اقدامی ایجنڈے پر امت کا اتحاد ضروری:امیر جماعت اسلامی ہند
اتحاد کے جذبہ کی عوامی سطح تک منتقلی علما و قائدین کی اہم ذمہ داری
(اتحاد امت کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں مجلس صدارت کے رکن کی حیثیت سے
امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی کا صدارتی خطاب)
مجلس صدارت کے دیگر محترم ارکان، آج کے اس اجلاس کے داعی حضرات، معزز قائدین اور علمائے کرام!
یہ ہم سب کے لیے ایک تاریخی اور خوشی کا موقع ہے کہ مختلف مسالک اور جماعتوں کی نمائندہ ذمہ دار شخصیتیں آج یہاں جمع ہیں اور اپنی تاریخ کے ایک نازک موڑ پر امت کے اتحاد کی تدابیر پر غور کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کوشش کو کامیاب فرمائے۔ داعیانِ اجلاس مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، جناب ڈاکٹر منظور عالم اور دیگر ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے مسلسل سنجیدہ کوششوں کے ذریعہ اس اجلاس کے انعقاد کو یقینی بنایا۔ خدا کرے کہ یہ اجلاس پائیدار اتحاد کی سمت ایک اہم سنگ میل ثابت ہو۔
محترم حضرات! آزادی کے بعد امت کے اتحاد کی جو کوششیں ہوئی ہیں وہ زیادہ تر وقتی اور دفاعی ایجنڈے پر مرکوز رہی ہیں۔ پرسنل لا کا تحفظ، مسلمانوں کے جان ومال کا تحفظ، حکومتوں کے ظالمانہ فیصلوں کی مزاحمت وغیرہ بے شک نہایت اہم کام تھے اور تاریخ کے مختلف مرحلوں میں ان کاموں کی بڑی اہمیت تھی اور آج بھی ہے۔ الحمد للہ ہمارے بعض اہم فورم ان مقاصد کے لیے سرگرم کار بھی ہیں۔
وقتی اور دفاعی ایجنڈے کی اہمیت کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ وہ کسی پائیدار مستقل اتحاد کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم مستقل ایجابی اور اقدامی ایجنڈے پر امت کے اتحاد کی سمت آگے بڑھیں۔ آج مختلف حضرات نے جو تقریریں کی ہیں، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امت کے ایجنڈے اور مطلوب مقاصد اور کاموں پر ہم سب کے درمیان بڑی حد تک اتفاق ہے۔
مولانا سجاد نعمانی نے بہت صحیح فرمایا کہ اس وقت ہماری ایک بڑی ضرورت اس ملک کی اکثریت سے قربت پیدا کرنا، ان سے بات چیت کرنا اور ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ہے۔ ہمیں اپنے قول وعمل سے ان کے سامنے اسلام کا صحیح تعارف بھی پیش کرنا ہے۔ ان تک اسلام کا پیغام اور اس کی دعوت پہنچانا ہے۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ اس اہم کام کی ضرورت پر بھی ہمارے درمیان اب اتفاق ہوا ہے۔
مسلم معاشرے کی اصلاح اور اسے دین کا عملی نمونہ بنانے کی کوششیں تو ہمیشہ سے ہمارا متفق علیہ ایجنڈا رہا ہے۔ امت کے تمام طبقات اس کام کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔
امت کے اندر تعلیم عام ہو، افراد امت کی معاشی ترقی ہو، ان کا سیاسی رسوخ بڑھے، ان کی سماجی طاقت میں اضافہ ہو، ان کا ضعف اور بے وزنی ختم ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام بھی ہمارے درمیان اب بڑی حد تک متفق علیہ بن چکے ہیں۔
اب امت کے تمام ہی طبقات خدمت خلق کی طرف بھی متوجہ ہیں۔ ہم عام انسانوں کی خدمت کریں، ان کے دل جیتیں، اس ملک میں ہماری امیج اثاثے Asset کی بنے، بوجھ Liability کی نہیں۔
اس طرح یہ چار کام یعنی غیر مسلموں سے بامقصد کمیونکیشن، مسلمانوں کی اصلاح، مسلمانوں کا امپاورمنٹ اور خدمت خلق، یہ بھی اب متفق علیہ ایجنڈے کی حیثیت اختیار کر رہے ہیں۔ آخر کیوں نہیں ہم اس ایجابی ایجنڈے کی بنیاد پر متحد ہوں اور اسے پوری امت کا ایجنڈا بنا دیں؟ مشترک مقصد اور مشترک ایجابی ایجنڈا ہی اصلاً پائیدار اتحاد کی ضمانت ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ ایجنڈا ہمارے پاس موجود ہے۔ پروفیسر اخترالواسع نے کامن منیمم پروگرام کی بات کہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس امت کے پاس کامن میگزیمم پروگرام ہے۔ بہت کم باتیں ہیں جن پر ہمارے رائیں مختلف ہو سکتی ہیں بیشتر امور مشترک ہیں۔ ہمارا مقصد اور ایجنڈا ایک ہے تو کیوں نہیں ہم سب مل کر اس ایجنڈے پر کام کریں؟
ربیع الاول کا مہینہ آرہا ہے۔ آں حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی ہر زمانے میں مسلمانوں کے اتحاد کی اہم بنیاد رہی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس مرتبہ ہم سب مل کر ربیع الاول کو ماہ رحمت کے طور پر منائیں۔ نبی رحمت ﷺ کی پاکیزہ سیرت اور آپ کے احسانات سے برادران وطن کو ہم سب مل کر متعارف کرائیں؟
کئی مقررین نے مسلمان لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادیوں کا مسئلہ اٹھایا اور اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کیا اس مسئلے کا ایک اہم سبب نکاح کا مشکل ہونا نہیں ہے؟ اور کیا آسان نکاح کی ترویج ہم سب کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے؟ کیوں نہیں ہم سب مل کر امت کے اندر اس مقصد کے لیے ایک بڑی معاشرتی تبدیلی کی خاطر کام کریں؟ ہم سب مل کر کام کریں گے تو ان شاء اللہ نتائج بھی جلد برآمد ہوں گے۔
لڑکیوں کو وراثت میں حصہ ملے اور ورثے کی تقسیم شریعت کے مطابق ہو، اس کی ضرورت کا ہم میں سے کون قائل نہیں ہے؟ کیا اس کے لیے ہم سب مل کر کوشش نہیں کر سکتے؟
میں سمجھتا ہوں کہ اتحاد کے لیے شاید کسی اور تنظیم یا وفاق کی ضرورت نہیں ہے۔ اصل ضرورت مشترک ایجنڈے اور مشترک وژن کی ہے۔ ہم ساتھ بیٹھیں اور مشترک امور پر مل جل کر کام کریں تو خود بخود امت میں اتحاد کی فضا پیدا ہو گی۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس طرح بار بار بیٹھ کر ہمارا مشترک ایجابی ایجنڈا تشکیل پائے اور ایک دوسرے سے کوآرڈنیشن کے ساتھ مل جل کر مختلف چھوٹے بڑے مقاصد ہم حاصل کرتے جائیں۔
محترم اکابرینِ امت! میں اس موقع پر ایک اور بات کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ اتحاد کی جو فضا یہاں نظر آ رہی ہے وہ نیچے تک، ایک ایک گاوں تک، ایک ایک مسجد تک منتقل ہونی چاہیے۔ یہاں مرکزی سطح پر ہم ایک ساتھ بیٹھتے بھی ہیں اچھے ماحول میں مل جل کر کام بھی کرتے ہیں لیکن یہ اسپرٹ نیچے تک منتقل نہیں کر پاتے۔ مقامات کی سطحوں پر فرقہ، مسلک اور نظریہ کی لڑائیاں اور کشمکش جاری رہتی ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس پیغام کو ہر سطح پر عام کریں۔ جو لوگ جماعتوں اور تنظیموں کے ذمہ دار ہیں وہ اپنے کارکنوں میں، جو مشائخین کرام ہیں وہ اپنے ارادت مندوں میں اور جو علمائے کرام ہیں وہ اپنے شاگردوں اور متبعین میں، غرض ہر ایک اپنے حلقہ اثر میں یہ جذبہ عام کرے، یہ نہایت ضروری ہے۔
جماعت اسلامی ہند، ہمیشہ امت میں اتحاد کے لیے ہر سطح پر کوشاں رہی ہے۔ اس کوشش میں بھی ہم پورے اخلاص کے ساتھ اپنا ہر ممکن تعاون پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کوششوں کو کامیاب فرمائے۔ آمین
***
اتحاد کی جو فضا یہاں نظر آ رہی ہے وہ نیچے تک، ایک ایک گاوں تک، ایک ایک مسجد تک منتقل ہونی چاہیے۔ یہاں مرکزی سطح پر ہم ایک ساتھ بیٹھتے بھی ہیں اچھے ماحول میں مل جل کر کام بھی کرتے ہیں لیکن یہ اسپرٹ نیچے تک منتقل نہیں کر پاتے۔ مقامات کی سطحوں پر فرقہ، مسلک اور نظریہ کی لڑائیاں اور کشمکش جاری رہتی ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس پیغام کو ہر سطح پر عام کریں۔ جو لوگ جماعتوں اور تنظیموں کے ذمہ دار ہیں وہ اپنے کارکنوں میں، جو مشائخین کرام ہیں وہ اپنے ارادت مندوں میں اور جو علمائے کرام ہیں وہ اپنے شاگردوں اور متبعین میں، غرض ہر ایک اپنے حلقہ اثر میں یہ جذبہ عام کرے، یہ نہایت ضروری ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021