افغان امن معاہدہ :توقعات اور اندیشے
’سوپر پاور‘ سے اپنی شرائط پرسمجھوتہ کے بعدطالبان کواب داخلی رقابتوں کا چیلنج درپیش
مسعود ابدالی
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 29فروری کو ایک نئی تاریخ رقم کردی گئی جب دسمبر 1979میں روسی حملے کے وقت سے اپنے ہی لہو میں نہاتے سوا تین کروڑ افغانیوں کے لیے ناامیدی، مایوسی اور باہمی عدم اعتماد کے گھٹاٹوپ اندھیرے سے امید کی کرن پھوٹتی نظر آئی۔ افغانوں کے قتل عام بلکہ خون کی ہولی کا آغاز 7اکتوبر 2001کو ہوا تھا جب نائن الیون سانحے کے بعد القاعدہ کو پناہ دینے کے الزام میں امریکی فوجیں نیٹو اتحادیوں کے ہمراہ دنیا کے اس غریب ترین ملک پر چڑھ دوڑیں۔ اس حملے میں امریکہ کو ہندوستان اور پاکستان سمیت تمام علاقائی قوتوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ امریکی حملے کے آغاز پر تو ایسا محسوس ہوا کہ گویا دنیا سے طالبان کا نام ونشان مٹ جائے گا۔ امریکہ و مغرب کے ساتھ برصغیر کے اکثر تجزیہ نگار بھی طالبان کو وعید سنا رہے تھے کہ ’ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘ لیکن چند ہی برسوں میں پانسہ طالبان کے حق میں پلٹ گیا اور ملاوں کے جان لیوا حملوں نے اتحادیوں کو سراسیمہ کر دیا۔ 2009تک طالبان نے افغانستان کے بڑے حصے پر اپنی حکومت قائم کرلی اور امریکہ کی حمایت سے قائم ہونے والی انتظامیہ کی عملداری دارالحکومت اور اس کے مضافات تک محدود ہو گئی۔ چنانچہ امن مذکرات کا ڈول ڈالا گیا اور جمیعت اسلامی کے سربراہ پروفیسر برہان الدین ربانی کی قیادت میں اعلیٰ اختیاراتی امن جرگہ یا(HPC) High Afghan Peace Council تشکیل دی گئی۔ پروفیسر ربانی نے اخلاص سے امن کوششوں کا آغاز کیا۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے طالبان کے سابق قائد ملا عمر سے بھی خفیہ ملاقاتیں کیں لیکن زندگی نے پروفیسر صاحب سے وفا نہ کی اور وہ 20ستمبر 2011 کو ایک خود کش حملے میں جاں بحق ہوگئے۔یہ امریکہ میں صدر بارک حسین اوباما کا دور حکومت تھا جو قوتِ فیصلہ سے محروم ہونے کے سبب اپنے جرنیلوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے۔ جرنیلوں کے کہنے پر امریکی فوج کی تعداد میں بھاری اضافہ کیا گیا، ڈرون حملوں اور خوفناک بمباری نے افغانیوں پر کئی ہزار ٹن بارود برسا دیا، لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی اور طالبان کے حملوں میں مزید شدت آگئی۔ جانی نقصان سے بچنے کے لیے امریکی فوج کی تعداد کم کرکے طالبان سے مقابلے کی ذمہ داری افغان فوج کو سونپ دی گئی جبکہ نیٹو کے فوجی اپنے اڈوں تک محدود ہوگئے جن کا کام افغان فوجوں کی تربیت اور ڈرون حملوں کی نگرانی تھا۔ اس تمام عرصے میں امریکی فضائیہ نے خوفناک بمباری کا سلسلہ جاری رکھا جس کا نقصاں نہتے افغان عوام کو اٹھانا پڑا کہ گوریلا جنگ کے ماہر طالبان پہاڑوں میں اپنے محفوظ ٹھکانے قائم کر چکے تھے۔2015 میں انتخابی مہم کا آغاز ہوتے ہی ڈونالڈ ٹرمپ نے صدر اوباما کی افغان پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ برسراقتدار آتے ہی اٖفغانستان کے محاذ سے اپنی قوم کو عظیم الشان فتح کی خوشخبری سنائیں گے۔ چنانچہ جنوری 2017میں اقتدار سنبھالتے ہی انھوں نے اپنے جرنیلوں کو ایک جارحانہ افغان پالیسی بنانے کا حکم دیا۔ اس سلسلے میں امریکی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے پاکستان کی عسکری قیادت اور امریکی وزیرخارجہ رک ٹیلرسن وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر خارجہ سے مسلسل رابطے میں رہے۔ اس قسم کی سنسنی پیشرفت سے اندازہ ہو رہا تھا کہ افغانستان کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ پاکستان و ہندوستان کے بارے کوئی اہم فیصلہ کرچکی ہے۔
21 اگست 2017کو صدر ٹرمپ نے اپنے جرنیلوں کے ہمراہ قومی نشریاتی رابطے پر اس نئی حکمت عملی کا اعلان کر دیا۔ امریکی صدر نے اس اہم تقریر کے لیے امریکی فوج کے مرکزی اڈے فورٹ مائر کا انتخاب کیا۔ عسکری حلقوں میں اس مرکز کی جذباتی اہمیت بھی ہے کہ اسی کے احاطے میں امریکہ کا فوجی قبرستان واقع ہے جسے Arlington Cemetery کہا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے تفصیلی خطاب کا یہ جملہ ’جانِ غزل‘ تھا کہ ’پاکستان سے متعلق ہمارے انداز فکر (اپروچ) کی تبدیلی امریکہ کی نئی افغان پالیسی کا اہم ستون ہے۔‘ صدر کی تقریر سے تاثر ابھرا کہ افغانستان اب امریکہ کی جنوبی ایشیا حکمت عملی کا حصہ ہوگا اور ہندوستان کو اس سلسلے میں اہم ذمہ داری سونپی جائے گی۔ اپنی تقریر میں ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ صدر بننے سے پہلے ان کا خیال تھا کہ امریکا کو افغانستان سے نکل جانا چاہیے لیکن زمینی حقائق کے براہ راست مطالعے و مشاہدے کے بعد ان کی رائے تبدیل ہوچکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 17سال کی بے نتیجہ جنگ سے مجھ سمیت سب لوگ پریشان اور فکرمند ہیں اور اب فیصلہ کن قدم اٹھانے کا وقت آچکا ہے۔ نئی افغان پالیسی کے خد وخال بیان کرتے ہوئے امریکی صدر نےکہا ہمیں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے ہیں۔ ہماری حکمت عملی وقتی مصلحتوں کے بجائے شرائط کی بنیاد پر ہوگی۔ افغانستان میں اضافی فوجی دستوں کے سوال پر انھوں نے کہا کہ تعداد کا تعین میدان جنگ کی صورتحال کے مطابق ہوگا۔ اسے خفیہ رکھا جائے گا کیونکہ حکمت عملی کے معاملے میں راز داری ضروری ہے۔ انھوں نے اپنے مخصوص دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ ہم کب اور کہاں حملہ کریں گے یہ نہیں بتایا جائے گا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے بارے میں ہماری حکمت عملی کا اہم نکتہ ہندوستان سے مراسم کو مزید استوار کرنا ہے۔ ہندوستان اٖفغانستان کے استحکام کے لیے جو کچھ کر رہا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ ہم (یعنی ہندوستان اور امریکہ) بحر ہند اور بحرالکاہل کے مشترکہ مفادات پر تعاون جاری رکھیں گے۔ فتحِ افغانستان کے نئے منصوبے میں بنیادی خرابی یہ تھی کہ صدر ٹرمپ نے اس کی تدوین وتصنیف انھیں سورماوں کو سونپی جن کی پالیسیوں اور طرزِ عمل نے افغانستان اور وہاں تعینات امریکی فوج کو اس حال میں پہنچایا ہے۔ یعنی وزیرفاع جنرل میٹس، قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر جنرل مک ماسٹر، وہائٹ ہاوس کے چیف آف اسٹاف جنرل جان کیلی، سابق مشیرِ سلامتی جنرل مائیکل فلن، سی آئی اے کے سابق ڈی جی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس وغیرہ۔ صدر ٹرمپ کے جرنیلوں نے اپنی ناکامی کا سارا ملبہ یہ کہہ کر بارک اوباما پر ڈال دیا کہ سابق امریکی صدر نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے تھے اور اگر فیصلوں میں آزادی حاصل ہو جائے تو ان اجڈ ملاوں کی بیخ کنی تو بس بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ جرنیلوں کا موقف تھا کہ صدر اوباما نے ان کے مشورے کے علی الرغم افغانستان سے امریکی فوج کو واپس بلالیا جس کی وجہ سے طالبان کو تقویت ملی اور یہ سابق امریکی صدر کی بہت بڑی غلطی تھی۔ چنانچہ صدر ٹرمپ نے چھاپہ مار جنگ کے ماہر اضافی فوجی دستے بھیجنے کے ساتھ عسکری قیادت کو مکمل آزادی دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اپنے خطاب میں صدر نے کہا کہ فوج اور وزارت دفاع کو وسیع اختیارات دیے جا رہے ہیں اور اب ہمارے کمانڈروں کو ہر فیصلے سے پہلے واشنگٹن کی رضامندی لینے کی ضرورت نہیں ہے۔اس آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی جرنیلوں نے سارے افغانستان پر وحشیانہ بمباری شروع کرادی۔ نیٹو کے مطابق افغانستان کے مختلف علاقوں پر 600فضائی حملے فی ماہ کیے گئے لیکن 11ماہ بعد جب جولائی 2018میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ 6600سے زیادہ فضائی حملوں کے باوجود ایک مربع انچ زمین بھی طالبان کے قبضے سے چھڑائی نہ جاسکی بلکہ بے گناہوں کی ہلاکت سے افغان حکومت کے زیراثر علاقوں میں بھی طالبان کی حمایت بڑھتی جارہی ہے۔ امریکی حکومت کے نگراں ادارے سینئر انسپیکٹر جنرل برائے اٖفغان تعمیرِ نو یعنی SIGAR کے مطابق 52 فیصد اٖفغانستان پر طالبان کا قبضہ ہے اور اب جنوب اور مشرقی افغانستان کے پشتون علاقوں کے ساتھ شمال میں فارسی بان صوبے بھی ان کی گرفت میں آگئے ہیں۔ SIGAR کا کہنا تھا کہ نئی افغان پالیسی کے تحت جرنیلوں نے امریکی سپاہیوں کو چھاونیوں اور اڈوں میں سراغرسانی، ڈرون کی نگہبانی اور مقامی سپاہیوں کی تربیت تک محدود کردیا ہے۔ اس ’احتیاط‘ کی وجہ سے امریکہ میں تابوتوں کی آمد کا سلسلہ رک گیا ہے لیکن وحشیانہ بمباری کے باوجود میدان جنگ میں طالبان مزید مضبوط ہوگئے ہیں۔ غیرجانبدار عسکری ذرایع کے حوالے سے اس نشست میں یہ بھی کہا گیا کہ طالبان کا دباو بڑھنے کے ساتھ منشیات کے استعمال کی وجہ سے افغان فوج کی کارکردگی ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔وہائٹ ہاوس کے ذرایع کے مطابق صدر ٹرمپ یہ سن کر آپے سے باہر ہوگئے کہ افغانستان آپریشن کا خرچہ 70ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے بعد صدر ٹرمپ نے افغانستان سے واپسی کا اصولی فیصلہ کرلیا اور انھوں نے جرنیلوں کو انخلا کا ایک جامع منصوبہ بنانے کا حکم دے دیا۔ امریکی صدر کے اس حکم سے امریکی جرنیلوں کو تو صرف شرمندگی اور مایوسی ہوئی لیکن کابل کے ڈاکٹر صاحبان یعنی ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے پیروں تلے زمین ہی کھسک گئی۔ دونوں حضرات کو معلوم تھا کہ ان کے لیے امریکی فوج کی واپسی ایسی ہی ہے جیسے کہ دونوں پیروں سے معذور کسی شخص سے بیساکھیاں چھین لی جائیں چانچہ براہ راست بات چیت کے لیے طالبان کو انتہائی پرکشش شرائط ہیش کی گئیں جس میں جلال الدین حقانی مرحوم کے صاحبزادے انس حقانی سمیت تمام طالبان قیدیوں کی رہائی، سرکاری خرچ پر کابل میں طالبان کے دفتر کے قیام، مذاکرات کیلئے ملک واپس آنے والے طالبان رہنماوں کے پاسپورٹ کا اجرا، طالبان سپاہیوں کو فوج میں باوقار جگہ دینے اور شرکت اقتدار وغیرہ شامل ہیں۔ اسی کے ساتھ جکارتہ اور سعودی عرب میں علما کی بیٹھک اور فتووں کے ڈول بھی ڈالے گئے لیکن طالبان نے کابل حکومت کی پیشکش پر غور کرنے سے بھی انکار کردیا۔ طالبان کا اصرار تھا کہ ان کی جنگ امریکہ سے اور امن مذاکرات بھی وہ صرف اور صرف امریکہ سے کریں گے۔مذاکرات کے باب میں طالبان کے غیر لچکدار رویے پر امریکی وزارت خارجہ نے طالبان سے سلسلہ جنبانی کا آغاز ہوا۔ امریکہ کی نائب وزیر خارجہ برائے جنوب و وسط ایشیا ایلس ویلز کی قطر میں طالبان سے براہ راست ملاقات کی خبریں شائع ہوئیں اور 5ستمبر 2018کو امریکی وزارت خارجہ نے کابل میں امریکہ کے سابق سفیر زلمے خلیل زاد کو امریکی حکومت کا نمائندہِ خصوصی برائے افغان مصالحت مقرر کردیا۔ افغان نژاد خلیل زاد صاحب پشتو اور فارسی روانی سے بولتے ہیں۔2018کے اختتام پر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں باقاعدہ بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ گزشتہ برس اگست میں خود صدر ٹرمپ کے حوالے سے خبرآئی کہ طالبان اور امریکہ معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں لیکن اسی دوران 5ستمبر کو کابل میں ایک فوجی قافلہ طالبان حملے کا نشانہ بنا جس میں امریکہ کے ایک فوجی افسر سمیت 11افراد ہلاک ہوئے جس پر صدر ٹرمپ نے امن مذاکرات معطل بلکہ منسوخ کردیے۔ اس سال کے آغاز پر امریکہ نے قطری حکام کے ذریعے طالبان کو بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کی دعوت دیدی۔ اور آخر کار 29فروری کو ایک معاہدے پر دستخط ہوگئے۔قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ امن معاہدہ نہیں بلکہ معاہدہِ عزمِ امن ہے جسے Agreement for Bringing Peace in Afghanistan کا نام دیا گیا ہے۔ طالبا ن کا کہنا ہے کہ ’معاہدہ افغانستان سے (غیرملکی) قبضہ ختم کرنے کے بارے میں‘ ہے۔
امریکہ کے سرکاری ریڈیو صدائے امریکہ یا VOA نے معاہدے کی جو تفصیلات فراہم کی ہیں ان کے مطابق:
• افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا 14 مہینوں میں مکمل ہوگا۔
• پہلے مرحلے میں 130دنوں کے اندر یہاں تعینات 13ہزار فوجیوں کی
تعداد 8600کردی جائے گی۔
• باقی ماندہ فوجیوں کا انخلا ساڑھے نو ماہ میں مکمل ہو گا۔
• امریکہ اور اتحادی افواج افغانستان میں پانچ فوجی اڈے خالی کریں گے۔
• بین الافغان مذاکرات سے قبل طالبان اور امریکہ ایک دوسرے کے
قیدیوں کی حتمی فہرست حوالے کریں گے۔ ان قیدیوں کو 3 ماہ میں رہا
کردیا جائے گا۔ پانچ ہزار طالبان امریکہ کی قید میں اور ایک ہزار افغان
جنگجو طالبان کی حراست میں ہیں
• امریکہ 27 اگست تک طالبان رہنماؤں پر عائد پابندیاں اٹھالے گا اور
اقوام متحدہ بھی طالبان رہنماؤں پر پابندیاں ختم کردے گی۔
• طالبان اس بات کی ضمانت دیں گے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت
گردی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔
• امریکہ افغانستان کو تعمیرِ نو اور بین الافغان مذاکرت کے بعد نئے سیاسی
نظام کے لیے اقتصادی معاونت جاری رکھے گا لیکن افغانستان کے
اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔
معاہدے پر سرکاری موقف کی وضاحت کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ نے کہا کہ یہ عہدوپیمان بین الافغان بات چیت اور طالبان کی جانب سے داعش اور دوسرے دہشت گردوں کے خلاف موثر کاروائی سے مشروط ہے۔ دوسری طرف مسودے میں مکمل جنگ بندی کا کوئی ذکر نہیں ہے یعنی طالبان نے بھی غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا سے پہلے تلواروں کو نیام میں ڈال لینے کا کوئی وعدہ نہیں کیا۔
افغان امن کا سب سے اعصاب شکن مرحلہ مختلف افغان دھڑوں میں اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔ صدر اشرف غنی کی حکومت کو ان کے اتحادی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور جنگجو رہنما جنرل عبدالرشید دوستم قبول کرنے کو تیار نہیں۔ شمالی اتحاد سے وابستہ ان رہنماوں نے شمالی افغانستان کے صوبوں میں اپنے گورنروں کا تقرر کرکے متوازی حکومت قائم کرلی ہے۔ جنرل دوستم اور طالبان کی چپقلش بہت پرانی ہے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے دوران دوستم نے سینکڑوں کم عمر طالبان کو بدترین اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اگر طالبان عام معافی دے کر اور ماضی کو بھلا کر مستقبل کا سفر نئے عزم کے ساتھ شروع کرنے پر تیار ہو جائیں تو بھی کیا سیکولر افغانستان کے حامی قوم پرست، امارات اسلامی کے پرچم تلے نئے افغانستان کی تعمیر پر رضامند ہوجائیں گے؟
افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار کر کے معاہدے کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی بدمزگی کا آغاز کر دیا ہے۔ جنگی قیدیوں کی رہائی اس معاہدے کا ایک کلیدی جزو ہے۔ اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان ملا شاہین نے کہا کہ قیدیوں کے تبادلے پر مثبت پیش رفت سے پہلے بین الافغان مذاکرات نہیں ہوں گے۔ افغان امن کی شاہراہ پر جگہ جگہ ٹائم بم ا ور بارودی سرنگیں نصب ہیں جس میں سے پہلی کی نشاندہی ہوگئی ہے۔ اس تنگ سی پگڈنڈی کے دونوں جانب غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کی ایسی بہت سی کھائیاں منہہ کھولے کھڑی ہیں۔ دیکھنا ہے کہ افغان قیادت خدشات و خطرات کی ان گھاٹیوں کو اپنے اجتماعی تدبر سے کیسے عبور کرتی ہے۔
[email protected]