اسلام کے دامن میں ہے خواتین کی حقیقی آزادی

مغرب کے پر فریب نعروں کی حقیقت آشکار

فرحت الفیہ، جالنہ

 

جیسے ہی ہم ’’آزادی نسواں‘‘ کا تصور کرتے ہیں ہمارے ذہنوں میں مغرب سے اٹھی فیمنزم کی تحریک کا تصور اجاگر ہوتا ہے جس نے سو سال پہلے آزادی نسواں اور حقوق نسواں کا پر فریب نعرہ بلند کیا تھا۔ وہ نعرے اس قدر جاذیبت کے حامل تھے کہ مشرقی معاشرے پر بھی بہت جلد اثر انداز ہو گئے اور مسلم خواتین بھی اس سے متاثر ہو گئیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ رفتہ رفتہ گھر کی پابندیوں کو چار دیواری سے تعبیر کیا جانے لگا اور امورخانہ داری اخلاق محبت حقوق کی ادائیگی جیسے خوبصورت اوصاف دقیانوسیت قرار دیے جانے لگے۔
آزادی نسواں ایک جائزہ
خواتین کے حقوق کے لیے یورپ سے کئی تحریکیں چلائی گئیں جن کا مقصد خواتین کو امور خانہ داری، بچوں کی پیدائش اور ان کی پرورش سے بیزار اور متنفر کر کے ان ذمہ داریوں سے آزاد کرنا، آزادی رائے سے لے کر بولنے پہننے، حتیٰ کے لائف پارٹنر بھی بوقت ضرورت تبدیل کرنے کی آزادی شامل تھی۔ سرمایہ داروں کے بچھائے ہوئے اس جال میں مغربی خواتین تو پھنس ہی گئیں، ہندوپاک کی بھی کئی خواتین اس دام فریب کا شکار ہو گئیں مگر بے حیائی اور غیر فطری نظام شاخِ نازک پہ آشیانہ کی طرح ناپائیدار ثابت ہوا اور خواتین دام ہم رنگ زمیں میں قید ہو کر رہ گئیں۔ نتیجہ کے طور پر ان کا خاندانی نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ آج ہمارے معاشرے میں بھی نام نہاد مسلم خواتین اس تحریک کا حصہ بنی ہوئی ہیں ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے بے ہودہ اور فحش نعرے اچھالے جا رہے ہیں اگرچہ ان فیمنسٹ خواتین کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے لیکن یہ سب کچھ کسی خاموش طوفان کا پیش خیمہ معلوم ہوتا ہے۔
خواتین کی آزادی اور اسلامی نقطہ نظر
حقوق انسانی کے علمبردار اور انصاف کے ٹھیکیدار بنے ہوئے بعض میڈیا گھرانوں نے عورت کی مظلومیت کو اپنی اسلام دشمنی میں سب سے بڑا ہتھیار بنایا ہے۔ اسلام بحیثیت انسان عورت اور مرد میں کوئی امتیاز نہیں کرتا۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہے ’’اے لوگوں ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا‘‘ (النساء:۱) اسلام نہ صرف خواتین کو ان کے حقوق دیتا ہے بلکہ صنف نازک کے لطیف وجود کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔’’اے نبیؐ اپنی بیویوں اور اہل ایمان کی عورتوں سےکہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادر لٹکا لیا کریں (تاکہ ستائی نہ جائیں اور) پہچان لی جائیں (الحزاب:۵۹) خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات پوری دنیا کی نصف آبادی کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ ہر دوسری تیسری خاتون کسی نہ کسی شعبے میں اپنے صنف مخالف سے ہراساں کی جاتی ہے۔ بات صرف ہراساں کرنے کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک عزیز میں پچھلے پانچ چھ سالوں میں عصمت دری کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ان تمام باتوں کی پیش نظر اسلام ایسے تمام عناصر کی حد بندی کرتا ہے اور نہ صرف عورتوں کو حجاب اور غض بصر کا حکم دیتا ہے بلکہ مردوں کو بھی ان احکام کا پابند بناتا ہے ۔’’اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے پاکیزہ ہے‘‘ (التوبہ:۳۰) یہ پاکیزہ احکام عورتوں کو تحفظ، عزت وشرف اور وقار بخشتے ہیں۔ مردوں کو بھی ایسے تمام امور سے حکماً روکا گیا ہے جس سے خواتین کے جسمانی استحصال کے اندیشے پیدا ہوتے ہیں۔ ’’اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو اور ان میں بسنے والوں کو سلام نہ کر لو یہی طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے امید ہے کہ تم خیال رکھو گے (النور:۲۷) رسول اللہ ﷺ نے راستے سے گزرتی ہوئی خواتین کو حکم دیا کہ وہ مردوں سے علیحدہ ہو کر چلیں۔ یہ سارے اسلامی آداب واحکام جس معاشرے میں نافذ کیے گئے اس کی سنہری تاریخ آج بھی زندہ وتابندہ ہے کہ ایک تنہا خاتونِ خانہ صنعا سے حضرموت تک سونا اچھالتی ہوئی طویل سفر طے کرتی ہے اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہوتا۔
اسلام میں خواتین کی معاشی حیثیت
خواتین اسلام میں معاشی لحاظ سے مستحکم ہوتی ہیں۔ وراثت میں اس کا اپنا حصہ ہوتا ہے جو باپ، بھائی اور شوہر کے مال سے شرعی اور قانونی طور سے اس کا حق ہے۔ نکاح کے موقع سے خواتین کو مہر دیا جاتا ہے جس کو فرض اور نکاح کے شرائط میں سے ایک شرط قرار دیا گیا ہے۔ یہ مہر عورت کی اپنی ملکیت ہے وہ چاہے خود پر خرچ کرے چاہے اپنی خوشی سے شوہر کی مالی امداد کے مصرف میں لائے یا چاہے اپنے والدین پر خرچ کرے اس کے متعلق وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہے۔ امہات المومنین اور دیگر صحابیات کی زندگی سے یہ دلیل ملتی ہے کہ وہ تجارت میں اپنا سرمایہ لگایا کرتی تھیں۔ اسلام میں خواتین پر نہ معاشی بار ڈالا گیا ہے اور نہ اسے معاشی ذمہ داری اٹھانے سے روکا گیا ہے۔ اگر کوئی عورت اپنے فرائض وحقوق جو اس کے متعلقین کے تئیں اس پر عائد ہوتے ہیں ان کو بخوبی انجام دینے کے بعد کوئی حلال آمدنی کا پیشہ اختیار کرتی ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ عورت کی کمائی اس کی اپنی کمائی ہے۔ کوئی اسے اپنے مفاد کی خاطر خرچ کرنے پر دباؤ نہیں ڈال سکتا حتیٰ کہ شوہر بھی نہیں، البتہ وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے خرچ کر سکتی ہے۔ ’’مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمائی کی‘‘(القرآن)
نکاح میں لڑکی کی رضامندی
نکاح کے وقت بھی لڑکی سے اجازت لینا ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’غیر شادی شدہ کا نکاح اس سے پوچھے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ (بخاری)
اسلام میں خواتین کی تعلیم
اسلام کی تعلیمات کا آغاز ہی علم سے ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ہر مسلمان مرد اور عورت کا علم حاصل کرنا فرض ہے‘‘۔ گویا علم حاصل کرنا چوائس یا شوق نہیں بلکہ فرض ہے بلا صنفی تفریق کے، اس میں مرد وعورت کی کوئی تفریق نہیں رکھی گئی۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی بہترین تعلیم وتربیت کرے پھر انہیں بیاہ دے ایسا شخص اور میں جنت میں اس طرح ہوں گے‘‘ آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملا کر بتایا۔
اسلام میں خواتین کا احترام
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’تمہاری دنیا کی چیزوں میں سے خوشبو اور عورتیں میرے لیے محبوب بنا دی گئی ہیں اور میری آنکھوں ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابی نے رسولؐسے سوال کیا کہ آپ سب سے زیادہ کس سے محبت کرتے ہیں تو آپ نے (بلا تامل) فرمایا: عائشہ سے۔ اللہ کے رسول اپنی بیٹی فاطمہؓ سے بے حد محبت فرماتے تھے۔ یہی نہیں آپ کی رضائی ماں حلیمہ سعدیہؓ جب آپ سے ملاقات کے لیے آتیں تو آپؐ احتراماً کھڑے ہو جاتے۔ آپ خواتین کی بہت عزت کرتے ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے۔ ایک مرتبہ ایک غلام نے خواتین کی سواری کو زور لگا کر کھینچا تو آپ نےفرمایا: ’’اس میں آبگینے ہے اسے زور سے نہ کھینچو‘‘ (ترمذی)
یہ ہے اسلام میں عورت کا مقام ومرتبہ۔ اس کی پیدائش پر جنت کی خوش خبریاں دی جاتی ہیں۔اسے عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ مردوں کی طرح وراثت کی حق دارہے۔ اسلام میں نہ تو عورت مظلوم ہے نہ محکوم بلکہ اس کے خالق نے اسے اعزاز بخشا ہے۔دراصل اسلام ہی ہے جو نہ صرف خواتین بلکہ تمام انسانوں کے لیے واحد نجات کا راستہ ہے۔ یہ انسانوں کو ان کے پورے پورے حقوق دیتا ہے، ان کے سارے مسائل کو حل کرتا ہے اور ان کے غموں کا مدوا کرتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلام کے سنہری اصولوں کو اپنائیں اور پوری دنیا کو اپنے عمل سے اس بات کی طرف دعوت دیں کہ خود ساختہ قوانین اور تحریکیں جو انسانوں نے ہی انسانوں پر تھوپ رکھی ہیں وہ نہ تو خود ان کے لیے نفع بخش ہیں اور نہ ہی دوسروں کے لیے۔ جب تک دنیا میں غیر فطری نظام رہے گا تب تک انسان مسائل کا شکار ہوتا رہے گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 اپریل 2021