عالم نقوی ، علی گڑھ
اردو بولنے اور اردو کی روٹی کھانے والوں کی بے حسی اور مسلم اَہلِ دَوَل کی بے توجہی کے نتیجے میں اپنی نوع کا واحد اردو جریدہ ’اردو بک ریویو‘ پہلے ماہانہ سے دو ماہی، پھر سہ ماہی ہوا اور پچیس برس بعد اب بند ہونے کی کگار پر ہے۔جریدہ کے مدیر وناشر، ادیب و دانشور محمد عارف اقبال نے تازہ شمارہ (جنوری مارچ 2020) میں لکھا ہے’’ پچھلے 25 برسوں کے دوران یہ مجلہ شدید مالی بحران کے باوجود چند خصوصی معاونین کی توجہ سے الحمد للہ پابندی سے نکلتا رہا ہے۔ لیکن اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔ ادارہ مقروض ہے اور قرض کی ادائی ناگزیر ہے جس کے بغیر مجلّے کا تسلسل برقرار رکھنا ممکن نہیں‘‘۔ لہٰذا اب وہ چاہتے ہیں کہ آر این آئی سے رجسٹرڈ اس جریدہ کے ’’مالکانہ اور اشاعتی حقوق بشمول فہرست قارئین وایجنسی وغیرہ کسی ایسے کے سپرد کر دیے جائیں جو نہ صرف مالی اعتبار سے آسودہ ہوں بلکہ علم و ادب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوں اور اس کی توسیع کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے کار ثواب تصور کرتے ہوں‘‘ انہیں توقع ہے کہ ’’ہندستان کے لاکھوں اردو دوست، اہل دل اور اہل ثروت کی طرف سے انہیں اس سلسلے میں جلد ہی کوئی مثبت پیغام ضرور ملے گا‘‘۔ لیکن اسی شمارے میں ’قارئین کے تاثرات‘ کے تحت فرید آباد کے ڈاکٹر قیصر شمیم کی یہ رائے ہمارے نزدیک درست ہے کہ’ فی زمانہ گھاٹے کے اس کاروبار میں ہاتھ ڈالنے کے لیے شاید ہی کوئی تیار ہو ‘۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وہ چالیس برس تک ’اصطلاحات‘ جمع کرتے رہے۔ نوکری سے سبکدوشی کے بعد 2012 میں ’اصطلاحات ڈاٹ کام‘ کے نام سے ایک ویب سائٹ تیار کر کے انگریزی اصطلاحوں اور اس کی متبادل اردو اصطلاحوں کو اَپ لوڈ کرنا شروع کیا۔ اب تک وہ 73 ہزار سے زائد اصطلاحات اَپ لوڈ کر چکے ہیں اور اس پراجکٹ پر کئی لاکھ روپیے اپنی جیب خاص سے صرف کر چکے ہیں اور کبھی کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے سے کوئی مالی امداد نہیں لی لیکن اردو والوں کی بے حسی کے رویے سے سخت نالاں ہیں۔
روزنامہ انقلاب ممبئی کے مشہور خوش نویس اہل قلم جلال الدین اسلم نے غلط نہیں لکھا ہے کہ اردو بک ریویو کی یہ سرگزشت، ان تمام معتبر اردو میگزینوں اور جریدوں کی ایسی دکھ بھری کہانی ہے جن کی پوری زندگیاں اردو کی کِشتِ ویراں کو اپنے خون جگر سے سیراب کرنے ہی میں گزرتی رہی ہیں۔ مگر اردو کے باغبانوں اور ناخداؤں کی بے اعتنائیوں اور بے مروتی میں نہ تب کوئی تبدیلی نظر آئی اور نہ اب۔ یہ کہانی صرف اردو بک ریویو ہی کی نہیں بلکہ اردو کے تمام ’کشتگانِ زمانہ‘ کی ترجمانی ہے۔ اردو والوں کی اس بے حسی کی ایک مثال ایک کروڑ روپیے سالانہ سے زائد کے بجٹ والے مشہور اقامتی تعلیمی ادارے ’جامعۃ الفلاح‘ بلریا گنج، اعظم گڑھ کے لائبریرین کا وہ خط ہے جو جلال الدین اسلم صاحب کے خط کے ٹھیک نیچے شایع ہوا ہے کہ ’’کم و بیش ساڑھے چار ہزار طلبا و طالبات، اساتذہ و معلمات استفادہ کرتے ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ بھی (اردو بک ریویو) اسی طرح ’اعزازی‘ طور پر موصول ہوتا رہے گا ۔۔!‘‘ جبکہ یہ ادارہ تنہا اردو بک ریویو کا مسئلہ حل کر سکنے پر قادر ہے۔ عارف اقبال صاحب نے لکھا ہے کہ ’25 سال قبل ( 1995 میں) جب اردو بک ریویو کا غیر رسمی اجرا ہوا تو ہمیں اس کی پروا نہیں تھی کہ (نام نہاد) ’اساتذہء ادب‘ اس مجلے کا استقبال کریں گے۔ ان میں سے معدودے چند مخلص اساتذہ ادب ہی متوجہ ہوئے لیکن عوام کی سطح پر البتہ بھر پور پذیرائی ملی جن میں اردو ادب کے اسکالرز تو برائے نام تھے، سائنس اور دیگر شعبہ جات کے طلبہ اور عام اردو قارئین ہی زیادہ تھے۔ اردو بک ریویو نے اردو زبان وادب میں تاریخی دستاویز تیار کرنے کا جو کام پچیس برس قبل شروع کیا، اُس سے اردو ادب کی عصری تاریخ مرتب کرنے میں یقینی طور سے مدد ملے گی۔ اب اگر اردو بک ریویو کی اشاعت کا یہ سلسلہ کسی وجہ سے منقطع ہوتا ہے تو یقین جانیے کہ یہ اردو دنیا کے لیے کسی سانحہ عظیم سے کم نہ ہوگا۔ لیکن اس کا احساس صرف ان ہی اساتذہ ادب کو ہوگا جو اردو کی حقیقی ترقی کا نہ صرف ادراک رکھتے ہیں بلکہ اس کام کے لیے ایثار و قربانی کے جذبے سے بھی لَیس ہیں۔ لیکن مسئلہ وہی ہے جس کی طرف اردو کے ایک عظیم ادیب و شاعر اسرار ناروی (ابن صفی) نے اشارہ کیا تھا کہ :
مسیح کون ہے؟ ہیں سارے ہاتھ آلودہ ۔۔۔لہو لہان ہے دھرتی کہاں سے مرہم آئے
اس لیے کہ اسرار ناروی ہی کے لفظوں میں:
نہ کوہ کن ہی رہا اور نہ خسروی باقی ۔۔۔ہماری راہ میں حائل ہے اب بھی سنگِ گراں
(حوالے کے لیے دیکھیں اردو بک ریویو مارچ 2020)
اردو بک ریویو نے اردو زبان و ادب میں تاریخی دستاویز تیار کرنے کا جو کام پچیس برس قبل شروع کیا ،اُس سے اردو ادب کی عصری تاریخ مرتب کرنے میں یقینی طور سے مدد ملے گی ۔اب اگر اردو بک ریویو کی اشاعت کا یہ سلسلہ کسی وجہ سے منقطع ہوتا ہے تو یقین جانیے کہ یہ اردو دنیا کے لیے کسی سانحہ عظیم سے کم نہ ہوگا ۔