جواب دہی جمہوریت کا بنیادی اصول ہے۔ ماہرِ قانون جولیئس اسٹون
(Julius Stone)
کی رائے میں
’انتخابات، روز مرہ کے سیاسی تبادلہ خیال، نکتہ چینی اور صدائے احتجاج جمہوری عمل کا جزوِ لاینفک ہیں۔‘
پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے روز اول وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ’ہم پارلیمنٹ کو ہمیشہ مکالمے کا مرکز خیال کرتے ہیں۔’ کچھ دن قبل بہار کے معاملے پر بات کرتے ہوئے وہ کہہ چکے ہیں کہ بھارت جمہوریت کو مساوات اور برابری کا ذریعہ خیال کرتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے جرمنی کے شہر میونخ میں 27 جون کو تارکین وطن سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ ’بھارت نے دکھایا ہے کہ اتنے وسیع و عریض اور اس قدر مختلف النوع ملک میں جمہوریت کتنے بہتر طریقے سے ڈیلیور کر رہی ہے۔‘
لیکن اگر وہی کچھ سچ ہے تو آخر آزادیِ اظہار اور اختلاف کا دائرہ سڑک سے لے کر سوشل میڈیا تک اتنا سکڑتا کیوں جا رہا ہے؟ ہر خاص و عام بلکہ اعلیٰ سیاسی قائدین بھی خود کو حکومت کے آگے کیوں مجبور پا رہے ہیں؟ مانسون اجلاس سے قبل کُل جماعتی میٹنگ میں خود وزیر اعظم کی غیر موجودگی سے کیا عندیہ ملتا ہے؟ تلملائے حزب اختلاف نے ان کے اس رویے کو ’غیر پارلیمانی عمل‘ اور جمہوریت کی توہین قرار دیا ہے۔
ایوانِ پارلیمنٹ کے آداب؟
لوک سبھا سکریٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک کتابچہ میں گزشتہ برس لوک سبھا، راجیہ سبھا اور مختلف ریاستی اسمبلیوں میں استعمال میں آنے والے الفاظ کی فہرست جاری کی گئی ہے۔ جس میں تاناشاہ، جملہ جیوی، نکما، بہری سرکار، چیلہ، چمچہ، آنسو، کالا دن، خرید فروخت اور انگریزی میں ڈراما، مِس لیڈ، گُون، انارکی، ڈانکی، ٹیئرس، کریمینل، کرپٹ، کروکوڈایل، اَبیوز وغیرہ الفاظ کو ’غیر پارلیمانی یا غیر مہذب’ قرار دیتے ہویے بلیک لسٹ کر دیا گیا ہے۔ حالاں کہ اسپیکر اور چیئرمن ان کے پس و پیش منظر کو دیکھ کر ہی کارروائی کے ریکارڈ سے ان الفاظ کو خارج کرنے کے بارے میں حتمی فیصلہ کریں گے لیکن مغربی بنگال کی تیز و طرار رکن پارلیمنٹ مَہوا موئترا نے اس معاملے پر تبصرہ کیا کہ ’بنیادی طور پر حکومت نے ان ہی استعاروں کو منتخب کیا اور پابندی لگائی ہے جن کے ذریعے وہ بتاتے کہ بی جے پی نے کس طرح بھارت کو تباہ کیا ہے۔’ عام استعمال والے الفاظ پر پابندی گویا دستورِ زباں بندی کے مترادف ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ ایوانِ پارلیمان کے باہر اور انتخابی مہموں کے دوران اس اندازِ تخاطب میں کیا رخصت دی جا سکتی ہے؟ موت کا سوداگر، ایک خاص آواز نکال کر دیدی او دیدی اور جیمس مائیکل لنگڈوہ پکارنا ہو چاہے تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے سی راؤ کے ذریعے پچھلے ہفتے مودی کو "ملک کا سب سے کم زور اور نِکمّا وزیر اعظم” کہنا ہو۔ میاں مشرف اور ملا ملائم سے لے کر سنگھی، ڈکٹیٹر، قبرستان، کپڑوں سے پہچاننے کی بات کرنا ہو، شائستگی اور بے ادبی کے پیمانے کو غیر جانب داری سے لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کے ذریعے منتخب نمائندوں کو ایوان کے اندر یوں بھی خصوصی مراعات کے تحت آزادانہ نقد و تبصرہ کا حق حاصل ہوتا ہے اس میں اگر حکومت کو جواب دہ بنانے اور اس کی عوام مخالف پالیسیوں یا فیصلوں کی مخالفت کے لیے صدا بلند کرنے کا یہ ایک راستہ بھی محدود یا مسدود کر دیا جائے تو پھر جمہوریت کا کونسا روپ باقی رہ جایے گا؟
عدلیہ کا آئینہ:
آل انڈیا لیگل سرویسیس اتھاریٹی کے 18ویں اجلاس کے افتتاح کی مناسبت سے بھارت کے چیف جسٹس این وی رمنا نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ پارلیمانی جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے حزبِ اختلاف کو بھی مضبوط کرنا پڑتا ہے۔ میں نے متعدد مواقع پر پارلیمانی مباحثوں اور پارلیمانی کمیٹیوں کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ درحقیقت میں قانون سازی کی بحثوں کا منتظر رہتا تھا۔ بدقسمتی سے اپوزیشن کا دائرہ سکڑتا جا رہا ہے۔ سی جے آئی این وی رمنا کی یہ باتیں مرکزی وزیر قانون کرن ریجیجو، سپریم کورٹ کے دیگر سینئر جج اور راجستھان ہائی کورٹ کے جج بھی سن رہے تھے۔ بھارت میں عوام کی بات سننے سے انکار کرنے والی بی جے پی حکومت نے اب حزب اختلاف کو بے آواز کرنے کے لیے پارلیمانی کاروائیوں کے دوران نوع بہ نوع الفاظ کو ’’غیر شائستہ‘’ قرار دیا ہے۔ ایوانِ پارلیمنٹ پر اشوک کے ستون کے شیروں کی شبیہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ پر ملک کے اعتراض کو خاطر میں لانے سے انکار کا رویہ کرسی کے نشے بلکہ جبر اور مطلق العنانی کی جبلت کو آشکار کر رہا ہے۔ الفاظ ہی نہیں بلکہ عمل بھی "غیر پارلیمانی” قرار دینے کی ضرورت ہے۔
ملکی انتظامیہ اور قوانین میں اصلاح اور تعمیر نو کی غرض سے کچھ اقدامات کرنا قابل ستائش بلکہ مطلوب بھی ہو سکتا ہے۔ طرز کہن سے نکل کر بھارت کو عالمی قائد کے منصب پر فائز کرنے کے خواب کی تکمیل ہوتی ہو تو اچھی بات ہے لیکن مسلمہ اور معروف روایات اور ضابطوں کی پامالی کے ذریعے اس کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کو تشویش اس بات پر بھی ہے کہ بی جے پی کی نظریاتی سرپرست آر ایس ایس کیوں کر حکومت کے ہر جائز و ناجائز اقدام کو خواہی نہ خواہی قبول کر رہی ہے؟ آج حکومت میں فردِ واحد کابینہ سے بالاتر ہو کر تمام فیصلے اور اعلانات کر رہا ہے۔ کیا ان کے نظریے اور روایات میں ملک، معاشرہ اور تنظیم سے فرد کا بڑا ہو جانا اب قابل قبول ہو گیا ہے؟ کیا سادگی پر کارپوریٹ کلچر کا حاوی ہونا ان کے لیے قابل قبول ہو گیا ہے؟ تو پھر سَنگھ کو مبینہ ‘‘غیر پارلیمانی الفاظ‘‘ کی فہرست کی کھل کر مخالفت کرنی چاہیے تاکہ حکومت کو اس کے گناہوں کے لیے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکے۔
جواب دہی سے فرار:
ایک سال قبل 30 جون 2021 کو 17ویں جسٹس پی ڈی دیسائی میموریل ٹرسٹ خطبے میں جمہوریت، اختلافِ رائے اور جواب دہی کی اہمیت کو چیف جسٹس رمنا نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا۔ ’’اس بات کو بخوبی تسلیم کیا جا چکا ہے کہ پانچ سال میں ایک مرتبہ صاحب اقتدار کو مسند سے اتار دینا ہی کسی جابر اور ظالم کے خلاف گارنٹی نہیں ہے۔’’ ایوان میں کسی پارٹی کی اکثریت جمہوریت کے لیے خطرہ میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ الٰہ آباد کے ریٹائرڈ چیف جسٹس گووِند ماتھر نے مذکورہ بیان پر یہاں تک کہہ دیا تھا کہ رمنا صاحب نے مؤثر طریقے سے واضح کر دیا ہے کہ’’۔۔۔ایک دائمی اور اصلی خطرہ تو اکثریت رکھنے والی مقننہ سے ہی ہے۔’’ سینئر قانون داں اندرا جئے سنگھ کہہ چکی ہیں کہ ججوں کے ذریعے ’بلا خوف و تردد’ فیصلے صادر کرنے میں ہی جمہوریت کی بقا ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ آگے بڑھ کر اپنے فیصلوں اور عمل سے ججوں کو ان باتوں کو ثابت کرنا ہو گا۔ حالاں کہ بھیما کورے گاؤں، پنجاب اور دلی کے کسان اور شاہین باغ سے نکلنے والے بھر کے سی اے اے مخالف احتجاجوں بلکہ آج کل صحافیوں، نوجوانوں اور سماجی کارکنوں کو ’غدارِ وطن اور دہشت گرد’ قرار دینے والی دفعات کے تحت جیل میں بند رکھنے کے لیے ضمانت تک سے انکار ان تمام باتوں میں حکومت اور عدلیہ دونوں کی چغلی نہیں تو اور کیا ہے؟
خود احتسابی:
دوسری جانب حکمراں بی جے پی کے لیے یہ گریبان میں جھانکنے کا موقع ہے کہ آخر آئے دن عدلیہ کی جانب سے آزادی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کی نصیحت ان کے دور اقتدار میں اتنی زیادہ کیوں کرنی پڑ رہی ہے؟ ملک میں پہلی بار ہوا تھا کہ سپریم کورٹ کے بڑے جج ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرنے پر مجبور ہوئے، وہ صرف اس بات سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے کہ عدالتوں کو آزادی اور خود مختاری سے کام نہیں کرنے دیا جا رہا ہے جس سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے۔
پارلیمنٹ میں مباحثوں کی جگہ دلوں کی کدورت اور بے ہنگم نعروں نے اپنا سکہ جما لیا ہے۔ آخر حزب اختلاف کو بھی ان ہی رایے دہندوں نے منتخب کیا ہے۔ ان کی آواز بھی عوام کی صدا ہے۔ عوام کو حد سے زیادہ دبایا جائے تو وہی ہوتا ہے جو سری لنکا، بہارِ عرب اور اس سے قبل تاریخ میں عوامی دباؤ کے نتیجے میں ہوا۔ اسی لیے لازم ہے کہ جب تک انسانیت کی حقیقی فوز و فلاح والا نظام نہیں مل جاتا تب تک موجودہ جمہوریت کو زندہ اور پائندہ رکھنے کے لیے ملک کے عوام ہر روز بیدار رہیں، سوالات کرنا جاری رکھیں، اقتدار کی نکیل کو پانچ سال میں ایک بار تھامنے کی بجایے ہر دن اپنے ہاتھ میں رکھیں۔
پیغمبر اسلام کی انسانوں کو نصیحت ہے کہ:
‘‘تم میں سے ہر ایک نگراں (راعی) ہے اور وہ اپنے ماتحتوں (رعیّت) کے بارے میں جواب دہ ہے۔‘‘
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 جولائی تا 30 جولائی 2022