البانیا:احیاء اسلام کی راہ میں درپیش چیلنجز
مسلمانان عالم کو الحاد زدہ معاشروں میں تجدیدی کردار ادا کرنے کی ضرورت
فردین احمد خاں فردین رضوی
تاریخ کے مطالعہ سے قومیں سابقہ تجربات ، فیصلوں اور ان کے نتائج سے سبق لے کر ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بچ سکتی ہیں۔مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ اگر کسی قوم کے حالات میں مثبت تبدیلی لانی ہے تو اس کے افکار میں سنجیدگی ، کردار میں فعالیت اور افعال میں اخلاص پیدا کرنا ناگزیر ہے ۔مگر وہ افراد جو محوِ خواب ہاے غفلت ہیں ان میں کسی طرح کی بیداری لانا خاصا مشکل ہے جب تک کہ ماضی کی کوئی مثال انہیں پیش نہ کی جاے جس میں انہی کی سی حرکات کرنے والوں کا عبرت ناک انجام ہوا ہو۔قرآن مجید میں ایسی متعدد امثال موجود ہیں جس میں خالقِ کون و مکاں نے سرکشی کی مرتکب سابقہ امم کے ہیبت ناک حشر کو بیان فرمایا ہے۔ یہ امثال اس لیے بیان کی گئیں تاکہ موجودہ امت سابقہ قوموں جیسی غلطیاں نہ دہرائیں۔ اسی قرآنی حکمت پر عمل کرتے ہوے مسلمانوں کو چاہیے کہ تاریخ عالم کا گہرا مطالعہ کرتے ہوئے ماضی کی اغلاط سے نصیحت حاصل کریں۔
آج کے دور میں مسلم معاشرے میں اسلامی اقدار کی پاس داری فسانۂ ماضی بنتی جا رہی ہے ۔لوگ مذہبی روایات سے پہلو تہی اور قدیم نظریات کو فرسودہ خیال کر رہے ہیں۔جدید افکار کے دلدادہ افراد پہلے تو صحیح اسلامی تعلیمات ہی سے تہی دامنی کا شکار ہیں اس پر مستزاد یہ کہ مغربی کلچر اور فیشن کی دل آویزی نے انہیں اپنا گرویدہ بنالیا ہے۔اور اگر شومئ تقدیر سے کوئی مذہب مخالف حکمران ان پر مسلط ہو جاے پھر تو زخموں پر نمک کی مانند ؎
کب مشتِ نمک سے ہوئی تسکینِ جراحت
لب چش ہے نمک سار مِرے زخمِ کہن کا
کچھ اسی طرح کی صورت حال ہے البانیا کی جہاں کئی وجوہات کی بنا پر اسلام کا احیا ایک بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے ۔اس مقالے میں ہم البانیا کی کیس اسٹڈی سے اسباب و علل پر غور کرکے معاشرے میں اسلامی احیا کے اصول ، تقاضوں اور موانع کو واشگاف کرنے کی کوشش کریں گے۔
البانیا کا جغرافیہ اور اجمالی تاریخ:
البانیا جنوبی مشرقی یورپ کا ایک ملک ہے جس کے شمال میں مونٹی نیگرو، مشرق میں مقدونیہ ، جنوب میں یونان اور مغرب میں سمندر پاراطالیہ ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ جگہ بہت دل چسپ ہے ، پہلے یہاں ایلیرین قبائل آباد تھے ، سکندر اعظم نے اسے فتح کیا اور اس کے بعد یہاں رومیوں کی حکومت رہی یہ سلسلہ ۱۶۸ء سے ۳۹۵ء تک چلا جس کے بعد یہ بازنطینی حکومت کے زیر نگیں آ گیا ۔۴۶۱ء کو بازنطینی کے اقتدار سے آزاد ہوا اور مختلف حملوں ، تاراج گروں کی آماجگاہ بنا رہا۔۱۴۶۰ء میں یہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔ مسلمانوں کے زیر نگیں یہ ملک خوش حال اور فلاح و بہبود سے ہم کنار رہا جب تک کہ ۱۹۱۲ء میں سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے نہیں ہو گئے۔ اس سانحہ کے بعد اس ملک پر اطالوی حکمران اپنی افواج کے ساتھ حاوی ہو گیے اور اسے اپنے زیر اثر کر لیا، ۱۹۳۹ء میں اطالیہ کے فسطائی لیڈر مسولینی نے یہاں ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے حتی کہ اس کی مادری زبان کو اطالوی سے تبدیل کرنے کی ملک گیر تحریک چلائی۔ بعد میں جرمنی کا اس پر اقتدار رہا جسے یہاں کے گوریلا افواج نے شکست دی اور خود کو آزاد کر والا ۔مگر چوں کہ بیسویں صدی میں اشتراکیت کا غلبہ اکثر یورپ پر رہا، البانیا بھی اشتراکی ملک بن گیا ۔۱۹۹۲ء میں یہاں کے لوگوں نے انتخابات میں اشتراکیوں کو شکست فاش دی مگر بڑے پیمانے پر بد امنی ہوئی اور جانیں ہلاک ہوئیں ۔آج بھی البانیا ایک جمہوری ملک ہے مگر یہاں اشتراکی فکر کے حامل افراد بھی ایک اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔
مذہبی پس منظر:
البانیا میں رومی اور بازنطینی ادوار میں عیسائیت کا غلبہ رہا ۔جس کے بعد یہاں نویں صدی عیسوی میں اسلام نے دستک دی۔لوگوں نے اسلام کو خندہ پیشانی سے قبول کیا اور بغیر کسی فوج داری کے یہاں کی مسلم تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا ۔جب یہ ملک سلطنت عثمانیہ کے زیر تحکم آیا تب تک اس کی ۹۰٪ آبادی حلقہ بگوش اسلام ہو چکی تھی ۔
چوں کہ یہاں کے فسطائی و اشتراکی حکمران کسی طرح کے مذہبی امور کی اجازت نہیں دیتے تھے ، ایک بڑا عرصہ اس ملک نے دہری اقتدار میں گزارا۔مساجد و مدارس کو منہدم کر دیا گیا ، حکومتی تعلیمی اداروں میں باقاعدہ الحاد کی تعلیم دی جاتی تھی اور کسی طرح کے مذہبی اجلاس یا ترویج و اشاعت پر مکمل پابندی رہی ۔یہاں کی اکثریت جو کہ مسلمان تھی اسے اجتماعی نمازوں سے روکا گیا، تجانی افراد جو یہاں کا صوفی سلسلہ ہے ان کی خانقاہوں کو مسمار کیا گیا اور مسلمانوں نے ایک وحشت ناک دور کا سامنا کیا ۔پھر ایک دور جرمنی کے نازیوں کا بھی دیکھنا پڑا ۔کوئی اسلامی ادارہ یا درس گاہ نہ ہونے کا سبب تھا کہ ملک کی ۹۰٪ فیصد مسلمان آبادی ، ۲۰۱۱ء کے شمار کے مطابق ۵۲٪ رہ گئی، باقی میں عیسائی (زیادہ تر اطالیہ سے آے) یا ملحد (فسطائی یا اشتراکی فکر کے حامل) ہیں۔
موجودہ وقت میں احیاء اسلام کی کوششیں:
اشتراکیت کے جزوی خاتمہ اور جمہوریت کے کچھ حد تک نفاذ کے بعد یہاں کے مسلمانوں نے دوبارہ اپنے اداروں، مدارس اور مساجد کی تعمیر پر توجہ مرکوز کی ۔چوں کہ یہ علاقہ ہمیشہ سے صوفیہ کا مسکن رہا ہے اور اکثریت یہاں اہل سنت والجماعت کے صوفی سلاسل کی رہی ہے یہاں صوفی تعلیمات کا معاشرے میں غلبہ رہا ۔اس دور میں حافظ صابر کوجی جنہوں نے اشتراکیوں کے کہنے پر الحاد کو تسلیم نہیں کیا تھا اور اسی بنا پر قید بھی ہوے، آپ یہاں قاضی القضاۃ مقرر ہوے اور تاحیات اسی عہدے پر رہے۔
یہاں کا مشہور سلسلہ تجانی ہے، مذہبی ترویج و اشاعت کی آزادی کے بعد اسی گروہ نے تبلیغ دین، تعمیر مساجد اور تعلیم اسلام کی ذمہ داری اٹھائی ۔مگر ظاہر ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں برسہا برس لا مذہبی بلکہمذہب مخالف اور اسلام دشمن حکومت رہی ہو ، جہاں اطفال کے لیے دینی معلومات حاصل کرنے کا کوئی معقول انتظام نہ ہو، جہاں کھلے عام مذہب کی تبلیغ پر پابندیاں ہوں، واعظین و مبلغین کے پاؤں میں زنجیر و زبانوں پر قدغن ہو، اور اس کشمکش میں جہاں کے لوگ مذہبی اقدار کو بھول چکے ہوں وہاں اسلامی احیا کا کام ایک مشکل کام ہے ۔
البانیا کو درپیش چیلنجز اور ہمارے معاشرے کا تقابل :
مدتوں جنگوں، افواج اور تخت و تاراجی کی آماجگاہ بنا یہ خطہ زمین کئی ادوار دیکھ چکا ہے جس کی تفصیل ابھی گزری۔وقت کی ایسی طغیانی اور الحاد کے سیلاب سے ابھرتا یہ ملک یقیناً اس بات کا متقاضی ہے کہ مسلمانا ن عالم یہاں کی مذہبی تجدید میں اپنا حصہ ادا کریں ۔یہاں متمکن صوفیہ اور دیگر اسلامی تنظیمیں فرداً-فرداً اپنا دینی و ملی فریضہ انجام دے رہی ہیں ۔مگر اس احیا کے راستے کے موانع اپنے اندر ہمارے لیے بھی ایک خاموش پیغام رکھتے ہیں جنہیں ہمیں پہچاننے کی ضرورت ہے ۔آئیے ان باغات عبرت کی سیر کریں اور علم و حکمت کے پھول چنیں۔
۱۔ تعمیری چیلنج:
یہاں کی مسلم آبادی ایک سروے کے مطابق لگ بھگ تقریباً 30لاکھ کے قریب ہے ، مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد ہوتے ہوئے لازمی ہے کہ مساجد کی تعمیر پر توج دی جائے ۔ جدید اعداد و شمار کے مطابق یہاں فی الوقت کم و بیش ۵۵۵/ مساجد موجود ہیں۔اگر اتنی آبادی کو فی مسجد تقسیم کریں تو ہر مسجد کی وسعت ۴۶۸۶/ مصلیوں کی ہونی چاہیے ۔یعنی نمازی تو ہیں مگر مساجد کی کمی ہے ۔
وہیں اگر ہم اپنے اڑوس پڑوس میں دیکھتے ہیں تو ہر گلی ہر محلے میں کئی مساجد موجود ہیں ، ہر سہولت کی حامل ، ہر طرح کے جدید آلات سے مزین ، بہترین فرش، عمدہ قالین، خوب صورت عربی نقش و نگار ، مگر hn سب کے باوجود کمی اگر ہے تو صرف نمازیوں کی! بس نماز پڑھنے والے نہیں ہیں! وہ بہت مصروف و مشغول لوگ ہیں ان کے پاس مسجد میں آنے کا وقت نہیں ۔کیا ہمیں اپنے البانوی بھائیوں سے کچھ سیکھ نہیں لینا چاہیے کہ وہاں مسجدیں کم ہیں پھر بھی جذبہ نماز کثیر ہے اور ہمارے یہاں کثرت مساجد ہونے کے باوجود نماز کا جوش و ولولہ مفقود ہے!
۲۔ تعلیمی چیلنج:
اشتراکی جابروں نے کئی مذہبی ادارے جو سلطنت عثمانیہ کے دور میں تعمیر ہوے تھے اپنی تحلیل میں لے لیے اور انہیں حکومتی دفاتر میں تبدیل کر دیا ۔موجودہ وقت میں مسلمانان البانیا کے پاس کچھ بیس تیس مدرسے ہوں گے جہاں عمدہ اسلامی تعلیم دی جاتی ہو۔غور کرنے کا مقام ہے کہ اتنی آبادی کی مذہبی ضرورت ان چند اداروں سے کیسے پوری ہو سکتی ہے ۔اور یہ بھی وہ ہیں جنہیں بیرونی اسلامی تنظیموں نے بنوایا ہے ۔ایک اسلامی یونیورسٹی بھی موجود ہے جسے ترکی کی امداد سے بنوایا اور شروع کیا گیا ۔
۳۔ نظریاتی چیلنج :
وہ ملک جس نے حکومتی الحاد پسندی کا ایک تاریک دور دیکھا ہو، لازم ہے کہ وہاں کے افراد میں سے جو راسخ فی العلم نہ ہوں ، وقت کی تبدیلی کے ساتھ ان کے افکار میں بھی تغیر واقع ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ البانیا میں بھی کئی لوگ ایسے ہیں جن کے آبا و اجداد تو صوفیہ کی جماعت سے تھے مگر انہیں خود دین کی صحیح کا علم نہیں، ایسے لوگوں کو ہم کلچرل مسلم کہہ سکتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگ اکثر اسلام کا نام لینے والے غیر اسلامی گروہوں کی چال بازیوں اور جعل سازیوں کا شکار ہو جاتے ہیں، مثلاً، قادیانی، ناصری شیعہ، عبادی ، اہل قرآن ، وغیرہ کفار گروہ جو بھولے بھالے مسلمانوں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں ۔اب لازم ہے کہ عوام میں دوبارہ اسلامی افکار اور بنیادی عقائد کی ترویج و اشاعت ناگزیر ہے ۔
ہماری ملی ذمہ داری:
قرآن مجید نے ہمیں إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ کا پیغام دیا ہے ؛ یعنی -مسلمان آپس میں بھائی ہیں۔ اور نبی رحمت شفیع امت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ : مَثَلُ المُؤْمِنِينَ في تَوادِّهِمْ، وتَراحُمِهِمْ، وتَعاطُفِهِمْ مَثَلُ الجَسَدِ إذا اشْتَكى منه عُضْوٌ تَداعى له سائِرُ الجَسَدِ بالسَّهَرِ والْحُمّى.- یعنی مسلمانوں کی مثال آپسی رحمت و محبت اور لطف و نرم خوئی میں ایک جسم کی ہے ، کہ جب کسی بھی عضو کو تکلیف ہوتی ہے پورا جسم اسے محسوس کرتا ہے اور نیند اڑ جاتی ہے اور بخاری طاری ہو جاتا ہے۔ آیت کریمہ اور حدیث مبارک کا مفہوم صاف ہے مسلمان چاہے کسی بھی خطے یا دیس کا باسی ہو ایک دوسرے کا بھائی ہے اور ایک بھائی کا فرض ہوتا ہے اپنے بھائی کی مدد کرنا ۔یہ ہمارا ملی فریضہ بھی ہے اور ایمانی رشتے کا تقاضا بھی ۔ہمارا بیش بہا سرمایہ ، ہمارے وسائل و آلات اور ہماری تنظیمی سرگرمی کس کام کی ہے اگر ہم اپنے ضرورت مند بھائی کی مدد بھی نہیں کر سکتے ۔کیا اس کے ہم مکلف نہیں ہیں؟ یا البانیا اور اس طرح کے دیگر ممالک کی مدد کے لیے کوئی اور آئیں گے ؟ وہاں کے مسلمانوں کی فکری چارہ سازی، علمی امداد اور عملی رہ نمائی بھی اہل سنت ہی کے افراد کے ذمہ ہے اور یوں ہی اس معاشرے میں اسلامی احیا کو واقعی بناناہوگا۔
دور حاضر میں احیا اسلام کا لائحہ عمل :
وہ معاشرہ جو اسلامی اقدار کو بھول چکا ہو ، چاہے وہ مذہب مخالف حکومت کے سبب ہو یا تغیر زمان کی وجہ سے یا لوگوں کی پہلو تہی کے با وصف ، اس کے احیا کی پہلی سیڑھی ہے بیداری کیونکہ افراد میں تحریک پیدا کرنے کے لیے پہلے ان کے قلوب و اذہان کو متحرک کرنا ہو گا ۔شاعر مشرق کے بقول؎
اُٹھّو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمَرا کے در و دیوار ہِلا دو
جب تک اقوام کے ذہن میں احساس زیاں پیدا نہیں ہو گا تب تک اسے فعال نہیں بنایا جا سکتا ۔انسان کی فطرت میں یہ جوہر ودیعت فرما دیا گیا ہے کہ وہ بھلائی کا خواہاں ہے اور نقصان و زیاں سے بچتا ہے ۔اور یہ بھی ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جب اسے اپنا سرمایہ لٹتا ہوا نظر آتا ہے تب اس کا لہو گرم ہوتا ہے ۔فعالیت انگڑائی لیتی ہے اور حواس تحریک پیدا کرتے ہیں ۔ایک بار وہ بیدار ہو جائے پھر اس کی رہ نمائی اس کے مقصد حقیقی کی طرف کرنا آسان ہوجاتا ہے ۔
ایک مسلمان کے اندر یہ بیداری لانے کا احسن طریقہ وہ ہے جو قرآن نے اختیار کیا ، کہ اسے خیر (یعنی جنت) کی ترغیب دلائی جاے اور برائی (یعنی جہنم) سے ترہیب کی جاے ۔ترغیب و ترہیب کا یہ حسین امتزاج انسان کی فطرت سے ہم آہنگ ہے اور اسے خوف و رجا کے درمیان اس معتدل منزل میں رکھتا ہے جہاں وہ معاشرے میں ایک فعال کردار بھی ادا کر سکتا ہے اور دنیا سے بے نیاز ایک تقوی شعار فرد بھی بن سکتا ہے ۔جب معاشرے کی اکثریت ایسے مسلمین پر مشتمل ہو گی جو دنیا کو اپنے دلوں کی بجاے ہتھیلیوں میں رکھیں، تو کسی بھی معاشرے کا اسلامی احیاء یقینی ہو جاتا ہے ۔بیداری پیدا کرنے کے لیے درج ذیل اقدام کی ضرورت ہے:
٭ دین کا مضبوط قلعہ ہے ادارہ ، چاہے وہ مساجد ہوں، مدارس ہوں یا اسلامی جامعات۔ان علاقوں کا معائنہ کرنے کے بعد جہاں ان کی ضرورت ہے ، ایسی جگہ ادارہ قائم کیا جاے جہاں لوگوں کا آنا جانا آسان ہو اور زیادہ سے زیادہ افراد اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
٭ مضبوط اداروں کے ساتھ -ساتھ ضرورت ہے فعال زمینی کام کی ، چوں کہ ہر انسان ایک علاقے میں واقع ادارے تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا لہذا زمینی کام کرنے والی فلائنگ اسکواڈ ہو ں جو گھر -گھر ، محلہ -محلہ جا کر تبلیغ و ترویج کے فرايض کو انجام دیں ۔
٭ وقتاً -فوقتاً، ایسے اجلاس منعقد کیے جائیں جن میں ملک بھر سے افراد شامل ہوں ، بلکہ بیرون ملک سے بھی دانش ور حضرات کو مدعو کیا جاے اور وہ اسلامی یکجہتی کا پیغام دیں کہ مسلمان کسی بھی خطے کا ہو ایک دوسرے کا بھائی ہے۔
٭ لٹریچر ایک بہت بڑی طاقت ہے ، جس طرح ادارے اور افراد لوگوں میں بیداری پیدا کرتے ہیں ویسے ہی لٹریچر بھی ایک عمدہ ذریعہ ہے کہ یہ زیادہ معتبر بھی ہوتا ہے اور زیادہ وقت تک نفع بخش بھی ۔صحیح اسلامی عقائد و نظریات پر مشتمل رسائل، جرائد، اخبارات و کتابچہ شائع کیے جائیں اور ملک بھر میں تقسیم ہوں ، اسی کے ساتھ ان کا انگریزی و دیگر زبانوں میں معیاری ترجمہ ہو اور بیرون ممالک میں بھیجی جائیں ۔
٭ ہمیں سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کی اثر آفرینی کو ہر گز نہیں بھولنا چاہیے، یہ دور ٹیکنالوجی کی ترقی کا ہے ۔علما کی رہ نمائی میں صحیح عقائد ونظریات، مسائل و معلومات پر مشتمل پیچ بناے جائیں تاکہ سوشل میڈیا سے وابستہ افراد فائدہ حاصل کر سکیں۔
٭ آج کل ہر شخص کو موبائل فون میسر ہے اور موبائل پر سب سے مؤثر طریقہ موبائل ایپ کے ذریعہ دینی مواد کو عام کرنا ہے۔اس کام کے لیے ماہرین ڈیولپرس کی خدمات حاصل کی جائیں اور صحیح عقائد پر مشتمل مواد کو ایپ کے ذریعہ نشر کیا جاے ۔ایپ میں خوب صورت کتابت اور دل آویز سرورق کی جاذبیت ناظرین کی نگاہوں کو مقید کر لے اور وہ مواد کو دیکھے بغیر نہ رہ سکیں۔
٭ اسی طرح ویب سائٹس بھی علم و حکمت کا ایک گراں بہا خزانہ بن سکتی ہیں ، چوں کہ وہاں لاکھوں کتابیں، رسائل، آڈیو زوغیرہ کو اسٹور کر سکتے ہیں اور اپنے من چاہے وقت پر دیکھ سکتے ہیں ۔
٭ ایسے پلیٹ فارمس بنائے جائیں جہاں سنی عوام مستند سنی علما سے با آسانی رابطہ کرسکیں اور اپنے مسائل کا حل حاصل کر سکیں ۔
٭ اسکول کالج کے طلبہ کے لیے جز وقتی انصاب تیار کیے جائیں ، جن کے ذریعہ ہر عصری تعلیم سے جڑے بچے کو صحیح دینی سمجھ اور بنیادی اسلامی تعلیم حاصل ہو سکے۔اسی کے ساتھ اسے عصری تعلیم کے دوران پیش آنے والے خطرات، ملحد تحریکوں اور ان کے قلم کاروں سے بھی آگاہ کیا جاے تاکہ وہ ان سے خود کو محفوظ رکھ کر علم نافع حاصل کر سکے ۔
٭ خواتین معاشرے کا ایک اہم ستون ہیں ان کی صلاح و فلاح اوربہبود کے لیے مخصوص ادارے قائم کیے جائیں- تاہم انہیں بیرونی غیر اسلامی تاثر سے محفوظ کرنے کے لیے تربیتی نشستوں کا اہتمام ہو۔ خواتین کے مسائل کے لیے خواتین اسکالرس کی ٹیم ہر خطے میں موجود ہو تاکہ وقت آنے پر ان کی رہ نمائی کی جا سکے۔
اگر ہم غور کریں تو اہل اسلام کے آ گے ایک وسیع محاذ ہے جس پر ہمیں کام کرنے کی ضرور ت ہے ۔ذاتی اور شخصی اختلافات سے اوپر اٹھ کر ہمیں ان معرکوں پر دھیان مرکوز کرنا چاہیے ۔البانیا ، جس کی یہاں کیس اسٹڈی کی گئی، وہ تو ان چند ملکوں میں سے ایک ملک ہے جہاں اسلامی احیا کی ضرورت ہے ؛ چین، ہسپانیا، ناروے ، جنوبی افریقہ وغیرہ کئی ایسے ممالک ہیں جہاں احیاء اسلام کا محاذ کھلا ہوا ہے ، مگر وہاں پہنچتی ہیں تو قادیانی جیسی غیر اسلامی تحریکات۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے قومی اور ملی فرائض کو پورا کرنے کی مسلسل کوششیں کرتے رہیں۔
سبَق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
(مضمون نگار روہیل کھنڈ یونیورسٹی سے اسلامیات، استشراقیات و استغرابیات میں ریسرچ اسکالر ہیں)
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 فروری تا 26فروری 2022