اسلاموفوبیا کا دن اور عالمی یوم مسرت نے بھارت کو مغموم کر دیا

اقوام متحدہ میں قرادرداد کی مخالفت۔ ہندوستانی نمائندے کے غیر منطقی دلائل

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

خوشحالی کے معاملہ میں انڈیا ہنوزپاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال سے پیچھے
عالمِ انسانیت پھر ایک بار جنگ عظیم کے دہانے پر کھڑی ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اس تیسری جنگ عظیم کے بھی اہم ترین فریقوں میں کوئی مسلم ملک نہیں ہے یعنی کہنے کو سب سے خونخوار قوم مسلمان ہے مگر یوکرین اور روس کے تنازع نے پھر ایک بار ثابت کر دیا کہ عالمی امن کو اصل خطرہ مسلمانوں سے نہیں بلکہ یورپی عیسائیوں سے ہے۔ اسی خونی چہرے کو چھپانے کے لیے دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک بہتان تراشی کی مہم جاری رہتی ہے۔ مسلم ممالک میں خون ناحق بہانے کو دہشت گردی کی بیخ کنی کے غلاف میں لپیٹ کر خوشنما بنایا جاتا تھا لیکن اب نہ روس پر دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا ہے اور نہ یوکرین پر کیونکہ انگریزوں کے اپنے ہی دانت اور اپنے ہی ہونٹ ہیں اس لیے کس کو موردِ الزام ٹھہرائیں ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ روس کے بجائے ترکی نے اگر فوج کشی کی ہوتی تو ابھی تک امریکا سمیت ناٹو ممالک اس پر ہلہ بول چکے ہوتے۔
اس عالمی تنازعہ کو حل کرنے میں اقوام متحدہ ہمیشہ کی طرح پھر ایک بار ناکام ہوگئی ہے حالانکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اسی مقصد کے لیے اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ جس تیسری جنگ عظیم کو روکنے کے لیے یو این بنائی گئی تھی دنیا آہستہ آہستہ اس کی جانب رواں دواں ہے۔جنگ و جدال سے نبرد آزما اقوام متحدہ میں ہندوستان کے ننھے ہم سایہ ملک بھوٹان کو 2011 میں نہ جانے کیا سوجھی کہ اس نے ’عالمی یوم مسرت ‘ منانے کی تجویز رکھ دی اور حیرت انگیز طور پر اسے منظوری بھی مل گئی۔ اس طرح ہر سال 20 مارچ کو عالمی یومِ مسرت منانے کا سلسلہ چل پڑا۔ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسے حال میں اسلاموفوبیا کے خلاف دن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یہ قرارداد ’عالمی یوم مسرت‘ کے پانچ دن قبل 15 مارچ کو منظور ہوئی اور اس نے مودی سرکار کو غمزدہ کر دیا ۔
اس غم و اندوہ کی کئی وجوہات ہیں مثلاً پاکستان کی شہ پر اس کا پیش کیا جانا اور ہندوستان اور فرانس کی مخالفت کے باوجود اسے منظوری ملنا۔ کسی قوم کے خلاف نفرت کے خاتمہ کی کوشش پسندیدہ ہونی چاہیے لیکن جہاں سیاست کی بنیاد ہی اسلام کے خلاف نفرت پر ہو تو وہاں یہ بات کیسے قابلِ قبول ہو سکتی ہے؟ مودی اگر اسلاموفوبیا کے خلاف دن کے موقع پر ایک ٹویٹ کرنے کی جرأت دکھا دیتے تو نہ جانے کتنے اندھے بھکت انہیں ٹاٹا بائی بائی کہہ دیتے کیونکہ ووٹ کی خاطر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا پھیلا کر سنگھ پریوار نے اپنے پیروکاروں کا دماغ خراب کر رکھا ہے۔ اسلاموفوبیا کی حمایت میں ہندوستان کے شانہ بشانہ فرانس یعنی دنیا کی وسیع ترین اور قدیم ترین جمہوریت نے یک زبان ہو کر اپنی مسلم دشمنی کا کھلے عام اعتراف کر لیا۔ ویسے ان دونوں جمہوری ممالک کے درمیان رافیل بدعنوانی کا ایک خفیہ رشتہ بھی ہے۔
اقوام متحدہ میں اس مسئلہ پر ہندوستانی نمائندے کے دلائل بڑے دلچسپ تھے۔ انہوں نے یہ مضحکہ خیز انکشاف کیا کہ ہندو، بدھ اور سکھ مذاہب کے خلاف بھی فوبیا بڑھ رہا ہے۔ ایسا کائنات کے کس سیارے میں ہو رہا ہے اس کا علم شاید مودی جی اور ان کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ پہلے تو ہندووں کو مسلمانوں سے لڑایا جاتا تھا لیکن اب میانمار، سری لنکا اور چین میں بدھ مت کے ماننے والے بھی مسلم دشمنی پر اتر آئے ہیں اس لیے یہ نہایت احمقانہ دلیل ہے۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے ہندوستانی نمائندے ترومورتی نے دیگر مذاہب کے تئیں بڑھتے ہوئے فوبیا کی کئی مثالیں دیں۔ اس میں سب سے پہلے طالبان کے ہاتھوں افغانستان میں بامیان بدھا کی تباہی کا ذکر کیا لیکن اس 22 سال پرانے واقعہ کے بارے میں وہ بھول گئے کہ بامیان کی حیثیت عبادت گاہ کی نہیں تھی اس لیے کہ وہاں مذہبی رسومات ادا نہیں ہوتی تھیں۔ دنیا بھر کے سیاح وہاں تفریح کے لیے ضرور آتے تھے اس لیے ان کی تباہی کو کسی مذہب خاص سے جوڑنا غلط ہے۔ ویسے مودی سرکار نے بھی کاشی کاریڈور بنانے کی خاطر نہ جانے کتنے قدیم مندروں کو راستے سے ہٹا دیا۔ یہ کام اگر کوئی اورنگ زیب کرتا تو اس کو نہ جانے کتنا بدنام کیا جاتا۔
اقوام متحدہ میں ہندوستانی نمائندے نے نہ جانے کس ’گرودوارہ کمپلیکس کی خلاف ورزی‘ کا ذکر کیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے تو کرتارپور گرودوارہ کے لیے خصوصی راہداری کھلوا دی اور اس کی افتتاحی تقریب میں خود وزیر اعظم عمران خان نے شرکت کی۔ یو این میں ہندی سفارتکار ’گرودوارہ میں سکھ یاتریوں کے قتل عام‘ کا ذکر کرتے ہوئے وہ بھول گئے کہ وہ کام سرزمین ہند پر گولڈن ٹمپل میں ہوا تھا۔ آپریش بلیو اسٹار ایک ایسا زخم ہے جسے سکھ قوم کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی۔ پاکستان میں مندروں پر حملے۔ مندروں میں بتوں کو توڑنے کے نازیبا واقعات ضرور ہوئے لیکن اس کاسیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی اور حکومت نے ہمیشہ ان کی مرمت کرواکر ہندو اقلیت کے حوالے کیا۔ عام باشندوں نے اس حرکت کی مخالفت کی جبکہ ہندوستان میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے ۔ اس لیے دوسروں کی جانب پتھر پھینکنے سے قبل اپنے شیش محل پر ایک نگاہِ غلط بھی ڈال لینی چاہیے۔
مودی سرکار کو اسلاموفوبیا کے دن کی تجویز سے اتنی زیادہ پریشانی تھی تو یوکرین کی مانند ووٹ دینے سے اجتناب کر لیتے تاکہ مسلم دنیا میں کچھ تو بھرم رہتا لیکن ان سے یہ بھی نہیں ہو سکا اور دل میں چھپا ہوا بغض وعناد اچھل کر باہر آگیا۔ ویسے فی الحال ہندوستان اور فرانس میں مسلم مخالفت اہل اقتدار کی ایک انتخابی ضرورت بن گئی ہے اس لیے وہ دونوں مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ میں ہندوستانی ترجمان کی اگلی دلیل بھی کم دلچسپ نہیں تھی۔ انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد کسی مخصوص مذہب کا انتخاب کر کے مذہبی عدم برداشت کے خلاف لڑائی میں تقسیم پیدا کرتی ہے۔ انہوں نے اپنے ملک کی وکالت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کو فخر ہے کہ اس میں تمام مذاہب کو یکساں احترام دینے کی روایت ہے۔ لیکن یہ بات آج نہیں ہے بلکہ اس وقت تھی جب اس ملک پر مسلمان حکومت کرتے تھے۔ انگریزوں نے وطنِ عزیز میں پھوٹ ڈال حکومت کرنے کی جو بنیاد ڈالی تھی اس راہ پر موجودہ حکومت بڑی تیزی سے روں دواں ہے۔
اس بیان میں تمام مذاہب کا یکساں احترام کرنے کی روایت کا ذکر ہے لیکن اسے جس طرح فی الحال پامال کیا جارہا ہے اس کی مثال مسلمانوں کی آمد سے پہلے والی تاریخ میں شودروں اور اچھوتوں کے خلاف تو ملتی ہے لیکن بعد میں یہ سلسلہ بند ہو گیا تھا یا بڑی حد تک کم ہو گیا تھا۔ افسوس کا مقام ہے کہ اب پھر سے نسلی تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے نقشے پر غالباً ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں ہجومی تشدد کے بعد دہشت گردوں کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ ان کو سزا دینے کے بجائے سیاسی پشت پناہی کی جاتی ہے۔ کرناٹک جیسے صوبے میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ طالبات کے سر پر دوپٹہ دیکھنے تک کے روادار نہیں ہیں۔ ایسے میں برداشتِ باہم کے الفاظ بے معنیٰ ہو جاتے ہیں۔ ترومورتی اگر ملازمت کے خوف سے شتر مرغ کی مانند اپنا منہ ریت میں چھپا رہے ہوں تب بھی دنیا نہ صرف دیکھ رہی ہے بلکہ ان کے بیان کو پڑھ کر ہنس بھی رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کی جانب سے پیش کردہ اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے ہندوستان کے مستقل ترجمان ترومورتی نے یہ بھی کہا کہ ’’ہندو مت کے 1.2 ارب سے زیادہ پیروکار ہیں، 535 کروڑ سے زیادہ بدھ مت کے اور 30 کروڑ سے زیادہ سکھ مذہب کے ماننے والے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم مذہبی بنیادوں پر فوبیا کی موجودگی کو قبول کریں نہ کہ کسی ایک مذہب کے خلاف فوبیا کی بات کریں‘‘۔ پچھلے آٹھ سالوں کے اندر اگر ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا طوفان نہیں اٹھایا جاتا تو شاید اس دن کا اہتمام کر کے اسے کم کرنے کا فیصلہ نہ کرنا پڑتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اقوام متحدہ کو ایسے مذہبی معاملات میں نہیں پڑنا چاہیے‘‘۔ یہ اس ملک کا نمائندہ کہہ رہا ہے جہاں کا وزیر اعظم رام مندر کے تیسرے بھومی پوجن (سنگ بنیاد) میں شرکت کرتا ہے تو سارے چینلوں پر اس کا جشن منایا جاتا ہے۔ انتخاب جیتنے کے لیے گنگا میں ڈبکی لگائی جاتی ہے اور الیکشن سے پہلے کیمرے کے سامنے پوجا ہوتی ہے۔ گجرات کے اندر ایک مذہبی کتاب بھگوت گیتا کو نصاب میں شامل کروایا جاتا ہے اور جھوٹ پر مبنی ایک نفرت انگیز فلم کشمیر فائلس کی کھلے عام تشہیر کی جاتی ہے۔ ایسی منافقت کا مظاہرہ انسانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا ہو گا۔
اقوام متحدہ میں ہندوستانی نمائندے نے کہا کہ تمام مذاہب کا احترام کرنے والے جمہوری ملک کے طور پر ہندوستان نے صدیوں سے دنیا بھر میں ان کے مذہب اور عقائد کی وجہ سے ستائے جانے والے لوگوں کا ہمیشہ خیر مقدم کیا ہے۔ یہ بھی ماضی کی داستانِ پارینہ ہے۔ ترومورتی کو یہ کھوکھلا دعویٰ کرنے سے قبل اپنے گریبان میں جھانک کر شہریت ترمیم قانون (سی اے اے ) پر نظر ڈال لینا چاہیے تھا۔ اس قانون کے اندر پہلے تو ڈھٹائی کے ساتھ تین مسلم پڑوسی ممالک کو دیگر غیر مسلم ممالک سے الگ کیا گیا۔ اس تفریق کے بعد مسلمانوں کے علاوہ ہر مذہب کا نام لے کر اس کے پیروکاروں کو تحفظ دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی مخصوص مذہب کا نام لے کر اس کے خلاف ہونے والی نفرت انگیزی کی مخالفت عدم برداشت کو فروغ دیتی ہے تو اسی مذہب کے لوگوں کو منتخب کر کے انہیں خصوصی مراعات سے محروم کر دینا کیا ہے؟ ترومورتی کی حالت زار پر مصطفیٰ خان شیفتہ کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
اقوام متحدہ کے اندر اسلاموفوبیا کے دن کی منظوری سے رسوائی ابھی تازہ ہی تھی کہ یو این نے سالانہ ’’ہیپی نیس انڈیکس‘‘ (خوشی کی شرح) کا جائزہ پیش کر کے ہندوستان کے زخموں پر نمک پاشی کر دی۔ اس رپورٹ میں فن لینڈ کو مسلسل پانچویں سال دنیا کا سب سے خوش حال ملک قرار دیا گیا۔ یہ فہرست یوکرین پر روسی حملے سے پہلے مکمل کی گئی تھی ورنہ آخری درجہ پر افغانستان کی جگہ یوکرین دنیا کا سب سے زیادہ بد حال ملک ہوتا حالانکہ اس کے پڑوسی بلغاریہ، رومانیہ اور سربیا کی رینکنگ میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ امریکہ اگر اس سال افغانستان کی غصب شدہ رقم واپس کر دیتا تو وہ انسانی بحران پر قابو پا کر اپنی حالت بہتر بنا سکتا تھا لیکن فرنگی سفید پوش حکمرانوں کے پاس کہنے تو بہت ہوتا ہے لیکن وہ کرتے بہت کم ہیں۔ اس فہرست میں ہندوستان 139ویں نمبر سے ترقی کر کے 136 پر آگیا یعنی تین درجات کی ترقی جبکہ ملائشیا گیارہ مقامات کی چھلانگ لگا کر 70 پر پہنچ گیا۔ہندوستانی حکمرانوں کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے مگر انڈیکس میں پاکستان کی پوزیشن میں زبردست برتری کے باوجود وہ بد حالی میں ہندوستان کی برابری نہیں کر سکا اور 121 نمبر پر آ کر اٹک گیا یعنی اب بھی وہ ہندوستان سے 15 درجہ بہتر ہے۔ ہمسایہ ممالک میں سری لنکا 127ویں نمبر پر ہے جبکہ بنگلا دیش 94 اور نیپال 84 ہم سے بہتر ہیں۔
اس بار امریکا بھی تین درجے بہتری لا کر برطانیہ کو ایک درجہ پیچھے چھوڑتے ہوئے 16 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ فرانس ان دونوں سے پیچھے 20ویں مقام پر ہے۔ ویٹو پاور کا اختیار رکھنے والے ان بڑے بڑے ممالک کے مقابلے میں فن لینڈ، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، آئس لینڈ، ناروے، ہالینڈ، سویڈن، نیوزی لینڈ، آسٹریا اور لگزمبرگ جیسے ننھے منے ممالک کے سر فہرست رہنے کی وجہ یہ ہے کہ عوام کی خوشی کا تعلق نہ تو قومی آمدنی سے ہے اور نہ اسلحہ کی فروخت وفوجی طاقت سے ہے۔ ان ممالک میں چونکہ فی کس آمدنی زیادہ ہے اس لیے مادی خوشحالی اور معاشی تحفظ کی صورتحال بہتر ہے اس لیے وہاں کے باشندے خوش حال ہیں۔ اس کی ایک اور وجہ بدعنوانی سے پاک معاشرہ اور حکومت کی جانب سے بہترین معاشرتی تحفظ کی فراہمی ہے۔
دنیا کی سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک چین 94ویں نمبر پر اس لیے ہے کیونکہ وہاں عام لوگوں کی فلاح وبہبود کے بجائے قومی معیشت میں اضافہ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طویل عرصے تک جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا میں پہلے نمبر پر رہنے کے باوجود بھی چین میں خوش حال لوگوں کی تعداد نسبتاً کم ہے۔ یہی حال امریکا کا ہے کہ وہ سب زیادہ ترقی یافتہ ملک ہونے کے باوجود اس معاملے میں بہت نیچے ہے اور ہندوستان آخری گیارہ بد حال ممالک میں سے ایک ہے۔ ظاہر ہے کہ جب جی ڈی پی کے ساتھ سماجی معاونت، انفرادی آزادی اور بدعنوانی کی سطح کو درجہ بندی میں شمار کیا جائے تو وطن عزیز کی وہی حالت ہوگی جو اس وقت ہے۔ اس فہرست کو مرتب کرتے وقت عوام کی آمدنی، اخراجات، سماجی آزادی، صحت، تعلیم، مشکل وقت میں دوسروں سے مدد ملنے کے امکانات نیز خود اعتمادی جیسی کسوٹی پر عوام کو پرکھا گیا۔ اس لیے رپورٹ کے شریک مصنف جیفری ساچ نے لکھا کہ عوامی فلاح وبہبود کے لیے سماجی معاونت، باہمی فراخدلی اور سرکاری ایمانداری بہت ضروری ہے لہٰذا عالمی رہنماؤں کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔جیفری ساچ کے مشورے پر ممکن ہے دنیا کے دیگر رہنما توجہ دیں لیکن مودی جی تو ایسا کرنے سے رہے۔ اس لیے کہ بھکمری کی فہرست میں ہندوستان 101ویں مقام پر ہے۔ آذادی کی بات کریں تو 119واں مقام، خوش حال لوگوں میں 136واں اور صحافتی آزادی میں تو ہمارا ملک بدترین مقام 142 ویں درجہ پر ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی نے چار ریاستوں میں اپنی حکومت بنا ڈالی۔ اب کرناٹک میں حجاب کے ذریعہ یہ کوشش کی جائے گی۔ گجرات میں انتخاب جیتنے کے لیے نصاب تعلیم میں مہابھارت کا شوشہ چھوڑا گیا اور جموں وکشمیر کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے تو کشمیر فائلس ہی کافی ہے۔ اس طرح کے کھیل تماشوں سے اگر عوام کو بہلایا پھسلایا جا سکتا ہے تو ان کی فلاح وبہبود کے لیے مشقت اٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لیکن افسوس کہ یہ رپورٹ بڑے بُرے وقت میں آئی ہے۔ ابھی چار میں سے ایک بھی صوبے میں حکومت کی حلف برداری نہیں ہوئی اور اس جائزے نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ 2019 میں بھی یہی ہوا تھا کہ سرجیکل اسٹرائیک کے فوراً بعد یہ رپورٹ آئی تھی اور ہندوستان 133 سے کھسک کر 140 پر پہنچ گیا تھا۔ سارے پڑوسی ہندوستان سے بہتر تھے اس کے باوجود ملک کے ناخوش عوام نے اپنی سرکار کو خوش کر دیا۔ اس طرح جمہوریت کے طفیل غم زدہ عوام کی پر مسرت حکومت عالمِ وجود میں آ گئی۔ ایسا ہی کچھ مستقبل میں بھی ہو سکتا ہے اور نہیں بھی ہو سکتا ہے۔ انتخابات کسی کو خوش کرنے اور کسی کو ناراض کرنے کے لیے ہی تو ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کا اچھے دن والا خواب اگر شرمندہتعبیر ہو جاتا تو مسرت کی اس فہرست میں ہندوستان کی یہ درگت نہ بنتی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے؎
مسرت اور غم کی دونوں کی کوئی حد ضروری ہے
کسی بھی ایک شئے کا سلسلہ اچھا نہیں ہوتا
(مضمون نگارڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

 

***

 مودی سرکار کو اسلاموفوبیا کے دن کی تجویز سے اتنی زیادہ پریشانی تھی تو یوکرین کی مانند ووٹ دینے سے اجتناب کر لیتے تاکہ مسلم دنیا میں کچھ تو بھرم رہتا لیکن ان سے یہ بھی نہیں ہو سکا اور دل میں چھپا ہوا بغض وعناد اچھل کر باہر آگیا۔ ویسے فی الحال ہندوستان اور فرانس میں مسلم مخالفت اہل اقتدار کی ایک انتخابی ضرورت بن گئی ہے اس لیے وہ دونوں مجبور ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  27 تا 02 اپریل  2022