اداریہ

متبادل سیاسی کلچر کی ضرورت

یوں محسوس ہوتا ہے کہ موقع پرستی، جھوٹ، فریب اور نفرت انگیز بیانات کے ذریعہ ملک میں جس نوعیت کی سیاست کو رواج دیا گیا وہ آج اپنے پورے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ ملک عزیز میں جب بھی کوئی چھوٹا یا بڑا انتخابی مرحلہ سامنے آتا ہے تو یہاں کی تاریخ کے حوالے سے مختلف قسم کے منفی اور اشتعال انگیز بیانات سے ماحول کو گرمانے اور اس کے ذریعے انتخابی فوائد کے حصول کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں، چنانچہ جیسے جیسے ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے برسر اقتدار پارٹی کے مختلف قائدین وقفے وقفے سے انتخابی چولہے میں اشتعال انگیز بیانات کا گھی ڈال کر ووٹروں کا دماغ گرما رہے ہیں۔ حالیہ دنوں ملک کی جنوبی ریاست تلنگانہ میں ایسی ہی کوششیں کچھ متنازعہ بیانات کی صورت میں دیکھنے کو ملیں جہاں ایک طرف آسام کے چیف منسٹر ہیمنت بسوا سرما نے تلنگانہ کے ایک تاریخی ضلع ورنگل میں تقریر کرتے ہوئے مغل اور نظام حکمرانوں کے متعلق اپنے منفی خیالات کا اظہار کیا تو دوسری جانب آر ایس ایس نے اپنی ذیلی تنظیموں کے حیدرآباد میں ہونے والے رابطہ اجلاس کی ٹویٹر پر اطلاع دیتے ہوئے حیدرآباد کو بھاگیہ نگر کے نام سے موسوم کر کے ایک تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہیمنت بسوا سرما نے ورنگل میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بابر، اورنگ زیب اور نظام جیسے حکمراں طویل عرصے تک باقی نہیں رہ سکتے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس لیڈروں کی جانب سے آئے دن ایسے بیانات آتے رہتے ہیں۔ سال ۲۰۲۰ کے اواخر میں جب حیدرآباد کے بلدی انتخابات ہو رہے تھے تب ملک بھر سے بی جے پی کے لیڈروں نے حیدرآباد میں اسی طرح کی تقاریر سے ماحول کو گرمانے کی کوشش کی تھی۔ یوگی آدتیہ ناتھ اور تیجسوی سوریا نے اسی طرح حیدرآباد کو بھاگیہ نگر بنانے کی بات کی تھی۔ آج سے ٹھیک چھ ماہ قبل جولائی ۲۰۲۱ میں ہریانہ بی جے پی کے ترجمان سورج پال سنگھ امو کی جانب سے بھی اسی طرح کا ایک اشتعال انگیز بیان منظر عام پر آیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر آپ تاریخ بنانا چاہتے ہیں تو یہاں تیمور، اورنگ زیب اور بابر کو پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے ان سب بادشاہوں سے ہندوستان کے موجودہ عوام اور آج کی سیاست کا نہ کوئی تعلق ہے اور نہ اس طرح کے بیانات سے کچھ فائدہ ہونے والا ہے۔ یقیناً ان سب نے کسی زمانے میں ہمارے ملک پر حکومت کی تھی لیکن یہ تمام بادشاہ اور یہ ساری سلطنتیں اسی طرح تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں جس طرح دوسری بہت ساری سلطنتیں ختم ہو کر تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ تاریخ کے ایک طویل دور میں اقوام عالم کے مختلف گروہ اس ملک میں آتے رہے اور تجارت، حکومت، فن تعمیر اور تعلیم کے ذریعے اس ملک کی تہذیب وثقافت میں مختلف اضافے کرکے تاریخ کا حصہ بنتے گئے۔ کچھ اقوام نے ملک کے عوام کا استحصال کیا، ان کی دولت لوٹی اور ان کے درمیان آپس میں جنگیں بھی ہوئیں۔ کچھ اقوام نے بہت اچھے کام بھی کیے، یہاں کے سماج میں پھیلی ہوئی خرابیوں کو اپنی تہذیبی خصوصیات کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کی۔ یہ تمام چیزیں اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ یقیناً تاریخ کے ان تمام تجربات سے ہندوستانی عوام کے حال اور مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے فائدہ تو اٹھایا جاسکتا ہے لیکن ملک کے لوگوں کے درمیان نفرت اور خلیج پیدا کرنے، اقتدار کو حاصل کرنے یا اسے برقرار رکھنے کے لیے تاریخ کا غلط استعمال ملک کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہو گا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ برسر اقتدار گروہ کو ملک کے عوام کی فلاح اور ان کی معاشرت کو بہتر بنانے اور ملک کو امن و ترقی سے بہرہ ور کرنے سے یا تو کوئی دل چسپی نہیں ہے یا ان کے اندر یہ کام کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ وہ جانے انجانے میں اس ملک کے سماجی تانے بانے کو بری طرح مجروح کیے جا رہے ہیں۔ اسے اور اس کی سرپرست تنظیم کو یہ حقیقت تسلیم کرلینا چاہیے کہ یہ ملک مختلف النوع تہذیبوں اور ثقافتوں کا مجموعہ ہے جن میں ہر ایک کی اپنی جداگانہ خصوصیات ہیں، ان سب کو جبراً کسی ایک تہذیب میں ضم کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی ملک کے لیے بہتر۔ ملک کو پوری طرح کسی ایک رنگ میں رنگنے کی یہ کوشش انتہائی غیر سنجیدہ ہے۔ ہمارے دستور سازوں نے اپنے دور میں جس حد تک بھی تہذیبی اور ثقافتی آزادی یہاں کے عوام کو عطا کی تھی ہمیں اس سے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور ایک ایسے مکمل عصری اور جدید مملکت میں تبدیل ہونے کی ضرورت ہے جہاں مختلف نظریات کے ماننے والے کھلے دل کے ساتھ ایک دوسرے کے خیالات سنتے ہوں اور ان پر تبادلہ خیال کرسکتے ہوں، ان کے درمیان فکری ونظریاتی اختلاف کے باوجود اسی طرح کا باہمی تعلق اور دوستانہ رابطہ برقرار رہ سکے جس طرح سائنس کے انتہائی متضاد نظریات کے ماننے والوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ اور یہ کام حکومتی اور عوامی دونوں سطحوں پر کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اگر حکومت اس معاملے میں غلطی کر رہی ہے تو عوام حکومت کو بتائیں کہ وہ کس طرح کا سماج چاہتے ہیں۔ وہ اپنے دانش مندانہ فیصلوں اور اقدامات سے شر پسند گروہ پر واضح کر دیں کہ وہ ایک پر امن، ترقی یافتہ اور ہر طرح کی نفرت اور دشمنی سے پاک ملک چاہتے ہیں اور جو اس طرح کا ملک بنا سکتے ہوں انہیں کو اقتدار سونپا جائے گا۔
مسلمان اس معاملے میں یک گونہ زیادہ ذمہ داری محسوس کریں کیوں کہ وہ ایک منصبی فریضہ پر فائز امت ہیں۔ یقیناً موجودہ حالات ان کے لیے کسی حد تک پریشان کن نظر آتے ہیں لیکن انہیں مایوس ہونے یا کسی بھی قسم کے اشتعال میں آنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ ٹھنڈے دماغ سے اور پوری حکمت سے حالات کو بدلنے کی کوشش کریں۔ ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کو شر پسند افراد و گروہوں کی شرارتوں اور ان کے پروپیگنڈے کا سامنا ہے لیکن خود مسلمانوں کے اپنے داخلی رویے اور ان کے کردار نے بھی اس پروپیگنڈے کو تقویت پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مسلمانوں کو اپنے اس رویے پر نظر ثانی کرنے اور اس معاملے میں اقدامی کردار Proactive role اداکرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں موقع پرستی، جھوٹ، فریب اور نفرت پر مبنی سیاست کے بالمقابل ایک مثبت اور خدمت و فلاح پر مبنی متبادل سیاسی کلچر کو پروان چڑھانے میں اپنا حصہ ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  16 جنوری تا 22 جنوری 2022