اقلیتوں کی آواز کو خاموش کرنے کی سازش
دہلی اقلیتی کمیشن کے چیرمین ظفر الاسلام خان پربغاوت کا کیس
ابھے کمار، دلی
سنیچر کی صبح جب آنکھ کُھلی اور موبائیل پر ایک دوست کا میسج دیکھا تو دل رنجیدہ ہو گیا۔حالاں کہ جو کچھ بھی پڑھا اس کا خدشہ دل میں پہلے سے تھا۔ میسج ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ ٢مئی کی ایک خبر تھی جس کو پڑھ کر یہ معلوم ہوا کہ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف ملک سے بغاوت (sedition) اور دو فرقوں کے درمیاں منافرت پھیلانے کا کیس درج کیا گیا ہے۔ خبر پڑھ کر میں تھوڑی دیر کے لیے خاموش بیٹھا سوچتا رہا۔
دل میں یہ سوال بار بار اٹھ رہا تھا کہ آخر یہ ملک کس سمت میں جا رہا ہے؟ جب آئینی منصب پر فائز کوئی شخص اپنی رائے دینے پر ملک کا ’’باغی‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے تو پھر عام لوگوں کی اظہار رائے کا دفاع کون کرے گا؟ اظہار رائے ہی نہیں ملک کا آئین اظہار اختلاف (dissent) کو بھی جمہوریت کا ایک اہم جز قرار دیتا ہے۔ اگر اقلیتوں کے حقوق کی بات کرنے کی ’’پاداش‘‘ میں اقلیت کمیشن کے سربراہ کو بغاوت کا ملزم قرار دیا جا سکتا ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے راستے ہموار کیے جا سکتے ہیں تو عام انسان، بالخصوص محکوم طبقات کی بولنے کی آزادی کا کون محافظ ہوگا؟ یہ سوال بڑی دیر تک میرے دل ودماغ میں گشت کرتا رہا۔ یہ سوال ملک کے جمہوری اور انصاف پسند لوگوں کو بھی بے چین کیے ہوئے ہے۔ انہوں نے بھی ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے دفاع میں بیانات جاری کیے ہیں۔ یہ کنتی افسوس کی بات ہے کہ برسر اقتدار بھگوا طاقتیں اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی جذبے سے کارروائی وبا کی حالت میں بھی کر رہی ہیں۔ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان پر حملے کو اقلیتوں اور مظلوموں کے خلاف حملے سے تعبیر کا جا رہا ہے۔ اپنی پوری زندگی میں ڈاکٹر ظفر الاسلام خان محکموں کے حق کے لیے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ وہ عربی اور انگریزی کے بڑے صحافی بھی ہیں۔ وہ 16 سالوں تک انگریزی کے مشہور میگزین ’’ملی گزیٹ‘‘ کے مدیر رہے ہیں۔ انہوں نے عربی، انگریزی، اردو میں 50 بھی زیادہ کتابیں لکھی ہیں جو کئی یونیورسٹیوں میں درسی کتاب کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہیں۔ انہوں نے ملک وملت کے اہم مسائل پر اہم کتابیں اور دستاویز بھی شائع کیے ہیں جن کا حوالہ خوب دیا جاتا ہے۔ ملی تنظیم ’’آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت‘‘ کے وہ سابق صدر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے اور بھی علمی وادبی کارنامے ہیں۔ وہ غریبوں اور مفلسوں کی مدد کے لیے بھی سرگرم رہے ہیں۔ اتنی بڑی شخصیت کے اوپر ہو رہے رکیک قسم کے حملے کو دیکھ کر بڑی کوفت ہو رہی ہے۔
میڈیا کی خبر کے مطابق ان کے خلاف ایف آئی آر جنوبی دہلی کے بسنت کنج پولیس تھانہ میں درج کیا گیا ہے۔ اب یہ کیس دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کو بھیج دیا گیا ہے، جو انسداد دہشت گردی سے متعلق امور کی تفتیش کرتا ہے۔ دہلی اسپیشل سیل کے جوائنٹ کمشنر نیرج ٹھاکر نے اس بات کی تصدیق کی کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 124 A (بغاوت) اور 153 A (دو فرقوں کے درمیاں منافرت پھیلانے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ تعزیرات ہند کی دفعہ 124 A کا جرم ثابت ہونے پر انہیں 3 سال کی قید یا جرمانہ اور قید دونوں کا اطلاق بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ عمر قید کی سزا بھی مل سکتی ہے۔ 153 A میں 3 سال کی قید، جرمانہ اور قید یا پھر 5 سال کی قید ہو سکتی ہے۔
28 اپریل کو پوسٹ کیے گیے ان کے ٹویٹ کے بعد سے ہی ہندو فرقہ پرست ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ ان کے موقف کو سچ بنانے کے لیے میڈیا کا ایک حصہ بھی ساتھ ہے۔ کئی دنوں سے ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف زہر افشانی کی جا رہی ہے۔ ان کو بد نام کرنے کے لیے جھوٹے اور غلط الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ ان کے مسلم تشخص کا ’’دیو‘‘ کھڑا کیا جا رہا ہے۔ ہندی کے بعض نیوز چینلوں نے ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کی حب الوطنی پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ ’’کھائیں گے ہندوستان کا اور گائیں گے عرب کا‘‘ کے عنوان سے ایک مشہور ہندی چینل نے پروگرام نشر کیا۔ پھر ایک دوسرے ہندی چینل نے معاملے کو اسی طرح فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے کہا ’’مذہب کے نام پر فرقہ وارانہ سیاست کیوں؟‘‘
گزشتہ کئی سالوں سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ ہندی چینل صحافت کے بجائے برسر اقتدار بھگوا طاقتوں کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بن گیا ہے۔ سرکار سے فائدے حاصل کرنے کی خاطر اور ٹی آر پی بڑھانے کے لیے وہ ہر بات کو فرقہ پرستی کے زہر میں گھول دیتا ہے۔ وہ مسلم مخالف ایجنڈے کو مرچ مسالہ لگا کر ایسا پیش کرتا ہے کہ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے ساتھ بھی دیکھا جا رہا ہے۔ اپنے فائدے کی خاطر یہ ہندی چینل اس بات کو فراموش کر چکا ہے کہ اس سب کا بڑا نقصان جمہوریت کا ہو رہا ہے۔ ان سب سے عوام کی رائے متعصب ہو رہی ہے اور ان کے اندر ایک خاص مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف بہت زیادہ غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ایسا محسوس ہو رہا کہ جو کچھ بھی میڈیا دکھا رہا تھا اس کی تصویر فرقہ پرست طاقتوں نے پہلے ہی تیار کر رکھی تھی۔
در اصل ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف بھگوا طاقتیں کام کر رہی ہیں۔ یکم مئی کو ’’دینک جاگرن‘‘ میں چھپی خبر کے مطابق، دہلی بی جے پی کے ارکان اسمبلی نے ایل جی انیل بیجل سے ملاقات کی اور ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کو اقلیتی کمیشن کی چیرمین شپ کے عہدے سے برخاست کرنے اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ دہلی اسمبلی کے حزب اختلاف کے لیڈر رام ویر سنگھ ودوڈھی اور ایم ایل اے وجیندر گپتا نے راج نواس جا کر ڈاکٹر ظفر الاسلام کے خلاف تحریری شکایت کی اور کہا کہ انہوں نے بھارت سرکار کو مسلم مخالف بتا کر ’’راجدروہ‘‘ (بغاوت) کی ہے۔ بی جے پی کے ارکان اسمبلی نے یہ بھی الزام لگایا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر ملک کی شبیہ خراب کی ہے اور ملک کے امن وامان کو خطرے میں ڈالنے کی سازش کی ہے۔
سوشل میڈیا پر بھگوا شدت پسندوں نے ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف آگ اگلنے میں ساری حدیں پار کر دی ہیں۔ ’’ہیٹ سپیچ‘‘ کے بہانے ڈاکٹر ظفر الاسلام کو نشانہ بنانے والے فرقہ پرست خود نفرت انگیز اور اشتعال انگیز پوسٹ ڈال رہے ہیں۔ٹی وی شو میں بی جے پی کا چہرہ سمبیت پاترا نے ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کو ذاکر نائک کو ’’ہیرو‘‘ کہنے کی مذمت کی ہے۔ بی جی پی سے وابستہ سپریم کورٹ کی وکیل مونیکا ارورا نے ان پر ہیٹ سپیچ دینے کا الزام لگایا اور ان پرمقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ بی جے پی کی حامی ’’سواراج‘‘ نیوز ویب پورٹل کی سینئر ایڈیٹر اری ہنت پوریا نے 30 اپریل کے لکھے ہوئے ایک مضمون میں ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے بہانے عام آدمی پارٹی اور کانگریس کو بھی نشانہ بنایا۔ پھر سوشل میڈیا پر بہت سارے ایسے پوسٹ بھی گھمائے گئے جس میں حکومت اور پولیس کو کھلے عام دھکی دی گئی کہ ’’ہندوستان میں رہ کر ہندوؤں کو ہی دھمکانے کی بات کرنے والوں پر کارروائی کب ہوگی‘‘؟
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے آخر کیا کہہ دیا ہے جس کی وجہ سے ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی بات کی جا رہی ہے؟ 28 اپریل کے روز ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے ایک پوسٹ سوشل میڈیا پر ڈالا جس میں انہوں نے ’’ہندی مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے کویت کا شکریہ ادا کیا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندو شدت پسند (bigots) یہ فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان عرب اور دنیا کے مسلمانوں کی نظوں میں دوست (goodwill) سمجھے جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے ہزاروں سالوں سے اسلامی ادب، عربی زبان کی خدمت کی ہے۔ انہوں نے آخری جملوں میں شدت پسندوں کو متنبہ کیا کہ ابھی تک ہندی مسلمانوں نے اپنے اوپر ہو رہی فرقہ پرستوں کے نفرت انگیز مہم کی شکایت عرب اور مسلم دینا میں نہیں کی ہے۔ جس دن ایسا کرنے کے لیے مسلمانوں کو مجبور کر دیا جائےگا اس دن شدت پسند برفانی تودے کی کیفیت محسوس کریں گے۔ یہ پوسٹ عرب ممالک میں ’’اسلاموفوبیا‘‘ کے خلاف چل رہی مہم کے بہت بعد آیا۔ اسلاموفوبیا کے خلاف اس مہم کی زد میں ہندو شدت پسند عناصر اور ان کی تنظیمیں ہیں۔ سوشل سائنس کی اصطلاح میں اسلاموفوبیا کا مطلب ہے مسلمان اور اسلام کے خلاف نفرت انگیز خیالات یا تعصب کا اظہار کرنا جن کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہے۔ ہندوستان کی فرقہ فرست طاقتیں مسلسل مسلمانوں کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگا کر بدنام کرتی رہتی ہیں۔ وہ مسلمانوں کو بھارت کی ساری پریشانیوں کا قصوروار بھی گردانتی ہیں اور غیر مسلمانوں کو مسلمانوں کا ڈر دکھا کر ووٹ بٹورنا چاہتی ہیں۔ وہ یہ سب نادانی میں نہیں کرتیں بلکہ یہ ایک منصوبے اور سازش کے تحت ایسا کیا جاتا ہے۔
ایسا کر کے وہ اقتدار میں قابض تو ہو گئی ہیں مگر اس کا بڑا منفی اثر دیگر جگہوں پر نظر آ رہا ہے۔ بھارت کی شبیہ باہر کے ملکوں میں دن بدن خراب ہو رہی تھی۔ عرب کے مسلمان بھارت کو اپنا دوست سمجھتے ہیں مگر یہاں بڑھ رہی فرقہ پرستی اور اسلامو فوبیا کے واقعات کو دیکھ کر نالاں ہیں اور ایسا ہونا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ یوروپ اور امریکہ بھی بھارت میں بڑھ رہی عدم رواداری پر اپنے اعتراضات ظاہر کرتے رہے ہیں۔ یہ سب کسی بھی محب وطن کے لیے دکھ کی بات ہے، مگر اس کا علاج باہر کے ملکوں کو برا بھلا کہنے سے پہلے ملک کے اندر جاری نفرت کی سیاست کو ختم کرنا ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ ارباب اقتدار سماج میں پھیل رہی عدم رواداری اور فرقہ پرستی کو تسلیم کرنے سے ہمیشہ کتراتے رہے ہیں۔عرب ملکوں میں اسلامو فوبیا کے خلاف مہم کی چنگاری لگانے میں فرقہ پرستوں کا ہی ہاتھ ہے۔ بی جے پی کے جنونی بنگلور کے ایم پی تیجسوی سوریہ نے پانچ سال پہلے ایک بے حد گھٹیا ٹویٹ کیا تھا جس کو ان دنوں کھود کر نکال لیا گیا ہے۔ اس ٹویٹ نے عالم عرب کے غصے کو شعلے کی شکل دے دی ہے۔ یہ ٹویٹ تیزی سے شئیر ہوا اور بھگوا شدت پسند تنظیم پر اسلامو فوبیا کے چارچ لگائے گیے۔ سوشل میڈیا پر سرگرم کویت کے عبد الرحمن النصار، مجمل الشارکہ نے اس مہم کی قیادت کی۔پھر کچھ روز بعد 19 اپریل کو آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلامو فوبیا کے اٹھتی موج کو روکے اور مظلوم اقلیت، مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرے‘‘۔
جو لوگ اس پروپیگنڈے کو سچ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے بھارت کو باہر کے ملکوں میں بدنام کیا ہے وہ دھیان دیں کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے متنازعہ پوسٹ سے تقریباً 10 دن پہلے سے ہی اسلامو فوبیا کے خلاف مہم چل رہی تھی اس لیے یہ بات قابلِ یقین نہیں ہے کہ اگر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا پوسٹ سامنے نہیں آتا تو دنیا کو کچھ بھی خبر نہ ہوتی۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان سے پہلے کئی لوگوں نے بھارت میں جاری مسلم مخالف سرگرمیوں کو تسلیم کیا ہے۔ مثال کے طور پر انگریزی کی مشہور ناول نگار اور سماجی جہد کار ارون دھتی رائے نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف بھارت میں نفرت انگیز مہم چل رہی ہے۔ اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ فروری میں مسلم مخالف تشدد کے فوراً بعد اور اب کورونا وبا کے درمیان ہو رہا ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ اروندھتی رائے کا یہ بیان ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے پوسٹ سے 10 روز پہلے آیا تھا۔ خود آر ایس آیس کے سربراہ موہن بھاگوت نے بھی اشاروں اشاروں میں مسلمانوں کے خلاف ہو رہے بھید بھاو کو تسلیم کیا اور اپنے کارکنان سے کہا کہ وہ بغیر بھید بھاو کے لوگوں کی مدد کریں کیونکہ ’’وہ ہمارے ہیں‘‘ (’’جن ستا‘‘، 26 اپریل)۔
اس کے بعد یونائیٹڈ اسٹیٹ کمیشن فار انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم (یو ایس سی آئی ایف) نے اپنی رپورٹ میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کو 14 ایسے ملکوں کی فہرست میں ڈال دیا ہے جہاں مذہبی آزادی کو خطرہ ہے‘‘ (’’دینک جاگرن‘‘، 29 مئی)۔ اس طرح آپ دیکھ سکتے ہیں کہ فرقہ پرستوں کی یہ دلیل سچ پر مبنی نہیں ہے کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے پوسٹ کی وجہ سے بھارت کا نام دنیا میں بدنام ہوا۔عرب ممالک کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک بھی بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہو رہے تعصب اور تشدد کو نوٹ کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں مسلمان ایک کے بعد ایک پریشانی سے دو چار ہوئے ہیں۔ پہلے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے کے الزام میں ان کو بدنام کیا گیا اور ان پر پولیس کے ڈندے برسائے گئے۔ پھر فروری میں دہلی فسادات رونما ہوئے۔ سلسلہ صفحہ نمبر ۳
بسلسلہ صفحہ نمبر ۲
فساد کی آگ ابھی بجھی بھی نہ تھی اور مسلمانوں کی آہیں اور سسکیاں تھمی بھی نہ تھیں کہ کورونا وبا کو پھیلانے کا الزام ان پر تھوپ دیا گیا۔ پھر ان کو ’’وائرس‘‘ کہہ کر گالیاں دی گئیں۔ پھر حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ مسلمانوں کو بعض علاقوں میں داخل ہونے سے روکا گیا ان کا معاشی بائیکاٹ کیا گیا۔ افسوس کی بات ہے کہ بھگوا شدت پسند لیڈر بڑی بے شرمی سے لوگوں (ہندؤوں) سے یہ اپیل کر رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں سے سبزی نہ خریدیں۔ کیا اندھے بھکت یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا بھی ان کی طرح اندھی ہے اور ان واقعات سے نا بلد ہے؟
اتنا ہی نہیں وبا کے درمیان جہاں دوسرے ملکوں کی حکومتیں قیدیوں کو جیل سے رہا کرنے کے اقدامات کر رہی ہیں، وہیں ہمارے ملک کی حکومت اپنے حریفوں سے جیلوں کو بھر رہی ہے۔ دہلی میں دنگا کرانے والے فرقہ فرست عناصر آزاد گھوم رہے ہیں۔ ان میں سے کئی کو تو ہندو سماج کا ’’ہیرو‘‘ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے مگر سیکولرازم اور آئین کی لڑائی لڑنے والے جہد کاروں کو جھوٹے مقدموں میں پھنسایا جا رہا ہے۔ حکومت کی توانائی وبا سے لڑنے میں کم اور اپنے ناقدین سے لڑنے میں زیادہ خرچ ہوتی دکھائی رہی ہے۔بغاوت اور یو اے پی اے جیسے کالے قوانین کا بےجا استعمال کیا جا رہا ہے۔ خاص کر ابھرتے ہوئے نوجوان مسلم لیڈروں کی زندگی برباد کی جا رہی ہے۔ حکومت کے نشانے پر وہ سبھی لوگ ہیں جو ان کی ہر بات پر تالی نہیں بجاتے۔ کیا ان باتوں کی خبر دنیا نہیں لے رہی ہے اور بھارت کی شبیہ خراب نہیں ہو رہی ہے؟ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا مذکورہ پوسٹ اگر نہیں بھی آتا تب بھی دنیا کو بھارت میں مسلمانوں کی حال زار کی خبر تھی۔
مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو ابھی بھی لگتا ہے کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کو یہ پوسٹ منظر عام پر لانے کا یہ معقول وقت نہیں تھا۔ ان میں سے کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس پوسٹ کے الفاظ کا انتخاب اور بہتر ہو سکتا تھا۔ ان باتوں سے ڈاکٹر ظفر الاسلام خان شاید با خبر تھے۔ لہذا انہوں نے خود آگے آ کر معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسا انہوں نے نیک نیتی سے کیا۔ وہ نہیں چاہتے کہ وبا کی حالت میں کوئی تنازعہ پیدا ہو۔ پھر انہوں نے بہت سارے پوسٹ ڈالیں اور اپنے موقف سے ایک حد تک رجوع بھی کیا اور جن کو ان کا پوسٹ ناگوار گزرا ان سے معافی بھی مانگ لی۔ انہوں نے فرقہ پرستوں کے پروپیگنڈے سے پیدا ہوئے تذبذب کو دور کرنے کے لیے یہ بات پھر دہرائی کی وہ ایک محب وطن ہیں اور ان کو ملک کے جمہوری نظام پر پورا یقین ہے۔ ’’میں نے اپنے ملک کے خلاف کبھی بھی کسی بیرونی حکومت سے شکایت نہیں کی ہے اور مستقبل میں ایسا کرنے کا میرے کوئی اراداہ نہیں ہے۔ میں ایک محب وطن ہوں اور میں نے اپنے ملک کا دفاع ہمیشہ باہر کے ملکوں میں کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں ملک کے مسائل کو پر ہمیشہ بولتا رہا ہوں، مجھے ملک کے سیاسی نظام، آئین، عدلیہ میں پورا یقین ہے جو ان مسائل کا حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ کرگل جنگ، مسئلہ کشمیر اور دیگر ایشوز پر وہ عربی میڈیا میں بھارت کے موقف کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ ہندی مسلمانوں نے کبھی بھی اپنے مسائل کی شکایت باہر کے ملکوں سے نہیں کی ہے اور وہ بھارت کے دیگر مسلمانوں کی طرح آئین ہند، ملک کی بہترین ادارے اور قانون کی بالادستی میں یقین رکھتے ہیں۔
آخر میں یکم مئی کے ایک بیان میں ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے اس بات کو بھی تسلیم کر لیا کہ ان کا 28 اپریل والا ٹویٹ غلط وقت پر آیا۔ انہوں نے مزید کہا ملک میں طاری طبی ایمرجنسی کی صورت حال کے مد نظر یہ ٹیوٹ غیر حساس تھا۔پھر انہوں نے اس کے لیے عوام سے معافی مانگ لی۔ ایسا کر کے وہ جلتی ہوئی آگ کو بجھانا چاہتے تھے مگر فرقہ پرستوں کے ارادے کچھ اور ہی تھے۔
حالاں کہ 28 اپریل کے متنازعہ ٹویٹ میں ایسا کچھ تھا بھی نہیں تھا جس کے لیے اتنا بڑا ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا ہے۔ ملک کی نازک صورت حال کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے وسیع النظری کا مظاہر کرتے ہوئے خود اس کے لیے معافی مانگ لی۔ اس سے ان کا قد اور بھی بڑھ گیا ہے۔ مگر بھگوا شدت پسند صلح کرنے سے زیادہ سیاست کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ یہ تنازعہ اتنی جلدی ختم ہو جائے۔ان کو ایسا کرنے کے لیے اوپر سے اشارہ ملتا ہے۔
اربابِ اقتدار کورونا وبا کے دوران عوام کو راحت دینے میں ناکام رہے ہیں، مزدور اور غریب کے مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں جو کسی وقت بھی پھوٹ کر باہر آ سکتے ہیں۔ اس لیے ان کی پوری کوشش ہے کہ رائے عامہ کو کسی طرح ہندو بنام مسلمان کے مسائل میں الجھا دیا جائے۔ یہ کام بہت دنوں تک تبلیغی جماعت کو ’’ویلن‘‘ بنا کر کیا گیا مگر اب اس کا بھی اثر کم ہونے لگا ہے۔ اسی دوران مسلم نوجوانوں کے خلاف سخت ترین دفعات لگائی جا رہی ہیں اور ان کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف چلائی جا رہی نفرت انگیز مہم بھی اسی سازش کا حصہ ہے، ان سب کا مقصد عوام کے سامنے ایک مصنوعی خطرہ بنا کر پیش کرنا ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے ایسا پوسٹ لکھ کر خود اپنے لیے مصبیت کو دعوت دی ہے۔ اس بات بھی درست نہیں ہے۔کیوں کہ اگر صرف ایک پوسٹ کی بات ہوتی تو فرقہ پرست شاید اس پر اتنا ہنگامہ کھڑا نہیں کرتے اور ہزاروں لاکھوں پوسٹ کی طرح یہ بھی نظر انداز ہو جاتا۔ ممکن یہ بھی تھا کہ ان کی معافی کے بعد معاملہ ٹھنڈا پڑ جاتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ معافی مانگنے کے بعد بھی ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف سخت ترین دفعات لگائے گئے ہیں۔یہ سب اس لیے کیا گیا ہے تاکہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کی آواز بند کیا جائے۔ وہ بہت دنوں سے بھگوا شدت پسندوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹک رہے تھے۔ فرقہ پرست یہ کبھی نہیں چاہتے کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان جیسا با صلاحیت، تجربہ کار، معتدل، انصاف پسند، اور ایماندار شخص کسی اہم ادارے کی ذمہ داری سنبھالے۔ زندگی کے ہر شعبے میں مچی نا انصافی کے خلاف ڈاکٹر ظفر الاسلام خان آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ ان کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے نہیں ہے، اس لیے ان پر دباو ڈالنا بھی مشکل کام ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی پڑھائی، لکھائی اور علمی کاموں میں لگا دی ہے اور اس کی مدد سے وہ محکوم، بالخصوص مسلمانوں کے مسائل پر، پُرامن اور جمہوری طریقے سے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ علمی کاوشوں کے علاوہ وہ سماجی اور سیاسی امور میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ صحیح معنوں میں وہ بھارت کے ایک بڑے ’پبلک انٹلیکچوئل‘ ہیں۔
فرقہ پرستوں کو ان سے بیر اس لیے بھی ہے کیوں کہ انہوں نے دہلی اقلیتی کمیشن جیسے بے جان ادارے میں جان ڈال دی ہے۔ آج عوام اس ادارے کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بڑی امید سے دیکھتے ہیں۔ لوگوں کا اعتماد بحال کرنے میں انہوں نے کافی محنت کی ہے۔ فروری میں ہوئے دہلی دنگوں کے دوران ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے اپنی طاقت سے کہیں زیادہ کام کیا اور فرقہ پرستوں کے بہت سارے منصوبوں کو ناکام کر دیا ہے۔ انہوں نے دہلی فساد کے متاثرین کی مدد کی اور باز آباد کاری میں بھی آگے رہے۔ پولیس کی نا اہلی پر نوٹس بھیجا اور انسانی حقوق کی پامالی کے پیش نظر ان سے رپورٹ طلب کی۔ اگر ان کے ساتھ حکام نے اچھی طرح سے تعاون کیا ہوتا تو عوام کو اور بھی راحت ملی ہوتی۔ مگر اس کے باوجود ان کے حوصلے کبھی پست نہیں ہوئے۔ جب تبلیغی جماعت کے خلاف جم کر پروپیگنڈا ہو رہا تھا تب بھی انہوں نے مثبت طریقے سے مداخلت کی تھی اور تبلیغی جماعت کے نام سے شائع شدہ اعداد وشمار پر اعتراض ظاہر کیا تھا کیوں کہ اس سے مسلمانوں کے خلاف ہوا تیار ہو رہی تھی۔ ان کے ان اقدامات سے مسلمانوں کو بڑی راحت ملی اور فرقہ پرستوں کے بہت سارے ناپاک منصوبے ناکام ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بھگوا شدت پسندوں کے نشانے پر تھے۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان آج ملک اور ملت کی خدمت کرتے کرتے فرقہ پرستوں کے شکار بن گئے ہیں۔ کیا ہمیں ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے؟ کیا تمام جمہوری طاقتوں کو ان کے ساتھ نہیں کھڑا ہونا چاہیے؟ کیا ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کی آواز کو خاموش ہونے سے اقلیتوں کی آواز خاموش نہیں ہو جائے گی؟ اگر ایسا ہے تو پھر ملی رہنماؤں اور تنظیموں کو اپنا فرض ادا کرنے کے لیے سامنے آنا چاہیے۔
(ابھے کمار جے این یو سے پی ایچ ڈی ہیں۔)
[email protected]
***
گزشتہ کئی سالوں سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ ہندی چینل صحافت کے بجائے برسر اقتدار بھگوا طاقتوں کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بن گیا ہے۔ سرکار سے فائدے حاصل کرنے کی خاطر اور ٹی آر پی بڑھانے کے لیے وہ ہر بات کو فرقہ پرستی کے زہر میں گھول دیتا ہے۔ وہ مسلم مخالف ایجنڈے کو مرچ مسالہ لگا کر ایسا پیش کرتا ہے کہ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے ساتھ بھی دیکھا جا رہا ہے۔ اپنے فائدے کی خاطر یہ ہندی چینل اس بات کو فراموش کر چکا ہے کہ اس سب کا بڑا نقصان جمہوریت کا ہو رہا ہے۔ ان سب سے عوام کی رائے متعصب ہو رہی ہے اور ان کے اندر ایک خاص مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف بہت زیادہ غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ایسا محسوس ہو رہا کہ جو کچھ بھی میڈیا دکھا رہا تھا اس کی تصویر فرقہ پرست طاقتوں نے پہلے ہی تیار کر رکھی تھی۔