کسی بھی جمہوریت میں انتخابی سیاست ایک اہم عمل ہے جس میں شہری ووٹوں کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں لیکن فی زمانہ اقتدار پر آتے ہی عوامی مینڈیٹ کی توہین شروع ہو جاتی ہے جو در اصل انتخابی جمہوریت کی توہین ہے۔ جاریہ اسمبلی انتخابات میں ایک پارٹی نے اس کی ایک شکل یہ نکالی ہے کہ منتخب ہو کر آنے کے بعد اگر ان کا ایم ایل اے پارٹی بدلتا ہے تو حلقے کے ووٹر اس کو چیلینج کرسکیں گے۔ اس پارٹی کے ۳۹ امیدواروں نے گوا میں حلفیہ بیان (affidavit) پر لکھ کر دیا ہے جس کے تحت اس وعدے کی خلاف ورزی کی صورت میں ایف آئی آر داخل کرنے کی تجویز ہے۔ سابق میں منتخب ہونے کے بعد ایک قومی پارٹی کے ۱۷ میں سے ۱۵، ارکانِ اسمبلی کو دوسری پارٹی میں ضم کر لیا گیا تھا۔ اس سے سبق لے کر اس پارٹی نے اس بار مذہبی عبادت گاہوں اور اپنے ایک مرکزی سیاسی لیڈر کے روبرو حلف لیا کہ وہ منتحب ہونے کے بعد اپنی وفاداری تبدیل نہیں کریں گے۔ یاد رہے کہ حیرت انگیز طور پر گوا کی سابقہ اسمبلی کے ساٹھ فی صد ایم ایل ایز نے نتائج کے بعد اپنی پارٹیاں تبدیل کی ہیں۔ ایسی سیاسی بدعنوانیوں پر قدغن لگانے کی غرض سے بعض قوانین بھی بنائے گئے ہیں جیسے کہ اینٹی ڈفیکشن لا، لوک ایوکت ایکٹ، آر ٹی آئی وغیرہ۔ لیکن ہماری سیاسی جماعتیں پھر بھی اپنے رنگ ڈھنگ بدلنے کے لیے آمادہ نہیں۔ کیوں نہ عوام اور ایماندار سیاست داں اس معاملے کو مزید آگے بڑھائیں؟
یوں تو خدا خوفی ہی ان حالات کا اصل علاج ہے لیکن ’’رائٹ ٹو ریکال‘‘ کا قانون ایک پرانا مطالبہ ہے جو عوام کو ہارس ٹریڈنگ اور کرپشن سے کچھ راحت پہنچا سکتا ہے۔ اس کے تحت کسی عوامی نمائندے کی کارکردگی غیر اطمینان بخش یا اس کے کسی بدعنوانی میں ملوث ہونے یا اپنی پارٹی کو ترک کرنے کی صورت میں اس کے انتحاب کو رد قرار دینے کی تجویز ہے۔ تب وہ ایم پی یا ایم ایل اے اپنی پانچ سالہ مدت کارکردگی کی تکمیل سے قبل ہی معزول کیا جا سکے گا۔ اسی عمل میں ’ہیٹ اسپیچ‘ نیز آئین مخالف عمل و بیانات حتٰی کہ مذہب اور جذبات کے استحصال کو بھی شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی اور سماجی تانے بانے کو بگڑنے سے بچایا جا سکے۔ پارٹی کے منشور (manifesto) کے خلاف کام کرنے والوں کا مواخذہ بھی اسی طرز پر لیا جانا چاہیے۔
اکثریت پرستی اور پولرائزیشن بھی غیر جمہوری ہے۔ اس کی جانب بڑھتی ہوئی سیاست نے بھی عوام کی نظروں سے ان کے حقیقی مسائل کو وقتی طور پر اوجھل کر دیا ہے۔ اس کے اثرات سے یہاں کی ‘اکثریت’ کسی صورت بچ نہیں سکتی۔ ’موبوکریسی’ نے نظم وقانون کو بالائے طاق رکھنے کے رجحان میں اضافہ کر دیا ہے، لوگ جرم کر کے فخر جتانے لگے ہیں، غربت اور بے روزگاری کی مار جھیلنے والے نوجوانوں کو ایک ’جنگجو بھیڑ’ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ان سب سے ملک کی عالمی شبیہ بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ پہلے ہی ذات پات کی تفریق اور سماجی نا مساوات سے کمزور بن چکے معاشرے کے لیے ایک مثبت اور تعمیری لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ اگر ملک عالمی قائد بننے کی جانب گامزن ہے تو پھر ملکی وعالمی ادارے اور دانشور موجودہ حالات پر منفی تبصرے کیوں کر رہے ہیں؟
دانشوروں کی آراء:
معروف عالمی مفکر و نظریہ ساز نوم چومسکی (Prof. Noam Chomsky)نے بھارت کے مسلمانوں اور حکمرانوں کے تعلق سے کہا کہ ’’اسلاموفوبیا کے اثرات پورے مغرب میں بڑھ رہے ہیں اور بھارت میں اس کی سب سے ’مہلک‘ شکل دیکھی جا رہی ہے جس نے اس کے ۲۵ کروڑ مسلمانوں کو ایک مظلوم اقلیت بنا کر رکھ دیا ہے۔ نیز مودی حکومت بھارت کی جمہوریت کو منظم طریقے سے تباہ کرنے پر تُل گئی ہے۔‘‘ وہ ’بھارت میں نفرت انگیز تقاریر اور تشدد کی بگڑتی صورتِ حال’ کے موضوع پر ایک عالمی مذاکرہ میں تقریر کر رہے تھے۔
ایوارڈ یافتہ مصنفہ اور جہد کار اروندھتی رائے نے کرن تھاپر کو دیے گئے اپنے ایک تازہ ترین انٹرویو میں کہا کہ
’’اکثریتی جارحیت بھارت کے خاتمے کا راستہ ہے۔ اس سے ملک ٹکڑے ٹکڑے (بالکنائزیشن) کے راستے پر جانے کا اندیشہ ہے۔‘‘
ملک کی یہ مبینہ اکثریت کی جارحیت کیا ان کو خوابوں کے امن، انصاف اور ترقی سے ہمکنار کرے گی؟ جاریہ انتخابی مہم کے دوران ہمیشہ کی طرح اصل موضوعات درکنار کر کے فقرے بازی کا سہارا لیا جا رہا ہے، عوام کی توجہ حکمرانوں کی ناکامیوں سے ہٹانے کی حکمت عملی پر کام بدستور جاری ہے۔ قوم پرستی کی گھُٹّی پھر پلائی جا رہی ہے لیکن جو طبقہ اس ایجنڈے کے پس پشت ہے وہ شہروں میں بستا ہے جن کی اکثریت اعلٰی ذاتوں پر مشتمل ہے۔ ‘‘سنٹر فار براہمن اسٹڈیز‘‘ کے بانی اور صحافی ومفکر پرفیسر دلیپ منڈل نے ایک سابقہ جائزہ رپورٹ پر اپنے ٹویٹر پوسٹ میں پھر یاد دلایا کہ پلوامہ حملے میں چالیس فوجی جوان ہلاک ہوئے تھے جن میں اونچی ذاتوں کے محض ۵ تھے۔ ۱۹ او بی سی، ۷ ایس سی، ۵ ایس ٹی، ۳ جاٹ سکھ، ایک مسلم، ۴ ہی اعلی ذات نیز ایک بنگالی اعلی ذات کا جوان شامل تھا جنہوں نے جانیں گنوائیں۔ اس بات کا ذکر ۱۴، فروری کو پلوامہ حملے کی تیسری برسی کے موقع کی مناسبت سے کیا گیا۔ لیکن ملک کی ترقی کے قومی دھارے میں ان طبقات کے تناسب میں کھلی ناانصافی دیکھی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ملک کے عوام حقیقتِ حال پر سوال کرنے لگے ہیں اور مذہبی جنون اور میڈیا کے مکر وفریب نیز سیاسی جارحیت اور جذباتیت کا مقابلہ کرنے کی فکر پروان چڑھ رہی ہے۔ امیر وغریب کے درمیان خلیج، غیر حکیمانہ یا متعصبانہ فیصلے اور عوام پر حکومتوں کی مضبوط گرفت کی خواہش جلد یا بدیر ملک میں انتشار کی کیفیت کا سبب بن جائے گی۔
ایک ریاست کا وزیر اعلی علی الاعلان کہتا ہے کہ ’’ملک آئین کے مطابق چلے گا، شریعت کے مطابق نہیں اور غزوہ ہند کا سپنا قیامت کے دن تک بھی مکمل نہیں ہوگا۔‘‘ تو اس کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو وہ کہنا چاہتا ہے بلکہ صرف یہ کہ وہ اپنے ووٹروں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھنے کی سعیِ لا حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ اس کو خود آئین سے پہلے ہی خدا واسطے کا بَیر ہے۔ اس کے اَسیّ اور بیس کا حساب دیر سویر ۳ فی صد بنام ۹۷ فی صد کے تصادم میں تبدیل ہو سکتا ہے، تب ساڑھے تین فی صد اعلیٰ ذاتوں کے خلاف سیاست کرنے والی پارٹیاں اس غالب ذات سے حساب لیں گی۔ شاید وہ ’خدائی انصاف‘ ہو۔
ظاہر ہے کہ معاملہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ پس ماندہ عوام کی اکثریت کی بیداری کا ہے۔ ہندوتوا قومیت کے اصلی روپ کو دیکھنے کے بعد ملک کی دبی کچلی عوام کی استحصال کی سچائی جوں جوں اجاگر ہوتی جائے گی توں توں اندرونی ٹکراؤ بڑھتا جائے گا جس کا ایک نتیجہ ملک کے منتشر ہونے یعنی ’’خانہ جنگی‘’ میں دھکیل دیے جانے کی شکل میں سامنے آسکتا ہے۔ ایسے میں ہمیں جوش سے زیادہ ہوش کو اپنانے اور اجتماعی ملی قیادت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا کے زمانے میں نوجوانوں کو بروقت اور درست رہنمائی فراہم کرنے اور حکمت ودانائی کے ساتھ ملک کے تمام طبقات کو امید اور حوصلے کا پیغام دینے پر کام کرنا چاہیے اور یہ ایک صبر آزما کام ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 فروری تا 26فروری 2022