اشارات: توکل،تدبیر اورامّت کا اجتماعی رویہ
سید سعادت اللہ حسینی
گذشتہ ماہ ہم نے امت کے لائحہ عمل کی تشکیل میں صبر کے رول پر کچھ باتیں عرض کی تھیں۔ امت مسلمہ کی کامیابی وسربلندی کے لیے صبر کی صفت کے ساتھ ایک اور اہم صفت، جسے قرآن ضروری قرار دیتا ہے ،وہ توکل علی اللہ کی صفت ہے۔ صبر کی طرح توکل کی صفت بھی ایک خاص مزاج اورسوچ کا ایک خاص سانچہ تشکیل دیتی ہے۔ صبر کی طرح یہ عظیم اسلامی صفت بھی طرح طرح کی غلط فہمیوں اور غلط تعبیرات کے جنگل میں گم ہوکر رہ گئی ہے اور آج ہمارے اجتماعی رویے توکل کے اسلامی فلسفے اور اس کی حقیقی اسپرٹ سے بہت دور محسوس ہوتے ہیں۔ ذیل کی سطروں میں ہم توکل کی صفت اور اس کے فلسفے پر بھی روشنی ڈالیں گے اور اس بات کو بھی زیر بحث لائیں گے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے راہ عمل کے تعین میں توکل کے فلسفے سے کیا روشنی ملتی ہے؟
توکل کی اہمیت
قرآن مجید میں تقریبا ۴۲ مرتبہ توکل کا ذکر آیا ہے اور اس صفت کو اللہ پر ایمان کا لازمی تقاضا قرار دیا گیا ہے۔ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُواْ إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ (اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسا کرو اگر مسلمان ہو۔ یونس ۸۴)۔ توکل کو آخرت کی کامیابی کے لیے بھی ضروری قرار دیا گیا ہے اور دنیا کی کامیابی کے لیے بھی۔ جب طاقت ور باطل سے مقابلہ درپیش ہو تو کہا گیا کہ توکل سے کام لو۔ إِن يَنصُرْكُمُ اللَّـهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (اللہ تمھاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں، اور وہ تمھیں چھوڑ دے، تو اس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کرسکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔ آل عمران: ۱۶۰) شدید مشکلات درپیش ہوں اور ان سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہ دے رہا ہو تو حکم ہوا کہ اللہ پر توکل کرو، وہ مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کردے گا۔ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا. وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ. (اور جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اُس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا۔ اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے۔ الطلاق۲اور ۳) مصیبت یا تکلیف درپیش ہو تو رہ نمائی کی گئی کہ اس حالت میں بھی اللہ ہی پر توکل کرو۔ قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (ان سے کہو ہمیں ہرگز کوئی (برائی یا بھلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے، اور اہل ایمان کو اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔ التوبہ:۵۱)
حالات کے ہر قسم کے رسپانس کے ساتھ قرآن نے توکل کو اس طرح جوڑا ہے کہ توکل، حالات و واقعات کے سلسلے میں مومنانہ سوچ اور رویے کا اہم ترین عنوان نیز چیلنجوں اور مسائل میں مومنانہ ردعمل کا نمایاں ترین مظہر اور امت مسلمہ کی اجتماعی نفسیات کا اساسی حوالہ بن جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوتِ دین کے انتہائی مشکل مرحلے میں کہا گیا کہ دعوت دیتے رہو اور اللہ پر توکل کرو۔ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِیْلًا (وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے، لہٰذا اُسی کو اپنا وکیل بنالو [یا اسی پر توکل کرو] المزمل۔ ۹) کہا گیا کہ دعوت الی اللہ، تمہارا اصل مشن اور مقصد ہے، یہ کام کرتے رہو۔ اس کی پروا نہ کرو کہ لوگ مانتے ہیں یا نہیں، تمھارا کام بس بشارت دینا اور ڈرانا ہے، یہ کام کرو اور نتیجہ اللہ پر چھوڑو اور اس پر توکل کرو۔ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِ ۚ وَكَفَىٰ بِهِ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا (اور اے محمدﷺ، اُس پر بھروسا رکھو جو زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اپنے بندوں کے گناہوں سے بس اُسی کا باخبر ہونا کافی ہے۔ الفرقان: ۵۸) منافقوں کی ریشہ دوانیوں کا ذکر کرکے کہا گیا کہ اُن سے اعراض کرو، اُن کی سازشیں تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گی اور اللہ پر توکل کرو۔ وَاللّٰهُ یَكْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَ۔ فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا (اللہ لکھ رہا ہے جو سرگوشیاں وہ کر رہے ہیں۔ تو ان سے اعراض کرو اور اللہ پر بھروسا رکھو اور اللہ بھروسےکے لیے کافی ہے۔ النساء: ۸۱) جنگ کرو تو اللہ پر توکل کرکے کرو۔ غزوہ احد کے پس منظر میں کہا گیا کہ وَشَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ (اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمھارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ آل عمران: ۱۵۹) اور جب صلح کرو تو بھی اللہ پر توکل کرکے ہی کرو۔ وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (اور اے نبیﷺ، اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہوجاؤ اور اللہ پر بھروسا کرو، یقیناً وہی سننے اور جاننے والا ہے۔ الانفال: ۶۱)
قرآن نے جلیل القدر انبیا کی مثالیں پیش کیں کہ انھوں نے اپنی جدوجہد کے ہر مرحلے میں اللہ پرتوکل کیا۔ اپنے مقصد ونصب العین اور اپنے اصولوں پر سخت ترین حالات میں استقامت کے ساتھ جمے رہنے کی صلاحیت توکل ہی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ شعیب علیہ السلام کی قوم کے لوگوں نے جب ان سے کہا کہ اگر تم ہمارے دین وملت میں لوٹ کر نہ آؤ تو ہم تمھیں ملک بدر کردیں گے، یا اپنی بستی سے نکال دیں گے تو شعیب علیہ السلام نے جواب میں یہی کہا کہ عَلَى اللَّـهِ تَوَكَّلْنَا ۚ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ (اللہ پر ہم نے توکل کر لیا اے رب، ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے”اعراف: ۸۹) نوح علیہ السلام کی مسلسل دعوت سے ان کی قوم نے بیزاری کا اظہار کیا تو انھوں نے صاف صاف چیلنج کردیا کہ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللّهِ فَعَلَى اللّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُواْ أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءكُمْ ثُمَّ لاَ يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُواْ إِلَيَّ وَلاَ تُنظِرُونِ (اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سُنا سُنا کر تمھیں غفلت سے بیدار کرنا تمھارے لیے ناقابلِ برداشت ہوگیا ہے تو میرا بھروسا اللہ پر ہے، تم اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو ساتھ لے کر ایک متفقہ فیصلہ کرلو اور جو منصُوبہ تمھارے پیشِ نظر ہو اس کو خوب سوچ سمجھ لو تاکہ اس کا کوئی پہلو تمھاری نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے، پھر میرے خلاف اس کو عمل میں لے آوٴ اور مجھے ہر گز مہلت نہ دو۔ يونس: 71).یہی بات ہود علیہ السلام نے بھی دعوت دین کے دشمنوں سے کہی کہ تمھیں جو کرنا ہو کرلو، میں اپنی دعوت سے باز نہیں آؤں گا۔ میں اللہ پر توکل کرتا ہوں۔ فَكِيدُونِي جَمِيعًا ثُمَّ لَا تُنظِرُونِ۔ إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّـهِ رَبِّي وَرَبِّكُم ۚ مَّا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا ۚ إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (تم سب کے سب مل کر میرے خلاف اپنی کرنی میں کسر نہ اٹھا رکھو اور مجھے ذرا مہلت نہ دو۔ میرا بھروسا اللہ پر ہے جو میرا رب بھی ہے اور تمھارا رب بھی۔ کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو، بے شک میرا رب سیدھی راہ پر ہے: ہود:۵۵-۵۶)
توکل کا مفہوم اور اس کا فلسفہ
اسلامی لٹریچر میں توکل علی اللہ کی تعریف کئی طرح سے کی گئی ہے۔ اللہ پر بھروسا، اپنے معاملے کو اللہ کے حوالے کردینا، مخلوق کی جانب سے پہنچنے والی تکلیف یا مایوسی کو اہمیت نہ دینا، اللہ کی مرضی پر راضی رہنا وغیرہ کچھ اہم تعریفیں ہیں۔ ہمارے خیال میں سب سے جامع تعریف وہ ہے جو مشہور مورخ و مفسر، علامہ ابن جریر ؒنے کی ہے۔ الثقة بالله تعالى والاعتماد في الأمور، وتفويض كل ذلك إليه بعد استفراغ الوسع في السعي (تمام معاملات میں اللہ پر بھروسا اور اعتماد اور تمام تر تدبیرو کوشش کرلینے کے بعد سارا معاملہ اللہ کے سپرد کرنا)[1] اس تعریف کی رو سے تدبیر وسعی بھی توکل کا حصہ قرار پاتی ہے۔
قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر اہل ایمان کو اسباب کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ جہاں یہ بات کہی گئی ہے کہ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّـهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا (اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔ الطلاق :۳) وہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّـهِ (پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ جمعہ:10)۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا وعدہ کیا گیا لیکن ساتھ میں ہر جگہ کوشش و جدوجہد کا حکم بھی دیا گیا بلکہ جدوجہد کے لیے ممکنہ مادی اسباب و وسائل حاصل کرنے اور انھیں تیار رکھنے کا بھی بہت واضح حکم دیا گیا ہے وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ (اور جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو۔ انفال ۶۰)۔ جہاں تک امت کی اجتماعی زندگی کا تعلق ہے، یہ بات قرآن نے بڑی وضاحت کے ساتھ کہہ دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اسی وقت بدلتا ہے جب وہ خود تبدیلی کے لیے کوشش کرے۔ (إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ رعد: ۱۱)
قرآن مجید میں توکل کے ذکر کے ساتھ کئی جگہ اللہ تعالیٰ کی کچھ خاص صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ مَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَإِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (جواللہ پربھروسا کرے تو یقیناً اللہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔ انفال ۴۹) وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ (اور اُس زبردست اور رحیم پر توکل کرو۔ الشعراء ۲۱۷) إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ الشعراء: ۲۲۰) یعنی اللہ تعالیٰ کی قوت و طاقت، اُس کا علم، اُس کی رحمت، اُس کی حکمت، توکل ان سب پر ایمان کا تقاضا ہے۔ اللہ پر توکل میں اس کی طاقت وقوت پر اعتماد بھی شامل ہے اور اس کی رحمت ورافت پر بھی۔ اس کی مشیت پر اعتماد بھی اس کا حصہ ہے اور اس کی سنت پر اعتماد بھی۔ اللہ کے ارادے پر بھی بھروسا ضروری ہے اور اس کے وعدوں پر بھی۔ اللہ تعالیٰ مسبب ہے، اسباب کا محتاج نہیں ہے لیکن اس عالم اسباب میں وہ قوانین فطرت کے ذریعے اپنی مشیت کی تکمیل کرتا ہے۔ اس لیے اسباب وتدبیر اللہ کی سنت کا حصہ ہیں۔ جب خاص طور پر امت مسلمہ کے اعلی مقاصد اور اس کی منصبی جدوجہد پر ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس راہ میں بہتر سے بہتر تدبیر کو اختیار کرنا دراصل اللہ کی سنت پر اعتماد ہے۔ تدبیرکو اس یقین واعتماد کے ساتھ اختیار کرنا کہ اس سے ضرور اچھا نتیجہ نکلے گا، یہ اللہ کے وعدے پر اعتماد ہے۔ بڑی طاقت اور بڑے مفاد کو خاطر میں لائے بغیر اعتماد اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنا اور ظاہری قوت وصلاحیت سے بڑھ کر حصول مقصد کی جستجو کرنا، یہ اللہ کی طاقت اور اس کی نصرت پر بھروسا ہے۔ اس راہ میں جو مشکل، آزمائش یا ظاہری ناکامی درپیش ہو، اُسے اللہ کی مرضی مان کر، کسی پوشیدہ خیر کا ذریعہ سمجھ کر، پریشان ہوئے بغیر ثابت قدمی کے ساتھ اُس کا سامنا کرنا اور آگے بڑھنا، یہ اللہ کی رحمت پر اعتماد ہے۔ توکل ان سب کیفیات کا مجموعہ ہے۔ گویا توکل تدبیر و حکمت بھی پیدا کرتا ہے اور حوصلہ واعتماد بھی۔ بڑی کامیابیوں پر عجز بھی پیدا کرتا ہے اور ناکامیوں پر ہمت ہارے بغیر نئی راہیں تلاش کرنے اور استقامت کے ساتھ جہد مسلسل کے داعیے کی افزائش بھی کرتا ہے۔ اس طرح، توکل ایمان باللہ کا ایسا زبردست اور اثر آفریں پھل ہے جو اُن تمام مثبت اور تعمیری نفسیاتی خصوصیات کا سرچشمہ ہے جو کامیابی کی ضامن سمجھی جاتی ہیں۔
قرآن مجید نے اولوالعزم انبیا کے حوالے سے جہاں یہ بات کہی ہے کہ وہ اللہ پر بھرپور اعتماد کرتے تھے وہیں متعدد جگہ یہ اشارے بھی دیے ہیں کہ وہ اسباب اور دنیوی ومادی تدابیر سے بھی غافل نہیں رہتے تھے۔ یعقوب علیہ السلام کے سامنے جب یوسف علیہ السلام نے اپنا خواب بیان کیا تو انھوں نے فوراً کہا يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَىٰ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا (بیٹا، اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا ورنہ وہ تیرے درپئے آزار ہو جائیں گے۔ یوسف: ۵) اس طرح وقت کے پیغمبر نے اپنے بیٹے کو حفاظت کے لیے احتیاطی تدبیر کی تلقین کی۔ جب بعد میں یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے یوسف علیہ السلام کی دعوت پر اپنے بھائی کو ساتھ لے جانے کے لیے اجازت طلب کی تو انھوں نے کہا يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ (میرے بچو، مصر کے دارالسطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا مگر میں اللہ کی مشیت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اُس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسا کیا، اور جس کو بھی بھروسا کرنا ہو اسی پر کرے یوسف ۶۷) اللہ کے اس برگزیدہ نبی کی اس نصیحت میں توکل کے فلسفے کا خلاصہ موجود ہے۔ پہلے ممکنہ انسانی تدبیر کی طرف اشارہ ہے پھر اللہ پر بھروسے کا اعلان۔ قحط سالی سے بچنے کے لیے یوسف علیہ السلام نے جو پلاننگ کی اور مادّی تدابیر اختیار کیں، قرآن میں اس کی تفصیل بھی موجود ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے اپنی جدوجہد کے ہر مرحلے میں بہترین تدبیریں اختیار کیں۔ معاہدے کیے، جنگیں لڑیں، ہجرت کی، ہجرت کو جاتے ہوئے غار میں پناہ لی، حلیف بنائے، شرپسندوں کی سرکوبی کی، غرض یہ کہ اس عالم اسباب میں کامیابی وحصول مقصد کے جو راستے اور تدابیر موجود ہیں، ان سب کو بہترین طریقے سے بروئے کار لائے۔
لیکن یہ بات بھی واضح رہے کہ انبیا علیہم السلام نے ان تدبیروں کو استعمال کرتے ہوئے، صرف تدبیر یا سبب کو سب کچھ نہیں سمجھا، اللہ کے حکم کی تعمیل میں بڑی سے بڑی طاقتوں کا ہمت و دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا، ناکافی اسباب و وسائل کے ساتھ حیرت انگیز مہمات سر کیں، بظاہر ناممکن نظر آنے والے کام انجام دیے، سخت سے سخت آزمائش کا ایسے سامنا کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ دوسرے لفظوں میں انھوں نے اللہ کی سنت پر بھی اعتماد کیا اور اُس کی قدرت اور اس کے وعدوں پر بھی۔ سنت پر اعتماد کا تقاضا ہے کہ بہتر سے بہتر تدبیر اختیار کی جائے اور قدرت اور وعدوں پر اعتماد کا تقاضا ہے کہ مادی تدبیر ہی کو سب کچھ نہ سمجھا جائے۔
اسباب و تدبیر کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ بعض پیغمبروں کو معجزے دیے گئے اور خارق عادت طریقوں سے ان کی مدد کی گئی تو اس میں بھی کسی نہ کسی ظاہری سبب کو ضرور ذریعہ بنایا گیا۔ ایوب علیہ السلام کے علاج کے لیے انھیں پاوں زمین پر مارنے کا حکم دیا گیا(ارْكُضْ بِرِجْلِكَ۔ ص ۴۲) ۔ نوح علیہ السلام کو طوفان سے بچاؤ کے لیے کشتی بنانے کا حکم دیا گیا (وَاصْنَعِ الْفُلْكَ۔ ہود ۳۷) ۔ موسیٰ علیہ السلام کے لیے سمندر میں راستہ اس وقت بنا جب انھوں نے اللہ کے حکم سے اپنا عصا مارا (اضْرِب بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ۔ الشعراء ۶۳) ۔ مریم علیہا السلام کے کھانے کا مسئلہ اس وقت حل ہوا جب انھوں نے پیڑ کے تنے کو ہلایا۔ (وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ۔ مریم ۲۵)۔ ان سب مثالوں میں معجزاتی طریقوں سے مدد کی گئی تھی لیکن ان میں کم زور سہی کسی ظاہری سبب کا ذکر دراصل یہ اشارہ ہے کہ اللہ کی مدد اس وقت آئے گی جب بندہ وہ کام کرگزرے جو اس کے بس میں ہے۔
توکل کے اس اسلامی فلسفے کی مزید وضاحت ایک مشہور حدیث سے ہوتی ہے کہ ایک صحابی نے آپ سے دریافت کیا کہ أَعْقِلُهَا وَأَتَوَكَّلُ أَوْ أُطْلِقُهَا وَأَتَوَكَّلُ ؟ قَالَ اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ (میں [اونٹنی کو] رسی سے باندھوں پھر توکل کروں یااسے یونہی چھوڑدوں اور توکل کروں؟ آپ نے جواب دیا کہ رسی سے باندھو پھر توکل کرو۔ )[2]۔
اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ توکل دراصل مندرجہ ذیل چار رویوں کے مجموعے کا نام ہے۔
جو معاملہ بھی درپیش ہو، اس میں اپنے مطلوب و مقصود کو حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کرنا اور سارے ممکنہ وسائل کو بروئے کار لانا اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرنا۔
کوشش کرتے ہوئے اللہ کی طاقت پر اوراس کے وعدوں پر بھرپور اعتماد کرنا، اس کی پشت پناہی اور نتیجتاً اپنی قوت و صلاحیت میں بے پناہ اضافہ محسوس کرنا اور خدا اعتمادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بھرپور خود اعتمادی کے ساتھ اپنے کاموں کو انجام دینا۔
اپنے بس میں جو کچھ ہے وہ کر گزرنے کے بعد اللہ سے بہتر امید رکھنا اور یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ اچھا معاملہ کرے گا۔
اگر توقع کے مطابق اچھا نتیجہ ظاہر ہو تو اللہ کا شکر ادا کرنا اور اگر توقع کے خلاف نتیجہ نکلے تب بھی یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ کیا ہے اس میں اس کی کوئی مصلحت ہوگی اور اس میں بھی ہمارے لیے خیر ہی ہوگا اور اس کی مرضی پر راضی رہنا۔ (البتہ ان غلطیوں اور کمیوں کا ضرور احتساب کرنا جو جدوجہد کرنے اور تدبیر کو اختیار کرنے میں سرزد ہوئیں) اور کوشش کے بعد جو باتیں ہماری کوشش کے دائرے کے باہر ہیں انھیں اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے چھوڑ دینا۔
ہم جب کسی قابل ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو پورے اطمینان سے خودکو اس کے حوالے کردیتے ہیں۔ وہ نامعلوم کڑوی دوائیں کھلاتا ہے۔ تکلیف دہ انجکشن لگاتا ہے، کبھی (آپریشن کے لیے) پیٹ چیر دیتا ہے، کھوپڑی پھوڑدیتا ہے، لیکن ہمیں اعتماد ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کررہا ہے، ہمارے فائدے کے لیے کررہا ہے۔ بعض اذیت ناک طریقہ ہائے علاج کے مصالح ہماری سمجھ سے باہر ہوتے ہیں لیکن ہمیں اُس کی شخصیت اور اس کے علم پر بھروسا ہوتا ہے۔ ہم اپنے جہل کو بھی جانتے ہیں اور اس کے علم سے بھی واقف ہوتے ہیں۔ اس لیے وقتی اذیت کو بھی ہم بخوشی قبول کرلیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اذیت کا سبب ہماری سمجھ سے باہر ہو تب بھی جب یہ قابل ڈاکٹر اذیت دے رہا ہے تو کچھ فائدہ ضرور ہوگا۔ اس تکلیف کا ہماری صحت یابی میں کوئی ممکنہ رول لازماً ہوگا۔
اللہ تعالیٰ پر ہمارا اس سے کہیں زیادہ اعتماد ہونا چاہیے۔ آنے والی مصیبتوں اور مشکلات کے سلسلے میں بھی یہ یقین ہونا چاہیے کہ اگر ہم نے کوشش کا حق ادا کردیا تو ان شاء اللہ یہ مشکلات بھی ہمارے لیے بالآخر کامیابی کے راستے کھولنے کا ذریعہ بنیں گی۔ ظفر علی خان مرحوم نے اپنے ایک شعر میں توکل کا خلاصہ بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے ؎
توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا نتیجہ اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر
اس طرح توکل کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہم کرسکتے ہیں، جو کچھ ہمارے بس میں ہے وہ آخری حد تک ہم کرگزریں اور جو ہمارے بس میں نہیں ہے اس میں بھی بے بسی کا کوئی احساس نہ آنے دیں، بلکہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے بعد عزم ویقین اور اطمینان سے دل ودماغ لبریز رہے۔ فکرمندی اور بے اطمینانی اسی وقت تک ہو جب تک ہم اپنی تدبیر اور کوشش کا حق ادا نہیں کر رہے ہیں جب اپنے حصے کا کام کرلیا تو پھر اللہ کافی ہے اور اس کی مرضی پر ہم راضی اور مطمئن ہیں۔
توکل اور اجتماعی رویہ پر اس کا اثر
توکل اور توکل کی یہ اسپرٹ انسانوں اور انسانی جماعتوں کو بہت سی اُن کم زوریوں سے نجات دلاتی ہے جو کامیابی و سربلندی کی راہ میں رکاوٹ اور پیروں کی بیڑیاں بنتی ہیں۔
۱۔ تدبیر، اسباب اور جدوجہد: ناکامیوں کا ایک بڑا سبب تدبیر، اسباب اور جدوجہد سے گریز ہے۔ توکل ان سے گریز کا نہیں بلکہ ان کو بھرپور طور پر اختیار کرنے کا سبق سکھاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اسباب کے ذریعہ ہی عام طور پر اپنی مشیت پوری کرتا ہے۔ جیسا کہ واضح کیا گیا، اللہ پر توکل کے مطلب میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اُس کی اِس سنت کا احترام کیا جائے۔ اسباب کو اختیار کرنا اور ممکنہ تدابیر کرنا، یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، اس لیے اللہ پر اعتماد کا تقاضا ہے کہ اس حکم کی تعمیل کی جائے اور بھر پور طریقے سے کی جائے۔ یہ اللہ کی سنت پر اعتماد ہے۔ معاملہ چاہے، انفرادی زندگی کا ہو یا اجتماعی معاملات کا، پہلے تدبیر اور کوشش، پھر اللہ سے استعانت اور معاملے کو اس کے حوالے کرنا، یہی مومنانہ شیوہ ہے۔ ایک طالب علم پہلے بھرپور پڑھائی کرے، اس کے بعد نتیجے کو اللہ پر چھوڑے۔ ایک مریض علاج کی ممکنہ کوشش کرے پھر اللہ کے فیصلے کو خوشی سے قبول کرلے۔ پہلے روزی کی تلاش کی ممکنہ جستجو کی جائے پھر رازق حقیقی، جو کچھ عطا کرے اُس پر اطمینان و استغنا کا نمونہ بن جائے۔ اجتماعی زندگی میں بھی، یہ نہیں ہوسکتا کہ مسلمان حسن تدبیر اورجہد و عمل سے غافل رہیں اور اللہ سے مدد و نصرت کی توقع رکھیں۔ یہ ضروری ہے کہ وہ بہترین حکمت عملی بنائیں، اعلی درجے کی صلاحیتوں کی اپنے درمیان افزائش کریں، اپنی کم زوری اور درماندگی کے حقیقی اسباب کی کھوج کریں اور اُن اسباب پر قابو پائیں، بہترین عصری صلاحیتوں کی حامل قیادتوں کو ابھاریں، اچھے سے اچھے اسباب و وسائل کے حصول کی ممکنہ کوشش کریں اور اُن کو بہترین طریقے سے استعمال میں لائیں، جدوجہد اور قربانی کا حق ادا کریں، مطالعہ و تحقیق، منصوبہ بندی، انتظام وقیادت کے جدید ترین طریقوں کو روبہ کار لائیں۔ اس عالم اسباب میں کامیابی کے یہی راستے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو کامیابی کی ان معروف علتوں سے مستثنی نہیں کرتا۔ اللہ کے محبوب ترین رسول کو بھی ان راستوں کو اختیار کرنا تھا۔ ان اسباب کو اختیار کرنا ہی اس دور میں اونٹ کو رسی سے باندھنا ہے، جو توکل کا جز ہے۔
۲۔ فیصلہ، ارادہ اور خطروں سے پنجہ آزمائی: کسی بھی میدان میں کامیابی کے لیے بروقت فیصلے کرنے کی صلاحیت نہایت ضروری ہوتی ہے۔ ایک چھوٹے سے فیصلے میں دیر کبھی کامیابی کی منزل کو کوسوں دور کردیتی ہے۔ توکل کی صفت، آدمی کو قوت فیصلہ سے مالا مال کرتی ہے۔ تذبذب، اوہام اور اندیشوں کا شکار رہنا، توکل کی اسپرٹ کے خلاف ہے۔ توکل یہ ہے کہ آدمی غور و فکر کرے، مشورہ کرے اور اس کے بعد ایک رائے پر پہنچ کر، اللہ پر بھروسا کرے اور قدم آگے بڑھائے۔ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ (پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسا کرو)۔ رسول اللہ ﷺ نے استخارہ کا عمل سکھایا ہے۔ مشکل فیصلے کرنے کا یہ نہایت عمدہ متوکلانہ طریقہ ہے، جس میں آدمی غور و فکر کرتا ہے۔ پھر معاملہ کو اللہ کے سپرد کرکے، اس سے خیر طلب کر کے، کسی فیصلہ پر یکسو ہوجاتا ہے اور پوری دلجمعی کے ساتھ اس کے نفاذ میں لگ جاتا ہے۔ بڑے فیصلوں کے ساتھ بڑے جوکھم (رسک) وابستہ ہوتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں یہ جوکھم فیصلہ کرنے والوں کے لیے ذاتی مشکلات، آزمائشوں اور مصائب سے متعلق بھی ہوسکتے ہیں اور خود پوری جماعت یا ملت کے لیے لاحق اندیشوں سے متعلق بھی ہوسکتے ہیں۔ بڑی کامیابیاں ہمیشہ بڑے رسک کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں۔ توکل کی صفت رسک لینے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ رسک لینا، دراصل اللہ کی مدد و نصرت پر، لنھدینھم سبلنا پر، اور اس کی رحمت پر اعتماد کا نتیجہ ہوتا ہے، ویسے ہی جیسے ایک چھوٹا بچہ اپنے والد کو پیچھے کھڑا دیکھ کر پر خطر راستے پر بے خوف آگے بڑھتا ہے۔
۳۔ نتائج پر نظر، الزامات پر نہیں (outcome frame, not blame frame): ان دنوں یہ لیڈرشپ ٹریننگ کا ایک اہم موضوع ہے۔ ناکامیوں کا ایک بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ ہمارا ذہن مسائل اور مشکلات ہی میں الجھا رہتا ہے۔ مسئلہ کیوں پیش آیا؟ اس کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ اس کو کیا سزا ملنی چاہیے؟ ان سوالات پر ذہنوں کا صد فیصد ارتکاز اپنے مقصود پر نظریں جمانے، آگے کی راہیں دیکھنے اور ان پر چلنے کی صلاحیت سے محروم کردیتا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہمارا زیادہ ارتکاز اس پر ہونا چاہیے کہ ہمیں کیا حاصل کرنا ہے (outcome) اور اس کے لیے اس وقت کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ توکل، آوٹ کم فریم (outcome frame) پیدا کرتا ہے۔ جو کچھ ہوگیا، وہ اب ہماری تدبیر اور کوشش کے دائرے سے نکل گیا۔ جو کچھ دوسرے کررہے ہیں، وہ بھی ہمارے دائرہ عمل سے پرے ہے۔ اس لیے یہ سب اللہ کے حوالے ہے۔ ہمیں بس یہ دیکھنا ہے کہ ان حالات میں ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ہمارے لیے عمل کی دنیا میں کیا متبادل بچے ہیں؟ کیا تدبیر، کیا قدم، کیا فیصلہ اور کیا عمل ہمارے دائرہ امکان میں باقی ہے؟ ابھی کون سی وہ رسّی ہماری دسترس میں ہے، جسے ہم باندھ کر معاملے کو اللہ کے حوالے کرسکتے ہیں؟
۴۔ دائرہ اثر میں ارتکاز، دائرہ تعلق میں نہیں (circle of influence, not circle of concern): اسی سے ملتی جلتی تھیوری مشہور لیڈرشپ کوچ اسٹیفن کوئے نے پیش کی ہے[3] کہ کامیاب ترین لوگوں کی ایک صفت یہ ہوتی ہے کہ اُن کا ارتکاز اُن باتوں پر ہوتا ہے جو وہ کرسکتے ہیں یا جن پر وہ اثر ڈال سکتے ہیں(circle of influence)۔ وہ اثر کا دائرہ بڑھانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکن ان باتوں سے بہت زیادہ تعرض نہیں کرتے جو ان کے دائرہ اثر سے پرے ہوں۔ جب کہ ناکام لوگ زیادہ تر اُن امور میں اپنا ذہن اور وقت لگاتے ہیں جو اُن کے کنٹرول سے باہر ہوتے ہیں۔ جن پر وہ کوئی اثر نہیں ڈال سکتے، محض اپنی دلچسپی کا یا تشویش کا اظہار کرسکتے ہیں(circle of concern)۔ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ہماری محدود قوت و توانائی اُن کاموں میں لگے جن کے سلسلہ میں ہم کوئی تبدیلی لاسکتے ہیں یا نتیجہ پیدا کرسکتے ہیں۔
یہ عین توکل کا فلسفہ ہی ہے۔ توکل بھی یہی سکھاتا ہے کہ جو باتیں آپ کے دائرہ اختیار سے پرے ہیں، جن کے سلسلے میں کوئی تدبیر آپ نہیں کرسکتے، کوئی سبب یا وسیلہ اختیار نہیں کرسکتے، وہ اللہ کا دائرہ ہے، اُس پر بھروسا کیجیے، اس سے دعا مانگیے، استعانت کیجیے، اوراُنھیں اللہ پر چھوڑ دیجیے۔ ان کے سلسلے میں غیر متوازن فکر مندی اور اپنی ذہنی و عملی توانائیوں کو اس پر لگانے کا کوئی محل نہیں ہے اور جہاں آپ کچھ کرسکتے ہیں وہاں کرگزرنے پر توجہ دیجیے کہ وہ آپ کا دائرہ ہے۔ اسی میں آپ کو رسی باندھنے کا حکم ہے۔
مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ ناکام گروہوں اور قوموں کی عادت یہ ہوتی ہے کہ اُن کی زیادہ توجہ بیرونی مسائل اور مشکلات پر ہوتی ہے۔ وہ رات دن اُن کا رونا روتے رہتے ہیں اور بیرونی مسائل کی وجہ سے اپنے لیے کامیابی و کامرانی کو ناممکن سمجھتے ہیں۔ صبح وشام وہ دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور حقیقی و غیر حقیقی سازشوں کا ماتم کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ کامیاب افراد کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کی نظر اپنے مقصود پر ٹکی ہوتی ہے۔ جو کچھ ان کے بس میں ہے اور ممکن ہے، اسے کر گزرنے پر ان کی زیادہ توجہ ہوتی ہے۔ جو امور ان کے دائرہ امکان سے پرے ہیں، ان پر وہ زیادہ دھیان نہیں دیتے۔ توکل یہی اسپرٹ پیدا کرتا ہے۔ امکان کی آخری حد تک کوشش کرنا اور جو امور ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہوں، ان کو اللہ کے حوالہ کردینا یہی توکل ہے۔ یہ سوچ کا ایک بالکل مختلف پیراڈائم ہے۔ یہ پیراڈائم افراد اور گروہوں کو عملیت پسند اور رجائیت پسند بناتا ہے۔
۵۔ ماضی کے نوحے اور مستقبل کے اندیشوں سے زیادہ حال کے عمل پر توجہ: افراد اور قومیں جب ضرورت سے زیادہ ماضی پرست ہوجاتی ہیں تو حال کی ڈوری ان سے چھوٹ جاتی ہے۔ ماضی کی خوشگوار یادوں (پدرم سلطان بود) کا سحر یا ناگوار یادوں کی اذیت انھیں آج کے مسائل اور آج کے امکانات کی طرف آنے ہی نہیں دیتی۔ جو کچھ ہوگیا اس پر اب ہمارا بس نہیں ہے۔ اس کے نتائج اب اللہ کے حوالے ہیں۔ اگر ہماری غلطیوں کی وجہ سے کچھ خراب ہوگیا ہے تو ہمارے پاس توبہ کا اور تلافی کا راستہ ہے جس کا تعلق آج کے عمل سے ہے۔ اسی طرح مستقبل کے حوالے سے طرح طرح کےاندیشوں میں گرفتار لوگ بھی ناکام لوگ ہوتے ہیں۔ آدمی کے ذہن پر حادثہ کا خوف سوار ہوجائے تو وہ زندگی میں کسی سفر کے لائق نہیں رہتا۔ ماضی پر ارتکاز ڈپریشن (depression) پیدا کرسکتا ہے اور مستقبل پر ارتکاز اینگزائٹی (anxiety)۔ دونوں نفسیاتی امراض ہیں۔ یہ امراض جس طرح افراد کو لاحق ہوتے ہیں اسی طرح جماعتوں کو بھی لاحق ہوسکتے ہیں۔ مستقبل میں کیا ہوگا، یہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ ہمارا کام آج بہتر سے بہتر عمل کرنا ہے۔ ؎
وہ قوم نہیں لائق ہنگامہ فردا جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے
توکل یہ ہے کہ ہمارا عمل بہتر ہوگا تو ان شاء اللہ مستقبل بھی بہتر ہوگا۔ ہمیں گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو ہوگا وہ اللہ کے وعدے اور اس کی سنت کے مطابق ہوگا۔ اس لیے مطلوب رویہ یہ ہے کہ ہماری توجہات حال پر اور آج کیے جانے والے کاموں پر ہوں۔ ماضی سے ہم درس لیں، مستقبل کو سامنے رکھ کرمنصوبہ بندی کریں۔ لیکن اصل محنت و جستجو حال میں ہونی ہے۔ اس لیے سب سے زیادہ توجہ آج پر اور آج کے اُن مطلوب کاموں پر ہو جن کے ذریعہ مستقبل بہتر ہوسکتا ہے اور ماضی کے نقصانات کی تلافی ہوسکتی ہے۔
۶۔ ممکنات پر ارتکاز، عملیت پسندی اور نفسیاتی طمانیت: توکل انسان کو ہر حال میں نفسیاتی لحاظ سے مستحکم ومطمئن رکھتا ہے۔ یہ کبھی مایوس ہونے نہیں دیتا۔ جذبات کو کنٹرول میں رکھتا ہے۔ بڑے سے بڑے حادثے میں بھی آدمی کو اور گروہوں یاقوموں کو ٹوٹنے نہیں دیتا۔ ایک راستہ بند ہوجائے تو توكُّل کرنے والا آدمی، اس کا ماتم کرتے نہیں بیٹھتا بلکہ دوسرے راستے تلاش کرلیتا ہے۔
بے عمل دانش وری، تبدیلی کے کسی تصور کے بغیر شکایتی و ماتمی تجزیہ نگاری، اور ٹھوس تدبیروں کے بغیر شیخ چلی کے خواب، یہ سب رویے توکل کے فلسفے سے ٹکراتے ہیں۔ توکل عملیت پسندی اور حقیقت پسندی کا مزاج پیدا کرتا ہے، ممکنات (possibilities) پر ارتکاز عطا کرتا ہے۔ یہ دیکھا جائے کہ ہمارے لیے کیا کرنا ممکن ہے؟ ممکنات کے دائرے کو بڑا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہرممکن تدبیر اختیار کی جائے، ہر ممکن وسیلہ استعمال کیا جائے، ہر ممکن قدم اٹھایا جائے۔ اس لیے کہ اسباب کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنا توکل کی پہلی شرط ہے۔ اور جو ممکنات سے پرے ہے، اس پر توانائی نہ لگائی جائے، اس پر کسی پریشانی کے ہم شکار نہ ہوں، اور وہ رات دن لاحاصل گفتگو کا موضوع نہ بنے۔ اس لیے کہ جس معاملہ میں کوئی تدبیر ہمارے لیے ممکن نہ ہو، وہ اللہ کے حوالے ہے۔ اپنا کام آخری حد تک کیا جائے اور پھر اللہ پر بھروسا رکھا جائے۔ یہی توکل ہے اور یہی توکل کی اسپرٹ ہے۔
۷۔ مقصد و نصب العین اور اصولوں پر استقامت: اس موضوع کو اس سلسلہ مضامین میں ہم مسلسل زیر بحث لارہے ہیں۔ توکل ہمیں اپنے مقصد و نصب العین اور اپنے اصولوں پر استقامت کے ساتھ جمے رہنے میں مدد دیتا ہے۔ ہمارے اصول اور ہمارے مقاصد، یہ اللہ کے احکام ہیں، اس پر اعتماد کا تقاضا ہے کہ ہر حال میں ہم ان پر قائم رہیں، اور جو کچھ ہم سے ان مقاصد کے حصول کے لیے ممکن ہے وہ کرتے رہیں۔ اوپر نبیوں کے حوالے آچکے ہیں کہ وہ اپنے کاموں پر استقامت کے ساتھ جمے رہے اور یہی کہا کہ ہم اپنا کام کرتے رہیں گے اور مخالف قوتیں چاہے جو کریں، ہم اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس کی کوئی فکر نہیں کریں گے۔ اللہ کے دین کی دعوت اور اللہ نے جس کام کو فرض کیا ہے اس کی ادائیگی کے معاملے میں صرف مادی تدابیر اور قوانین فطرت ہی پر انحصار کافی نہیں ہے، بلکہ اللہ کی مدد و نصرت کو شامل حال کرنا بھی ضروری ہے۔ ہم اپنی کوشش کا حق ادا کریں گے تو نتیجہ ، اللہ کی مدد سے، ہماری کوشش اور اسباب کی ظاہری طاقت و صلاحیت سے کہیں بڑھ کر نکلے گا۔ یہ اعتماد ہی توکل ہے۔ توکل نہ ہو تو آدمی اپنے اصولوں کے سلسلے میں کم زوری اور مداہنت کا رویہ اختیار کرنے لگتا ہے۔
اس کے ساتھ یہ بھی توکل کی کمی کی علامت ہے کہ اپنے اعلیٰ مقصد کی طرف آگے بڑھنے کے لیے جلد بازی میں آدمی غیر اصولی انتہا پسندی کا شکار ہوجائے۔ نبی کریم ﷺ سے بھی یہی کہا گیا کہ آپ کا کام انذار و تبشیر ہے، وہ کام کرتے رہیں۔ باقی گناہ گاروں سے نبٹنے کے لیے اللہ موجود ہے، اس پر توکل کریں۔(الفرقان: ۵۸)
توکل پر مبنی حکمت عملی
اوپر اجتماعی رویے کے ذیل میں جو سات باتیں بیان کی گئی ہیں، ہمارا اجتماعی رویہ اکثر ان کے بالکل برعکس نظر آتا ہے۔ تدبیر، حکمت عملی اور وسائل کی کوشش ہم بہت کم کرتے ہیں۔ آج کے اس دور میں کامیابی کا انحصار جن باتوں پر سمجھا جاتا ہے، اُن کی فکر ہمارے درمیان بہت کم ہے۔ اعلیٰ درجہ کی صلاحیتوں کی افزائش، ان کی قدر دانی اور استعمال کا سلیقہ مفقود ہے۔ علمی اداروں اور تھنک ٹینک کا رواج اور ٹھوس علم و تحقیق کی بنیادوں پرفیصلے کرنے کا کلچر نہایت کم زور ہے۔ قیادت و انتظام، منصوبہ بندی و نفاذ کے ترقی یافتہ طریقے معدوم ہیں۔ حالانکہ یہ سب تدبیر کا حصہ ہیں اوراس لیے توکل کا تقاضا ہیں۔ دوسری طرف ایک دوسرے پر تنقیدوں میں، اپنے خلاف ہورہی سازشوں کے تذکروں میں، اور ہر اُس بات کو اپنے حواس پر طاری کرلینے میں ہم پیش پیش ہیں جن پر ہمارا نہ بس ہے اور نہ جن کا کوئی تعلق ہمارے عمل و اقدام سے ہے۔ جدید دانش وروں کی بڑی تعداد علمائے کرام سے شاکی نظر آتی ہے اور بہت سے علماء جدید دانش وروں کو تمام مسائل کا ذمہ دار مانتے ہیں۔ بزرگوں سے ملیں تو ان میں سے اکثر کو خرابی کی جڑ نوجوانوں میں نظر آئے گی اور نوجوانوں کی اکثریت کو بزرگوں میں۔ الا ماشاء اللہ۔ حالانکہ توکل ہم کو اپنے عمل کا مکلف کا بناتا ہے۔ دوسروں پر ہم اثر انداز ہوسکتے ہوں تو ضرور ہوں ورنہ اصلاً اپنے کام پر توجہات کو مرکوز کریں۔ اگر ہم ملت اسلامیہ کے قائدین کے بیانات، ہماری صحافت کے تجزیے اور سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا پر اپنے نوجوانوں کی تحریروں کا جائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ پوری ملت الزامی چوکھٹے(blame frame) میں سوچ رہی ہے اور زندگی گزار رہی ہے۔ مطلوب اہداف و نتائج کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ ہمارے اجتماعی قویٰ کا عظیم حصہ فکرمندی کے دائرے(circle of concern) میں لگ رہا ہے ، اثراندازی کے دائرے(circle of influence) میں نہیں۔ آپ کوئی بھی اردو اخبار اٹھالیجیے اور اُس کے تجزیوں پر نطر ڈالیے۔ اُمت کی زبوں حالی کا ماتم، مشکلات و مسائل کے نوحے، فلاں فلاں کی ریشہ دوانیوں اور شرارتوں کے تذکرے، سازشوں کے نظریات، اردو لفظیات کی مکمل قوت استعمال کرتے ہوئے آنے والے بھیانک مستقبل کی بھرپور مبالغے کے ساتھ منظر کشی، یہ سب آپ کو ہر صفحے پر ملے گا لیکن آج کیا کرنا چاہیے؟ ہمارا اگلا عمل یا قدم کیا ہونا چاہیے؟ (جسے جدید اصطلاح میں action item کہا جاتا ہے)، مضامین و تجزیوں کے دسیوں صفحات میں اور فیس بک کی سیکڑوں پروفائلوں میںاس سوال کا کوئی جواب نہیں ملے گا۔ ہمارے صحافی، دانش ور، قائدین حتی کہ ہمارے جدید تعلیم یافتہ نوجوان بھی ایکشن آئٹم کی سوچ سے خالی نظر آتے ہیں۔ لمبے لمبے تجزیوں اور طویل بحثوں کے بعد ہر ایک کی تان اسی پر ٹوٹتی ہے کہ کوئی لائحہ عمل بننا چاہیے ۔کوئی اسٹریٹجی تشکیل پانی چاہیے۔ حالانکہ ہمارا اصل کام یہی ہے۔ ماضی ہمارا ڈومین نہیں ہے۔ دوسری قوتوں کی کارستانیاںبھی ہمارا ڈومین نہیں ہیں۔ ہمارا ڈومین تو ہمارا کام، ہماری تدبیر، ہمارا اقدام ہے۔ ہماری قوتیں اسی پر لگنی چاہئیں کہ یہ کیا ہو؟
بے شک شر پسندوں کی شر انگیزیوں سے باخبر رہنا بھی ضروری ہے۔ ماضی کی غلطیوں کے احتساب کی بھی اہمیت ہے۔ دنیا میں کیا کچھ ہورہا ہے، اس کو جانے بغیر ہم صحیح قدم نہیں اٹھاسکتے۔ ان سب کے سلسلے میں بیدار رہنا ضروری ہے۔ ان بحثوں کا علمی و صحافتی تناظر بھی یقیناً مسلم ہے۔ لیکن باشعور و بامقصد گروہوں کے لیے ان سب کا حتمی مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ ان کے ذریعے اگلا قدم طے کیا جائے۔ ماضی کا ذکر ضرور ہو، دوسروں کی سازشوں کا حوالہ بھی حسب ضرورت ہو، حالات کا تجزیہ بھی ہو، لیکن مقصد بس یہ ہو کہ وہ تدبیر اور وہ ایکشن آئٹم ڈھونڈے جائیں جنھیں کرنا ہمارے لیے ممکن ہو۔ یہ نہ ہو اور صرف نوحہ و ماتم اور خوف و مایوسی کے اظہار پر بات ختم ہوجائے تو کیا یہ رویہ توکل کی اسپرٹ کے خلاف نہیں ہوگا؟
اس سے ہمارے ذہنی سانچے کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک ذہنی سانچہ وہ ہے جس کے اعصاب پر یہ سوال غالب ہوتا ہے کہ ہائے یہ کیا ہوگیا؟ یہ ماضی کی تلخیوں کا مارا ایک شکست خوردہ ذہن ہے۔ ایک اور ذہنی سانچہ وہ ہوتا ہے جس کے اعصاب پر غالب سوال یہ ہوتا ہے کہ کل نجانے کیا ہوگا؟ ایسا ہوا تو کیا ہوگا اور ویسا ہوا تو کیا ہوگا؟ یہ مستقبل کے اندیشوں کا شکار ڈرپوک ذہن ہے۔ یہ دونوں ذہنی سانچے ناکامی پر منتج ہوتے ہیں۔ دونوں توکل کی اسپرٹ کے خلاف ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ ذہنی سانچے ہماری ناکامی اور ہمارے مسائل کے لیے ذمہ دار عوامل میں سے اہم عامل ہیں۔ جب کہ تیسرا ذہنی سانچہ مومنانہ و متوکلانہ ذہنی سانچہ ہوتا ہے۔ وہ ماضی اور مستقبل کو اللہ کے حوالے کرتا ہے۔ جو کچھ بس میں نہیں ہے اسے بھی اللہ کے حوالے کرتا ہے اور اس کے اعصاب پر جو سوالات حاوی ہوتے ہیں وہ یہ ہوتے ہیں: مجھے کیا کرنا چاہیے؟ ان حالات میں میرے پاس کیا راستے ہیں؟ منزل سے قریب تر ہونے کے لیے اب کیا کرنا ممکن ہے؟ حالات کو بہتر بنانے کے لیے میرے پاس کیا طریقے موجود ہیں؟ یہ عملیت پسند ذہنی سانچہ توکل کا نتیجہ ہوتا ہے اور کامیابی کی ضمانت بنتا ہے۔
امت کے افراد کی اس طرح تربیت ہو اوروہ توکل کی صفت سے آراستہ ہوں، یہ ہماری اس وقت ایک بڑی ضرورت ہے۔■
حوالے:
[1] بحوالہ شرح صحیح البخاری لابن بطال؛ مکتبۃ الرشد، الریاض؛ جلد۹ ،ص ۴۰۸
[2] سنن الترمذی؛ حدیث نمبر 2517؛ رواہ انس بن مالک؛ حسنہ الالبانی
[3] Covey Stephen R. (2013) Seven Habits of Highly Effective People; Simon and Schuster; New York.