اسلام ميں عورت کا مقام اور اس کی حيثيت
حقیقی خوشیاں صرف اسلام کے دامن سے ہی وابستہ
در صدف ايمان
عورت، وہ لفظ جو عزت و حرمت سے آگاہ کرتا ہے۔ جس کے وجود سے کائنات ميں رنگ ہے اور جسے ہر دور ميں مظلوم بنا کر پيش کيا گيا۔ اسلام کو ماننے والی کوئی عورت اسلام ميں نہ مجبور ہے نہ بے بس۔ مگر افسوس ہے ان لوگوں پر جنھوں نے آج اسلام کو بدنام کرنے کی ذمے داری اٹھا رکھی ہے۔ آج کی نام نہاد آزادی کا سہانا خواب دکھا کر بے چاری عورت کو ان حقوق سے بھی محروم کر ديا جن سے اسلام نے اسے نوازا تھا۔
ربِّ کائنات نے مرد و عورت کی تخليق کے درجے کو برابر رکھا۔ واضح فرمان ہے کہ ’’ايک جان سے پيدا فرمايا پھر اس سے اسی کا جوڑا بنايا۔‘‘ آج مرد کو ظالم اور عورت کو مظلوم بيان کيا جاتا ہے جبکہ اسلام نے عورت کو پيدائش سے لے کر موت تک تمام حقوق سے نواز ديا ہے۔ اسلام سے قبل لڑکيوں کی حالت تشويشناک تھی۔ اسلام نے لڑکی کو رحمت بنايا، گھر کا سکون بنايا۔ اسلام کا سورج طلوع ہوا تو عورت کا استحصال بند ہوا۔ عورت کو دی جانے والی ذلت پر گرہ لگی۔ عورت کو اُس وقار، عصمت، عزت و حرمت سے نوازا گيا جس کی وہ حقدار تھی۔ اور پھر لڑکيوں کو زندہ دفنانے کی جاہلانہ رسم ختم ہوئی۔ اسلام نے ہی عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق ديے۔ عورت کی حيثيت مستحکم کی۔
اسلام نے عورت کو مساوات، عزت و عصمت کا تحفظ، ميراث، مہر، خلع کا حق، انفرادی حقوق، تعليم و تربيت کا حق، عليحدگی کی صورت ميں اولاد رکھنے کا حق اور مشاورت کا حق ديا۔ عورت اگر کمائے تب بھی اس کے ذمہ يہ نہيں ہے کہ وہ اولاد کی کفالت کرے۔ يہ ذمہ داری باپ کی ہے۔ ماں، بہن، بيٹی اور بيوي! اسلام نے ہر رشتے سے عورت کا ترکے ميں حصہ رکھا ہے۔
اسلام ميں عورت کی پوزيشن اتنی مضبوط و مستحکم ہے ليکن اسے اسلام کے نام پر متنفر کيا جا رہا ہے، يہاں تک کہ مسلمان عورت اسلام ميں خود کو محفوظ سمجھنے کے بجائے قيد ميں سمجھنے لگی ہے۔ ہماری عورت متاثر ہے اس مغربی ماحول سے جہاں عليحدگی کی صورت ميں اولاد کی کفالت، اولاد کی ذمہ دارياں صرف اور صرف عورت کے نازک کاندھوں پر آجاتی ہيں۔ ہماری عورت متاثر وہاں کی اس عورت سے ہے جہاں کا مرد لمحے لمحے ميں عورت کی تذليل اور اس کی عزت نفس کو مجروح کرتا ہے۔
کيا ہم اس معاشرے سے متاثر ہيں جہاں عورت کو جنسی تسکين کے علاوہ اور کچھ سمجھا نہيں جاتا؟ وہاں سرِ عام زيادتی کی جاتی ہے اور اس کی سزا بھی اسی کو بھگتنی پڑتی ہے۔ اس عورت سے متاثر اسلام کی يہ ملکائيں اور شہزادياں جن کو پيدائش کے ساتھ ہی سارے حقوق مل جاتے ہيں ليکن وہ اس پر راضی نہيں ہيں بلکہ وہ اس عورت کے حقوق چاہتی ہے جسے رائے دہی کا حق بھی بيسويں صدی کے بعد ملا۔ ہميں مغربی معاشرے سے مرعوب ہونے کے بجائے اسلام کو سمجھنا ہوگا اور اس کی روشنی ميں اپنی حيثيت کو پہچاننا ہوگا۔ ايک نظر اگر مغربی معاشرے کی عورت پر ڈالی جائے تو يقيناً آپ کو وہ اس معاشرے کی تمنا کرتی ہوئی ملے گی جس کی آپ فرد ہيں۔ اسے عزت آپ کے يہاں نظر آ رہی ہے کيونکہ وہ اسے وہاں نہيں ملتی اسے عفت آپ کے يہاں دکھائی ديتی ہے کيونکہ وہ وہاں ناياب شئے ہے۔
ميری پياری بہنو! خدا کے ليے سوچو۔ تم کيوں خود کو مغربی غلامی ميں ڈھالنے کی کوشش کررہی ہو۔ کيا تم نہيں جانتی ہو کہ اس ماحول ميں سکون نہيں، پيار و محبت نہيں، عزت و احترام نہيں؟ خدا نے تم کو پاکيزہ زندگی عطا کی ہے اس کے مقابلے ميں ناپاک زندگی کو پسند مت کرو چاہے وہ ديکھنے ميں تم کو کتنی ہی بھلی معلوم ہو۔ خداوند تعالٰی فرماتا ہے کہ پاک اور ناپاک يکساں نہيں ہو سکتے۔ اس ليے ميری پياری بيٹيو! تم ہوش کے ناخن لو اور ناپاک کی طرف ذرا بھی توجہ مت کرو۔
اسلام نے عورت کو وہ احترام ديا کہ جس کا عشرِ عشير بھی پوری دنيا کے نام نہاد حقوقِ نسواں کے نام پر چيخ و پکار کرنے والے مل کر نہيں دے سکتے۔ اسلام نے عورت کو اتنا بلند مقام عطا کيا ہے کہ جنت کو ہی اس کی قدموں کے نيچے رکھ ديا ہے۔ گھر بيٹھے ہی اس کو تمام حقوق پہنچا ديے گئے۔ اس کی ذمہ دارانہ پرورش کو جنت کی ضمانت قرار ديا گيا۔ اگر کوئی مسلمان خاتون اچھی ماں نہ بن سکے اچھی بہن بيٹی اور اچھی بيوی نہ بن سکے تو يقيناً يہ اس کی بد نصيبی ہوگی۔ اتنا شرف اور اتنی عزت پانے کے باوجود اگر ہماری نگاہيں خباثت پر جا کر ٹک رہی ہيں تو يہ نہايت افسوس کا مقام ہے۔ اسلام کی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرو اور اس پر خوش رہو کہ سچی خوشياں صرف اسلام کے دامن ہی سے وابستہ ہيں باقی سب دھوکہ ہے۔
(درصدف ايمان الايمان اسلامک اکيڈمی کی ڈائريکٹر اور شعبہ تدريس سے وابستہ ہيں)