بھارت اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک ہمہ رنگ اور متنوع خصوصیات کا حامل وسیع وعریض ملک ہے۔ اس کی یہ خصوصیت تاریخ کے ہر دور میں باقی رہی ہے۔ اس تنوع کو نہ تو بھارت کی قدیم حکومتوں نے ختم کیا تھا، نہ مسلمان حکمرانوں نے اس ملک کو یک رنگ بنانے کی کوشش اور نہ انگریز حکمراں ہی اس کی ہمہ رنگی کو ختم کر پائے۔ یہاں صدیوں سے مختلف النوع لسانی، تہذیبی، جغرافیائی اور مذہبی گروہ اپنی شناخت اور آزادی کے ساتھ زندگی گزارتے آئے ہیں۔ بھارت کے موجودہ دستور میں بھی اس تنوع کا بڑی حد تک لحاظ رکھا گیا ہے۔ اگرچہ ملک کی آزادی کے بعد ہی سے اس پر خطرات کے بادل منڈلاتے رہے ہیں لیکن اس طرح کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں۔حقیقت یہ ہے کہ اپنے اپنے مذہب، زبان، ثقافت اور جغرافیائی تشخص پر قائم رہنے کی یہی آزادی اس ملک کو طاقتور اور مستحکم بھی بنا سکتی ہے اور اسے ترقی کی بلندیوں پر بھی لے جا سکتی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے اس بات کی بڑے زور وشور سے کوشش ہو رہی ہے کہ اس ملک کو سیاسی، تہذیبی اور مذہبی اعتبار سے یک رنگ بنا دیا جائے۔ ملک کو اس طرح کی تہذیبی جارحیت اور کسی ایک سیاسی جماعت کے مکمل تسلط جیسے فسطائی وکلیت پسندانہ عزائم کا مقابلہ اس وقت کا سب سے اہم چیلنج ہے۔ اس صورت حال کا مقابلہ سیاسی وسماجی دونوں سطحوں پر کرنے کی ضرورت ہے۔
چیلنج کا سیاسی مقابلہ
سیاسی سطح پر مختلف علاقائی سیاسی جماعتوں اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے اس کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ حالیہ دنوں پارلیمنٹ میں صدر جمہوریہ کے خطاب کے بعد تحریک تشکر پر بحث کے دوران کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے موجودہ حکومت کی طرز حکمرانی پر تنقید کرتے ہوئے اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘آئین میں بھارت کو یونین آف اسٹیٹس کہا گیا ہے، ہر ریاست کے اپنے حقوق اور اختیارات ہیں، ان کی اپنی علیحدہ شناخت ہے۔ ہمارے ملک میں کوئی شہنشاہیت نہیں ہے کہ جہاں ڈنڈے کے زور پر حکمرانی کی جاتی ہو۔ یہاں تو گفتگو اور بات چیت کے ذریعے مختلف چیزیں طے ہوتی ہیں۔ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ اسٹالن نے راہول گاندھی کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا کہ پہلی مرتبہ کانگریس نے ہمارے مسئلے کو پارلیمنٹ میں اٹھایا ہے۔ اگرچہ کانگریس نے بھی اپنے دور حکومت میں ریاستوں کی اس آزادی اور اختیارات پر کبھی کبھی قدغن لگانے کی کوشش کی تھی لیکن اب اگر وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ اس کو اپنا موضوع بنا رہی ہے تو یہ بات ملک کے لیے خوش آئند ہے۔ پچھلے دنوں جنوبی ہند کی ریاستوں بالخصوص تمل ناڈو، تلنگانہ اور آندھرا پردیش نے ریاستوں کی جانب سے مرکز کو ملنے والے مالیہ اور مرکزی کی جانب سے ریاستوں کو وصول ہونے والی گرانٹس میں ہونے والی ناانصافی کو بھی موضوع گفتگو بنایا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کو حل کرنا ضروری ہے۔ ملک کی تمام ہی ریاستوں کو اس امر کی کوشش کرنی چاہیے کہ ملک کا یہ وفاقی ڈھانچہ برقرار رہے۔
چیلنج کا سماجی مقابلہ
سماجی سطح پر ہندوتوا کے جارحانہ اور فسطائی عزائم کا مقابلہ مسلمانوں کے علاوہ لبرل فکر کے حاملین کر رہے ہیں اور اس سطح پر موجودہ حکومت کا نشانہ بھی بڑی حد تک یہی دو گروہ ہیں، لیکن اس جارحیت کا موثر مقابلہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب اس کا مقابلہ کرنے والوں کے سامنے متبادل صورت بہت واضح ہو اور سارے ہی لوگ اس پر یکسو ہوں، ورنہ اس معاملے میں کسی کا بھی تذبذب یا دوہرا رویہ اس جدوجہد کو کمزور کر دے گا۔ حالیہ دنوں حجاب کے معاملے پر یا اس سے قبل سی اے اے مخالف تحریک کے دوران مسلم نوجوانوں کی جانب سے اسلامی شعار یا نعروں کے استعمال پر لبرل فکر کے حاملین کا رویہ منفی اور ایک حد تک دوہری ذہنیت کا حامل رہا ہے۔ اس رویے اور ذہنیت نے دانستہ یا نادانستہ طور پر ہندوتوا کی تہذیبی جارحیت کے خلاف جاری جدوجہد کو نقصان پہنچانے کا کام کیا ہے۔ یہ لبرل عناصر ہندوتوا کی تہذیبی جارحیت اور فسطائیت سے آزادی تو چاہتے ہیں لیکن مسلمانوں کو اپنے شعائر پر عمل کرنے کی آزادی ان کو پسند نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں ہندوتوا کی یک رنگی سے پریشانی تو ہے لیکن دوسرے مذہبی گروہوں کے اپنے اپنے تشخص کے اصرار سے بھی انہیں پریشانی لاحق ہے۔ حالانکہ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ بھارت میں موجودہ کلیت پسندانہ رجحانات اور ہندوتوا کی تہذیبی جارحیت کا مقابلہ اسی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے کہ تمام مذہبی گروہوں کو اپنے مذہبی، تہذیبی یا کسی اور تشخص کے ساتھ پوری آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع باقی رہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ ملک کی بھلائی نہ تو اسے جبراً یک رنگ بنانے میں ہے اور نہ ہر رنگ سے محروم کر کے اسے بے رنگ کر دینے میں ہے۔ مذہب اس ملک کے عوام کی فطرت میں شامل ہے، لوگوں کو نہ صرف اپنے مذہب پر عمل کرنے، اس کی تبلیغ کرنے اور اس کے شعائر کو اختیار کرنے کی آزادی ہونی چاہیے بلکہ خوش گوار ماحول میں مختلف مذاہب کے درمیان گفتگو و تبادلہ خیال کے بعد اپنی مرضی کے مذہب کو قبول کرنے کی بھی آزادی بھی ہونی چاہیے۔ فکر و نظر کی اس یکسوئی کے بغیر فسطائیت کے خلاف یہ جنگ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 13 فروری تا 19فروری 2022