ہر سال جب بھی انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کے مخصوص دن آتے ہیں تو ان موضوعات پر دنیا بھر میں اور خود ہمارے ملک میں مختلف پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس موضوع پر مباحث ہوتے ہیں، رپورٹیں شائع ہوتی ہیں اور مختلف ممالک کی صورت حال کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور حقوق انسانی کی صورت حال کی بنیاد پر ان ممالک کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اس سال یوم حقوق انسانی کا مرکزی موضوع ’مساوات، عدم مساوات کا خاتمہ، حقوق انسانی میں پیش رفت طے ‘ (Equality, reducing inequality, advancing human rights) کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے حقوق انسانی کے عالمی منشور کو تسلیم کیے ہوئے ۷۳ برس گزر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کسی اختلاف کے بغیر اس کو تسلیم کیا گیا تھا۔ اس وقت دنیا کے ۱۹۲ ممالک حقوق انسانی کے چارٹر پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ کیا جانے والا دستاویز یہی چارٹر ہے۔ انسانی حقوق کمشنر برائے اقوام متحدہ کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق دنیا کی ۵۳۰ زبانوں میں اس چارٹر کا ترجمہ موجود ہے۔ اس کے بعد ۱۹۷۶ میں اقوام متحدہ نے ’عالمی معاہدہ برائے شہری وسیاسی حقوق‘
(International Covenant on Civil and Political Rights) بھی منظور کیا جس کی دفعہ ۲۷ میں یہ بات درج تھی کہ’’جن ملکوں میں نسلی، مذہبی یا لسانی اقلیتیں موجود ہیں، ان کے افراد کو اپنے گروہ کے دیگر افراد کے ساتھ مل کر، اپنی تہذیب کو اختیار کرنے، اپنے مذہب کو اختیار کرنے اور اس پر عمل کرنے یا اپنی زبان کو استعمال کرنے کے حق سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۹۹۲ میں اتفاق رائے سے قومی، نسلی، مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے حقوق سے متعلق ایک اعلامیہ منظور کیا جس کے ذریعے اقلیتوں کے قومی، تہذیبی، نسلی، مذہبی اور لسانی تشخص کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری قرار دی گئی۔
ہمارا ملک نہ صرف ان سب معاہدوں پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہے بلکہ آئین کی تشکیل میں ان امور کو بطور خاص پیش نظر رکھا گیا ہے جن کا ذکر حقوق انسانی کے اس عالمی منشور میں کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر مساوات اور قانون کی نظر میں تحفظ کا مساوی حق (دفعہ ۱۴)، عوامی خدمات میں مساوی مواقع کا حق (دفعہ۱۶)، تقریر کی آزادی (دفعہ ۱۹، ا ،الف)، زندگی اور شخصی آزادی کا حق، (دفعہ ۲۱)، تعلیم کا حق (دفعہ ۲۱، الف)، ضمیر اور کسی بھی مذہب پر چلنے اور اس کی تبلیغ کا حق (دفعہ ۲۵)، اقلیتوں کے تحفظ کا حق (دفعہ ۲۹)، بنیادی حقوق کی پامالی کے تدارک کا حق (دفعہ ۳۲) وغیرہ۔
لیکن اتنے سارے معاہدوں اور آئینی تیقنات کے باوجود ہمارے ملک میں انسانی وشہری حقوق اور مختلف نسلی، مذہبی وتہذیبی گروہوں کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ذات پات کی بنیاد پر دلتوں، پسماندہ ذاتوں اور عورتوں کے ساتھ امتیازی وناروا سلوک ہمارے سماج کی ایک دردناک حقیقت ہے۔ راجیہ سبھا میں وزارت داخلہ کی جانب سے پیش کردہ اعداد وشمار کے مطابق ہندوستان میں ہر سال قومی انسانی حقوق کمیشن کے پاس حقوق انسانی کی پامالی کے کم وبیش ۷۵ ہزار کیس درج ہوتے ہیں یعنی روزانہ تقریباً ۲۰۵ افراد کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔ اور یہ اعداد وشمار بھی وہ ہیں جن کا اندراج ہو پاتا ہے ورنہ کتنے ہی مرد وخواتین ایسے ہوتے ہیں جو اپنا کیس کہیں درج ہی نہیں کروا سکتے۔
ہر سال ۱۰ دسمبر کو عالمی سطح پر یوم حقوق انسانی اور ۱۸ دسمبر کو بھارت میں یوم حقوق اقلیت منایا جاتا ہے۔ اس سال بھی منایا گیا۔ اس کے علاوہ گزشتہ دنوں بھارت کے وزیر اعظم نے امریکہ کے صدر جوبائیڈن کی جانب سے جمہوریت کے موضوع پر طلب کیے گئے چوٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت اور جمہوریت کے حوالے سے بعض اہم باتیں کی ہیں۔ چوں کہ بنیادی حقوق، اقلیتی حقوق اور جمہوریت یہ تینوں موضوعات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اس لیے ملکی تناظر میں ان کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔
اس سلسلے کی سب سے دل چسپ صورت حال تو یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی نے جمہوریت سے متعلق امریکہ میں منعقدہ مذکورہ بالا اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جمہوری ممالک کو ان اقدار وروایات کی پاسداری کرنی چاہیے جو ان کے اپنے دساتیر میں شامل ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کثیر جماعتی انتخابات، آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کسی بھی جمہوریت کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ خود ان کے دور حکمرانی میں ان تمام جمہوری وشہری آزادیوں کو کم سے کم کرنے کی سرکاری سطح پر منظم کوششیں ہو رہی ہیں۔ قومی انسانی حقوق کمیشن کے اعداد وشمار کے مطابق ان کی پارٹی کی حکومت والی ریاست اتر پردیش انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات میں سب سے آگے ہے۔ حقوق انسانی کی پامالی کے ملک بھر میں جتنے کیس درج ہوتے ہیں ان کی ۴۰ فیصد تعداد کا تعلق اتر پردیش سے ہے۔ خود وہ، ان کی مرکزی حکومت اور ان کی پارٹی کی مختلف ریاستی حکومتیں ان دستوری وجمہوری اقدار کو نافذ کرنے اور ان کا تحفظ کرنے میں بڑی حد تک ناکام ہو چکی ہیں جن کی ضمانت آئین ہند میں دی گئی تھی۔ انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی گرفتاری، پارلیمنٹ میں کھلے مباحث سے گریز، میڈیا کا جانب داری کے ساتھ بے دریغ استعمال وغیرہ آخر کس جمہوریت کی پاسداری یہاں کی جا رہی ہے جس کی نصیحت وہ دوسرے ممالک کو کر رہے ہیں؟ اس سے زیادہ مضحکہ خیز اور بات کیا ہو گی کہ گھر کی اصلاح کیے بغیر وہ دوسروں کو جمہوریت کا درس دے رہے ہیں؟
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 تا 25 دسمبر 2021