بھارت میں مردم شماری کا آغاز سنہ 1871 میں ہوا تھا تب سے لے کر سنہ 1931 تک انگریزوں نے ملک میں شہریوں کی گنتی کرانے کا یہ سلسلہ جاری رکھا تھا۔ 1941ء میں دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے مردم شماری کے اعداد و شمار جاری نہیں کئے جا سکے۔ واضح ہو کہ دنیا بھر میں لسانی و مذہبی اقلیتوں کی مردم شماری انجام دی جاتی ہے لیکن وہاں نہ فساد ہوتے ہیں اور نہ کوئی جھگڑے۔ لیکن ہمارے ملک میں ایک مخصوص طبقہ یہاں کے باشندوں کو اس مغالطے میں رکھنا چاہتا ہے کہ ان کو اپنی آبادی کے حقیقی اعداد و شمار سے واقف ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ملک کے تمام طبقوں کی آبادی کے شماریات کے ظاہر ہونے پر ان کی جانب سے اپنی آبادی کے تناسب میں شراکت کا مطالبہ کرنے کا خوف یہاں کی غالب اعلیٰ ذاتوں کو ہمیشہ سازشی کاموں میں ملوث رکھتا ہے۔ ملک کے وسائل میں مساویانہ شراکت کے لئے جو بیداری آئی ہے اسی کے پیش نظر بھارت میں ان دنوں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ مردم شماری میں قبائلیوں (ایس ٹی۔ 8.6 فیصد) کو ہندو نہ لکھا جائے اور نئی مردم شماری میں ان کو ایک علیحدہ مذہب کے خانے میں درج کیا جائے۔ ادھر بالعموم پس ماندہ (او بی سی۔ 52 فیصد) ذاتوں کی جانب سے بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ان کی گزشتہ دہائی کی رائے شماری کے مکمل اعداد کو ظاہر کیا جائے نیز، اس دہائی کی مردم شماری میں او بی سی کی گنتی کو جو ہٹا دیا گیا ہے تو اب اس کو شامل کیا جائے۔ آج کل سوشل میڈیا میں دلتوں اور آدی باسیوں کی جانب سے تعلیم کے ساتھ ساتھ ملازمتوں، عدالتوں اور سیاست میں متناسب نمائندگی کے لئے ’ہیش ٹیگ‘ ٹرینڈ کروانے اور برہمنی تسلط کے خلاف آن لائن مہمات چلانے کا سلسلہ پس ماندہ طبقات کی نئی بیداری کی علامت ہے۔
آج ذرائع ابلاغ میں جو غیر معمولی بحران اور بے راہ روی دیکھی جا رہی ہے اس کے پس پردہ بھی یہی اندیشے ہیں کہ عوام کو زندگی کے اصلی مسائل سے غافل رکھا جائے۔ قوم پرستی و سناتن دھرم کے ایک طرح کے تقدس کے ڈوز پلا پلا کر مسلمانوں کے فرضی خوف میں مبتلا رکھنا اسی حکمت عملی کا حصہ ہے تاکہ بھارت کے اصل باشندوں کی اکثریت برہمنوں کے غلبے کے خلاف اٹھ نہ سکے۔
منڈل۔کمنڈل اور فرقہ وارانہ فسادات یہاں تک کہ (بامسیف تنظیم کے صدر وامن میشرام کی رائے میں) امرتسر کے گولڈن ٹمپل میں فوج کشی جیسے معاملات کو بھی دانشور اسی نظر سے دیکھتے ہیں کہ یہ سب برہمنی نظام کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو بے اثر کرنے کے لئے کیے گیے اقدامات ہیں۔ تو کیا تین طلاق کا قانون، متنازعہ (سی اے اے) شہریت بل، کشمیر کے ریاستی درجے کو کم کرنا اور ایودھیا میں مندر کے سنگ بنیاد کی تقریب کا بڑھا چڑھا کر پروپیگنڈا کرنا بھی اسی سازشی ذہن کی کارفرمائیاں نہیں ہیں؟
دوسری طرف جارج فلایڈ کے حراستی قتل کے بعد ترقی یافتہ ممالک میں نسل پرستی کی پول کھل گئی۔ اس پس منظر میں عالمی سطح پر سیاہ فاموں میں اپنے حقوق کے تئیں نیا جوش پیدا ہو گیا ہے۔ ایوارڈ یافتہ افریقی۔امریکی مصنفہ ازابیل ولکرسن ( Isabel Wilkerson) کا شمار امریکہ کی مایہ ناز مصنفین میں ہوتا ہے، ان کی نئی کتاب ’’ذات پات: ہماری بے چینیوں کی اصل ابتدا‘‘ (Caste: The Origins of our Discontents) میں انہوں نے اپنے مطالعہ اور مشاہدہ کے ذریعہ بتایا کہ امریکہ ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں بھی ذات اور نسل کے مروجہ نظام نے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ نسل پرستی اور ذات پات کی تفریق کے لئے امریکہ نے جمہوریت کے پردے ڈال رکھے ہیں۔ ولکرسن کہتی ہیں کہ ذات کے احساس کا مخفی ہونا ہی اسے زیادہ خطرناک اور پائیدار بنا دیتا ہے۔ نئی کتاب میں انہوں نے امریکی نظام کے لئے نسل پرستی کے مقابلے ’’ذات پات‘‘ کا لفظ زیادہ موزوں سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ یہ کتاب دنیا کے 400 لیڈروں اور 100 ٹاپ کے سی ای او کو بھیجی گئی ہے اور بلیک لائیوز میٹر مہم کے تناظر میں مباحثوں کے مرکز میں آ گئی ہے۔
حکمراں جماعت کی دائیں بازو فکر کی ترویج و اشاعت میں تن من دھن سے مصروف اداکارہ کنگنا راناوت نے ولکرسن کی مذکورہ کتاب پر لکھے گئے ایک مضمون سے متعلق ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ دور جدید میں ذات ختم ہو چکی ہے اور اب ملک کے آئین میں ریزرویشن کے نام پر پس ماندہ سماج کو جو مراعات حاصل ہیں اسی کی وجہ سے بھارت میں ذات باقی ہے۔ گویا آئین کے سبب ذات زندہ ہے! اس کو جواب بھی دیا گیا کہ اگر ذات ختم ہو چکی ہے تو ملک کے تمام ہی اعلیٰ عہدوں پر صرف برہمن ذات کے لوگ ہی کیونکر فائز ہیں اور کیوں نچلی ذاتوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے پوزیشن نہیں مل پا رہی ہے؟
دوسری جانب سدرشن چینل کے متنازعہ ایڈیٹر سریش چوہانکے نے 13 اگست کو سوال کیا تھا کہ ’’یکساں حقوق کیوں؟ میں کسی اور کے برابر نہیں ہوں، یہ میرے آبا و اجداد کا ملک ہے۔‘‘ بلکہ سیکولر جمہوریت ایسی ہونی چاہیے جس میں ’’ہندوؤں کو خصوصی حقوق‘‘ میسر آئیں۔ سَنگھی نظریہ کی دن رات ترجمانی کرنے والے کی سوچ ہی میں مساوات نہ ہو تو اپنے سے کمزور یا درجے میں کمتر افراد و طبقوں کو ان کے آئینی حقوق دینے میں کتنی تکلیف ہوتی ہوگی، سوچا جا سکتا ہے۔ دستور کی حفاظت ہی ملک میں اظہار رائے اور بنیادی انسانی حقوق کے حفاظت کی گارنٹی ہے نیز بھارت کی تمام اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کی شناخت وتحفظ کا راستہ بھی اسی دستور سے ہو کر گزرتا ہے۔
گویا ملک کے آئین کو مختلف حربے استعمال کر کے کمزور کرنا اور یہاں کے مستضعفین پر اپنی اعلیٰ ذات کا استحقاق بنائے رکھنا نیز مسلمانوں اور اسلام کے فرضی خطرے کا ہوّا کھڑا کر کے اپنے منتشر کنبے کو جوڑے رکھنا موجودہ فاشزم کے علمبرداروں کا شیوہ بن چکا ہے اور ان کی سوچ کا منبع ان کے اپنے دھرم شاستر ہیں نہ کہ ’بیرونی حملہ آور‘۔ ان کی اس چال کو ملک کا ’بہوجن سماج‘ دھیرے دھیرے سمجھنے لگا ہے کہ یہاں جڑیں جمانے والے فاشزم کا اصل نشانہ وہ خود ہیں، مسلمان تو زندگی کے اصل مسائل سے دھیان بھٹکانے کے لئے گاہے بہ گاہے بحث میں گھسیٹ کر لائے جاتے ہیں۔ جبکہ اصل مسئلہ ہندو دھرم کے اندر کا نظامِ تفریق ہے جس کو دستور اور جدید تعلیم نے شدید دھکے دے کر کمزور کر دیا ہے۔ جیسا کہ خود ڈاکٹر امبیڈکر کی تحریروں میں بھی اس نظام تفریق کے لئے ہندو دھرم کی بعض کتابوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ ولکرسن کی کتاب ’کاسٹ‘ بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔
اس ضمن میں مسلمانوں کے کرنے کا کام یہ ہے کہ انسانوں کے تخلیق کردہ موجودہ نظامِ ظلم وعدوان کو ایک خدائی نظامِ عدل و قسط میں بدلنے کا نصب العین ان کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔ ملتِ اسلامیہ ہند ملک کے ’مستضعفین‘ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں اور حکمرانوں کو مخاطبت کے سلسلے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اجتماعی فریضے کی ادائیگی بھی جاری رہے تب ہی دنیا کی اس قدیم و قبیح ترین برائی کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔