پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
بڑے صنعت کاروں کے سبب چھوٹے کارباریوں کی تجارت بری طرح متاثر
حالیہ عام بجٹ عام لوگوں کی توقعات کے مطابق نہیں رہا۔ بجٹ کے حجم کا جو اندازہ لگایا گیا تھا وہ بھی پورا نہیں ہوا۔ تقریباً دو لاکھ کروڑ روپے سرمایہ مصارف Capital Expenditure کی بات کی گئی ہے جس سے اندیشہ ہے کہ سبسیڈیوں میں کٹوتی ہوسکتی ہے۔
فی الوقت ہم کورونا کی تیسری لہر سے ابھر رہے ہیں۔ وبا کی سب سے زیادہ زد نچلے طبقہ، نچلے متوسط طبقہ اور متوسط طبقے پر پڑی ہے ۔ توقع تھی کہ اس طبقہ کو ٹیکس میں راحت دی جائے گی اور غیر منظم شعبہ کا کچھ نہ کچھ خیال رکھا جائے گا۔ مگر اسے بالکل ہی نظر انداز کردیا گیا۔ اس کے علاوہ اور بھی بڑی تبدیلیوں کی امیدیں تھیں جس سے ترقی کی سمت واضح ہوتی اور لوگوں کو روزگار ملتا کیونکہ بے روزگاری آسمان کی بلندی پر ہے۔ گزشتہ 50سالوں سے ترقی کے موافق ترقی کے مواقع نہیں بن پائے۔ روزگار کی شرح اور شرح نمو کی ترقی میں کوئی توازن نظر نہیں آتا ہے۔ ضرورت تھی ایسی معاشی ترقی کی جو ملک کے تمام شہریوں کو معاشی اور سماجی انصاف دلاسکے۔ فی الوقت بجٹ میں امرت کال کی بات ہورہی ہے مگر عام لوگوں کے لیے آفت کال ہے۔ اس بجٹ کو 25سالوں کا بلیو پرنٹ بتایا جارہا ہے۔ اس دوسرے دور کی بہتری اور اصلاح میں دیہی ترقی، زراعت، دیہی صنعت مائیکرو اور چھوٹی صنعت، انسانی ترقی، صحت و تعلیم کے لیے کوئی جگہ نظر نہیں آتی ۔ حسب معمول صحت و تعلیم پر معمولی خرچ بڑھا ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں تعلیم پر محض 11.8فیصد کا اضافہ ہی ہوا ہے۔ جو جی ڈی پی کا 3.1فیصد ہی ہوتا ہے۔ اسے کم از کم جی ڈی پی کا چھ فیصد ہونا چاہے اس گرے پڑے تعلیمی انفراسٹرکچر سے ہم کیا وشو گرو ہوسکتے ہیں؟ صحت کے بنیادی ڈھانچہ کی خرابی سے لوگوں کو زمین و جائیداد فروخت کرنے کے علاوہ قرض لے کر بھی خر چ کرنا ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے کروڑوں لوگ خط مفلسی پر پہنچ جاتے ہیں اور سالہاسال کی بچت بھی ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ 2008سے 2019کے درمیان 37فیصد سرمایہ کاری میں سے 33فیصد حصہ گھریلو بچت کا ہی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 2008کے مغرب کے معاشی بحران کے لپیٹ میں آنے کے باوجود ہمارا ملک کافی حد تک محفوظ رہا۔ مگر اب بچت کی حصہ داری 29.5فیصد ہوگئی ہے۔ امسال کل 9.2فیصدکی ممکنہ شرح نمو میں 3.7فیصد شرح ترقی زرعی شعبہ کی ہے۔ ہمارا ملک اس وقت ایک طرح کی تعمیری تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے۔ جہاں زراعت ہماری ترقی کا حصہ نہیں بن پائی۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ شرح نمو زیادہ مستحکم نہیں ہے۔ ہمیشہ سے اس شعبہ کو نظر انداز کیا گیا۔ کورونا، قہر اس سے سے پہلے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بے ہنگم نفاذ سے غیر منظم شعبہ برباد ہوکر رہ گیا ہے۔ اس سے منسلک متوسط طبقہ کا روزگار بالکل ہی ختم ہوکر رہ گیا۔ انہیں حکومت کی طرف سے بڑی حمایت کی ضرورت تھی۔ مگر بجٹ میں انہیں نظر انداز کردیا گیا۔ا گرچہ یہی شعبہ شہروں میں 64فیصد سے زیادہ روزگار پیدا کرتا ہے۔ وہ از آف ڈو اینگ بزنس کا حصہ نہیںہے یہ صحیح ہے کہ جی ایس ٹی کی ریکارڈ وصولی 1.4لاکھ کروڑ روپے تک پہونچ گئی ہے جب وصولی ایک لاکھ سے 1.4لاکھ کروڑ روپے ہوجائے تو وہ بھی ایک سال کے عرصہ میں 40فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس کے باوجود جی ڈی پی میں محض 9فیصد کا ہی اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ جی ایس ٹی فی الوقت منظم شعبہ سے ہی آرہی ہے۔ غیر منظم شعبہ کے بند ہونے کی وجہ سے بڑے صنعت کاروں اور کاروباریوں نے چھوٹے کارباریوں کی صنعت و تجارت کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ اس لیے بڑی کمپنیاں ہی جی ایس ٹی دے رہی ہیں۔ افسوس کہ اس بجٹ نے چھوٹے تاجروں اور صنعت کاروں کو بچانے میںکوی دلچسپی نہیں دکھائی۔ فی الوقت حکومت کی توجہ ڈیجیٹل انڈیا پر ہے اسی وجہ سے کہ اسکل انڈیا میں فیوچر اسکلس کو شامل کیا گیا ہے۔ اس لیے غیر ہنر مند نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت (artificial intelligence) اور بگ ڈاٹا جیسے کمپیوٹنگ پروگرامس کی تربیت دی جائے گی اس طرح اسکل انڈیا کے تحت ایسے تربیتی کورسیز بھی کروائے جائیں گے جس سے ایڈوانس نالج حاصل ہوگی۔
بجٹ کا بنیادی مسئلہ ایسا ہے کہ اس میں سپلائی سائیڈ پالیسی کو ترجیح دی گئی ہے جس کے ذریعے حکومت اشیا کی فراہمی پر انحصار کرتی ہے۔ کبھی سپلائی کو بڑھانے سے زیادہ ضروری ہے کہ طلب کو بڑھانے کا راستہ بنایا جائے۔ اس لیے بجٹ میں نجی سرمایہ کاری کرنے کا راستہ ہموار کیا گیا ہے۔ مگر اس سے بہت زیادہ فائدہ ہونے والا نہیں ہے کیونکہ بازار میں طلب ہی نہیں ہے اس لیے کہ تاجر اور صنعت کار اشیا کے پیداوار کے لیے سرمایہ لے کر کیا کریں گے؟ اس بجٹ میں صارفین کی قوت خرید بڑھانے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جب تک ملک کے نوجوانوں کو روزگار نہیں ملے گا آمدنی نہیں ہوگی؟ آمدنی نہیں ہوگی تو بازار میں طلب بھی نہیں بڑھے گی جب تک طلب نہیں بڑھے گی تب تک معیشت کو رفتار نہیں مل سکتی۔ ہماری معیشت کے لیے بے روزگاری ایک بڑا چیلنج ہے اس کے علاوہ افراط زر بھی بڑی اونچائی پر ہے۔ جی ایس ٹی سے حکومت کی آمدنی بڑھی مگر بیروزگاری اور مہنگائی پر کوئی غور نہیں۔
منریگا نے کورونا قہر کے دوران جون2021تک 4.59کروڑ لوگوں کو روزگار فراہم کرکے خوفناک مفلسی سے بچالیا۔ اس کے بعد حالات میں کچھ بہتری آئی مگر بےر وزگاری ابھی بھی بہت زیادہ ہے۔ ایسے حالات میں حکومت نے منریگا کے بجٹ کو کم کردیا۔ 2021-22کے بجٹ میں یہ 98000کروڑ روپے تھا اب اس بجٹ میں اسے 73000کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ اس میں 13000کروڑ روپے ریاستوں کو بقایہ ادا کرنا بھی ہے۔ اس لیے یہ صرف بری معیشت ہی نہیں ہے بلکہ بری سیاست بھی ہے۔ منریگا کے طرز پر ایک قومی شہری روزگار یوجنا بھی ہونی چاہیے تاکہ بے روزگار شہر کے نوجوانوں کو کم از کم سال میں 150دن یومیہ 250روپے دے کر کام دیے جائیں۔ اس کے ساتھ عدم مساوات نے بھی امرا و غربا کے درمیان خلیج کو کافی گہرا کردیا ہے۔ 2020میں ارب پتیوں کی تعداد 102سے بڑھ کر 142ہوگئی جبکہ یہ سال کورونا قہر کے مار کو جھیل رہا تھا۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ صرف 98زیادہ امیروں کے اثاثے کے صرف چار فیصد ٹیکس وصولی سے وزارت صحت اور خاندانی بہبود کے فلاحی پروگرام کو دو سال تک کامیابی سے چلایا جاسکتا ہے اور سمگر سکھشا ابھیان کو چھ سالوں تک چلایا جاسکتا ہے مگر حکومت امرا کومزید ٹیکس وصولی کی تکلیف دیے بغیر سرمایہ دار امیر دوستوں کی مدد کی ہے اس لیے حالیہ عام بجٹ محض خاص بجٹ ہوکر رہ گیا ہے۔ ہمارا ملک ہر سماجی اشاریے (Social indices ) میں نچلی سطح پر آگیا ہے جس میں بھوک اور تغذیہ کی کمی کے معاملے میں آٹھ سالوں میں بہتری کے بجائے مزید ابتری آئی ہے۔ اسکولوں میں دیے جانے والے مڈ ڈے میل کے بجٹ میں گیارہ فیصد کی کمی کردی گئی ہے۔ اس سے سب سے زیادہ کورونا قہر سے متاثر ہونے والوں میں غیر مستقل (عارضی) زرعی مزدور خصوصاً دلت اور حاشیہ پر پڑے دیگر طبقوں کے بچے ہوں گے۔ انہیں اس بجٹ میں کسی طرح کی راحت نہیں ملی۔ فی الوقت ہمارا ملک عدم مساوات، افلاس، بے روزگاری اور بیماری کے دور سے گزر رہا ہے اور حکومت Capex کے ذریعہ معیشت میں زیادہ سے زیادہ گروتھ کی خواہش رکھتی ہے یہ حقیقت ہے کہ مودی حکومت نے حسب وعدہ دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا اور وزیر مالیات اضافی 60لاکھ روزگار 5سالوں میں دینے کا وعدہ اس بجٹ میں کیا ہے۔ کیا مودی جی کی طرح یہ بھی نرملا سیتا رمن کی جملہ بازی تو نہیں؟ اس طرح حکومت سماج کے ہر طبقہ کو ٹھگنے میں مصروف ہے اور وعدہ پر وعدہ کرتی ہے۔
***
یہ حقیقت ہے کہ مودی حکومت نے حسب وعدہ دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا اور وزیر مالیات اضافی 60لاکھ روزگار 5سالوں میں دینے کا وعدہ اس بجٹ میں کیا ہے۔ کیا مودی جی کی طرح یہ بھی نرملا سیتا رمن کی جملہ بازی تو نہیں؟ اس طرح حکومت سماج کے ہر طبقہ کو ٹھگنے میں مصروف ہے اور وعدہ پر وعدہ کرتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 فروری تا 26فروری 2022