے لیے مداخلت کرنی پڑی تھی۔ اور جسٹس ایس مرلی دھر نے دلی پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ زخمیوں کو منتقل کرنے کے لیے الہند اسپتال میں ایمبولینسوں کو آنے کی اجازت دیں۔
ہفت روزہ دعوت سے بات چیت میں ڈاکٹر محمد احتشام انور بتاتے ہیں کہ پولیس نے اسی وقت مجھے دھمکایا تھا کہ تم نے جج صاحب سے شکایت کیوں کی لہٰذا ہم تم کو دیکھ لیں گے۔
ڈاکٹر انور مزید کہتے ہیں کہ پولیس کے علاوہ مقامی سطح پر بھی مجھے کافی دھمکیاں ملیں۔ اس سلسلے میں مَیں نے اپنی شکایت پولیس کے اعلی افسران کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم، وزیر داخلہ، لیفٹننٹ گورنر اور قومی انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین و سکریٹری کو بھی بھیجی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ پولیس نے مجھے کافی پریشان کیا۔ پوچھ تاچھ کے نام پر لاک ڈاؤن کے دوران کئی بار بلایا گیا۔ کوویڈ 19 کے کسی بھی گائڈلائنس کو فالو نہیں کیا گیا۔ رمضان کے دنوں میں بھی نہیں بخشا گیا۔ پولیس پورا پورا دن بٹھا کر میرا وقت برباد کرتی تھی۔ کبھی اسپیشل سیل بلاتی تھی تو کبھی کرائم برانچ۔ اسی بھاگ دوڑ کی وجہ سے گزشتہ ایک مہینے سے میری طبیعت خراب ہے۔ اس کے باوجود جب جب مجھے بلایا گیا، میں نے ہر طرح سے انہیں تعاون دیا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ پولیس کی چارج شیٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ ان سے ابھی کوئی پوچھ تاچھ یا تفتیش نہیں ہوئی ہے۔
وہ آپ سے کیا پوچھتے تھے؟ اس پر ڈاکٹر انور کہتے ہیں، سی اے اے اور این آر سی مخالف پروٹسٹ میں بریانی کون دیتا تھا؟ کون چائے پلاتا تھا؟ اب جب میں کبھی پروٹسٹ میں گیا ہی نہیں تو کیسے بتا سکتا کہ کون کیا کرتا تھا۔
ڈاکٹر انور مزید بتاتے ہیں کہ پولیس افسران بار بار میرے اوپر دباؤ بناتے تھے کہ کسی کا نام بول دیجیے، کسی بے گناہ کو پھنسا دیجیے۔ لیکن میں کسی بے گناہ کو پھنسانے کا گناہ کیسے مول لے سکتا ہوں؟
فاروقیہ مسجد کے پاس شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف پروٹسٹ کے آرگنائزر کے طور پر آپ کا نام کیوں پیش کیا گیا؟ اس پر ڈاکٹر انور کہتے ہیں، میرے پاس اتنا وقت ہی نہیں رہا کہ پروٹسٹ میں جاؤں۔ مجھے دلی پولیس غلط طریقے سے بدنام کر رہی ہے تاکہ میری بدنامی ہواور میرا کلینک بند ہوجائے اور میری پوری پروفیشنل لائف خراب ہوجائے۔
ڈاکٹر محمد احتشام انور بہار کے مشرقی ضلع چمپارن کے رہنے والے ہیں۔ گرو تیغ بہادر اسپتال میں سرکاری ڈاکٹر تھے۔ اس سے پہلے دلی کے باڑا ہندو راؤ اسپتال میں بھی کام کر چکے ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنی نوکری چھوڑ کر اپنے طور پر پریکٹس شروع کرنے کی سوچی۔ ڈھائی سال پہلے اولڈ مصطفیٰ آباد میں ’الہند اسپتال’ نامی کلینک کھولا، آگے اس کلینک کو اسپتال بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کلینک کو بھی دلی فساد میں فسادیوں نے گھیر لیاتھا اور یہاں سے انتہائی نازک مریضوں کو بھی دیگر اسپتالوں میں منتقل نہیں ہونے دیا جا رہا تھا۔ تب ڈاکٹر انور نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر فساد زدگان کا علاج کیا تھا۔ اس طرح سے دلی فساد میں انسانیت کو بچانے کا ایک بڑا کام ان کے کلینک نے کیا۔ یہی نہیں بلکہ اسی اسپتال کے سیکنڈ فلور کو انہوں نے راحتی کیمپ بنانے کے لیے بھی دے دیا جس میں سیکڑوں متاثرین نے پناہ لی تھی۔
ڈاکٹر انور ان دنوں کو یاد کرتے ہیں تو ان کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا منظر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہر تیسرے منٹ میں زخمی میرے کلینک پر پہنچ رہے تھے۔ کسی کو گولی لگی تھی، تو کسی پر چاقو یا ڈنڈے اور راڈ سے حملہ کیا گیا تھا۔ فرسٹ ایڈ دینے کے دوران ہی پانچ افراد کی موت بھی ہوگئی۔ اسپتال میں جگہ نہیں تھی۔ ایسی صورت حال میں مَیں نے اوپر کی دو منزلیں کھول دیں، وہاں زمین پر ہی دری بچھوا کر زخمیوں کا علاج شروع کردیا۔ جب اسپتال میں دوائیوں، مرہم پٹیاں اور دیگر اشیا کی کمی ہونے لگی تو مقامی ڈاکٹر آکر مدد کرنے لگے۔انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کےمطابق شیو وہار میں انل سویٹ شاپ کے ویٹر 20 سالہ دلبرنیگی کے قتل کے کیس میں 4 جون کو داخل کی گئی چارج شیٹ میں مصطفیٰ آباد کے الہند اسپتال کے ڈاکٹر انور کا تذکرہ کیاگیاہے۔ چارج شیٹ کے مطابق ’’جائے حادثہ کے قریب مسجد فاروقیہ کے پاس 15جنوری 2020 سے غیر قانونی طور پر شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہرہ چل رہاتھا جس میں متعدد شرکاء آتے رہے اور اشتعال انگیز تقریریں کرتے رہے۔ یہاں یہ جھوٹی خبر پھیلائی گئی کہ این آر سی کی وجہ سے مسلمانوں کو شہریت نہیں دی جائےگی اورانہیں ڈٹینشن سینٹر بھیج دیا جائےگا۔ باہر سے اس مظاہرہ گاہ میں ڈاکٹر امبیڈکر، شہید بھگت سنگھ اور مہاتما گاندھی کی تصویریں لگائی گئی تھیں اور ترنگا لہرایاگیاتھا۔ بہرحال ایک مخصوص طبقے کو مرکزی حکومت کے خلاف بھڑکایا جارہاتھا۔‘‘
پولیس کے مطابق ’’اس مظاہرہ میں شرکت کرنے والے جولوگ مشتعل ہوئے تھے انہوں نے 23 فروری 2020 کی رات تشدد میں حصہ لیا جس کے بعد دیال پور پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آردرج کی گئی۔ مسجد فاروقیہ کے اس مظاہرہ کے منتظمین ارشد پردھان اور ڈاکٹر انور، الہند اسپتال کے مالک ہیں۔مذکورہ بالا افراد سے پوچھ تاچھ نہیں ہو سکی ہے، ان سے بعد میں تفتیش ہوگی اور اس کےمطابق جانچ آگے بڑھائی جائے گی۔‘‘ یہاں یہ بات غور طلب رہے کہ دلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایس مرلی دھرکا تبادلہ بھی انہی دنوں کردیا گیا تھا۔ انہوں نے ہی بی جے پی رکن پارلیمنٹ کپل مشرا اوردیگربی جے پی قائدین کی اکسانے والے تقاریر کے معاملہ میں پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج نہ کرنے پر برہمی ظاہرکی تھی۔
***
[نوٹ: ڈاکٹر محمد احتشام انور نے یہ شکایت پولیس کے اعلی افسران کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم، وزیر داخلہ، لیفٹننٹ گورنر اور قومی انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین و سکریٹری کو بھی بھیجی ہے۔دعوت کے قارئین کے لئے اس شکایت کا ہندی سے اردو ترجمہ پیش ہے۔]
محترم!
میرا نام ڈاکٹر محمد احتشام انور ہے۔ میں اپنا کلینک ’الہند اسپتال’ گذشتہ دو سالوں سے چلا رہا ہوں۔24 فروری 2020 کو دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد آرام کر رہا تھا کہ تقریبا ً دیڑھ سے دوبجے کے درمیان اسٹاف کا فون آیا کہ کچھ لوگ زخمی حالت میں آئے ہیں جن کا خون بہہ رہا ہے تو میں نیچے آیا اور دیکھا تو کافی لوگوں کا ہجوم تھا ۔ میں نے ان سے پوچھا ،کیا ہوا تو انہوں نے بتایا کہ چاند باغ میں ہم لوگوں پر آر ایس ایس کے غنڈوں نے پولیس کے ساتھ مل کر حملہ کیا ہے، جس میں ہمیں بہت چوٹیں آئیں۔ اسی دوران مزید لوگ آنے لگے۔ کیونکہ خون کافی بہہ رہا تھا، اس لئے ہم نے انہیں فرسٹ ایڈ دیا اور بڑے اسپتال جانے کے لئے کہا اور ایمبولینس کے لئے بھی کافی فون کروائے۔ پھر شام میں تقریباً 4 سے 5 بجے کچھ لوگ آکر بولے کہ ڈاکٹر صاحب کوئی ایمبولینس نہیں آرہی ہے اور حالات خراب ہیں۔ اس لیے ہم زخمیوں کو یہاں لا بھی نہیں سکتے۔ برائے مہربانی آپ ہمارے ساتھ مرہم پٹی کا سامان لے کرچاند باغ چلیں، وہاں گلیوں میں کچھ لوگ زخمی پڑے ہیں۔ جب میں وہاں پہنچا تو گلی میں 20-25لوگ زخمی حالت میں پڑے تھے جنہیں ہم نے فرسٹ ایڈ دی اور پھر واپس کلینک پر آگئے۔ اس کے بعد شام سات آٹھ بجے کے قریب کچھ لوگوں نے آکر بتایا کہ پولیس ایک آدمی کو پوسٹ مارٹم کے بغیر ہی دفن کروا رہی ہے تو پھر میں وہاں گیا اور ان کے اہل خانہ اور سب کو بتایا کہ پوسٹ مارٹم کرانا ضروری ہے اور پھر نمبر 102 اور 112 پر متعدد کالیں کروائیں مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ پھر کسی طرح ایک ایمبولینس کا بندوبست کیا گیا اور اس میں لاش لے کر ہم برجپوری ٹی پوائنٹ پر پہنچے جہاں پولیس نے بیریکیڈ لگا کر سڑک بند کر رکھی تھی۔ وہاں ہم نے پولیس کو بتایا کہ ہم ڈیڈ باڈی پوسٹ مارٹم کے لیے لے کر جی ٹی بی اسپتال جارہے ہیں مگر پولیس نے ہمیں جانے نہیں دیا۔ پھر ہم نے وہاں سے یوٹرن لیا اور برجپوری نالے کے راستے جی ٹی بی اسپتال کے لیے مڑے تو آگے گوکلپوری پلیا کے قریب ٹائر مارکیٹ میں آگ لگی ہوئی تھی۔ اتنی دیر میں ہماری گاڑی کے پیچھے کچھ لوگ لاٹھی، ڈنڈے، تلواریں وغیرہ لے کر دوڑے، جن میں سے کچھ کو سامنے آنے پر میں پہچان سکتا ہوں مگر ہم کسی طرح ایمبولینس تیزی سے بھگا کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے اور جی ٹی بی اسپتال پہنچ گئے۔ وہاں جاں بحق شاہد کے لواحقین کے ذریعہ نعش اسپتال کے کیژولٹی کے حوالے کی۔ اس دوران کلینک سے مسلسل کافی فون آرہے تھے کہ زخمی لوگ بڑی تعداد میں آرہے ہیں، جلد آئیے۔ تب میں نے جی ٹی بی اسپتال کے ڈاکٹروں سے گذارش کی کہ ایمبولینس میں ہمیں کلینک پر بھجوادیں مگر کوئی ایمبولینس آنے کو تیار نہیں ہوئی۔ پھر میں نے پولیس سے کہا کہ ہمیں کلینک پہنچا دو تو انہوں نے بھی انکار کردیا اور میں پوری رات جی ٹی بی اسپتال میں ہی رہا۔
25 فروری 2020 کو حالات کچھ نارمل پونے پر صبح تقریباً 8 بجے میں اپنے کلینک پہنچا۔ پھر میں نہا دھوکرتقریباً دس بجے اپنے کلینک پر آیا تو کلینک میں کافی زخمی لوگ مرہم پٹی کروانے کے لیے موجود تھے اور پورے دن زخمی لوگ آتے رہے۔ پھر رات میں تقریباً آٹھ بجے سے نو بجے کے دوران بے تحاشہ مریض آنا شروع ہوگئے اور اسی دوران دو لوگ اور لائے گئے جنہیں دیکھنے پر پتہ چلا کہ وہ مر چکے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی گولیوں کی چوٹ کھائے ہوئے، تلواروں سے کٹے ہوئے، بم دھماکوں سے زخمی، پتھروں سے زخمی ، تیزاب حملوں سے زخمی اور پیٹرول بم وغیرہ سے جلے ہوئے کافی لوگ آرہے تھے ۔ چونکہ ہمارے کلینک میں اسٹاف کی کمی ہے اس لیے شدید زخمیوں کی زندگی بچانے کے لئے انہیں بڑے اسپتال لے جانے کی اشد ضرورت تھی۔لہذا میں نے اور زخمیوں کے رشتہ داروں نےمتعدد بار 112 نمبر پولیس کنٹرول روم پر اور ایمبولینس کے لئے فون کیا، لیکن کہیں سے بھی کوئی مدد نہیں ملی۔کچھ وکلاء کو کسی واسطے سے پتہ چلا تو انہوں نے مجھ سے فون پر بات کی اور حالات جاننے کے بعد کہا کہ ہم جج صاحب کے گھر جارہے ہیں، آپ سے جج صاحب بات کریں گے۔ آپ کو موجودہ حالات کے بارے میں انہیں بتانا ہے۔ پھر رات میں تقریباً بارہ بجے جسٹس مرلی دھر صاحب نے مجھ سے بات کی۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ کے کلینک میں کتنی لاشیں ہیں؟ میں نے بتایا کہ ابھی 2 لاشیں یہاں رکھی ہیں۔ پھر جج صاحب نے پوچھا کتنے مریض شدید طور پر زخمی ہیں؟ میں نے بتایا کہ کافی تعداد میں لوگ موجود ہیں اور ابھی بھی مارکاٹ چل رہی ہے اور ابھی بھی مزید مریض آرہے ہیں۔ پھر جج صاحب نے پوچھا کیا آپ کے یہاں ان لوگوں کا علاج ہوسکتا ہے تو میں نے انہیں بتایا کہ میرا کلینک چھوٹا ہے اور میں ان لوگوں کو ابتدائی طبی امداد وغیرہ ہی دے سکتا ہوں، مگر جن مریضوں کی حالت نازک ہے انہیں کسی بڑے اسپتال میں لے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد جج صاحب نے پولیس کوحکم دیا کہ وہ میرے کلینک سے زخمیوں اور لاشوں کو ایمبولینس سے اسپتال پہونچائیں جس کے بعد تقریباً دو سے تین بجے کے دوران 10 سے 15 ایمبولینسیں آئیں اور ان کے ساتھ میں کافی پولیس والے بھی تھے۔ مگر میں حیران تھا کہ پولیس میرے ذریعے جج صاحب کو سچائی بتائے جانے کی وجہ سے بہت ناراض تھی اور کئی پولیس والے کہہ رہے تھے کہ یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ تمہیں اس طرح جج صاحب سے بات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
اس کے بعد اگلے دن 26 فروری 2020 کو بھی دن میں کافی مریض آئے، جن میں سے بیشتر تلواروں و گولیوں سے زخمی ہوئے تھے اور کچھ لوگ پتھر، لاٹھی، ڈنڈوں اور تیزاب وغیرہ سے زخمی تھے۔ ان لوگوں کو جو شدید زخمی تھے، ابتدائی طبی امداد دے کر میں نے CAT ایمبولینس سروس کے ذریعے جی ٹی بی اور دوسرے بڑے اسپتال میں بھیجا اور اسی طرح 27 و 28 فروری کو بھی میں نے کافی مریضوں کو ایمبولینس کے ذریعے اسپتال بھیجا۔ کئی بارایمبولینس کے ساتھ میں کچھ پولیس والے بھی آتے تھے اور بہت غصہ ہوتے تھے اور کہتے تھے – ڈاکٹر صاحب، یہ بہت اوپر کا معاملہ ہے، تم زیادہ چکر میں مت پڑو، صرف تمہاری وجہ سے یہ سب معاملہ اتنا بڑا ہوگیا ہے، نہیں تو کسی کو کچھ پتہ بھی نہیں چلتا۔ اس پر میں کہتا تھا کہ کسی بھی شخص کی جان بچانا میرا فرض ہے اور میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔ اس پر وہ سخت ناراض ہوتے تھے۔اس دوران مجھے کئی بار واٹس ایپ پر بھی بین الاقوامی نمبر اور مقامی نمبر سے دھمکی بھی آئی کہ تمہاری وجہ سے ’کٹوؤں‘ کو بڑی تعداد میں مارنے کا منصوبہ فیل ہوگیا ہے ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے اور آج بھی فسادی میری جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کی جان کیوں بچائی۔اس کے بعدسے اسپیشل سیل، کرائم برانچ اور دیگر پولیس اہلکار مجھے مسلسل پریشان کررہے ہیں۔ بارباراسپیشل سیل لودھی کالونی بلاتے ہیں، سارادن بیٹھا کررکھتے ہیں اورایک ہی سوال پوچھتے ہیں کہ پروٹسٹ کے لئے فنڈ کون دیتا تھا؟ بریانی کون کھلاتا تھا؟ کسی کا بھی نام بتا دو، تمہیں چھوڑ دیں گے۔ اس پر میں کہتا تھا کہ میں ایک ڈاکٹر ہوں، دوائی کے بارے میں یا کلینک کے بارے میں بتا سکتا ہوں۔ اس پر کہتے تھے کہ تیری ساری ڈاکٹری نکال دینگے سالے۔ تیرے جج سے بات کرنے کی وجہ سے سارا پلان فیل ہوگیا۔ اور وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اب اس کا ہرجانہ یہ ہے کہ تمہیں ہم وقت آنے پر ایک کام بتائیں گے وہ کرنا ہے۔ اس پر جب میں نے پوچھا کہ کیا کام ہے تو وہ بولے وہ کام کچھ بھی ہوسکتا ہے، صحیح بھی غلط بھی، وہ تمہیں کرنا ہی ہوگا اور نہیں تو تمہارے اوپر یو اے پی اے لگا دیں گے۔ یہ ٹاڈا سے بھی خطرناک ہے، کم از کم 20 سال جیل میں رہوگے۔ مکان، فیملی کلینک سب برباد ہوجائے گا۔ اس پر میں نے کہا، جناب جب بھی آپ نے نوٹس کے ذریعہ یا زبانی طور پر بلایا ہے، میں نے پورا سہیوگ کیا ہے، مگر میں کوئی غلط کام نہیں کرپاؤں گا۔ اس پروہ مجھے بار بار زندگی خراب کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ براہ کرم میری اور میرے اہل خانہ کی جان و مال کی حفاظت کی جائے۔