اداریہ

سائبر ہراسانی: ڈرنا نہیں مقابلہ ضروری ہے

ہرسال یومِ انسانی حقوق منانے اورآئین میں قانون کی رو سے یکساں حقوق دینے کے باوجود اگر کسی معاشرہ میں شہریوں کو حصولِ انصاف کے لیے جدوجہد کے ساتھ طویل انتظار بھی کرنا پڑے تو اسے مہذب معاشرہ کے لیے شرمناک ہی کہا جایے گا۔ دلی اور اترپردیش پولیس نے سالِ گزشتہ سوشل میڈیا پر سُلّی ڈیل نامی ایک ایپ کے توسط سے مسلم جہدکار خواتین کی تصاویر کا ناجائز استعمال کر کے ان کی بولی لگانے کی ایک انتہائی شرمناک واردات درج کی تھی۔ عید کی مناسبت سے ملک اور پڑوس کی متعدد خواتین نے اچھے لباس میں اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی تھیں جن کو بعض بدبختوں نے ڈاؤن لوڈ کر کے ان کے اصلی ناموں کے ساتھ ایک طرح کی نیلامی کے عمل کو انجام دیا تھا۔ متعدد قانونی شقوں کے ساتھ ساتھ یہ عمل سائبرقوانین کے تحت بھی قابل گرفت جرم قرار پاتا ہے۔ اب تک اس میں ملوث مجرموں کی نہ شناخت ہوئی اور نہ کارروائی ہی آگے بڑھ سکی ہے۔ شاید قانون کے شکنجے میں نہ آنے سے مزید حوصلے بلند ہوئے ہیں۔
مختلف طبقات کے مابین تفریق اور تعصب کا رویہ برقرار ہو تو یہ ایک مخصوص طبقے کی توہین، تذلیل اور تحقیر کی نیت سے کیا گیا عمل ہے۔ واضح ہو کہ ’بائی‘ اس عورت کو کہا جاتا ہے جو گھریلو خادمہ ہو۔ بُلّی ایک انتہائی تحقیر آمیز اور شرمناک اصطلاح کہ طور پر مسلمانوں کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال ہونے والا لفظ بنادیا گیا ہے۔ اس تناظر میں پَرلے درجے کی نفرت اور حقارت کا مظاہر ان حرکتوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ’’یو آر بُلّی فار ٹوڈے‘‘ لکھ کر کسی باعزت خاتون کی تصویر ناجائز طریقے سے چسپاں کی جاتی ہے اور ایک خیالی سودے بازی کا عمل انجام دیا جاتا ہے۔ اسے اکیسویں صدی کا انتہائی غیر انسانی اور غیر مہذب عمل کہا جا سکتا ہے۔
نئے سال کی صبح اس معاملے کے اجاگر ہو جانے سے سیاسی، مذہبی اور جہد کاروں میں یکساں طور پر غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ مرکزی اقلیتی وزیر مختار نقوی کو کہنا پڑا کہ ’’یہ بھارت کے ہمہ اشتراکی تہذیب اور مخلوط سماج کے خلاف ایک خطرناک سائبر سازش ہے جو ناقابل قبول ہے۔ جب جب ملک کی ساکھ عالم میں بڑھ رہی ہوتی ہے تب ایسی حرکتیں ہوتی ہیں۔۔۔‘‘ لیکن وہ یہ جواب نہیں دے سکے کہ پچھلے سال کی ایسی ہی ’سازش‘ کو کیا ان کی حکومت نے ناکام بنایا؟ فرقہ ورانہ نشانہ بنانے کے سابقہ معاملے پر رکن پارلیمنٹ پرینکا چترویدی نے مرکزی آئی ٹی وزیر کو ۳۰ جولائی کو مکتوب روانہ کیا تھا اس کے جواب میں نومبر میں ایک ٹَکا سا جواب ملا تھا کہ اب اس ایپ پر پابندی لگ گئی ہے۔ لیکن ’گِٹ ہَب‘ پلیٹ کا استعمال شناخت کو مخفی رکھنے والے بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جو کہ انتظامیہ، تفتیشی اور سرکاری پشت پناہی کی چغلی کھا رہا ہے۔
آئی ٹی قانون کے تحت سائبر جرم اور تعزیرات ہند کی دفعات کے تحت بھی فوری کارروائی کا متقاضی معاملہ عصمت آرا نے دلی میں درج کروایا ہے۔ تعزیراتِ ہند کی دفعات 153-A, 153-B, 354-A, 506, 509 اور انفارمیشن قانون مجریہ ۲۰۰۰ کی شق 66 اور 67 کے تحت خواتین کی عفت، مذہبی منافرت سے لے کر سماج میں تناؤ پیدا کرنے جیسی متعدد قانونی دفعات پہلے سے موجود ہیں۔ ضرورت صرف ان پر سختی سے عمل کرنے کی ہے۔
اس سے قبل انہیں کالموں میں ہفت روزہ ’دعوت‘ بتا چکا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۹۹۲ میں اتفاق رائے سے قومی، نسلی، مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے حقوق سے متعلق ایک اعلامیہ منظور کیا، جس کے ذریعے اقلیتوں کے قومی، تہذیبی، نسلی، مذہبی اور لسانی تشخص کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری قراردی گئی۔ ہمارا ملک نہ صرف ان سب معاہدوں پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہے بلکہ آئین کی تشکیل میں ان امور کو بطور خاص پیش نظر رکھا گیا ہے جن کا ذکر حقوق انسانی کے اس عالمی منشور میں کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر مساوات اور قانون کی نظر میں تحفظ کا مساوی حق (دفعہ ۱۴)، عوامی خدمات میں مساوی مواقع کا حق (دفعہ۱۶)، تقریر کی آزادی (دفعہ ۱۹، ا ،الف)، زندگی اور شخصی آزادی کا حق، (دفعہ ۲۱)، تعلیم کا حق (دفعہ ۲۱، الف)، ضمیر اور کسی بھی مذہب پر چلنے اور اس کی تبلیغ کا حق (دفعہ ۲۵)، اقلیتوں کے تحفظ کا حق (دفعہ ۲۹)، بنیادی حقوق کی پامالی کے تدارک کا حق (دفعہ ۳۲) وغیرہ۔ ہمیں ان کی روشنی میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم رہنا ہے۔
پہلے ہی مسلمانوں کو سماج میں بے اثر کرنے کے لیے کئی طرح کی سازشیں چل رہی ہیں، ملکی میڈیا کا ایک نفرتی حصہ عوامی ایشوز کی جگہ اہل اقتدار کے موقف کی تائید ہی کو اپنی پیشہ ورانہ معراج سمجھ رہا ہے۔ ان حالات میں سماجی رابطے کی ویب سائٹوں نے دادرسی کا ایک نیا راستہ فراہم کیا تھا لیکن اسی میں سیندھ مارنے کی نئی کوشش ملک میں مظلومین کی آواز کو یکسر بے اثر کرنے کی بڑی سازش ہے۔ مسلمانوں کو اس سے قطعی خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ البتہ مکمل شرعی و اخلاقی حدود اور ملکی آئین کے دائروں میں رہتے ہوئے تمام تر احتیاطی تدابیر ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی آواز کو ہر پلیٹ فارم سے پر امن انداز میں بلند کرتے رہنا ہے۔ کوئی بھی میدان شیطانی قوتوں کے لیے خالی نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سڑک حادثوں کو دیکھ کر کوئی انسان گھر سے باہر نکلنا ترک نہیں کرتا اسی طرز پر اگر ہم اپنی سائبر سرگرمیاں ایک سماجی ذمہ داری خیال کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر کے ساتھ جاری رکھتے ہیں تبھی بزدلوں کے حوصلوں کو پست کرنا ممکن ہو گا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  09 جنوری تا 15 جنوری 2022