کاشف احمد
اس وقت پوری دنیا کوویڈ 19 نام کی بیماری سے لڑ رہی ہے مدافعتی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے مختلف ملکوں کی انتظامیہ نے پوری دنیا میں گویا کرفیو لگا دیا ہے جس کی وجہ سے بڑے بڑے ملکوں کی معیشت خستہ حالی کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ بی بی سی ہندی کے مطابق پوری دنیا بہت بڑے معاشی بحران کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے کروڑوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ گارجین اخبار کے مطابق امریکہ میں بے روزگاری کی شرح مارچ اور اپریل میں 4٠4 فیصد سے بڑھ کر 14٠7 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ملک کی 10 فیصد آبادی (3 کروڑ 3 لاکھ) اپنی نوکریاں گنوا چکی ہے۔ (a) وہیں بھارت میں بے روزگار ہونے والوں کی تعداد بی بی سی کے مطابق اپریل کے مہینے میں 12 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچ چکی ہے (b) مختلف ملکوں کے حکم راں معیشت کی گاڑی کو دوبارہ پٹری پر لانے کے لیے امدادی پیکیج کا اعلان کر رہے ہیں جسے معاشیات کی اصطلاح میں Economic Stimulus کہتے ہیں۔
ہمارے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 12 مئی 2020 کی رات ملک کے نام اپنے پانچویں پیغام میں 20 لاکھ کروڑ روپیوں کے ہمالیائی امداد کا اعلان کیا اور کہا یہ پیکیج ملک مجموعی گھریلو آمدنی GDP کا 10 فیصد ہے۔ اس امدادی پیکیج کےچار Lکی وضاحت کی۔
1) Land زمین
2) Labour مزدور
3) Law قانون
4) Liquidity نقد روپیہ
ہم اس تحریر میں چوتھے نقطہ liquidity پر ہی اپنی گفتگو مرکوز رکھیں گے۔
وزیر اعظم نے اپنے 33 منٹ کے خطاب میں کہا کہ یہ پیکیج 2020 میں ملک کی ترقی کی رفتار کو توانائی اور ملک کو خود کفیل بنانے میں بنیادی کردار ادا کرے گا۔ 2014 میں وشو گرو بنانے کا نعرہ دیا گیا تھا اور اب صرف خود کفیل ہونا چاہتے ہیں۔ اگلے پانچ دنوں تک وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے پیکیج کے breakdown کی جو تفصیلات بتلائیں وہ درج ذیل ہے۔
نمایاں طور پر آر بی آئی نے مارچ کے مہینے میں جو 8 لاکھ کروڑ روپیوں کے Liquidity Injection کا اعلان کیا تھا اس کو بھی اس پیکیج کا حصہ مان لیا گیا ہے اس پیکج میں 3 لاکھ کروڑ کا غیر ضمانتی قرض Collateral Free Loan بھی شامل ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ہماری معیشت کا اصل مسئلہ liquidity کا ہے Manufacturers کے پاس سرمایہ کی کمی ہے اس وجہ سے وہ اپنے مزدوروں کی تنخواہ نہیں دے پا رہے ہیں اور مال کو تیار نہیں کرپا رہے ہیں اسی وجہ سے مزدور وطن واپسی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ان حکومتی مراعات کے سبب مزدوروں کی نقل مکانی بھی رک جائے گی اورمعاشی سرگرم بحال ہوگی تو معیشت کی گاڑی چل پڑے گی اور جلد ہی ہمارا ملک سوپر پاور بن جائے گا۔ دراصل حکومت اس پیکیج سے دو مقاصد کو حاصل کرنا چاہتی ہے
١) کووڈ19 کےمنفی معاشی اثرات سے صنعت کاروں کو محفوظ کرنا۔
٢) موجودہ حالات سے فائدہ اٹھانے کے لیے MSME سیکٹر کو مدد فراہم کرنا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ پییکج واقعی ان کی مدد کر پائے گا؟
امدادی پیکیج کی حقیقت: –
وہ پیسے جو سرکار کو ہم ٹیکس کے طور پر یا فیس کے طور پر دیتے ہیں سرکار ہمیں معاشی بحران کے وقت واپس کرتی ہے اس مد میں سرکار نے 10 لاکھ کروڑ روپیوں کا پیکیج دیا ہے
آر بی آئی (RBI ) کم شرح سود پر بینکوں کو پیسہ دیتا ہے تاکہ بینک یہ پیسہ لوگوں کو قرض کے طور پر دیں اس مد میں حکومت نے 4 لاکھ کروڑ روپے دیے ہیں۔
حکومت بینکوں کو ہدایت دیتی ہے کہ وہ قرض وصولی میں لوگوں کو ڈھیل دے جسے moratorium کہا جاتا ہے یا معاف کردے اس مد میں حکومت نے 3 لاکھ کروڑ روپے دیے ہیں۔
20 لاکھ کروڑ روپیوں کے پیکیج کی حقیقت بھی کچھ اس طرح ہے 8 لاکھ کروڑ روپے RBI بطور قرض دے چکی ہے 11 لاکھ کروڑ روپے وہ ہے جو سرکار نے بینکوں کو کہا کہ وہ بطور قرض دیں 1 لاکھ 92 ہزار کروڑ روپیوں کا اعلان پہلے ہی کیا گیا ہے اب حکومت کو صرف 1 لاکھ 86 ہزار 650 کروڑ روپے ہی دینے ہیں جو کہ GDP کا 0.8to 1. 3 فیصد ہے (g) اور حکومت اس کو دس فیصد بتا رہی ہیں
حزب اختلاف کی جماعت انڈین نیشنل کانگریس نے اس پیکیج کو GDP کا 2 فیصد سے کم بتایا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو وزیر خزانہ 30 لاکھ 42 ہزار 230 کروڑ روپیوں کے عام بجٹ کو پیش کرنے میں 2 گھنٹے 30 منٹ کا وقت لیتی ہیں جو کہ عام بجٹ کی تاریخ کی سب سے طویل تقریر قرار پائی وہ 20 لاکھ کروڑ کے پیکیج کو پیش کرنے میں 5 دن کا وقت لیتی ہیں۔ یہاں حکومت کی سنجیدگی سمجھ میں آتی ہے وہ ہمیشہ سے سرخیوں میں رہنا چاہتی ہے۔ امدادی پیکیج پر تنقیدیں بھی کی جارہی ہیں، جیسے ایک تنظیم نے کہا ہے کہ دراصل امدادی پیکیج صرف 1 فیصد ہے اور اب حکومت کی طرف سے مناسب اقدام میں دیری تنزلی کی طرف لے جائے گی۔ حکومت کا موجودہ پیکیج دنیا کی نامور ایجنسیوں کو متاثر نہ کرسکا دراصل لوگوں کو یہ امید تھی حکومت فوری راحت کا اعلان کرے گی تاکہ متاثرہ لوگوں کی مدد کی جاسکے لیکن پیکیج میں ایسا کچھ نہیں تھا اس لیے پیکیج کو لفاظی سے تعبیر کیا گیا۔
حکومت نے اس پیکیج کو بین الاقوامی سطح پر تیسرا سب سے بڑا پیکیج کہا ہےتو مناسب معلوم ہوتا ہے بین الاقوامی سطح پر اس امداد کا موازنہ کیا جائے۔ معروف صحافی روش کمار نے اپنے بلاگ میں اس کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
جرمنی نے ذاتی کاروبار کرنے والے، چھوٹے کاروباری اور فری لانسر کو تین مہینے تک 15000یورو (ڈھائی لاکھ روپے) کی مدد کی جس کے لیے اس ملک نے 4 لاکھ کروڑ خرچ کیے۔ متاثرہ فیملی کے لیے ستمبر تک ہر ماہ 15000 روپیے (185یورو) دے جائیں گے پرائیویٹ سیکٹر کے جس مزدور کو تنخواہ نہیں مل رہی ہے ان کی کل تنخواہ کا 80 فیصد سال بھر تک ملے گا
امریکہ نے 75000 ڈالر سالانہ آمدنی والے افراد کو 1200 ڈالراور بچوں کو 500 ڈالرکی مدد کی یہاں کسی کو فارم بھی بھرنا نہیں پڑا۔ جاپان نے اپنے ہر شہری کے کھاتے میں 930 ڈالر ڈالے۔ چھوٹے اور درمیانی قسم کے کمپنیوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو حکومت کام بند ہونے کی صورت میں کل تنخواہ کا 75 فیصد دےگی۔
برطانیہ نے 38 لاکھ ذاتی کاروبار کرنے والے افراد کو ہر ماہ 25000 پونڈ (2 لاکھ 35000 ہزار روپے) دے گی جس میں حجام اور صفائی کرنے والے افراد بھی شامل ہیں۔
سعودی عرب نے وہ مقامی باشندے جو موجودہ حالات سے متاثرہ پرائیویٹ کمپنیوں کے لیے کام کرتے ہیں حکومت 3 ماہ تک ان مقامی افراد کی 60 فیصد تنخواہ دے گی اور بیرونی ممالک کے شہریوں کی 3 ماہ کی حکومتی فیس معاف کی ہے۔
اس تجزیے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے ملک کے 20 لاکھ کروڑ روپیوں کے پیکیج میں لوگوں کے ذاتی کاروبار کرنے والے یا پرائیویٹ کمپنیوں میں کام کرنے والے افراد یا 10 سے 12 کروڑمتوسط طبقہ افراد کے لیے کوئی بنیادی سہولت مہیا نہیں کی ہے بس دیا ہے تو کیا قرض! قرض پیکیج دراصل وہ قرض ہے جو کہ بینکوں کے ذریعے دیا جائے گا تو سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک کی بینک اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ لوگوں کو قرض دے سکیں گے؟
بینکوں کی موجودہ صورتحال: –
اس وقت ہمارے ملک میں بینک تین قسم کے مسائل سے دوچار ہیں:
پہلا مسئلہ جو بینکوں کو درپیش ہے وہ Non performing asset (ڈوبنے والا قرض) اور صارفین کی طرف سے قرض کی قسط کا ادا نہ ہونا ہے۔ اس وقت ہندوستان پر 10 لاکھ کروڑ روپیوں کا NPA ملک کی 328 کمپنیوں پرہے۔ حالیہ دنوں میں ICICI اور Axis Bank کے 32 فیصد اور 25 فیصد صارفین نے اپنے گھریلو اور ذاتی قرضوں کی قسطوں پر راحت کا مطالبہ کیا ہے بینک حکومت کے کہنے پر راحت دینے پر راضی تو ہیں لیکن بعد میں سود در سود کے ساتھ قرض وصول کریں گے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بینک جو پہلے سے ہی قرضوں کی وصولی سے پریشان ہیں وہ اس غیر معمولی صورتحال میں کہاں سے قرض دیں گے جہاں اس کے ڈوبنے کے امکان قوی ہے۔
تیسرا مسئلہ dwell balance sheet کا ہے جو قرض ہمیں بینک کے کھاتوں میں نظر آتا ہے وہی قرض کمپنیوں کی بیلنس شیٹپر بھی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کویڈ19سے پہلے حکومت بینکوں سے کہہ رہی تھی کہ وہ کمپنیوں سے بقایا وصول کرے اور جو قرض وصول نہیں ہو پارہا ہے اسے بینکوں کے منافع میں سے کاٹا جائے۔
آر بی آئی نے شرح سود کو ملک کی تاریخ میں سب سے کم کردیا ہے لیکن پھر بھی قرضوں کی مانگ نہیں بڑھ رہی ہے اور پچھلے 27 سال کی تاریخ میں سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ جس کا اعتراف وزیر خزانہ نے اپنے پریس کانفرنس میں بھی کیا تھا۔
ہمارے ملک کا کل جی ڈی پی 202 لاکھ کروڑ ہے روپے ہے اس پر کل قرض 93 لاکھ کروڑ روپیوں کا ہے جس میں سے 56 لاکھ کروڑ روپیوں کا قرض کمپنیوں پر ہے 12 لاکھ کروڑ روپیوں کا قرض کسانوں پر اور 26 لاکھ کروڑ روپیوں کا ذاتی قرض ہے
کمپنیوں پر جو 56 لاکھ کروڑ روپیوں کا قرض ہے اس میں سے 10 لاکھ کروڑ روپیوں کا قرض msme سیکٹر پر ہے جو کمپنیاں 5 فیصد growth rate والی GDP میں 10 لاکھ کروڑ روپیوں کا قرض ادا نہیں کر پائی ہیں وہ کمپنیاں اس لاک ڈاؤن میں 0 فیصد growth rate والیجی ڈی پی میں نیا قرض کہاں سے چکا پائیں گی؟ شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کے سب سے امیر ترین شخص مکیش امبانی کی کمپنی نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر جو 2 لاکھ 57 کروڑ روپیوں کا قرض ہے (جبکہ ان کی کل پراپرٹی 3 لاکھ 74 ہزار کروڑ روپے ہے) وہ اپنے اثاثے بیچ کر قرض سے پاک ہونا چاہتی ہے۔
ماہرین معاشیات کا ماننا ہے کہ سابقہ قرض ادا نہ کر پانے کی صورت میں نیا قرض لینا پُر خطر کام ہے یہی غلطی 2008 میں امریکہ نے کی تھی اور پوری دنیا کو معاشی بحران میں مبتلا کر دیا تھا۔
اس پوری بحث کا نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت جو 20 لاکھ کروڑ روپیوں کا قرض میلہ لائی ہے اس بات کا قوی امکان ہے اگلے ایک دو سالوں میں اس میں سے زیادہ تر قرض ڈوب جائے گا جس کا سیدھا اثر عام لوگوں کی بچت پر پڑے گا اور مہنگائی مزید بڑھ جائے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
مسئلہ کا حل:
1) جیسا کہ ہم نے شروعات میں کہا تھا کہ حکومت کے نزدیک ملک کی معیشت میں اصل مسئلہ liquidity کا ہے جبکہ ماہرین کی اکثریت کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ طلب (demand) کا ہے حکومت کو طلب پیدا کرنے والے اقدامات کرنے چاہئیں کہ سبھی متاثرہ لوگوں کے کھاتوں میں 7 سے 10 ہزار روپے ڈالے جائیں – ہم سب جانتے ہیں کہ مروجہ معاشی نظام رسد (supply) اور طلب (demand ) کے کمی وزیادتی کے فلسفے پر چلتا ہے۔
ڈاکٹر وقار انور (سکریٹری مالیات جماعت اسلامی ہند) کا کہنا تھا کہ حکومت اس وقت ساہوکار کی مدد کررہی ہے جبکہ اس کو قرضدار کی مدد کرنی چاہیے۔ وہ آگے کہتے ہیں حکومت کو 3 d یعنی demand, debt, اور default پر کام کرنا چاہیے اگر demand بڑھے گی، debt کم ہوگا اور وہ default نہیں ہوگا۔
2) ہماری معیشت دراصل کنزیوم کرنے والی معیشت ہے جہاں پر بہت بڑی آبادی بستی ہے اس لیے کہ ہم دنیا کی مارکیٹ میں بڑےکنزیومرمارکیٹ ہیں ضرورت اس بات کی اب ہمیں اکسپرٹ اورینٹیڈ مارکیٹ میں تبدیل ہونا چاہیے موجودہ حکومت نےمیک ان انڈیاکا نعرہ 2014 میں دیا تو تھا لیکن وہ حقیقت نہیں بدل سکا۔
3) قرض کے بوجھ کو کم کرنا اور بڑے قرضوں کو شرکت اور مضاربت کی بنیاد پر فراہم کرنا نہ کہ سود کی بنیاد پر؟ کیوں کہ بڑے کاروباری قرضوں میں productivity اور efficiency کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے سودی قرضے دیتے وقت ان چیزوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے collateral کو اہمیت دی جاتی ہیں۔
4) آخر میں حکومت کو معیشت کے اعداد وشمار کو چھپانے یا اس چھیڑ چھاڑ سے بچنا چاہیے۔ موجودہ حکومت نے مالیاتی خسارے کو کم دکھایا ہے اور بے روزگاری کے اعداد وشمار کو 2019 کے الیکشن تک ظاہر نہیں کیا ایسی حرکتوں سے عام لوگوں کا حکومت پر اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے۔
حکومت جو 20 لاکھ کروڑ کا قرض میلا لائی ہے اس بات کا قوی امکان ہے اگلے ایک دو سالوں میں اس میں سے زیادہ تر قرض ڈوب جائے گا جس کا سیدھا اثر عام لوگوں کی بچت پر پڑے گا مہنگائی مزید بڑھ جائے گی۔