اسلاموفوبىا اور ہندوستان
سید اظہرالدین
ترجمہ: احمد توصیف قُدس ، کشٹواڑ، جموں و کشمیر
مسلمان ۱۹۴۷ سے قبل ہی آزادی ہند کے خاطر برطانوی سامراج سے برسر پیکار تحریکات میں پیش پیش رہے۔ انگریزوں کے خلاف ۱۸۵۷ کی بغاوت میں تقریباً ۵۰ ہزار مسلمان ہندوستان کی آزادی کے لیے شہید ہوئے تھے۔ شہادت کا یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ حصولِ آزادی کی مختلف تحریکوں (۱۹۰۵کی ریشمی رومال تحریک، سودیشی موومنٹ،۱۹۲۰کی عدم تعاون تحریک، ۱۹۲۱ کی دی موپلا موومنٹ اور ۱۹۴۲کی ہندوستان چھوڑدو تحریک جو بعد ازاں آزادی ہند پر منتج ہوئیں) میں مسلمانوں نے جوق در جوق حصہ لے کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ آج جب کہ ہندوستان آزاد ہو چکا ہے تو مسلمانوں کی ان عظیم الشان قربانیوں کو وطن عزیز کے کچھ ہمارے بھائیوں نے سرد خانوں میں ڈال رکھا ہے جو کہ انصاف کے عین خلاف ہے۔
عالمی سطح پر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلامو فوبیا ایک اسلام مخالف رجحان کے بطور نسل پرستی یا ایک طبقے کی بالادستی کی وجہ سے پیدا ہوا۔ لیکن ہندوستان میں اس کے پیدا ہونے کی واحد اور بنیادی وجہ مسلمانوں کے خلاف ’’شدید نفرت‘‘ ہے۔ یہ ’’نفرت‘‘ آج کا قصہ نہیں ہے۔ بلکہ اس کے جراثیم ایک عرصہ سے یہاں پھیلائے جاتے رہے ہیں اور آج یہ ایک انتہائی خطرناک ’’مرض‘‘ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ سہیل کے کے صاحب کی ایک تحقیق کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف اس نفرت کے پھیلنے کی کئی وجوہات ہیں۔ہندوستان کے مسلم دشمن عناصر کے مطابق:
• مسلمانوں کی مذہبی اور دیگر سیکولر جماعتیں ہندو مخالف ہیں۔
• مسلم جماعتیں اقلیتوں کے تحفظات اور ان کی ریزرویشن کی سیاست پر ہی تکیہ کیے
ہوئی ہیں۔
• مسلمان کشمیر میں پنڈتوں کے خروج کا باعث بنے ہیں۔
• اسلام فطری طور پر متشدد اور غیر انسانی سلوک کرنے والا مذہب ہے اور اس کے پیرو
کاربرے انسان ہیں۔
• مسلمان دہشت گرد ہیں، وہ جانوروں پر ظلم کرکے ان کا گوشت کھاتےہیں۔
• ہندوستان ہندووں کا دیش ہے۔ مسلمانوں کو پاکستان چلے جانا چاہیے۔
• مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ہندوستان کے لیے ایک مسئلہ ہے۔
• سلمان غدار اور حملہ آور ہیں۔ مغلوں کی صورت میں وہ یہاں آئے اور اب Love
Jihad اور ‘‘متعدد شادیوں‘‘ اور ایسے ہی دوسرے طریقوں سے مسلمان خود کی آبادی
بڑھانا چاہتے ہیں۔
• مسلمانوں سے ماضی میں غیر مسلموں پر کیے گئے مظالم کا بدلہ لیا جانا چاہیے۔
اسلامو فوبیا آج ہندوستا ن میں کوئی نئی پیش رفت نہیں ہے۔ ماضی میں بھی یہاں کئی فسادات کی صورت میں مسلم دشمنی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ شروعات کولکاتا فسادات سے ہوئی جو ۱۹۶۴ میں رونما ہوئے۔ اس کے بعد اور کئی فسادات رونما ہوئے جو سراسر مسلم دشمنی پر مبنی تھے۔ مثلاً گجرات فسادات (۱۹۶۹) بھیونڈی فسادات (۱۹۷۰) مراد آباد فسادات (۱۹۸۰) نیلی قتل عام (۱۹۸۳) ہاشم پورہ قتل عام (۱۹۸۷) بمبئی فسادات (بابری مسجد مسئلہ ۱۹۹۲) گجرات فسادات(۲۰۰۲)، مظفر نگر فسادات ۲۰۱۳ (جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کرکے دسیوں بے گناہ مسلم نوجوانوں کو سڑکوں پر قتل کیا گیا) سی اے اے کے خلاف حالیہ تحریک کو کچلنے کے لیے دہلی میں مسلمانوں پر حملے وغیرہ۔ فروری ۲۰۲۰ میں ہوئے دلی کے حالیہ فسادات کے ذریعے ۲۰۰۲ کے گجرات فسادات کو دہرانے کی مذموم کوشش کی گئی۔ وہی گجرات جس کے تب کے وزیر اعلیٰ آج بھارت کے وزیر اعظم ہیں۔ تاریخ میں ثبت ہے کہ ان فسادات پر گجرات کے وزیر اعلیٰ کے لب تین دن تک مسلسل خاموش رہے تھے۔ آج جب کہ پوری دنیا کووڈ-۱۹ کے خلاف ایک وجودی جنگ لڑ رہی ہے اور بھارت بھی اس کی زد میں آکر اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے تو ایسے نازک دور میں بھی ہندوستان میں مسلم دشمنی کا یہ خطرناک رجحان ختم ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ آج کورونا وائرس سے پیدا شدہ بحران سے نمٹنے کی آڑ میں انتظامیہ کی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے تبلیغی جماعت کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ مسلم طلبا کارکنوں اور صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا جو کہ اپنا پیشہ ورانہ کام انجام دے کر اربابِ اقتدار سے ان کی نا اہلی پر سوال پوچھ رہے تھے۔
مصنوعی انتباہ
ہندوستانی میڈیا کے ایک معتبر صحافی نشریاتی ادارے نے کورونا وائرس کے اس بحران کے دوران بھارت میں اسلامو فوبیا پر مبنی ۷۵ جعلی خبروں کو رپورٹ کیا ہے۔ حال ہی میں ایک مسلمان پھل فروش کی ایک جعلی ویڈیو وائرل کی گئی جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ مسلمان اپنا پیشاب پھل پر چھڑک رہا ہے۔ ویڈیو کو وائرل کرنے میں بی جے پی کے قومی ترجمان سمبت پاترا، سدرشن نیوز چینل اور طارق فتح (ہندوستان میں اسلامو فوبیا کا روح رواں) کے ٹویٹس نے مہمیز کا کام کیا۔ اس جعلی خبر نے ہندتوا کے کارکنوں کو ورغلایا اور انہوں نے مسلمانوں کو ہندو علاقوں میں کاروبار بند کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ متذکرہ ویڈیو دراصل اتر پردیش کے بجنور علاقے کی ہے جس میں (مقامی لوگوں کے مطابق) مذکورہ شخص پانی سے بھری بوتل کو استنجا (نماز کے لیے طہارت) کے لیے استعمال کرتا تھا۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ پولیس نے بلا تحقیق اس پھل فروش مسلمان کو گرفتار کرلیا اور یہ معاملہ ابھی زیر تفتیش ہے۔
گزشتہ ماہ جب ہندوستانی میڈیا نے کووڈ-۱۹ کے پھیلاو کے لیے مسلمانوں بالخصوص تبلیغی جماعت پر الزام لگایا تو اسلامی تعاون تنظیم کے مستقل کمیشن برائے انسانی حقوق (OIC-IPHRC) نے ٹویٹ کرکے ہندوستان میں اسلاموفوبک مہم پر مبنی اس نفرت اور بد انتظامی کی مذمت کی۔ تنظیم نے ہندوستانی میڈیا کو بھی منفی خبروں کے پھیلاؤ کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا۔ متدکرہ تنظیم نے ہندوستان میں اسلامو فوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر کو روکنے نیز مظلوم اقلیت کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھی حکومت کو ہنگامی اقدامات کرنے کی اپیل کی۔ اس کے ردعمل میں (پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق) ہندوستان کے مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے کہا کہ ’’ہندوستان مسلمانوں کے لیے جنت ہے اور ان کے معاشرتی، معاشی اور مذہبی حقوق یہاں محفوظ ہیں۔ ہندوستان کے مسلمان خوشحال ہیں، مذہبی منافرت پھیلا کر ماحول خراب کرنے والے ہندوستان اور مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے‘‘۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس تبصرے کے سامنے آنے کے کچھ ہی روز بعد مختار عباس نقوی کی اسی جنت (ہندوستان) میں مسلمانوں کو معاشرتی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ بنگلور میں مسلمانوں کو کلینک میں داخل ہونے سے اس لیے روکا گیا کہ ان کے مطابق مسلمان ہندوستان میں کورونا وائرس پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ ممبئی میں ایک شخص نے ایک ڈیلیوری بائے سے اپنا آن لائن آرڈر وصول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ لڑکا مسلمان تھا۔ دلی میں تمل ناڈو سے تعلق رکھنے والا ذیا بیطس کا ایک مسلم مریض قرنطینہ میں خوراک اور طبی امداد کی کمی کی وجہ سے چل بسا۔ ظاہر ہے اسے بروقت طبی سہولت نہیں دی گئی تھی۔ رانچی شہر میں بھی ایسا ہی ایک غیر انسانی واقعہ پیش آیا۔ وہاں کے مسلمانوں کے مطابق ایک مسلم علاقے میں نصب شدہ ہینڈ پمپ کو مسلم دشمن عناصر نے اکھاڑ پھینکا تاکہ مسلمانوں کا پانی حاصل کرنے کا سہارا ان سے چھن جائے۔
’’ایک ملک انصاف پسند تب ہی قرار دیا جا سکتا ہے جب اس ملک کا نظم ونسق چلانے کے لیے اقلیتی طبقوں کو اعتماد میں لے کر ایک غیر جانبدارانہ طریقہ اختیار کیا جائے‘‘ Justice Rajinder Sachar Committee 2006 CHRI اور
Quill Foundation نے ایک دستاویز جاری کی ہے جس میں انہوں نے اقلیتوں کے ساتھ پولیس کی جانب سے اختیار کیے ہوئے سلوک کا انکشاف کیا ہے۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں پولیس کا طریقہ نو آبادیاتی طرز کا ہے۔ پولیس حاصل شدہ مخصوص مینڈیٹ کے ذریعے ایک نظریاتی حکومت کے لیے آلے کے طور پر کام کرتی رہی ہے۔ رائج شدہ پولیس کے اس طرزِ عمل کا مختصر جائزہ لیں تو پولیس کی کارروائی سے یہ خطرناک نتائج سامنے اتے ہیں۔ جعلی انکاونٹرس، تشدد، بھتہ خوری اور اخلاقی وقانونی خلاف ورزی وغیرہ۔ پولیس کا یہ طرز عمل جدید جمہوری ہندوستان میں آئینی آزادیوں اور شہریوں کے حقوق کے عین خلاف ہے۔ پولیس کے اس طرز عمل کی ایک جمہوری ملک میں ہرگز توقع نہیں کی جاسکتی۔ جمہوری ملک میں تو پولیس عوام کی محافظ ہوتی ہے۔ مرکز میں ۱۸۶۱ کا پولیس ایکٹ رائج العمل ہے۔ ۱۸۶۱ کے اس پولیس ایکٹ میں ترمیم یا تنوع کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ ہندوستانی آئین شہریوں کی برابری اور اقلیتوں کی زبان، مذہب اور ثقافت کے تحفظ کا ضامن ہے۔ آئین کے دفعہ ۱۵ کے تحت مذہب، نسل، ذات، جنس یا پیدائشی مقام کی بنیادوں پر امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح سے ملک کے ادارے تمام شہریوں کے ساتھ بلا لحاظِ تفریقِ مذہب، برابری سے پیش آنے کے مکلف ہیں۔ پولیس کو غیر جانبدار ہونے اور پولیسنگ کو ایمان داری سے انجام دینے کے لیے پولیس کے طرزِ عمل میں تعصب کا خاتمہ ضروری ہے۔
(Muslim Voices:Perceptions of Policing in India,2018)
حال ہی میں امریکی ریاست ہائے متحدہ کمیشن نے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے تحت ہندوستان میں مسلمانوں کے بائیکاٹ کی مذمت کی تھی۔ کمیشن نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا ’’ہندوستان (گجرات) میں ہندو مسلم مریضوں کو الگ الگ اسپتالوں میں رکھنے پر ہمیں تشویش ہے۔ اس طرح کا طرزِ عمل ہندوستان میں مسلمانوں سے جاری دشمنی میں اضافہ کرے گا اور اس خیال باطل کو بھی تقویت ملے گی کہ مسلمان کووڈ-۱۹ کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں‘‘۔
آج جب کہ دنیا ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف روا سلوک کے خلاف بول رہی ہے، ہندوستانی مسلمان پورے ہندوستان میں لاک ڈاؤن سے پیدا شدہ بحران سے نمٹنے کے لیے امدادی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلا لحاظِ مذہب وذات، مسلمان ایک مثبت انداز میں اپنی انتھک محنتوں سے سوسائٹی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لیکن یہ جاننا غیر اہم نہ ہوگا کہ مستقبل میں اس اخلاص اور محنت کا ہندوستانی مسلمانوں کو کیا صلہ دیا جائے گا۔
آج جب دنیا ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف روا سلوک کے خلاف بول رہی ہے، ہندوستانی مسلمان پورے ہندوستان میں لاک ڈاؤن سے پیدا شدہ بحران سے نمٹنے کے لیے امدادی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلا لحاظِ مذہب وذات مسلمان ایک مثبت انداز میں اپنی انتھک محنتوں سے سوسائٹی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لیکن یہ جاننا غیر اہم نہ ہوگا کہ مستقبل میں اس اخلاص اور محنت کا ہندوستانی مسلمانوں کو کیا صلہ دیا جائے گا۔