اسلامی اقتصادیات وبائی امراض سے بچاؤ کا ذریعہ

اسلام میں حرام کردہ اشیاء کی تجارت مہلک بیماریوں کے عروج کا سبب

ڈاکٹر جاوید جمیل، ایناپویا یونیورسٹی، منگلورو

 

دنیا میں مہلک بیماریوں کے عروج کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں جن چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے دور حاضر میں بڑے پیمانے پر ان کی تجارت کی جا رہی ہے۔ اسلامی اقتصادیات وبائی امراض اور ان کے معاشرتی و معاشی اثرات سے نکلنے کا راستہ مہیا کرتی ہے۔ زیادہ تر مہلک امراض بشمول سوائن فلو، ہسپانوی فلو، ایچ آئی وی / ایڈز ، ایچ پی وی / کینسر سرویکس، ہیپاٹائٹس بی، ریبیز وغیرہ اور اب کوویڈ-19 ان سب کا تعلق اسلامی احکام کی خلاف ورزی سے ہے۔ سور کا گوشت، بدکاری اور ہم جنس پرستی، گھریلو علاقوں میں کتوں کی موجودگی اور چمگادڑ اور پینگوئن جیسے ممنوعہ جنگلی جانوروں کے گوشت کا استعمال، ان وبائی امراض کے عروج کی سب سے بڑی وجوہات رہی ہیں جن سے پچھلی صدی میں ٢٠ کروڑ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ایچ آئی وی / ایڈز اور دیگر جنسی بیماریوں کے عروج میں شراب نوشی اور منشیات کے کردار کے بھی دستاویزی ثبوت اعداد و شمار کی شکل میں سامنے آ چکے ہیں۔ ختنہ HIV / AIDS اور HPV کی روک تھام میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ HPV وائرس کینسر سرویکس کی وجہ سے لاکھوں خواتین کی اموات ہوئی ہیں، یہ بیماری ختنہ شدہ مردوں کی بیویاں / ہم شریکوں میں حد درجہ کم ہوتی ہے۔ اگر ان افعال سے وابستہ اتنے مہلک امراض اور اموات کے باوجود ان کی اجازت عام ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سبھی افعال بڑی بڑی مارکیٹوں کا لازمی حصہ ہیں۔ اگر وبائی امراض کے متعلق حدیث نبوی کی پیروی کی جاتی اور کسی کو چین کے شہر ووہان جہاں سے کورونا کی وبا شروع ہوئی وہاں سے باہر جانے اور باہر سے وہاں داخل ہونے کی اجازت نہ دی جاتی تو دنیا بڑی حد تک اس وبا سے بچ جاتی۔میری رائے میں لوگوں کے نشے کی عادات نائٹ لائف اور معاشیات کو صحت پر ترجیح دینے میں کچھ طاقتوں کے کردار کی وجہ سے یہ بیماری تیزی سے پھیلی ہے۔ ایک طرف اسلام زندگی کی بقا اور صحت کو فوقیت دیتا ہے تو دوسری طرف جدید بین الاقوامی نظام صحت اور خاندانی اور معاشرتی امن کی قیمت پر معاشی مفادات کو فوقیت دیتا ہے۔’’اقتصادی بنیاد پرستی‘‘ کے موجودہ معاشی فلسفے میں بازار کی طاقتیں ذاتی آزادی کے نام پر خطرناک طریقوں کو کمرشیل بنانے میں مصروف ہیں جس سے صحت کے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ پہلے وہ مسائل کی تجارت کرتے ہیں اور پھر ان کے حل کو تجارت بناتے ہیں۔ اس کے بر عکس اسلامی اقتصادی فلسفہ امن کی بالادستی پر مبنی ہے جو ایک جامع نظام ہے جو افراد، کنبہ اور معاشرے کا احاطہ کرتی ہے۔ انسانی امن، صحت، سلامتی اور فلاح و بہبود زندگی میں رہنمائی کرنے والے حقیقی عوامل ہیں اور معاشی وجوہات کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں۔ صحت اور جامع امن کو خطرہ بنانے والی کسی بھی سرگرمی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر آج کی دنیا میں معاشیات کے بڑے حصے ان شعبوں میں ہوتے جن سے صحت یا معاشرتی امن و سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا تو صورتحال اتنی خراب نہیں ہوتی۔ اگر یہ سلسلہ بدستور جاری رہا تو مستقبل میں بڑی تباہیاں آئیں گی۔اسلام صحت مند اور معاشرتی انصاف پر اثر انداز ہونے کے ساتھ صرف صحت مند اقتصادیات کو فروغ دینے اور خطرناک معاشیات کو ترک کرنے کے ذریعہ ان مسائل کا حل مہیا کرتا ہے اور یہ بھی ہدایت دیتا ہے کہ وبائی امراض پر قابو پائیں۔اسلامی احکامات سے یہ بھی یقینی ہوتا ہے کہ دولت چند لوگوں کے ہاتھ میں نہ رہے بلکہ زیادہ مساوی تقسیم ہو اور حکومتیں بحرانوں کے وقت مطالبات کو پورا کرنے کے لئے ایک صحت مند معاشی پوزیشن میں رہیں۔ اگر اسلامی، معاشرتی اور صحت سے متعلق تجاویز کا اطلاق دنیا میں کرنے کی کوشش کرنا ہے تو اسلامی ماہرین اور مسلم ممالک اور تنظیموں کو اسلامی حرام اور حلال کے نظام کے صحت اور معاشرے پر ہونے والے غیر معمولی مثبت نتائج کو اجاگر کرنا ہوگا۔ خاص طور پر اوپیک ممالک سمیت متمول مسلمان ممالک کو بھی غریب عوام کو ویکسین کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اسلامی ممالک کو سائنسی تحقیق میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنا ہوگا۔ اسلامی معاشیات کی موجودہ رسائی فائنانسنگ اور بینکنگ تک محدود ہوگئی ہے اور ’’عالمگیریت کی سمت کو کسی بھی طرح سے متاثر کرنے میں غیر معمولی ناکامی کا سبب بن چکی ہے، لہذا اسلامی بینکنگ کو تو فروغ دینا ہے لیکن اقتصادیات سے متعلق دیگر اہم اقدامات کو بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہئے اور حقوق، فرائض اور ممانعت کے سہ جہتی اسلامی نظام کے اندر رہتے ہوئے دولت پیدا کرنے پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس نظام کا قیام۔ زکوٰۃ، عُشر اور خُمس پر مبنی ہونا انتہائی اہم ہے اور حرام اشیا اور افعال کی معاشیات کے خلاف مہم ضروری ہے۔ میرے نزدیک اسلامی معاشیات کی ایک نئی تعریف یہ بھی ہے کہ اسلامی معاشیات سے مراد ایک ایسے عالمینظم کا قیام ہے جہاں لوگ انفرادی یا اجتماعی طور پر جامع امن کے حقیقی مقصد کی خلاف ورزیوں کے بغیر اپنی فطری یا حاصل شدہ صلاحیتوں کے حق بجانب استعمال کے ذریعہ اپنی روزی کمانے کے لئے آزاد ہوں۔ اور قرآن کے بنیادی حقوق، بنیادی فرائض اور بنیادی ممانعتوں کے سہ جہتی نظام کی حدود میں رہتے ہوئے ایسے نظام کا قیام مقصود ہے جو عوام کے لئے آرام دہ اور پرسکون نظامِ حیات کو یقینی بناتا ہو۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021