اردو ادب ميں تقابل اديان کا فروغ قومی يکجہتی کی علامت
ڈاکٹر ظفردارک قاسمی علی گڑھ
1923 میں شائع شدہ کتاب’‘ہندو مذہب کی معلومات’’ پرایک چشم کشا تحریر
گزشتہ مضمون ميں يہ بات ذکر کی جا چکی ہے کہ خواجہ حسن نظامی نے ہندو مذہب کی برگزيدہ شخصيت سری کرشن پر انتہائی چشم کشا اور مفید معلومات پر مشتمل ايک طويل تصنيف 20 سال کے طويل عرصے ميں مرتب کی ہے۔ انہی کی ايک اور تصنيف ہندو مذہب کی معلومات کے نام سے ملتی ہے۔ يہ کتاب چاليس صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے ساتھ نواب سر امين جنگ بہادر کا فلسفہ "ملل ہنود” بھی شامل اشاعت ہے۔ ان دونوں رسالوں/کتابوں کو حلقہ مشائخ بک ڈپو دلی پرنٹنگ ورکس دہلی نے 1923 ميں شائع کيا ہے۔ اس قسط ميں راقم خواجہ حسن نظامی کی کتاب "ہندومذہب کی معلومات” پر چند گزارشات پيش خدمت ہيں۔
خواجہ حسن نظامی نے زير تذکرہ کتاب اول ہندو مسلم يکجہتی اور باہم محبت کے فروغ کے واسطے مرتب کی ہے۔ دوسرے يہ کہ اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد اردو داں طبقہ کو ہندو مت سے خاصی واقفیت اور جانکاری حاصل ہوجائے گی۔ کيوں کہ ہندوستان جيسے تکثيری معاشرہ ميں خواجہ حسن نظامی کی اس کتاب کی اہميت و افاديت مسلّم ہے۔ اس کتاب کی اشاعت اور اس کے مطالعہ سے يقيناً ہندوستان کی دونوں اقوام کے مابين جو خليج و فاصلہ، کچھ مفاد پرست اور موقع پرست افراد نے بنا کر رکھا ہے وہ ضرور دور ہوگا اور لا محالا اس کا خاتمہ بھی ہوگا۔ صاحبِ کتاب کا مقصد بھی يہی ہے کہ تکثيری سماج کی جو صالح اور روشن اقدار ہيں ان کو بہتر خطوط پر استوار کيا جائے۔ تاکہ نوجوان نسل کے اندر باہم ہمدردی، رواداری، پيار ومحبت، سلامتی اور بقائے باہم جيسی پاکيزہ اور شفاف خصائل و عادات رچ بس سکيں۔ ہندوستان جيسے تکثيری سماج ميں بقائے باہم کی درخشاں روايت اسی وقت مضبوط ومستحکم ہوسکتی ہے جب ہم تعصب و نفرت کی عينک اتار کر دوسرے مذاہب کا مطالعہ کريں اور اگر کوئی تنقيد کا موقع پائيں بھی تو وہ تنقيد برائے اصلاح ہو نہ کہ تنقيد برائے تنقيص۔ ہندو قوم سے ہمدردی اور يکجہتی کا اظہار انہوں نے جس مخلصانہ انداز ميں کيا ہے اس کا اندازہ درج ذيل اقتباس سے بخوبی لگايا جا سکتا ہے۔
خواجہ حسن نظامی لکھتے ہيں کہ "ہندو جيسی عظيم الشان اور قديم قوم کی نسبت اور اس کے عجيب مذہب کے بارے ميں اس رسالہ کی مختصر باتيں ہرگز اس قابل نہيں ہيں کہ ان کو ہندو مذہب کی مکمل معلومات کہا جا سکے۔ تاہم چونکہ مسلمانوں ميں اس قسم کے مضامين رائج نہيں ہيں اس ليے ان کو يہ سب باتيں نئی معلوم ہوں گی اور ان کی معلومات کو تھوڑا بہت فائدہ اس رسالہ سے پہنچے گا۔ اب تک ہندوؤں کے مذہب کی نسبت صرف اعتراض کرنے والے مسلمانوں نے کچھ رسائل لکھے تھے اور ہندو مذہب کی صرف وہی باتيں قلم بند کی تھيں جن پر اعتراض ہو سکے مگر ميں نے يہ رسالہ صرف مسلمانوں کی معلومات کے ليے لکھا ہے۔ جھگڑا، اعتراض يا مناظرہ اس سے مقصود نہيں ہے”
درج بالا اقتباس کی روشنی ميں يہ بڑے وثوق و اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ خواجہ حسن نظامی ہندو مسلم اتحاد کے سچے علمبردار اور اس کے بڑے پيمانے پر مبلغ و داعی تھے۔ انہوں نے ہندو مذہب کی معلومات کے لکھنے کا بنيادی اور اہم فلسفہ بھی يہی بتايا ہے کہ اس کتاب کے مطالعے کے بعد دونوں قوموں ميں ضرور تحمل و برداشت کی روايت فروغ پائے گی۔ اور جو لوگ ايک دوسرے کے مذہب کو لعن طعن کرتے ہيں اس کی بنيادی وجہ ان کا ايک دوسرے کے مذہبوں سے لا علم ہونا ہے۔ جب ہم کسی بھی مذہب کی مکمل معلومات حاصل کر ليتے ہيں اور اس کے نشيب و فراز سے واقف ہوجاتے ہيں تو جو نفرت اس مذہب کے خلاف پنپ رہی ہوتی ہے اس کا يکسر خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کتاب کے اندر خواجہ حسن نظامی نے ہندو مذہب کے متعلق تمام بنيادی اور اہم باتوں کو نہايت اختصار اور جامع انداز ميں پيش کيا ہے تاکہ کم وقت ميں ايک اردو خواندہ شخص بھی ہندو مذہب کی عام چيزوں سے واقف ہوسکے۔
ہندو مت کی اصطلاحات
يہ سچ ہے کہ کسی بھی تہذيب اور مذہب سے واقفیت اور آشنائی حاصل کرنےکےليےاسمذہب يا تہذيب کے کلچر و ثقافت اور اس کی اصطلاحات کو جاننا نہايت ضروری ہوتا ہے تاکہ اس مذہب کی تہہ تک قاری يا محقق و مصنف بآسانی پہنچ سکے۔ ہر مذہب ميں کچھ اصطلاحات ہوتی ہيں اسی طرح ہندو مذہب ميں بھی بہت سارے خاص الفاظ ہيں۔ ان کا مفہوم و معنی اسی وقت صحيح طور پر سمجھ ميں آئے گا جب ہم ان الفاظ و اصطلاحات کو ہندو مذہب سے جوڑ کر سمجھنے کی سعی کريں گے۔ خواجہ حسن نظامی نے ہندو مت کی تقريباً 76 اصطلاحات کا تعارف کرايا ہے درجہ ذيل سطور ميں ان ميں سے چند الفاظ کا تعارف نذرِ قارئين ہے۔
"اوم”۔اسم ذات۔ باعث اور بنياد و منبع ظہور تمام موجودات۔ ازل و ابد کا محيط۔ "برہم” اسم ذات بمعنی خدا۔ دھرم – مذہب دين، ايمان، عقيدہ۔ مت – مذہبی فرقہ۔ خاص عقائد کا گروہ۔ وديا۔ علم۔علم دين۔ معلومات ظاہری۔ ايشور بھگتي- خدا کی محبت۔خدا کی اطاعت عشق الٰہی رضائے الہی۔ برہما جي- صفت خلق ذريعہ پيدائش عالم خالق۔ پرم آتما- ذات مطلق ذات بحث۔يعنی روح کل۔ مہاديو- ديوتاؤں ميں سب سے بزرگ جس کے سہارے زمين و آ سمان اور ہرسہ عالم ہنود قائم ہے۔ ان کی سواری بيل ہے۔ ان کے مندر ميں پنڈی (عضو مخصوص) اور ايک بيل کی مورتی ہوتی ہے۔ پاروتی۔ مہاديو جی کی بيوی کا نام ہے۔ ويراگ – عالم سے بے تعلقی اور نفرت۔ ترک ماسوا۔رہس انيت – مہاتما۔عارف بزرگ۔ جوگ – ملنا۔وصل ہونا۔علم تصوف درويشی۔ اندر- يعنی حواس کا قادر اور مالک۔ کمنڈل- کشکول گدائی۔ مزيد تفصيل کے ليے مذکورہ کتاب سے استفادہ کيا جا سکتا ہے۔
جوگيوں کے عقائد
خواجہ حسن نظامی نے اس سلسلے ميں انتہائی اہم اور وقيع معلومات پيش کی ہيں۔ جوگيوں کو ہندو مذہب کے صوفی کہنا زيادہ مناسب ہے۔ ان کے افکار و عقائد بھی بڑے عجيب و غريب ہيں۔ چنانچہ ان کے عقائد کا ذکر کرتے ہوئے خواجہ حسن نظامی نے لکھا ہے کہ
"کوئی ايک سب سے برتر خدا، ايشور ہے جوپاک ہے۔ اور وہ ايک ايسی روح ہے۔ جو تمام دنيا پر محيط ہے۔ اور تمام تکليفوں اور خواہشوں سے آزاد ہے۔ اس کا نشان لفظ اوم ہے۔ وہ پيدا کرنے والا اور حفاظت کرنے والا اس دنيا کا نہيں ہے اور نہ اس کا ان سے کوئی تعلق ہے”
اسی طرح ان کا يہ بھی عقيدہ ہے کہ” دنيا ميں بے شمار روحيں ہيں جن سے سب جاندار موجود ہيں۔اور وہ سب ازلی ہيں۔ وہ روحيں پاک ہيں ان ميں تغير و تبدل نہيں ہے۔ ليکن وہ دنيا ميں رہنے سے رنج و راحت معلوم کرتی ہيں اور چوراسی لاکھ قسم کی قالب ميں جنم ليتی پھرتی ہيں۔ ”
يہ بھی ملاحظہ فرمائيں۔
دنيا کسی کی پيدا کی ہوئی نہيں ہے بلکہ ازلی ہے۔ دنيا کے ظہور بدلتے رہتے ہيں ليکن وہ قوت جس سے ظہور بدلتے رہتے ہيں يکساں رہتی ہے۔ ” اس سے مماثل 16 عقائد کا تعارف صاحب کتاب نے انتہائی ديانت و اعتدال سے کيا ہے۔
ہندوؤں کی مقدس اشياء
ہندؤں ميں چار چيزيں بہت مقدس و پاکيزہ اور پوتر مانی جاتی ہيں۔ انہيں عموماً ہندوؤں کے چار "گاف” سے بھی تعبير کيا جاتا ہے۔ يعنی گائے، گنگا، گيتا اور گائتری منتر۔
گائے کی تعظيم اور احترام ان کے يہاں بہت زيادہ ہے۔ اور گائے کا احترام ہندو مذہب کا ہر گروہ و فرقہ کرتا ہے۔ ليکن خواجہ حسن نظامی کی تحقيق کے مطابق کوئی بھی ہندو ايسا نظريہ نہيں پيش کر سکتا ہے جو منطقی ہو۔ انہوں نے اس سلسلے ميں اپنی رائے پيش کرتے ہوئے کہا کہ ہزاروں برس سے ہندو قوم اس کی پوجا وعبادت کرتی آئی ہے۔ لہٰذا يہ ان کے دل و دماغ ميں پيوست ہوچکا ہے۔ اور بچہ بچہ کا سينہ گائے کی محبت وعقيدت سے معمور ہے۔
دوسرا مقام ہندوؤں کے يہاں گنگا کو حاصل ہے يہ ايک دريا ہے جسے تقريباً تمام ہندو فرقے مقدس تسليم کرتے ہيں اور اس ميں غسل کرنا اپنی نجات کا باعث مانتے ہيں۔ ليکن ہندوؤں کے تين فرقوں کو گنگا ميں نہانے کی اجازت نہيں ہے۔ اس واسطے وہ گنگا کی عزت و توقير تو کرتے ہيں۔ مگر گنگا سے خاص وابستگی نہيں رکھتے ہيں۔ گنگا کی عظمت و توقير کی بھی آج تک کوئی ہندو عقلی اور نقلی منطق پيش نہيں کر سکا ہے۔ اقتصادی يا زراعتی حوالے سے اس کی عظمت کو ثابت کرنے کی سعی ہوتی جو يقيناً ناکافی ہے۔ کيونکہ ہندوستان ميں ايسی بہت سے ندی اور دريا ہيں جن کے توسل سے کھيتوں ميں آبپاشی ہوتی ہے۔ اور زراعت کو خوب فائدہ ہوتا ہے۔
تيسرا گيتا کا مقام و مرتبہ بھی ہندوؤں کے يہاں بہت ہے۔ گيتا کرشن جی کے خطبات کا مجموعہ ہے۔ جس ميں فلسفہ حيات اور فلسفہ کائنات کو نہايت عمدگی سے بيان کيا گيا ہے۔ ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والا بڑا گروہ گيتا کو مانتا ہے اور اس کی عبادت کرتا ہے۔ خواجہ حسن نظامی لکھتے ہيں کہ” اگر چہ رامائن کی عظمت بھی کروڑوں ہندوؤں کے دل ميں ہے جس ميں رام چندر جی کے حالات قلم بند ہيں۔ مگر گيتا کے برابر اس کو مقبوليت حاصل نہيں ہے۔ رامائن صرف خوش عقيدہ ہندوؤں ميں مقبول ہے اور گيتا اہل علم و دانش اور فلاسفر طبقہ ميں مقبول ہے اور خوش عقيدہ ہندوؤں کے يہاں بھی مانی جاتی ہے۔ تاہم بعض ہندو ايسے بھی ہيں جنہيں گيتا کی عظمت سے کوئی تعلق نہيں ہے بلکہ بعض ہندو تو اس کو کرشن جی کی کتاب ہی نہيں مانتے ہيں”
چوتھا گائتری منتر۔ اس کی ہندوؤں ميں بہت عزت کی جاتی ہے۔ اس کو کوئی بھی ادنی ذات کا فرد نہيں پڑھ سکتا ہے۔ اگر کسی بھی ادنی ذات کے شخص نے اس کی قرات کرلی تو اس کے کانوں ميں گرم کرکے سونا ٹھونسا جائے گا۔ چنانچہ خواجہ حسن نظامی کی تحقيق کے مطابق يہ بھی ہے کہ اس منتر کی قرات صرف برہمن ہی کر سکتا ہے۔ چھتری، ويش اور شودر نہيں کر سکتے ليکن بعض لوگوں کی تحقيق يہ ہے کہ اسے شودروں کے علاؤہ ہندو مذہب کی ديگر ذاتيں پڑھ سکتی ہيں۔
خواجہ حسن نظامی نے اپنی اس تحقيق ميں ہندو مذہب کی چار بڑی علامت و نشانی اور ان کے متعلق ہندو قوم کے عقائد و نظريات کو تفصيل سے بيان کيا ہے۔ انہوں نے اس باب ميں ہندوؤں کے ان نشانات پر اپنی رائے دينے سے بہت حد تک گريز کيا ہے اگر دی بھی ہے تو اس طور پر کہ ان کے مذہب کی کسی مقدس شئی کی بے حرمتی کا ارتکاب نہ ہو۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ يہ ہندوؤں کے اہم مذہبی ستون ہيں۔ ان پر تنقيد يا رائے زنی کرنے سے ہندو بھائيوں کی دل آزاری اور دل شکنی ہوگی۔ اور اس کی اجازت کسی بھی دھرم ميں نہيں ملتی ہے۔ خصوصاً اسلام تو کسی بھی مذہب اور اس کی مقدس شخصيات کی بے حرمتی يا توہين کرنے کی سخت الفاظ ميں مذمت کرتاہے۔
اس کے علاؤہ خواجہ حسن نظامی نے اس کتاب "ہندو مذہب کی معلومات” ميں ہندوؤں کے مذہب کے متعلق ديگر اہم باتيں بھی بيان کی ہيں مثلاً ہندو دھرم کی چاروں کتب ويد، ان ميں اشلوکوں کی تعداد، پران، ان کے مرتبين اور ان کے موضوعات، اسی طرح اپنشدوں سے متعلق ضروری مباحث و مسائل کا ذکر بڑی تفصيل سے کيا ہے۔ اسی طرح ہندو مذہب ميں ذات پات کی تقسيم، برہمن، چھتری، ويش اور شودر کے نظام پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
ضمناً يہ بتانا بھی نہايت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ حسن نظامی نے اس کتاب کی ترتيب وتصنيف اور تاليف جہاں انہوں نے ہندو قوم کے درميان ميں رہ کر کی ہے وہيں اس کی ترتيب ميں جن بنيادی ماخذ و مصادر سے مدد لی گئی ہے وہ بھی ہندو ازم پر انتہائی اہم اور معتبر دستاويزات تصور کی جاتی ہيں۔ خواجہ حسن نظامی رقم طراز ہيں۔ "ميں نے اس رسالہ کی تاليف ميں اپنے لائق و فاضل دوست جناب امر ناتھ صاحب ساحر رئيس دہلی کی کتاب "شرح وشنو پران” سے مدد لی ہے اسی طرح اوجاگر مل صاحب کی کتاب "مخزن مذاہب” سے بھی استفادہ کيا گيا ہے۔”
خواجہ حسن نظامی کی کتاب "ہندو مذہب کی معلومات” کا مطالعہ کرنے سے علم و تحقيق کے جديد گوشے اور پہلو اجاگر ہوتے ہيں اور ہندو مذہب کی بہت ساری ان باتوں کے متعلق علم ہوجاتا ہے جن کو مسلم کميونٹی ميں ابھی تک کسی نے بھی واضح نہيں کيا تھا۔ اس اعتبار سے اس دور ميں بھی اس کتاب کی عظمت اور اہميت سے قطعی انکار نہيں کيا جا سکتا ہے۔ اس سے يہ پيغام بھی جاتا ہے کہ برادران وطن کا ايک بڑا طبقہ يہ محسوس کرتا ہے کہ مسلم قوم، ہندو مذہب اور اس کی برگزيدہ شخصيات کو حقارت وذلت آميز نگاہ سے ديکھتی ہے۔ لہٰذا اس تصنيف نے برداران وطن کے اس شک وخدشہ کو دور کرنے بھی اہم رول ادا کيا ہے۔ يہاں ايک بات اور بتاتا چلوں کہ جس دور ميں يہ کتاب مرتب ہوئی تھی اس وقت مادر وطن انگريزوں کے استبداد وتسلط ميں تھا لہٰذا انگريز چاہتے تھے کہ ہندوستان ميں ہندو مسلم اتحاد مضبوط نہ ہونے پائے، قياس يہی ہے کہ وہ اس طرح کی کاوشوں کو پسند نہيں کرتے تھے۔ مگر اس وقت بھی اسی طرح کے ادب و لٹريچر کی اشاعت و ترويج نے ہندو مسلم کميونٹی کی اجتماعيت کو روحانيت اور تازگی بخشی تھی۔ آج ايک بار پھر ملک ميں مذہبی منافرت بڑھائی جا رہی ہے اور ہندو مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی نا کام سعی ہو رہی ہے۔ اس ليے ايک بار پھر ملک کے تمام مذاہب و اديان کے حاملين کو يکجا ہونا ہوگا اور انہيں اس طرح کے ادب و لٹريچر کی تيزی سے ترويج و اشاعت کا فريضہ انجام دينا ہوگا تاکہ جو لوگ مذہب کے نام پر زراعت وکاشت کر رہے ہيں ان کی يہ نفرت آميز کھيتی برگ و بار نہ لا سکے۔