اسلام کا قانون میراث اور مسلمانوں کا طرز عمل

شرعی حق سے دستبرداری کے لیے لڑکیوں پر دباوڈالنا جائز نہیں

عزیز احمد محمد اسرائیل سنابلی

جہیز کی حوصلہ شکنی اور عورتوں کے ورثے کو یقینی بنانے کی ضرورت
کچھ لوگ کہتے ہیں لڑکیاں اپنا حق خود ہی معاف کردیتی ہیں، اس وجہ سے ان کا حصہ نہ مقرر کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ کیا واقعی بات ایسی ہی ہے جس طرح کہی جاتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ لڑکیاں اپنا حصہ معاف کرتی نہیں بلکہ ان سے معاف کرایا جاتا ہے۔ ان کے سامنے کچھ ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں جن سے مجبور ہوکر وہ اپنے حق سے دستبردار ہونے ہی میں اپنی عافیت سمجھتی ہیں۔ کھلے یا دبے لفظوں میں انہیں میکہ یا حق وراثت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کو کہا جاتا ہے۔ عورت ذات جو خود اپنی بے عزتی برداشت کر سکتی ہے مگر اپنے میکہ کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں کرتی وہ کیوں کر یہ برداشت کرسکتی ہے کہ اس سے اس کا میکہ چھوٹ جائے۔ وہ تو یہی چاہتی ہے کہ زندگی کی آخری سانس تک اس کا تعلق میکہ سے جڑا رہے، اس کے بھائی اس کے دکھ سکھ کے ساتھی بنے رہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ میکہ پر جائیداد کو قربان کر دیتی ہے۔
عموماً اس کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی ہے۔ معاف کرنے یا کرانے کی بات وہاں ہوتی ہے جہاں تھوڑی بہت دینداری ہوتی ہے۔ ایک طرف انہیں اپنی دینداری کا خیال ہوتا ہے دوسری طرف موروثی جائیداد کی محبت بھی ہوتی ہے بہن کے توسط سے جسے غیروں کے ہاتھوں میں پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے حق سے دست بردار ہوجائے تو جس کے حق میں وہ دست بردار ہوا ہے وہ اپنے قبضہ میں لے کر فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے دلی رضا مندی ضروری ہے بغیر دلی رضامندی کے کسی قسم کے دباو کے ذریعہ معاف کرانے والوں کا اللہ تعالیٰ ضرور محاسبہ کرے گا۔
اس عمل سے ہمارے سماج کی سطحیت واضح طور پر کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جس صلہ رحمی کی اسلام دعوت دیتا ہے اسے ہم نے چند سکوں سے مشروط کر دیا ہے۔ یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ معافی کی رسم صرف لڑکیوں کے ساتھ کیوں ادا کی جاتی ہے؟ کبھی لڑکے بھی دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حصہ کو معاف کرنے کی جسارت دکھائیں۔
حالت تو یہ ہے کہ بھائی بہن کو پوری جائیددا ہڑپ کرنے کے بعد کبھی احسان کے چند ٹکڑے یا کپڑے یا دیگر سامان کی شکل میں دیتا ہے تو اس طرح ڈھنڈورا پیٹتا ہے گویا اس کہ اس نے حاتم طائی کو مات دے دی، حالانکہ اس نے اس کی جو جائیداد لے رکھی ہے اس سے وہ اس جیسے لاکھوں جوڑے خرید سکتی ہے۔
اس سلسلہ میں لڑکیوں کو بھی اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہوگی۔ دباو میں آکر معاف کردینے کے عمل کی وجہ سے قانون میراث پر عمل متروک ہوچکا ہے۔ انہیں اپنا واجبی حق حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے لہٰذا میکہ چھوڑنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ چند دنوں کی ناراضگی کے بعد بھائی خود لائن پر آجا ئیں گے۔
موروثی جائیداد کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے کا خدشہ
ایک خدشہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ شریعت کے مطابق وراثت کی تقسیم کرکے لڑکیوں کو غیر منقولہ جائیداد میں حصہ دینے سے موروثی جائیداد ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی اور بعض صورتوں میں بے مصرف ہو جائے گی، مثلاً ایسی زمین جس پر سبزی اگائی جاتی تھی اگر کوئی شخص اپنی بہن کو دے دے جس کی شادی کسی مویشی پالنے والے سے ہوئی ہو تو وہ زمین جو سبزی اگانے کے لیے موزوں تھی گائے بھینس کے چرانے میں استعمال کی جائے گی۔ جس سے اس کا صحیح استعمال نہیں ہو پائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ صرف منقول جائیداد میں لڑکیوں کو حصہ دینے کی وکالت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ لڑکیاں منتقل ہونے والی ہوتی ہیں، وہ منتقل ہوکر اپنے سسرالی چلی جاتی ہیں اسی وجہ سے انہیں منقولہ جائیداد میں حصہ دو اور لڑکے جو غیر منتقل ہوتے ہیں انہیں شادی کے بعد وہیں رہنا ہوتا ہے اس وجہ سے اپنی غیر منقولہ جائیداد میں حصہ دیا جائے۔
جہاں تک منقولہ اور غیر منقولہ کی تفریق کی بات ہے تو یہ صحیح نہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وراثت کی تقسیم کے بعد لڑکی غیر منقولہ جائیداد میں اپنے حصہ کا معاوضہ لے کر موروثی جائیداد وہیں باقی رہنے دے جن لڑکیوں کا سسرال میکے سے دور ہو ان کو اسی میں سہولت ہوگی۔ بہر حال انہیں اس پر مجبور نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ یہ ان کا حق ہے اور اس کے تصرف کے بارے میں وہ زیادہ حق دار ہیں۔
جہاں تک جائیداد کے منتشر ہونے کی بات ہے تو اسلام اس کا قائل ہی نہیں کہ کوئی جائیداد ایک ہی جگہ متحد شکل میں باقی رہے جس کی وجہ سے دولت ایک ہی جگہ سمٹی رہے۔ وہ دولت کا جماو نہیں بلکہ پھیلاو پسند کرتا ہے۔ قرآن اپنا واضح اصول بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:(ترجمہ) جو (مال) بھی اللہ بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دے، وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے۔ تاکہ وہ تمہارے مالداروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے، جو کچھ رسول تمہیں دیں وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دیں رک جاو اللہ سے ڈرو ، اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔
اس آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے کہ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ مال صرف مالداروں کے درمیان ہی گردش کرتا رہے بلکہ دولت کا پھیلاو ہو اور دولت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دوسرے کے ہاتھوں میں پہنچتی رہے۔ میراث کی تقسیم بھی انہیں وسائل میں سے ہے جس سے اسلام کا یہ قانون نافذ ہوتا ہے۔
دراصل یہ تشویش اس وجہ سے ہورہی ہے کیوں کہ ہم اسلام کے قانون وراثت کو عملی شکل میں نافذ ہوتا نہیں دیکھ رہے ہیں۔ جب یہ قانون مکمل طور پر ہمارے معاشرہ میں نافذ ہوجائے اور ہم اس کا مشاہدہ کرلیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ کتنی بڑی نعمت سے ہم محروم تھے۔ اگر یہ خطرہ ہے کہ بہن اپنا حصہ لے کر چلی جائے گی تو اس کی بیوی بھی تو کسی کی بہن بیٹی ہوگی جو اپنا حصہ لے کر آئے گی اسی طرح توازن برقرار رہے گا۔
عورتوں پر ظلم بڑھنے کا خطرہ
یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ جب لوگوں کو مکلف بنایا جائے گا کہ موروثی جائیداد میں عورتوں کو ان کا حق دیں تو عورتوں پر ظلم و زیادتی میں اضافہ ہوگا۔ ابھی جبکہ لڑکیوں کو میراث میں حصہ نہیں دیا جاتا اس کے باوجود حالت یہ ہے کہ لڑکیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔ مشہور ماہر معاشیات ڈاکٹر بھرت جھنجھن والا اس خدشہ کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’عورتوں کو غیر منقولہ جائیداد میں حصہ دینے کے خطرناک انجام سامنے آئیں گے۔ موجودہ دور میں بیٹی کو پرایا دھن مان کر اسے پالا، پڑھایا جاتا ہے اور جہیز دے کر اسے باوقار انداز میں رخصت کیا جاتا ہے۔ کنیا دان کرنا ثواب کا کام بتایا گیا ہے۔ بیٹی کے پیدا ہونے پر ماں باپ ملول ضرور ہوتے ہیں چوں کہ انہیں بڑھاپے کا سہارا نہیں ملتا مگر بیٹی ان کے لیے پریشانی خطرہ نہیں بنتی ہے۔ غیر منقولہ جائیداد میں حق دینے سے بیٹی کو خاندان کا دشمن مانا جانے لگے گا۔ بیٹی کے پیدا ہوتے ہی شمار ہونے لگا کہ اس کے حصے کون سا کھیت آئے گا۔ اس سے بیٹی کے تئیں مقابلہ آرائی، نفرت اور برے جذبات کو فروغ ملے گا۔ میرا خیال ہے کہ جنین کشی اور اولاد کشی میں بہت اضافہ ہوگا۔ یاد رکھیں کہ جنین کشی میں اکثر مائیں بھی تعاون کرتی ہیں چونکہ ضعیفی میں اسے بیٹے کا ہی سہارا ملتا ہے موروثی جائیداد میں حصہ دینے سے وہ خاندان کی دشمن بن جائے گی‘‘۔
یہ چند اسباب ہیں جنہیں اگر اعذار کہا جائے تو بے جانہ ہو گا جن کو بہانہ بناکر اللہ تبارک وتعالیٰ کے نافذ کردہ احکام میراث کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین
میراث کی تقسیم کا صحیح طریقہ کار:
میراث کی تقسیم میں تاخیر کرنے سے بعد میں بہت سی قباحتیں پیدا ہوجاتی ہیں اس وجہ سے میت کی تجہیز وتکفین کے بعد جو مال بچے اس کو قرآن مجید میں بیان کردہ طریقے کے مطابق جلد از جلد تقسیم کردینا چاہیے تاکہ ہر شخص اپنا مال اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرسکے۔ نسل در نسل ترکہ تقسیم نہ کرنا صحیح نہیں، ہمارے ملک میں جوائنٹ فیملی سسٹم کے رواج کی وجہ سے عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ ترکہ کئی کئی پشتوں تک بغیر تقسیم کے خاندان کے افراد کے تصرف میں رہتا ہے اور جب کبھی تقسیم کی نوبت آتی ہے تو صحیح طور پر تقسیم نہیں ہوتی۔
یاد رہے کہ عورت چار حیثیتوں سے وارث بنتی ہے۔ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی، ہر صورت میں حق الگ الگ ہوگا۔
بیوی کا حصہ:بیوی کے حصہ پانے کی دو صورتیں ہیں:
۱۔ میت کی کوئی اولاد نہ ہو تو بیوی کو ترکہ کا ١/٤ (چوتھائی) حصہ ملے گا۔
۲۔ میت کی کوئی اولاد ہو خواہ اس بیوی سے یا اس کی دوسری بیوی سے تو بیوی کو یا سب بیویوں کو (اگر ایک سے زائد ہوں )ملا کر ١/٨ (آٹھواں ) حصہ ملے گا۔
ماں کا حصہ:ماں کے حصہ پانے کی تین صورتیں ہیں:
۱۔ میت کی کوئی اولاد یا بھائی بہن موجود نہ ہوں تو ماں کو ترکہ کا ١/٣ (تہائی) حصہ ملے گا۔
۲۔ میت کی کوئی اولاد یا دو بھائی بہن موجود ہوں تو ماں کو ترکہ کا ١/٦ (چھٹا) حصہ ملے گا
۳۔ اگر میت کے وارثوں میں صرف ماں باپ اور شوہر یا بیوی کا ١/٢ (آدھا) یا ١/٤ (چوتھائی) دینے کے بعد جو ١/٢ (آدھا) یا ٣/٤ (تین چوتھائی) حصہ بچے گا اس کا ١/٣ (تہائی) حصہ ماں کو ملے گا۔
بیٹی کا حصہ:
۱۔ اگر میت کے صرف ایک بیٹی اور کوئی بیٹا نہ ہوتو بیٹی کو ١/٢ (آدھا) حصہ ملے گا۔
۲۔ اگر میت کی دو یا دو سے زائد بیٹیاں ہوں لیکن بیٹا نہ ہو تو سب بیٹیوں كو ترکہ کا ٢/٣ (دو تہائی) میں سے برابر حصہ ملے گا۔
۳۔ جب بیٹی یا بیٹیوں کے ساتھ بیٹا یا بیٹے موجود ہوں تو بیٹی یا بیٹیاں عصبہ لغیرہ ہوجاتی ہیں اور اس حالت میں انہیں بیٹیوں کا آدھا ملتا ہے۔
بہن کے حصے:
بہن کی تین شکلیں ہیں سگی بہن، علاتی بہن( باپ شریک بہن) اور اخیافی بہن (یعنی ماں شریک بہن) اس فرق کے حساب سے ان کے حصوں میں فرق ہوگا۔ یاد رہے کہ بہن ایک صورت میں وارث ہوگی جب میت کے نہ لڑکے ہو اور نہ باپ۔
سگی بہن کا حصہ
۱۔ اگر صرف ایک بہن ہو نہ اولاد نہ ہو بھائی تو بہن کو ١/٢ (آدھا) حصہ ملے گا۔
۲۔ اگر دو یا زیادہ سگی بہنیں ہیں تو ٢/٣ (دو تہائی) میں سب کو برابر ملے گا۔
۳۔ اگر بہن یا بہنوں کے ساتھ سگا بھائی بھی ہوتو بہنیں عصبہ لغیرہ ہوکر بھائیوں کا آدھا پائیں گی۔
۴۔ اگر بہن یا بہنوں کے ساتھ میت کی بیٹی یا پوتی وغیرہ ایک یا زیادہ ہوں تو بہنیں عصبہ مع وغیرہ ہو کر ذوی الفروض سے بچا ہوا سب پاتی ہیں۔
علاتی بہن کا حصہ:
اس کے حصہ پانے کی پانچ شکلیں ہیں:
دو شکلیں بالترتیب وہی ہیں جو سگی بہن کی ہیں
اگر ایک سگی بہن اور ایک یا زیادہ علاتی بہنیںہوں تو علاتی بہنوں کا حصہ تکملۃ للثلثین یعنی ١/٦ (چھٹا) ہوگا۔
اگر علاتی بہن کے ساتھ علاتی بھائی بھی ہوتو اس کا آدھا حصہ پائے گی
۵۔ اگر میت کی ایک یا زیادہ بیٹی کے ساتھ سگی بہن کے بجائے سوتیلی بہنیں ہوں لیکن سوتیلا بھائی نہ ہوتو علاتی بہنیں ذوی الفروض سے بچے ہوئے کل ترکہ کی حقدار ہوں گی۔
نوٹ : اگرمیت کا بیٹا یا باپ یا سگا بھائی یا سگی بہن عصبہ مع وغیرہ کی حیثیت سے ہوں یا دو سگی بہنیں ہوں تو علاتی بہن کوحصہ نہیں ملے گا۔
اخیافی بہن کا حصہ :اخیافی بہن کا حصہ بعینہ وہی ہے جو اخیافی بھائی کا ہوگا اس لیے ’’للذکر مثل حظ الانثین‘‘ کا قاعدہ اس پر نافذ نہیں ہوگا۔ اخیافی بہن کے حصہ پانے کی تین شکلیں ہیں:
۱۔ ایک اخیافی بہن یا بھائی ہوتو اسے ترکہ کا ١/٦ (چھٹا) حصہ ملے گا۔
۲۔ اگرایک سے زیادہ اخیافی بھائی بہنیں ہوں تو ١/٣ (تہائی) میں سے ہر ایک کو برابر ملے گا۔
۳۔ اگر اخیافی بھائی کے ساتھ میت کے باپ دادا بیٹے، پوتے، یا بیٹی ، پوتی زندہ ہوں تو اخیافی بھائی بہن کو حصہ نہیں ملے گا۔
ہمیں یہ حقیقت ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی انفرادی غلطی کو کسی حد تک نظر انداز کر دیتا ہے مگر اجتماعی غلطی کو معاف نہیں کرتا۔ حضرت شعیب، صالح، عاد اور لوط علیہم السلام کی قوموں کو اس وقت ہلاک کر دیا گیا جب ان کے اندر کی مخصوص برائی اس قوم کا خاصہ بن گئی اور اصلاح کی ساری کوششیں رائیگاں گئیں۔ یہ اللہ کے رسول ﷺ کی دعا کی برکت ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو اجتماعی طور پر ہلاک نہیں کرے گا۔
اللہ کے رسول ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ جو شخص کسی کی ایک بالشت زمین غصب کرے گا تو اللہ تعالیٰ سات زمینوں کا طوق اس کے گلے میں ڈال دے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس حالت سے بچائے کہ ہمارے خلاف دعویٰ کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ہماری بہن، بیٹی یا ماں ہوں اور ہر بالشت زمین کے عوض سات زممینوں کا بوجھ لادا جائے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  27 تا 02 اپریل  2022