اداریہ

بندھوا حکومت، آزاد مزدور!

بھارت میں پچھلے کچھ دنوں سے جو نظارہ لاک ڈاؤن اور اس میں توسیع یا رخصت دینے کے معاملے میں دیکھنے میں آ رہا ہے اس میں یہ سمجھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ آخر حکومتوں کے پاس کوئی منصوبہ ہے بھی یا نہیں اور ان کے فیصلوں اور اقدامات کے پیچھے کوئی مثبت سوچ بھی پائی جاتی ہے یا نہیں؟ آدھی آبادی لاک ڈاؤن میں بند ہے تو بقیہ نصف آبادی لاک آؤٹ ہو کر سڑکوں پر نکل پڑی ہے۔ تیسری بار ملک میں تالا بندی کے اعلان کے لیے ہر بار کی طرح نہ خود وزیر اعظم ملک کے سامنے آئے نہ کوئی اور حکومتی نمائندہ سامنے آیا۔ بس ایک سرکاری حکم نامہ جاری کر کے اہل ملک کو اطلاع کر دی گئی کہ ۱۷ مئی تک ملک میں تالا بندی جاری رہے گی۔ اس وقت تک یہ کہا جا رہا تھا کہ ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا شدہ حالات قابو میں ہیں تو پھر قومی سطح پر سترہ مئی تک تالا بندی کو توسیع دینے کے چہ معنی دارد؟
اگر حالات تشویشناک ہیں تو سب سے پہلی راحت شرابیوں کو کیوں کر ملی جب کہ نہ اس کا کسی نے مطالبہ کیا تھا اور نہ اس کو اشیائے ضروریہ میں رکھا گیا تھا؟ اگر خزانے کا محصول بڑھانا ہی مقصود تھا تو ان دعوؤں کا کیا مطلب تھا کہ ’’جان بھی اور جہاں بھی‘‘؟ اول تو شراب سے انسانی صحت کو سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں پہنچتا دوم یہ کہ اس کی بہتات سے معاشرے میں جرائم اور گھریلو تشدد میں اضافے کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر حکومت کے نقطہ نظر کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو دکانیں کھولنے کے بعد کے حالات کو قابو میں رکھنے کی کوئی تدبیر کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ جو افراتفری سڑک سے لے کر حکومت کے ایوانوں تک دیکھی گئی وہ انتظامیہ اور پولیس کی بدنظمی کی مثال بن گئی۔
فلم ڈائریکٹر اور پروڈیوسر رام گوپال ورما نے پہلے دن شراب خریدنے والوں کی قطار میں کھڑی لڑکیوں اور خواتین کی تصویر کے ساتھ ٹویٹ کر کے سوال کیا کہ ’’دیکھئے مے خانے کے سامنے کون کون قطار میں ہیں؟‘‘ اس پر گلوکارہ و اداکارہ سونا موہا پاترا نے جو جواب دیا وہ اور بھی چونکا دینے والا تھا۔ ’’آپ کی اخلاقیات غلط ہیں۔ عورتوں کو بھی شراب خریدنے اور پینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ مردوں کو ہے، ہاں پینے کے بعد تشدد کا حق کسی کو نہیں ہے۔‘‘
دراصل اس کو ایک بگڑتے ہوئے سماج کی نمائندہ سوچ اور معاشرے میں اقدار کی منفی تبدیلی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ حکومتوں کو کوسنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ یہ تو ایک بہتر معاشرے کی تعمیر وتشکیل کا خواب دیکھنے والوں کے لیے خوابِ غفلت سے جاگنے اور دوسروں کو جگانے کا موقع ہے۔ دیگر کاموں کے ساتھ اپنے ارد گرد کے ماحول کو بگڑنے سے بچانے کی تدابیر اختیار کرنے پر اتنی ہی توجہ دینے کی ضرورت ہے جتنی ہماری اپنی تربیت پر۔ بلکہ اس لاک ڈاؤن کی مناسبت سے اگر مسلم تنظیمیں ساتھ مل کر ملک گیر سطح پر، ورچوئل اور گراؤنڈ لیول پر مختلف طریقوں سے مہم چلائیں اور اس میں برادرانِ وطن کے مذہبی رہنماؤں کا تعاون حاصل کر سکیں تو اس سے بہتر دعوت وتبلیغ کا موقع شاید ہی کبھی مسیر آسکتا ہے۔ وطن کی خواتین کا بھی ہمیں اعتماد حاصل ہوگا، ملت کی کردار کشی کی مہم کو مثبت رخ دینے اور دین وشریعت کے اقتصادی پہلو کو اجاگر کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ بعض طلبہ تنظیموں نے سوشل میڈیا پر فوری طور پراُمّ الخبائث کی برائیوں کو اجاگر کرنے والے پر مغز پیغامات شیئر کیے ہیں جو کہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔ اس مہم کو مزید تقویت دینے اور آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
اس میں ایک اور پہلو، ملک میں موجود معاشی نا برابری کا پھر سے اجاگر ہوتا ہے۔ ایک طرف مزدور طبقہ بھوک مٹانے کے لیے دانے دانے کو ترس رہا ہے بلکہ بھوک سے تڑپ کر جانیں جا رہی ہیں یا مالی پریشانیوں سے لوگ خود کشیاں تک کر رہے ہیں تو دوسری طرف اضافی کورونا ٹیکس کے باوجود شراب خانوں کے سامنے لوگوں کی کئی کئی کلو میٹر طویل قطاریں اشارہ دے رہی ہیں کہ عوام کے پاس فاضل دولت کی کمی نہیں ہے۔ پچھلے دو ماہ کے دوران بھارت کی کارپوریٹ کمپنیاں ملک کی ناگفتہ بہ صورتحال سے انجان، دنیا میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی تھیں۔ ملک کے سب سے بڑے کارپوریٹ گروپ ریلائنس کی جیو موبائل میں فیس بک نے قریب نو فی صد حصہ داری خریدی تو حال میں اسی میں ایک امریکی کمپنی نے مزید سرمایہ کاری بھی کی۔ گویا کہ ’انڈیا‘ چمکتا رہا اور ’بھارت‘ بلکتا رہا۔ لاک ڈاؤن ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں بن سکا۔
وفاقی جمہوری نظام اور وسیع وعریض ملک میں کیا یکساں حکمت عملی ممکن بھی ہے؟ ریاستوں کو ان کا جی ایس ٹی شیئر اور دیگر رقومات کی ادائیگی مرکز نے نہیں کی اور کورونا کی بھیانک وبا سے ان کو خالی ہاتھ لڑنے کے لیے جھونک دیا گیا۔ اور جو حکم نامے بھی جاری ہوتے رہے ان میں ترمیمات اتنی کہ ان پر عمل کرنے، کروانے میں عام آدمی تو کیا سرکاری بابوؤں کے بھی پسینے چھوٹ جائیں۔
اگر ملک میں تالا بندی کے دوران ہر کسی کو نقل مکانی اور سفر سے روکا گیا تھا تو بہار کے بی جے پی کے ایم ایل اے کو راجستھان کے کوٹا شہر سے اپنی بیٹی کو لانے کے لیے خصوصی پاس اور گاڑی کیسے مل جاتی ہے؟ اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کی حکومتیں اپنی اپنی بسیں بھر کر اپنے طلبہ و طالبات کو کوٹا سے واپس لے کر آ جاتی ہیں اور ان بچوں کو شاہی ٹھاٹھ کے ساتھ گھروں تک پہنچایا جاتا ہے لیکن اسی بس کے سایے میں پیدل چل رہے بھوکے مزدور ایک گلاس پانی اور ایک نوالہ کھانے کو ترس رہے ہوتے ہیں۔ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کھلی پریس کانفرنس میں الزام لگاتے ہیں کہ اتر پردیش اور بہار کے وزرائے اعلیٰ نے تلنگانہ میں پھنسے مزدوروں کو اس بنا پر واپس لینے سے انکار کر دیا ہے کہ وہ اتنے بڑے انتظامات کے اہل نہیں ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ سورت سے بہار جانے والے ایک ایک غریب مسافر سے ۷۳۰ روپیوں کے ٹکٹ کے لیے دو سے ڈھائی ہزار روپیے تک وصول کرنے کی اطلاعات ہیں۔ اگر پی ایم کیئر فنڈ اس وقت کام نہیں آئے گا تو وہ اور کس وقت کام آئے گا؟ فنڈ کی کمی کو دور کرنے کے لیے بیس ہزار کروڑ روپیوں کی لاگت والا نیا پارلیمنٹ ہاؤس ویسٹا پروجیکٹ رد کیوں نہیں کیا جا رہا ہے؟ ۶۸ ہزار کروڑ روپیوں کے بنک قرضوں کو بیک جنبش قلم معاف کر دیا گیا ہے اور اس اقدام کا سیدھا فائدہ ان سرمایہ داروں کو ہونے جا رہا ہے جنہوں نے ’بھارت‘ کے پسینے سے ’انڈیا‘ بنانے کے جھوٹے خواب عوام کو دکھائے تھے۔
اس وقت سابق وزیر اعلیٰ مہاراشٹرا دیویندر پھڈنویس صنعت وتعمیراتی لابی کے ساتھ مل کر ژوم کانفرنسنگ کرتے دیکھے گئے تھے، حالانکہ اپنی ریاست کی دگرگوں صورتحال کے پیش نظر ان کو مہاراشٹرا کی حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت تھی۔ کیا ہماری مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے بلڈر لابی اور دیگر کمپنیوں، فیکٹریوں پر ایسا کوئی دباؤ ڈالا ہے کہ وہ مزدوروں کو ’’اقل ترین‘‘ مزدوری دلواتے اور ملک میں تالا بندی کے دوران ان بے سہارا مزدوروں کو ان کی اپنے حق کی تنخواہ دلواتے؟ اگر وہ ایسا نہیں کر سکے تو پھر ان کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ وطن واپسی کے خواہشمند مزدوروں کو اپنی ضرورت کے تحت روک رکھیں؟ حالانکہ ان مزدوروں کی ضرورت کے وقت ان کو بے سہارا چھوڑنے والے یہی لوگ تھے۔ اگر کرناٹک کے وزیر اعلیٰ یدیورپا نے شرمِک ٹرینیں یہ کہہ کر ردّ کی ہیں کہ ہمیں کل کارخانوں میں مزدوروں کی ضرورت پڑے گی اور ہم آج ان کو وطن واپس نہیں بھیج سکتے تو یہ سراسر ان کی عوام دشمن سوچ کی علامت ہے اور حکومتوں کے سرمایہ دارانہ نظام کے بندھوا بن جانے کا مظہر ہے۔اور جب حکومتیں ہی بندھوا ہوجائیں تو مزدور کہاں آزاد رہے گا۔ اب تو جو چاہے اس کا استحصال کرے۔

ایک طرف مزدور طبقہ بھوک مٹانے کے لیے دانے دانے کو ترس رہا ہے بلکہ بھوک سے تڑپ کر جانیں جا رہی ہیں یا مالی پریشانیوں سے لوگ خود کشیاں تک کر رہے ہیں تو دوسری طرف اضافی کورونا ٹیکس کے باوجود شراب خانوں کے سامنے لوگوں کی کئی کئی کلو میٹر طویل قطاریں اشارہ دے رہی ہیں کہ عوام کے پاس فاضل دولت کی کمی نہیں ہے۔ پچھلے دو ماہ کے دوران بھارت کی کارپوریٹ کمپنیاں ملک کی ناگفتہ بہ صورتحال سے انجان، دنیا میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی تھیں۔ ملک کے سب سے بڑے کارپوریٹ گروپ ریلائنس کی جیو موبائل میں فیس بک نے قریب نو فی صد حصہ داری خریدی تو حال میں اسی میں ایک امریکی کمپنی نے مزید سرمایہ کاری بھی کی۔ گویا کہ ’انڈیا‘ چمکتا رہا اور ’بھارت‘ بلکتا رہا۔ لاک ڈاؤن ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں بن سکا۔