مہوریت جب تک جمہور کے جذبات و رجحانات کا پاس و لحاظ اور ان کی فلاح و بہبود کو پیش نظر رکھتی ہے تب تک اس کے حکمرانوں کی قدر اور ان کے اقتدار کا جواز برقرار رہتا ہے۔ لیکن جب یہ چیزیں پس پشت چلی جاتی ہیں تو ان کے اقتدار پر برقرار رہنے کا جواز بھی ختم ہوجاتا ہے اور جلد یا بدیر وہ اقتدار سے بے دخل بھی کردی جاتی ہیں۔ اقتدار کے نشے میں چور حکمراں عوام کی آواز کو دبانے کے لیے جب عوام مخالف اقدامات کرنے لگتے ہیں تو یہ درحقیقت ان کی گھبراہٹ کا غماز ہوتا ہے۔ حالیہ دلی تشدد نے حکومتوں اور پولیس وانتظامیہ کی کئی بڑی ناکامیوں کو پھر سے اجاگر کیا۔ حالانکہ میڈیا نے عام طور پر تشدد کے دوران اور بعد میں بھی بڑی حد تک ایماندارانہ اور منصفانہ رپورٹنگ سے کام لیا۔ پھر بھی مرکزی حکومت نے اس دوران ایک اپیل (ایڈوائزری) جاری کردی تھی کہ میڈیا تشدد کو ہوا نہ دے۔ انگریزی اور علاقائی میڈیا نے صحافتی اصول و ضوابط کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے کافی حد تک تشدد اور فساد کے مختلف پہلووں کو یکساں طور پر پیش کیا۔ ہندی میڈیا اور انگریزی کے کچھ چینل روایتاً اپنے قارئین کی تسکین کا سامان کرتے رہے۔ ان سب حالات کے درمیان 28فروری کو وزارت اطلاعات و نشریات نے کیرالا کے مشہور چینل ’میڈیا وَن‘ کو وجہ بتاو نوٹس جاری کی۔ چینل کے ذمہ داران نے اس کا حسب حال مناسب جواب بھی دے دیا تھا۔ ’میڈیا وَن‘ مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والا لیکن مکمل طور پر پیشہ ورانہ چینل ہے جبکہ کیرالا ہی کا ایک اور چینل ’ایشیا نیٹ‘ بھی مرکز کی وزارت اطلاعات و نشریات کی زد میں آگیا۔ چنانچہ ’ایشیا نیٹ‘ اور ’میڈیا وَن‘ دونوں پر مرکزی حکومت نے6مارچ کو 48گھنٹوں کے لیے پابندی عائد کردی۔ الزام یہ لگایا گیا کہ ان چینلوں پر یک طرفہ خبریں نشر کی جارہی ہیں۔ سرکاری حکمنامہ میں میڈیا ون کے متعلق کہا گیا کہ اس چینل پر’’دلی پولیس اور آر ایس ایس کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا‘‘ چینل پرسیکشن 6(1)(c), 6(1)(e)کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا یعنی یہ چینلز مبینہ طور پر سماج میں فرقہ وارانہ تفریق، نیز نظم و ضبط کی خلاف ورزی جیسے رجحانات پیدا کر رہے تھے۔
ایشیا نیٹ نے 25فروری کی شام 6بجکر 58منٹ پر یہ دکھایا کہ جس وقت مسلح فسادی لوگوں سے ان کا مذہب پوچھ پوچھ کر حملے کررہے تھے اس وقت دلی پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ اس کے سامنے ہی گھروں اور مساجد کو جلایا جارہا تھا اور غالباً وزیر داخلہ کی کسی میٹنگ کے تناظر میں یہ کہا گیا کہ تشدد زدہ علاقوں میں مرکزی فورسیس بھیجنے میں تاخیر کی گئی تھی۔ ایشیا نیٹ نے 3مارچ کو جاری کیے گئے وجہ بتاو نوٹس کے جواب میں لکھا کہ ان کے نامہ نگاروں نے نہایت ذمہ داری کے ساتھ اور تحمل کی اپنی قدیم روایات کے مطابق ہی خبریں نشر کی ہیں جس کی کئی مثالیں چینل نے پیش کیں۔ اپنی صفائی پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایشیا نیٹ نے کسی ممکنہ غلطی کے سرزد ہونے پر وزارت سے غیر مشروط معافی بھی مانگ لی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وزارت اطلاعات ونشریات نے وضاحت اور معذرت دونوں کو مسترد کرتے ہوئے نشریات پر پابندی عائد کردی۔ دوسرے چینل’میڈیا ون‘ پر حکومت کا الزام یہ تھا کہ ’’خبروں میں سی اے اے کے حمایتیوں کی توڑ پھوڑ کو جان بوجھ کر مرکز توجہ بنایا گیا‘‘ اس کے علاؤہ ’’چینل نے آر ایس ایس پر بھی سوالات کھڑے کیے اور دلی پولیس کی نا اہلی کو اجاگر کیا۔‘‘ الزام میں کہا گیا کہ چینل کی نشریات میں ’’پولیس اور آر ایس ایس پر تنقید کی گئی‘‘۔ اس کے معاً بعد 3مارچ کو میڈیا ون نے بیان جاری کرکے نشریات پر پابندی لگانے کی مذمت کی اور قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان بھی کردیا۔ چینل نے وزارت کے الزامات کو ’’یک طرفہ اور غیرمعقول‘‘ قرار دیا اور اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ چینل ویڈیو اور ثبوتوں کے ساتھ گراونڈ رپورٹ ہی کو پیش کر رہا تھا جیسا کہ دوسرے تمام چینلز نے کیا۔ میڈیا ون نے متوجہ کیا کہ وجہ بتاو نوٹس کا جواب دینے کے لیے صرف 48گھنٹوں کی مہلت دینا انصاف اور ضابطے کے بھی خلاف ہے۔ حکومت نے اس جواب کو بھی مسترد کر دیا۔ واضح ہو کہ جمعہ کی شام ملیالم زبان کے ان چینلوں پر پابندی لگا کر حکومت انہیں دبانے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ اگلے ایک ہفتے تک سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو ہولی کی تعطیلات تھیں۔ ظاہر ہے حکومت کا یہ اقدام یک طرفہ، غیر قانونی اور غیر اخلاقی تھا۔ بھلا دور دراز کے دو ملیالی چینل دلی کے ناظرین کو کتنا اور کیوں کر متاثر کرسکتے تھے؟ ساتھ ہی وزارت نے چینلوں کی رپورٹوں کے درست ہونے یا نہ ہونے پر کوئی سوال بھی کھڑے نہیں کیے۔ بس یوں ہی بغیر کسی ثبوت اور دلیل کے ان کو ’’جانبدار‘‘ قرار دے دیا۔ دلی پولیس پر تنقید کرنے پر حکومت کا اعتراض انتہائی نامعقول اور غیر ضروری کہا جاسکتا ہے۔ ملک کی راجدھانی میں ایک انتہائی اہم غیر ملکی مہمان کی موجودگی میں تین دنوں تک تشدد کا جاری رہنا بجائے خود پولیس کی ناکامی کا بین ثبوت ہے۔ مین اسٹریم اور ویب میڈیا ہر ایک نے یہ خبریں نشر کیں کہ ہندو اور مسلم فریقوں نے بیک زبان ہو کر پولیس کی نا اہلی اور غیر کارکرد ہونے کی شکایات کی ہیں۔ سب سے مضحکہ خیز الزام اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ یہ کہ حکم راں بی جے پی کی نظریاتی سرپرستی کرنے والی تنظیم آر ایس ایس کو میڈیا ون ٹی وی نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس سے سرکاری کارروائی میں برتی گئی سیاسی جانبداری اور بھی کھل کر سامنے آگئی۔ ایک غیر سرکاری تنظیم (آر ایس ایس) پر نقد وتبصرہ بھلا حکومت کو کیوں چبھنے لگا؟
گرچہ حکومت نے 14گھنٹوں بعد دونوں چینلوں پر سے پابندی ہٹا لی ہے لیکن صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خواہ بنیادی حقوق اور آزادی اظہارِ رائے کا گلا کیوں نہ گھوٹنا پڑے اور دستور کی خلاف ورزی کیوں نہ ہوجائے لیکن حکومت ذرائع ابلاغ پر اپنی دھونس جمانا چاہتی ہے۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ ملیالی چینلوں پر پابندی لگتے ہی نہ صرف ریاست کیرالا بلکہ پورے ملک کے مختلف سیاست دانوں، دانشوروں، ذرائع ابلاغ سے وابستہ تمام شخصیات اور انجمنوں نے بیک زبان ہو کر حکومت کی کارروائی کو غلط ٹھہرایا۔ اطلاعات کے مطابق بی جے پی لیڈر راجیو چندرا شیکھر کے ماتحت چلنے والے چینل ایشیا نیٹ نے اسی رات معافی مانگنے کے بعد ڈیڑھ بجے اپنی نشریات شروع کردی تھیں جبکہ میڈیا وَن نے فوری اقدامات کرتے ہوئے مختلف سیاست دانوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ سوشل میڈیا پر اپنی بات رکھی یہاں تک کہ عوام، تنظیمیں اور ادارے اس پابندی کے خلاف سڑکوں پر اتر آئے اور حکومت پر مناسب دباو ڈالا گیا جس کا نتیجہ بھی نکلا۔ جمہوریت کے معنی یہ بھی ہیں کہ حکومت کو عوام کے جائز دباو کو قبول کرنا پڑتا ہے اور حکم راں چاہے وہ کتنے ہی متعصب اور دھاندلی پسند کیوں نہ ہوں انہیں اپنے فیصلے واپس بھی لینے پڑتے ہیں۔ بتادیں کہ ایشیا نیٹ نیوز نے جب دوبارہ اپنی نشریات شروع کیں تو سرکاری پابندی کا کوئی ذکر تک نہیں کیا جبکہ میڈیا ون نے فوری طور پر تو ریکارڈ شدہ نشریات سے آغاز کیا لیکن 7مارچ کو صبح 11بجے جب پہلی براہ راست (لائیو) نشریات شروع ہوئیں تو چینل کے ایڈیٹوریل چیف نے دو ٹوک لفظوں میں بتایا کہ ہم نے کوئی معافی طلب نہیں کی ہے اور ہم قانونی مقابلے کے لیے تیار تھے اور یہ بھی اعلان کیا کہ چینل حسب معمول پہلے ہی کی طرح کھل کر اور جرات مندی کے ساتھ اپنی نشریات جاری رکھے گا۔
حکومت کے اس اقدام سے پھر ایک بار یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ اپنی پسندیدہ فکر کے نتیجے میں ہونے والی کسی بھی تخریب، غلط کاری، تشدد اور غیر دستوری و غیر جمہوری عمل کے خطرناک نتائج کے لیے اپنی سرپرست فکری تنظیم کو ذمے دار ٹھہرانے کو برداشت نہیں کرے گی بلکہ وہ ہر حال میں اس کا دفاع کرے گی۔ دوسری طرف محض کسی مقرر کے ویڈیوز یو ٹیوب پر دیکھنے والا بھی دہشت گرد قرار پاسکتا ہے یا کسی عوامی و احتجاجی تقریر کے دوران دیے گئے محض بیان کی بنیاد پر بھی لوگوں کی گرفتاری عمل میں آسکتی ہے، کیونکہ باتوں کو سیاق و سباق سے ہٹا کر ان کے الگ مطالب نکالے جاتے رہیں گے۔ لیکن خود اپنی ہی پارٹی کے اہم لیڈروں اور اس کے پروپگنڈہ سے متاثر ٹولیوں کی کھلی اشتعال انگیزی پر بھی کسی کو انگلی رکھنے کی کوئی گنجائش روا نہیں رکھی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں