الہ آباد ہائی کورٹ نے سابق آئی پی ایس افسر داراپوری سے ہرجانہ وصول کرنے کے لیے جاری نوٹس پر اتر پردیش حکومت سے جواب طلب کیا

اتر پردیش، جولائی 11: الہ آباد ہائی کورٹ نے اترپردیش حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ اس نے کس قانون کے تحت انسانی حقوق کے کارکن اور سابق آئی پی ایس آفیسر ایس آر داراپوری کے خلاف گذشتہ سال دسمبر میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران نجی اور سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصان کے سلسلے میں 64.37 لاکھ کی وصولی کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔

مسٹر داراپوری ان 57 افراد میں شامل ہیں جنھیں لکھنؤ انتظامیہ نے وصولیابی کے لیے نوٹس جاری کیے تھے، جس کے بعد ان میں سے بہت سے لوگوں کی جائیدادیں ضبط کرنے کے احکامات جاری کردیے گئے تھے اور بعض کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔

حضرت گنج پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر میں وہ ان ملزموں میں سے ایک ہیں، جن سے 64.37 لاکھ روپیے ادا کرنے کو کہا گیا ہے۔

مسٹر داراپوری فی الحال ضمانت پر باہر ہیں۔

جمعہ کے روز لکھنؤ بنچ کے جسٹس راجن رائے نے ریاستی قائمہ وکیل کو عدالت کو اس سلسلے میں ’’مطمئن‘‘ کرنے کی ہدایت کی کہ کس قانون کے تحت درخواست گزار مسٹر داراپوری کو وصولی کے لیے نوٹس جاری کیا گیا ہے۔

عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ ’’کیا مبینہ واقعے کی تاریخ میں کسی بھی طرح کے نوٹس یا سماعت کے بغیر یک طرفہ ایسی وصول یابی کا حکم جاری کرنے کے لیے قانون کی کوئی شق موجود تھی؟‘‘

واضح رہے کہ مسٹر داراپوری نے اتر پردیش حکومت کے ذریعے جاری نوٹس کو عدالت میں چیلنج کیا ہے، اور اسے روکنے کی درخواست کی ہے۔

اس معاملے کی اگلی سماعت 17 جولائی کو ہوگی۔

معلوم ہو کہ لکھنؤ میں عہدیدار جرمانے کی وصولی کے لیے حال ہی میں داراپوری کے گھر بھی گئے تھے اور مبینہ طور پر ان کی جائیداد ضبط کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔