صلاح الدین شبیر
مسلم معاشرے میں نئے خاندان کا آغاز عقد نکاح سے ہوتا ہے۔ عقد نکاح کا ایک پہلو معاہداتی ہے جو شوہر اور بیوی کے درمیان عادلانہ حقوق و فرائض کی صورت گری کرتا ہے اور معاہدہ ٹوٹنے کی صورت میں شریفانہ علیحدگی کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو جذباتی ہے جو رحمت و مؤدت پر استوار ہے جس کی بنا پر دو اجنبی افراد (یک جان دو قالب)’’تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری‘‘ کی زندہ مثال بن جاتے ہیں۔ اس کا تیسرا پہلو روحانی ہے جو زن وشو کے باہمی معاہدے کو قانونی اور جذباتی سطح سے بلند کر کے مقدس رشتے میں تبدیل کر دیتا ہے جس کی وجہ سے دونوں جنت میں ابدی ہم نشینی کی تمنا کرنے لگتے ہیں۔ مستحکم خاندانی نظام کی یہ پہلی بنیاد ہے جو شعور اور شرح صدر کے ساتھ نکاح میں اسلامی تعلیمات کو اپنانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے مسلم معاشرے میں عقد نکاح اور اس کے اسلامی تقاضوں کا احساس گرد آلود ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جہیز اور وہ بھی مطالبات کے ساتھ، مہر میں حقیر رقم کا رواج اور وہ بھی نہ دینے کی نیت کے ساتھ، بن بلائی بارات اور وہ بھی طعام و قیام کی فرمائشوں کے ساتھ اور اسی طرح کے نامطلوب و ناروا طریقے مسلم معاشرے میں رائج ہوتے چلے گئے ہیں۔ جب نئے خاندانی سفر کا آغاز ہی کج روی سے ہو تو دوران سفر برکت، سکون اور ہم آہنگی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے سوائے اس کے کہ کسی مرحلے میں آدمی اپنی غلطی محسوس کرکے توبہ اور ممکنہ ازالۂ شر کی کوشش کرے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مسلم معاشرے کو عقد نکاح کے قانونی، جذباتی اور روحانی پہلوؤں کے سلسلے میں حساس بنایا جائے۔
اسلامی خاندان کی دوسری اہم بنیاد رحم و مصاہرت کے رشتوں کا احترام ہے۔ اس کا ایک پہلو قانونی اور دوسرا اخلاقی وجذباتی ہے۔ شوہر اور بیوی دونوں سے شادی کے بعد بھی اپنے اپنے والدین کے متعین حقوق کی ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اور اسی کے ساتھ دونوں سے اپنے اپنے ساس سسر کے سلسلے میں اخلاقی ذمہ داریوں کا تقاضا کیا گیا ہے اور ساس سسر کو بھی یہ دھیان رکھنا ہے کہ وہ بطور حق مطالبات کرنے کے بجائے اپنے اخلاقی رویوں سے داماد یا بہو کو مانوس رکھنے کی کوشش کریں تاکہ جبر و اکراہ کے بجائے خوشدلی اور ہم آہنگی کی فضا پروان چڑھے۔ لیکن موجودہ مسلم معاشرے میں اس پہلو سے بھی بے اعتدالی اور کج روی سرایت کر گئی ہے۔ بعض نوجوان بیوی کی ناز برداری میں اپنے ماں باپ کے قانونی حقوق تک بھول جاتے ہیں کجا یہ کہ وہ اخلاقی اور جذباتی تعلق کی پاسداری کریں۔ یہی معاملہ بعض لڑکیوں کے رویہ میں جھلکتا ہے کہ وہ اپنے سسرال میں ایسی گم ہو جاتی ہیں کہ اپنے ماں باپ کے سلسلے میں اپنی قانونی، اخلاقی اور جذباتی ذمہ داریوں کو فراموش کر بیٹھتی ہیں حالانکہ خود ان کا شوہر اس میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ اور اگر بنتا ہے تو لڑکی اس رکاوٹ کو دور کرنے کی جھنجھٹ میں پڑنے سے پہلو تہی کرتی ہے۔ اسی طرح کبھی ساس سسر اپنے داماد سے بطور حق مثل پسر تقاضے کرنے لگتے ہیں یا بہو سے مطالباتِ خدمت کرنے لگتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ اپنے ساس سسر کے سلسلے میں از خود اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس رکھے اور ممکنہ حد تک انہیں اپنی خدمات پیش کرے۔ ان پہلوؤں سے بھی مسلم معاشرے کو باشعور بنانے کی ضرورت ہے تاکہ رحم کے رشتوں کا قانونی، اخلاقی اور جذباتی تقاضا واضح رہے اور مصاہرت (سسرالی) کے رشتوں کے تقاضوں کا بھی قانونی اور اخلاقی فرق واضح رہے۔
اسلامی خاندان کی تیسری اہم بنیاد احکامِ وراثت و وصیت ہیں۔ موجودہ مسلم معاشرہ نہ تو وراثت کی دینی اہمیت سمجھتا ہے اور نہ ہی اس کے تقاضوں کا صحیح شعور رکھتا ہے۔ رہ گئی وصیت، تو اس کا پاس و لحاظ تو درکنار، اس کی حکمت و مصلحت کا بھی شعور نہیں پایا جاتا اور بس محجوب پوتے کو کچھ دینے کی روایات تک محدود ہے۔ وراثت کی اسلامی تقسیم رضائے الہی کا جذبہ اور اسی کے ساتھ بڑا دل گردہ چاہتا ہے۔ ذرا ان احساسات کو ملاحظہ تو فرمائیے: (۱) باپ نے تو بیٹی کو جہیز دے کر زندگی میں ہی گویا مال وراثت دے دیا، اب کس چیز کا حصہ؟ (۲) بیٹی تو وراثت میں ملنے والی جائیداد بیچ دے گی، پھر کیوں دیا جاے؟ (۳) شوہر نے بیوی کے نام پر جائیداد بنائی، اب بیوی کے مرنے پر بیوی کے ماں باپ کو اسی جائیداد میں حصہ دینا ہے، بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی! (۴) شوہر نے اپنے باپ سے وراثت پائی، اب شوہر کے مرنے پر اس میں سے بہو کو حصہ؟ واہ! یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ بہو نے زندگی بھر تو اپنے ماں باپ کا گن گان کیا اور اب حصہ لے گی اس جائیداد سے جو کبھی سسر کی تھی؟ ایسے ہی کتنے احوال ہیں جو مسلم معاشرے کی اسلامی قانون وراثت سے رو گردانی کرنے کا بہانہ بنائے جاتے ہیں۔ اسی لئے بہت ضروری ہے کہ مسلم معاشرے کو اسلامی احکام وراثت و وصیت کی حکمتوں اور اس کے تقاضوں سے واقف کرایا جائے اوراس سے رو گردانی کے دنیوی اور اخروی نتائج کے سلسلے میں حساس بنایا جائے۔
اسلامی خاندان کے در وبام جن چراغوں سے منور ہوتے ہیں وہ ہیں اسلامی آداب و سلیقہ مندی، گھر میں اسلامی رہن سہن، بڑوں کا احترام، چھوٹوں سے شفقت، ماں باپ کی تعظیم، بیٹے اور بیٹیوں سے یکساں سلوک، مہمان نوازی اور صدقہ کا چلن، شکوہ شکایت، طنز وطعن اور نا شائستگی وبدزبانی سے گریز، انکسار و مروت، ہمدردی و محبت اور عفو ودرگزر کا رواج جو اسلامی طرز معاشرت کے نمایاں پہلو ہیں انہیں اپنائے بغیر مضبوط اور پاکیزہ خاندان کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ظاہر ہے ان قدروں کا فروغ بتدریج ہی ممکن ہے۔ مسلم معاشرہ کو اس پہلو سے منور کرنے کے لئے خاندانوں کے اچھے عملی نمونے زیادہ مؤثر کردار ادا کرتے ہیں اور عام طور پر لوگ ایسے گھروں کی مثالیں دے کر اپنے خاندان کو بھی سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان چاروں پہلوؤں سے مسلم خاندان اپنے آپ کو جتنا بناتا سنوارتا جائے گا اتنا ہی وہ مضبوط تر اور پاکیزہ تر بنتا چلا جائے گا۔ ہندوستانی سماج کے لئے بھی ایسے خاندان مثال و نمونہ کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایسے ہی خاندانوں پر مشتمل گاؤں اور محلے بھی سماجی لحاظ سے امن و سکون کا گہوارہ اور مضبوط و مستحکم بن سکتے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ ایسے ہی خاندان جنت نشان ہوں گے۔ ہمارے سماج میں بعض خاندانوں کے افراد زندگی بھر جس اذیت اور کڑھن سے دوچار رہتے ہیں اس کا مشاہدہ ہر بستی ہر محلے میں کیا جا سکتا ہے۔ اپنے خاندان کو الٰہی ہدایات پر استوار کرنے کے لئے تین بنیادی اقدامات ضروری ہیں: اوّل گھر کے ذمہ دار شوہر اور بیوی اپنے گفتار و کردار سے اپنے گھر، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے لئے اچھی مثال بننے کی کوشش کریں کیونکہ انہیں کے رویوں پر اہل خانہ کی نگاہ رہتی ہے۔ دوم اپنے گھر والوں میں حکمت کے ساتھ تعلیم و تلقین کے ذریعہ مثبت قدروں کو فروغ دینے اور آخرت کی جوابدہی کا احساس تازہ کرتے رہیں۔ لیکن ان دونوں اقدامات کے باوجود کئی گھروں کے بچے بچیاں نادانی اور کج روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم صرف اپنی کوششوں پر بھروسہ نہ کریں بلکہ اللہ تعالی سے مسلسل دعا کرتے رہیں کہ افراد خانہ کو راست روی کی توفیق بخشے۔ بس وہی ہے جو تدبیر و دعا کے باوجود کسی خاندان کو آزمائش کی بھٹی بنا دیتا ہے اور کسی خاندان کو گہوارۂ سکون بنا دیتا ہے اور یہ سب اس کی حکیمانہ مشیت پر منحصر ہے۔
اسلامی خاندان کے در وبام جن چراغوں سے منور ہوتے ہیں وہ ہیں اسلامی آداب و سلیقہ مندی، گھر میں اسلامی رہن سہن، بڑوں کا احترام، چھوٹوں سے شفقت، ماں باپ کی تعظیم، بیٹے اور بیٹیوں سے یکساں سلوک، مہمان نوازی اور صدقہ کا چلن، شکوہ شکایت، طنز و طعن اور نا شائستگی وبدزبانی سے گریز، انکسار ومروت، ہمدردی ومحبت اور عفو ودرگزر کا رواج جو اسلامی طرز معاشرت کے نمایاں پہلو ہیں انہیں اپنائے بغیر مضبوط اور پاکیزہ خاندان کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 فروری تا 6 مارچ 2021