امریکی صدر بائیڈن کا پہلا غیر ملکی دورہ
G7:منظر پس منظر۔کورونا وبا کے بعد پہلی مرتبہ عالمی رہنماوں کی دو بدو ملاقاتیں
مسعود ابدالی
امریکی صدر جو بائیڈن پہلے آٹھ روزہ غیر ملکی دورے سے واپس آگئے ہیں۔ انہوں نے برطانیہ کی ملکہ ایلزیبتھ سے ان کے شوہر کے انتقال پر تعزیت اور ملکہ معظمہ کی سالگرہ پر مبارکباد دینے کے علاوہ بحر اوقیانوس کے خوبصورت و صحت افزا مقام کاربس بے Carbis bay میں نیٹو سربراہ کانفرنس میں شرکت کی۔ جس کے بعد امریکی صدر برسلز تشریف لائے جہاں نیٹو اتحادیوں کی چوٹی اجلاس منعقد ہوا۔ نیٹو اجلاس سے پہلے امریکی و ترک صدر کی ملاقات بھی بے حد اہم تھی۔ دورے کے اختتام پر امریکی صدر نے جنیوا میں اپنے روسی ہم منصب سے براہ راست ملاقات کی۔
یہ تمام تقریبات اس لحاظ سے تاریخی کہی جا سکتی ہیں کہ کورونا کی عالمی وبا کے بعد یہ پہلی براہ رست بیٹھکیں تھیں۔ اس سے پہلے اس قسم کی نشستیں مجازی یا Virtual ہو رہی تھیں۔
گروپ آف سیون یا G-7 نظریاتی طور پر دنیا کے 7ہم خیال، امیر و ترقی یافتہ صنعتی ملکوں، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ پر مشتمل ہے۔ گروپ کا آغاز 1973 میں اس وقت ہوا جب عرب اسرائیل جنگ کے دوران سعودی فرمانروا شاہ فیصل مرحوم نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی بند کردی تھی۔ اس کے نتیجے میں یورپ اور امریکہ شدید بحران کا شکار ہوئے اور امریکی وزیر خزانہ نے مشورے کے لیے اپنے جرمن (اس وقت مغربی جرمنی) ہم منصب ہیلمٹ شمٹ، فرانسیسی وزیرخزانہ گسکارڈ دیستان اور برطانیہ کے انتھونی باربر کو مشورے کے لیے امریکہ آنے کی دعوت دی۔ اجلاس کے دوران معیشت کے چاروں ماہرین نے بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہِ عمل پر غور کیا۔ ملاقات بے حد مفید رہی، اور بات چیت کے اختتام پر جب یہ چاروں افراد رسمی ملاقات کے لیے امریکی صدر نکسن کے پاس پہنچے تو وہیں قصر مرمریں (وہائٹ ہاوس) کی لائبریری میں ایک اور اجلاس ہوا جس میں تیل بحران کے ساتھ دوسرے معاشی مسائل اور مواقع پر تفصیلی گفتگو کے بعد مل کر کام کرنے کی بات کی گئی۔ اس غیر رسمی و غیر روایتی مجلس کا نام ’لائبریری گروپ‘ طئے پایا۔ کچھ دن بعد جاپان بھی اس گروپ میں شامل ہوا اور لائبریری گروپ G-5 بن گیا۔ دو سال بعد جب گسکارڈ دیستان فرانس کے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے G-5 کا سربراہی اجلاس طلب کیا۔ پیرس کے اس تین روزہ اجلاس میں اٹلی کو بھی دعوت دی گئی اور اب یہ G-6 بن گیا۔ اس کے اگلے برس امریکی صدر فورڈ نے اپنی کالونی پورٹوریکو میں سربراہی اجلاس کی میزبانی کی جہاں کینیڈا کے وزیر اعظم آنجہانی پیرے ٹروڈو (موجودہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے والد) خصوصی دعوت پر شریک ہوئے جس کے بعد یہ ادراہ G-7 کہلانے لگا۔ صدر بل کلنٹن نے تاسیس کی یاد تازہ کرنے کے لیے 1997 کا سربراہی اجلاس ڈینور (Denvers) شہر کی نو تعمیر شدہ سرکاری لائیبریری میں طلب کیا جس میں روسی صدر بورس یلسن بھی مدعو کیے گئے اور یہ فورم G-8 بن گیا۔
کریمیا پر روسی قبضے کے بعد 2014 میں روسی شہر سوچی میں ہونے والی سربراہ کانفرنس منسوخ کر دی گئی، جس کے بعد سے روسی کی رکنیت معطل ہے اور اب یہ دوبارہ G-7 کہلاتا ہے۔
گروپ 7 بنیادی طور پر ایک اقتصادی اتحاد ہے جسے سابق امریکی صدر بارک اوباما ایک عالمی مرکز دانش یا Think tank کہتے تھے۔ لیکن تمام ممالک ایک خاص سیاسی نظریہ وعقیدہ رکھتے ہیں اور دنیا پر چودھراہٹ قائم رکھنے کے لیے یہ اپنے عزم کے اظہار میں کسی مداہنت سے بھی کام نہیں لیتے۔ گزشتہ کئی سالوں سے ادارے میں توسیع کی تجاویز سامنے آرہی ہیں۔ خیال ہے کہ آسٹریلیا، اسپین، ہندوستان، برازیل اور جنوبی کوریا کو جلد ہی اس گروپ میں شامل کر لیا جائے گا۔
حالیہ اجلاس کا بنیادی نعرہ یا motto بعد از کورونا بحالی کے حوالے سے تعمیرِ نو بہتر انداز میں یا Build Back Better تھا۔ اس نعرے کے موجد صدر جو بائیڈن ہیں جنہوں نے اسی عنوان سے اپنے ملک میں بحالی معیشت کا آغاز کیا ہے۔ اہم امور پر امریکی خواتینِ اول اپنے کپڑوں پر معنی خیز تحریر رقم کر کے ملک کی نظریاتی سمت کا اعلان کرتی ہیں۔ سابق صدر ٹرمپ ’سب سے پہلے امریکہ‘ کے قائل تھے۔ وہ کھل کر کہتے تھے کہ امریکیوں نے انہیں امریکہ کی خدمت کے لیے منتخب کیا ہے اور بین الاقوامی قیادت کا مجھےکوئی شوق نہیں۔ اسی لیے وہ نیٹو ارکان کو بار بار یاد دہانی کرواتے رہتے تھے کہ امریکہ اتحاد کا رکن ہے سرپرست نہیں کہ اس کے اخراجات برداشت کرے۔ اس ضمن میں تمام ملکوں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ پہلے غیر ملکی دورے پر ان کی اہلیہ نے جو جیکٹ زیب تن کر رکھی تھیں اس پر لکھا تھا ?I don’t care, do you اسے با محاورہ اردو میں ’ میری بلا سے ‘ کہا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف صدر بائیڈن نے حکومت سنبھالتے ہی اپنے اتحادیوں کو پیغام دیا کہ America is back یعنی امریکہ قیادت وسیادت کے لیے عالمی اسٹیج پر واپس آچکا ہے۔ اس مناسبت سے خاتون اول ڈاکٹر جل بائیڈن کی جیکٹ پر جلی حرفوں میں LOVE لکھا ہوا تھا۔
اس تبدیلی کا ان کے یورپی حلیفوں نے پرجوش خیر مقدم کیا۔
گروپ 7کی نشستوں میں کورونا کے بعد تعمیرِ نو پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ وباپر قابو کے حوالے سے اچھی خبریں آرہی ہیں لیکن تیسری دنیا میں جدرین کاری (vaccination) کی رفتار بے حد سست ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ساری دنیا اسی صورت میں محفوظ ہوسکتی ہے جب دنیا کے کونے کونے سے اس نامراد کا قلع قمع کر دیا جائے۔ زمین کے کسی ایک گوشے میں بھی اگر یہ مرض باقی رہ گیا تو اس سے مشرق و مغرب سب متاثر ہوں گے۔ اجلاس سے پہلے انہوں نے کورونا کے 50 کروڑ حفاظتی ٹیکے غریب ممالک میں مفت تقسیم کرنے کا اعلان کیا جبکہ گروپ 7کے ممالک اضافی 50کروڑ ٹیکے تقسیم کریں گے۔ اجلاس میں ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کی مالی امداد کرنے اور اس ضمن میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مدد کا وعدہ کیا گیا۔
اجلاس میں حسب توقع چینی معیشت کی غیر معمولی توسیع پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ صدر بائیڈن چین کے خلاف ایک مضبوط اتحاد قائم کرنا چاہتے ہیں۔ مغربی ممالک چین کی جانب سے سڑکوں، ریلوے اور آبی شاہراہوں کی تعمیر کے پروگرام بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے خائف ہیں اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکہ نے world Build back better یاتھری بی ڈبلیو (BBB&W) منصوبہ چینی بیلٹ اینڈ روڈ کے مقابلے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ مغرب کا کہنا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت تعمیر ہونے والی پٹریوں، سڑکوں اور بندرگاہوں پر اٹھنے والے بھاری اخراجات سے کئی ملک چین کے مقروض ہو گئے ہیں اور قرضہ واپس نہ کرنے کی وجہ سے ان کی آزادی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ امریکہ تھری بی ڈبلیو کے ذریعے ان ممالک کو ترقی کے متوازی مواقع پیش کرنا چاہتا ہے۔ پروگرام کے تحت شفاف شراکت داری کی بنیاد پر G-7 ارکان کورونا سے متاثر ترقی پذیر ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر کھربوں ڈالر خرچ کریں گے۔ اجلاس میں ایغور مسلمانوں کی نسل کشی اور ان سے جبری مشقت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس ظلمِ عظیم کے خلاف مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ اور کینیڈا نے ایغور مسلمانوں پر مظالم کے جواب میں چین کے ذمہ در افسروں کے خلاف سفری پابندیں عائد کرنے کے ساتھ ان کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے ہیں۔صدر بائیڈن نے پابندیوں کو موثر بنانے کے لیے مزید کاروائیوں کی ضرورت پر زور دیا۔
لندن میں چینی سفارتخانے نے گروپ 7 کے اعلامیے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ دن لد گئے جب چند ممالک دنیا کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتے تھے۔اب چھوٹے، بڑے، مضبوط، کمزور، امیر اور غریب ہر طرح کے ملک برابر ہیں‘ پیر کو ہونے والے نیٹو سربراہی اجلاس سے پہلے صدر بائیڈن اور ترک صدر کی ملاقات بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ادھر کچھ عرصے سے ترکی کے نیٹو اور امریکہ سے تعلقات میں خاصی کشیدگی ہے۔ بحر روم کا سب سے بڑا ساحل ترکی سے لگتا ہے لیکن یونان مشرقی بحر روم میں ترکی کے معدنی حقوق تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اسرائیل اور مصر بھی اس معاملے میں یونان کے ساتھ ہیں۔ یورپ کے ممالک خاص طور سے فرانس یونان کی پشت پناہی کر رہا ہے اور اس نے یونان کی حمایت میں کئی جنگی جہاز مشرقی بحر روم بھیجے ہیں۔ اب تک ترک و فرانسیسی بحریہ کا براہ راست تصادم نہیں ہوا لیکن دونوں ملکوں کے جنگی جہاز کئی بار ایک دوسرے کے بہت قریب آچکے ہیں۔ فرانس میں توہین آمیز خاکوں اور حال ہی میں منظور کئے جانیوالے مسلم دشمن قانون پر ترکی کا دوٹوک موقف بھی فرانس کی ناراضگی کا باعث ہے۔ لیبیا میں فرانس اور کئی یورپی ممالک حفتر دہشت گردوں کی کھل کر پشت پناہی کر رہے ہیں جبکہ انقرہ وہاں اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کی حمایت کر رہا ہے۔ لبییا کے معاملے میں امریکہ کا نقطہ نظر بھی مبہم اور ترکوں کے لیے بے چینی کا باعث ہے۔شام کے معاملہ پر ترکوں کو سخت تشویش ہے۔ داعش کی سرکوبی کے نام پر امریکہ کرد دہشت کردو ں YPG کو عسکری مدد فراہم کر رہا ہے۔ترکوں کا کہنا ہے کہ YPG یہ اسلحہ اور وسائل شام ترک سرحد پر ترکی کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ مزے کی بات کہ YPG کو امریکہ نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے لیکن خود اپنے قانون کی صریح خلاف وزری کرتے ہوئے ان دہشت گردوں کی پیٹھ ٹھونکی جا رہی ہے۔
امریکہ اور ترکی کے درمیان سب سے بڑا تنازعہ روسی دفاعی نظام S-400کی خریداری ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ نیٹو اتحادیوں کو دشمن سے عسکری تعاون نہیں کرنا چاہیے اور S-400 چونکہ فضائی حملوں سے تحفظ کے لیے تیار کیا گیا ہے اس لیے امریکی طیاروں کے خلاف موثر بنانے کے لیے روس F-16 اور F-35 کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ ترکی کا کہنا ہے کہ اسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے اور اس حوالے سے امریکہ کے خدشات بے بنیاد ہیں۔ امریکہ نے ترکی کو F-35 دینے سے انکار کر دیا ہے حالانکہ اس طیارے کی تیاری و ترقی کے پروگرام میں نیٹو کے دوسرے اتحادیوں کی طرح ترکی نے بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
اسرائیل اور یورپی ممالک کے زیر اثر صدر اردغان ذرائع ابلاغ کے امریکی ادارے ترکی کے بارے میں منفی خبروں سے بھرے رہتے ہیں۔ سی این این، سی این بی سی، اے بی سی اور سی بی ایس پر صدر اردغان کو ڈکٹیٹر کہا جاتا ہے جس کا جواب دیتے ہوئے برسر اقتدار ترک AK پارٹی کے ترجمان نے کہا کہ ’گزشتہ انتخابات میں 82.24 فیصد ترکوں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا اور اردغان 52.59 فیصد ووٹ لے کر صدر منتخب ہوئے جبکہ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 64.2 فیصد تھا جس میں سے 51.3 فیصد امریکیوں نے صدر بائیڈن پر اعتماد کیا۔ صدر ایردوان کی کامیابی کو ان کے تمام مخالفین نے خوش دلی سے قبول کیا اس کے مقابلے میں صدر بائیڈن کے حریف 2020 کے انتخابات کو آج تک دھاندلی زدہ کہہ رہے ہیں۔منفی تبصروں کے باوجود نیٹو سربراہی اجلاس میں صدر ایردوان مرکزِ نگاہ بنے رہے۔ اجلاس سے پہلے صدر بائیڈن اور ان کے ترک ہم منصب کے درمیان براہ راست (one on one) تفصیلی ملاقات ہوئی جس کے بعد دونوں رہنما اجلاس کے لیے ایک ساتھ ہال میں داخل ہوئے اور ایک کنارے پر کھڑے ہو کر کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اس دوران تمام سربراہان ممالک اپنی نشستوں پر بیٹھے تھے۔ فرانس کے صدر میخواں نے بھی ترک صدر سے بات کی اور خبر رساں اداروں کے مطابق صدر اردغان نے حال ہی میں منظور کیے جانیوالے مسلم دشمن فرانسیسی قانون اور توہین آمیز خاکوں کی سرکاری سرپرستی پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس سولٹنبرگ نے بھی صدر اردغان سے علیحدہ ملاقات کی۔ سکریٹری جنرل نے نیٹو ترک کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا جس پر صدر اردغان نے کہا کہ ترکی نیٹو کا ایک مخلص اتحادی ہے لیکن انقرہ، مشرقی بحر روم میں اپنے مفادات سے دستبردار نہیں ہو گا اور ترکی کے لیے فرانس کی جانب سے اس معاملے پر یونان وقبرص کی حمایت ناقابل قبول ہے۔صدر بائیڈن سے ملاقات میں ترک صدر نے کہا کہ روس سے دفاعی نظام S-400 خریدنے کا معاہدہ ترکی کے مفاد میں کیا گیا ہے اور علاقے کے بعض ممالک کے معاندانہ رویہ کے تناظر میں یہ نظام ترکی کے لیے ضروری ہے۔ صدر اردغان نے ’بعض ممالک‘ کا نام نہیں لیا لیکن سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اردغان کا اشارہ فرانس، یونان اور اسرائیل کی طرف تھا۔امریکی صدر اور نیٹو کے سکریٹری جنرل نے افغان امن کے لیے ترکی سے معاونت کی درخواست کی۔ نیٹو چاہتا ہے کہ فوجی انخلا کے بعد ترکی کابل ایرپورٹ کا انتظام سنبھال لے تاکہ یہ ہوائی مستقر ہنگامی صورتحال میں عسکری کمک کے لیے استعمال ہو سکے۔ دوسرے دن امریکی صدر کے مشیرِ قومی سلامتی جیک سولیون نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر بائیڈن سے ملاقات میں ترک صدر نے نیٹو فوج کے انخلا کے بعد کابل ایرپورٹ کی حفاظت کے لیے ’قائدانہ‘ کردار ادا کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ ترک حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر اردغان نے محدود ومشروط مدد کی پیشکش کی ہے۔ محدود ان معنوں میں کہ ترکی اپنی ذمہ داریاں کابل ایرپورٹ کی حفاظت تک محدود رکھنا چاہتا ہے اور یہ تعاون طالبان سمیت تمام افغان دھڑوں کے اتفاق سے مشروط ہے۔ نامہ نگاروں کے مطابق امریکی صدر سے ملاقات کے دوران ترک صدر مسلسل مسکراتے رہے لیکن S-400، شام، لیبیا اور مشرقی بحر روم کے بارے میں ان کا موقف دوٹوک اور غیر مبہم تھا۔ ملاقات کے بعد صدر بائیڈن نے بات چیت کو انتہائی مثبت، جامع، بامقصد اور حوصلہ افزا قرار دیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وفود کی ملاقات میں تمام امور پر اتفاق رائے ہو جائے گا۔ صدر اردغان نے کہا کہ باہمی تعلقات کے باب میں کوئی مسئلہ ایسا نہیں جسے بات چیت کے ذریعے حل نہ کیا جا سکتا ہو۔نیٹو اجلاس میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری اور تکنیکی صلاحیتوں کا جائزہ لیا گیا جس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اتحاد کے سکریٹری جنرل نے یقین دلایا کہ نیٹو چین کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ نہیں چاہتا۔ دوسری جانب چین کے یورپی سفارتی مشن نے الزام لگایا کہ نیٹو چین کی پُرامن ترقی سے ’خوفزدہ‘ ہے لیکن بہتان تراشی کو نظر انداز کرتے ہوئے چین ترقی وخوشحالی کی جانب سفر جاری رکھے گا۔
اس دورے کا ایک اہم اور کلیدی جزو بائیڈن-پوٹن ملاقات تھی۔ یہ چوٹی کانفرنس ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکہ اور روس کے سفارتی تعلقات کم ترین سطح پر ہیں، سفیروں کو واپس بلایا جا چکا ہے اور امریکہ کا نام روس کی ’غیر دوستانہ‘ ممالک کی فہرست میں درج ہے۔ ملاقات سے پہلے ہی روسی صدر کے مشیر کہہ چکے تھے کہ بہت زیادہ پر امید ہونے کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ یہ ملاقات دوستانہ ماحول میں ہو گی کہ کچھ ہی عرصہ قبل صدر بائیڈن نے روسی صدر کو ’بے رحم قاتل‘ قرار دیا تھا۔
رسمی علیک سلیک کے بعد دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ بھی شریک گفتگو ہوئے۔ ملاقات کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس کا اہتمام نہیں ہوا اور دونوں رہنماوں سے صحافیوں سے الگ الگ بات کی۔
بات چیت کا سب اہم نکتہ الیکٹرانک نقب زنی یا hacking ہے۔ گزشتہ دنوں امریکہ کی ایک تیل پائپ لائن اور ملک کا سب سے بڑا مذبح خانہ سائبر حملے کا شکار ہو چکا ہے اور ان اداروں نے ‘نقب زنوں’ کو ڈیڑھ کروڑ ڈالر تاوان ادا کر کے اپنے کمپیوٹر نظام کا کنٹرول واپس لیا۔
امریکی انتخابات میں مبینہ امریکی مداخلت، سفیروں کی واپسی سمیت سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے، تحفیف اسلحے کے نئے معاہدے، قیدیوں کے ممکنہ تبادلے، یوکرین کی نیٹو اتحاد میں ممکنہ شمولیت اور شام میں امداد کے لیے اقوام متحدہ سے تعاون سمیت کئی دوسرے امور پر بات ہوئی۔ اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کا تعاون امن عالم کے لیے اہم ہے اور تناؤ کے باوجود دونوں ملک مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے بات چیت جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔
صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے روسی صدر نے اپنے امریکی ہم منصب کو تجربہ کار سیاستدان قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن صدر، ٹرمپ سے بہت مختلف ہیں۔ انسانی حقوق کے حوالے سے امریکی تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے روسی صدر نے کہاکہ دوسروں کو نصیحت کرنے سے پہلے امریکی رہنما اپنی گلیوں اور کوچوں میں اسلحے کے باعث ہونے والی ہلاکتوں پر توجہ کریں۔ امریکہ کی سڑکوں کو دیکھیں، روزانہ لوگ مر رہے ہیں۔ صدر پوٹن نے کہا کہ سی آئی اے کے خفیہ عقوبت خانوں میں لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ کیا انسانی حقوق کے تحفظ کا یہی طریقہ ہے؟ سائبر حملوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں امریکہ کو تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہیں لیکن امریکہ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ روس کا طبی نظام بھی سائبر حملے کا شکار ہو چکا ہے۔ الزام تراشی کے بجائے اس لعنت کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
جو بائیڈن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے بارے میں روس مخالف یا Anti-Russian تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ میں امریکہ کے ساتھ ہوں لیکن روس کے خلاف نہیں۔ روسی صدر میرا موقف اور ایجنڈا سمجھنے کی کوشش کریں۔ انسانی حقوق امریکی اقدار کی بنیاد ہے اور ملک کے اندر اور باہر ہر جگہ یہ بات اٹھائی جائے گی۔معلوم نہیں، فاضل امریکی صدر آبائی زمینوں سے فلسطینیوں کی بے دخلی، بچوں کی گرفتاری و تشدد‘ مسلم عبادت گاہوں کی بے حرمتی، جلوسوں میں اسرائیلی ارکان پارلیمان کی جانب سے گستاخانہ نعروں اور غزہ کی نہتی آبادی پر تباہ کن بمباری کو کس پہلو سے دیکھتے ہیں؟
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
بائیڈن نے کہا ’’انسانی حقوق امریکی اقدار کی بنیاد ہے اور ملک کے اندر اور باہر ہر جگہ یہ بات اٹھائی جائے گی‘‘۔لیکن معلوم نہیں، فاضل امریکی صدر آبائی زمینوں سے فلسطینیوں کی بے دخلی، بچوں کی گرفتاری و تشدد‘ مسلم عبادت گاہوں کی بے حرمتی، جلوسوں میں اسرائیلی ارکان پارلیمان کی جانب سے گستاخانہ نعروں اور غزہ کی نہتی آبادی پر تباہ کن بمباری کو کس پہلو سے دیکھتے ہیں؟
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 جون تا 3 جولائی 2021