اداریہ

آہ مولانا عمری! ملت کا نگینہ چلا گیا

’عالِم کی موت عالَم کی موت‘ ہوتی ہے۔ یہ جملہ لکھے ہوئے زیادہ دن نہیں گزرے کہ آج پھر اس کا اعادہ کرنا پڑ رہا ہے جب سابق امیرِ جماعتِ اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ حسبِ دستور ہر عام و خاص نے مولانا مرحوم سے وابستگی اور استفادے کو اپنے اپنے انداز سے یاد کیا۔ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مولانا عمری کی زندگی علم وعمل کے ساتھ تحریکِ اسلامیِ ہند اور دعوت و اصلاح کے لیے سرگرم کاوشوں سے عبارت رہی۔ انہوں نے ہمہ جہت میدانوں میں سرگرم رہتے ہوئے بھی ‘تحقیقاتِ اسلامی’ اور ‘زندگیِ نو’ جیسے تحریکی اور اسلامی فکر کو جلا دینے اور فروغ دینے والے انتہائی اعلیٰ معیاری رسالوں کی آبیاری کی ہے۔ دعوت ٹرسٹ کے چیئرمن کی حیثیت سے اردو میں ‘سہ روزہ دعوت’ اور ہندی میں ‘کانتی’ کے لیے ان کی فکر مندی کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ زمانے کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ تحریکی صحافت کو ہم آہنگ کرنے کا سلسلہ مولانا کی نگرانی میں ہی شروع ہوا تھا جس کے لیے قائم کردہ ادارتی مشاورتی بورڈ کی ذمہ داری موجودہ امیرِ جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی کے حصہ میں آئی۔ اس بورڈ نے اپنی محنتِ شاقہ سے ایک جامع خاکہ مرتب کیا جس کے تحت میڈیا میں تحریکی رسالوں کی آواز کو بلند کرنے، ان کی اثر اندازی کی سمت میں کام کرنے نیز اردو صحافت میں اخبار ’دعوت‘ کو اردو عوام کا نمائندہ بنانے کا منصوبہ عمل میں لایا گیا۔
مختلف مواقع پر مولانا سید جلال الدین عمری کے مشاہدات اور تجربات سے اندازہ ہوتا رہا کہ آپ جدید دور کے تقاضوں سے کس قدر واقف ہیں۔ جب ‘سہ روزہ دعوت’ سے ‘ہفت روزہ میں دعوت‘ کی منتقلی کا فیصلہ ہوا تو متعدد عملی مراحل در پیش تھے۔ اسٹاف کی ذہن سازی اور تربیت وغیرہ کے دوران دشواریوں کو دیکھتے ہوئے مشاورتی بورڈ نے بعض اہم نکات کی نشان دہی کی جن کے لیے سخت اور بڑے فیصلوں کی ضرورت تھی۔ مولانا کی فیصلہ سازی اور دور اندیشی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اس دوران کوئی تامل اور تاخیر کو روا نہیں رکھا۔ اخبار دعوت کی سہ روزہ سے ہفت روزہ میں تبدیلی کے مراحل آپ ہی کی امارت میں طے ہوئے اور اس سلسلے میں آخری اور فیصلہ کن میٹنگ میں مولانا نے کہا تھا کہ ’’پرانی عمارت مرمت کے قابل نہ رہے تو اسے ڈھا دینے اور نئی تعمیر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے‘‘
بنا بریں اسٹاف اور جگہ دونوں میں تبدیلی عمل میں آئی۔ مولانا کا ایک انٹرویو اخبار ‘سہ روزہ دعوت’ میں شائع ہوا جس میں مستقبل کے رخ پر انہوں نے مفصل روشنی ڈالی تھی۔ جناب سعادت اللہ حسینی نے ایڈیٹوریل بورڈ کے توسط سے جو واضح خاکہ پیش کیا تھا مولانا نے اس کی بڑی فراخ دلی سے توثیق کی تھی۔ مولانا نے اس پورے پروجیکٹ کی مکمل حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کی۔ آپ نے علم وتحقیق اور تنظیم وغیرہ میدانوں میں جو نقوش چھوڑے ہیں ان کے ساتھ صحافت کے میدان میں ان کی عملی اور نظریاتی خدمات کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جس کے لیے ادارہ ’دعوت‘ ان کا قدر دان اور ان کے حق میں دعا گو رہے گا۔
ملک اور بیرون ملک کے لاکھوں سوگواروں میں صحافتی برادری بھی شامل ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ مولانا کی مغفرت فرمائے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور ملت اسلامیہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور ہم کو ان کے خوابوں کی تکمیل میں ممد و معاون بن کر کام کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  04 ستمبر تا 10 ستمبر 2022