الکٹرانک چپس کا بحران

ٹیکنالوجی سے مربوط معیشت کو چپس کی کمی کے سبب بے شمار مسائل کا سامنا

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

اس وقت دنیا ایک ایسے بحران سے گزر رہی ہے جسے اگر جلد ختم نہیں کیا گیا تو یہ دنیا کو بھوک اور افلاس میں مزید دھکیل دے گا۔ دنیا پہلے ہی سے وبائی مرض کوویڈ سے بد حال ہے۔ چپس یا سمی کنڈکٹروں کی قلت نے کئی ممالک کی معیشتوں کو تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ جہاں اس کی قلت کے منفی اثرات ترقی یافتہ ممالک پر مرتب ہورہے ہیں وہیں اس نے ہمارے ملک کی معیشت پر بھی بڑے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کی تازہ مثال ماروتی سوزوکی کمپنی ہے۔ ملک میں سب سے زیادہ کاریں بنانے والی کمپنی ماروتی سوزوکی نے کہا ہے کہ وہ اپنے سال کی دوسری سہ ماہی کے مقررہ ہدف کو پورا کرنے میں ناکام ہے۔ کمپنی کا ہدف یہ تھا کہ وہ دوسری سہ ماہی میں ایک لاکھ سولہ ہزار کاریں بنائے گی لیکن وہ اس ہدف کو پورا نہیں کر سکی اس کی وجہ چِپس یا سمی کنڈکٹروں کی قلت ہے۔ وہ نہ صرف اپنے ہدف کو پورا نہیں کرسکی بلکہ اس کے منافع میں تقریباً 9 عشاریہ 4 فیصد کی کمی بھی واقع ہوئی ہے۔ کرسل ریٹنگ کے مطابق ملک میں کاروں کی فروختگی میں 11 سے 13 فیصد کی گراوٹ دیکھی گئی ہے۔
آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر یہ چِپس یا سمی کنڈکٹر کس چیز کا نام ہے اور اس کا ملک کی معیشت سے کیا تعلق ہے؟ آج ترقی کے اس دور میں تقریباً ہر چیز ان ہی چِپس کی بدولت چل رہی ہے، چاہے وہ آٹو موبائل کی صنعت ہو یا الکٹرانک کی صنعت، موبائل فون ہوں یا ٹیلی ویژن، واشنگ مشین ہو یا آٹوموبائل یا ہسپتال میں نصب جراحی کے آلات ہوں ان سب کو چلانے کے لیے چِپس ضرورت پڑتی ہے اس کے بغیر نقل وحرکت کا تصور نہیں۔ ہمارے استعمال میں آنے والی تقریباً تمام ہی چیزوں میں ایک اہم پرزہ چِپ نصب کیا ہوا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاتھوں جو موبائل فون ہے اس کا ایک اہم پرزہ چِپ ہوتا ہے۔ ہم جن کاروں میں سفر کرتے ہیں اس کی تیاری بھی چِپ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
اب آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر اس کی قلت کیوں پیدا ہوئی۔ اس کی قلت کی دو تین وجوہات ہیں، پہلی وجہ وبائی مرض کوویڈ ہے۔ کوویڈ نے جیسے ہی اپنے تباہ کن پر پھیلائے، دنیا بھر میں معیشت کے گھومتے پہیے کو روک لگ گئی، معاشی سرگرمیاں تھم سی گئیں، بازار بند ہوگئے، کاروبار ختم ہوگئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طلب ورسد کا پورا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ صنعتوں نے اپنی پیدوار اس لیے کم کردی یا ختم کردی کیوں باراز میں طلب کی کمی ہوگئی یا ختم طلب ہی باقی نہیں رہی۔ قلت کی دوسری وجہ امریکہ اور چین کے درمیان جاری معاشی جنگ ہے۔ امریکہ نے چین پر کئی قسم کی معاشی تحدیدات لگائی ہیں جن میں سے ایک چِپس کی تیاری میں کام آنے والے اشیاء کی درآمدات پر تحدید بھی شامل ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا بھر میں چِپس کی پیداوار میں 34 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس معاشی بالادستی نے دنیا کو چِپس کی قلت میں مبتلا کردیا ہے، امریکہ یہ بالکل بھی نہیں چاہتا کہ اس کی بالادستی ختم ہو اور چین اس وقت کسی کی بالادستی قبول کرنے کے موقف میں نہیں ہے۔ تیسری وجہ حمل ونقل کے مسائل ہیں۔ بحری جہازوں سے دیگر ممالک تک بر وقت اس کی عدم ترسیل بھی قلت کا سبب ہے۔ ماہ جون میں ایک بھاری بھرکم جہاز ایور گرین نہر سویز میں پھنس گیا تھا، تقریباً ایک ہفتے تک وہ جہاز پھنسا رہا اس دوران سارا حمل ونقل کا نظام معطل رہا، اس جہاز کے پھنس جانے سے سیکڑوں جہاز رک گئے جو مختلف سامانوں سے لدے ہوئے تھے، ان ہی جہازوں میں چِپس بھی تھے جو اپنے مقررہ وقت پر نہیں پہنچ سکے۔ جہازوں کے حمل ونقل میں رکاوٹ کی وجہ سے دنیا بھر میں اس کا انحطاطی اثر یعنی (ڈومینو ایفیکٹ) ابھی تک پڑ رہا ہے۔
دنیا میں جہاں ٹکنالوجی سے مربوط معیشتیں ہیں وہاں اس کی قلت کے اثرات بہت زیادہ نمایاں ہیں۔ چونکہ ہمارا ملک بھی ٹکنالوجی سے مربوط معیشت ہے اس لیے اس کا اثر بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا جا رہا ہے۔ معیشت پر جب اثرات مرتب ہوں گے تو اس کا سب سے پہلے نتیجہ بے روزگاری کی شکل میں سامنے آتا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج ملک میں بے روزگاری کیا حالت ہے۔ یہ تباہ کن صورتحال ایک طرف ہے تو دوسری طرف حکومت ہے کہ کوئی بھی روزگار کے مواقع فراہم نہیں کر پا رہی ہے، وہ مواقع فراہم کرنا تو درکنار جہاں لوگ برسرروزگار ہیں ان کمپنیوں کو بھی فروخت کرکے ان کو روزگار سے محروم کر رہی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ انسان اس قدر ترقی یافتہ ہونے کے باوجود اپنے مالک کے سامنے کس قدر بے بس ومجبور ہے۔

 

***

 دنیا میں جہاں ٹکنالوجی سے مربوط معیشتیں ہیں وہاں اس کی قلت کے اثرات بہت زیادہ نمایاں ہیں۔ چونکہ ہمارا ملک بھی ٹکنالوجی سے مربوط معیشت ہے اس لیے اس کا اثر بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا جا رہا ہے۔ معیشت پر جب اثرات مرتب ہوں گے تو اس کا سب سے پہلے نتیجہ بے روزگاری کی شکل میں سامنے آتا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج ملک میں بے روزگاری کیا حالت ہے۔ یہ تباہ کن صورتحال ایک طرف ہے تو دوسری طرف حکومت ہے کہ کوئی بھی روزگار کے مواقع فراہم نہیں کر پا رہی ہے، وہ مواقع فراہم کرنا تو درکنار جہاں لوگ برسرروزگار ہیں ان کمپنیوں کو بھی فروخت کرکے ان کو روزگار سے محروم کر رہی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26  دسمبر تا 1 جنوری 2021