اداریہ: شاہی خرچ سے’’غريبی چھپاؤ‘‘
راجا رانی کی آمد پر استقبال کی تيارياں غلام ہندوستان ميں جس طرز پر کی جاتی رہی ہيں، فی زمانہ وہی امريکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کی شريکِ حيات ميلانيا ٹرمپ کے دورہ ہند کے سلسلے ميں زور و شور سے جاری ہيں۔ حالاں کہ امريکی صدر کو ملک کے دارالحکومت دلی ميں لينڈ کرنا چاہيے تھا ليکن وہ براہِ راست احمد آباد پہنچ رہے ہيں۔ مانا کہ ٹرمپ ايک عظيم طاقتور مملکت کے صدر ہيں ليکن وہ بے پناہ دولت و جائيداد کے مالک، صنعت کار و سرمايہ دار ہيں اور دولت کے بل بوتے پر اقتدار و حکومت کو قابو کرنے کی سوچ رکھنے والے طبقے سے تعلق رکھتے ہيں۔ ان کو کبھی دانشور، بہتر منتظم يا دنيا کی فلاح و بہبود کے بارے ميں سوچنے والا شخص نہيں مانا گيا۔ اس طرح کی ’ہستي‘ کے شاہی استقبال کے ليے ملک کے ٹيکس ادا کرنے والے شہريوں کے پيسے کا بے دريغ استعمال حکومت کو سوالوں کے گھيرے ميں لا سکتا ہے۔
ادھر احمد آباد ميں ہوائی اڈے نيز صدر ٹرمپ کے گزرنے کے راستوں کی مرمت اور شہر ميں 17 سڑکوں کی تزئين اور تعميرِ نو بھی جنگی پيمانے پر ہو رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق امريکی صدر احمد آباد ميں محض 3 گھنٹوں کے دورے پر آ رہے ہيں ليکن اس کو ايک ’شو‘ ميں تبديل کرنے کے ليے تقريباً 100 کروڑ روپے کے اخراجات کا بوجھ سرکاری خزانہ پر ڈالا جا رہا ہے۔ واضح ہو کہ ٹرمپ احمد آباد ميں مودی کے ديرينہ خواب کی تعبير کے طور پر تعمير شدہ دنيا کے سب سے بڑے موٹيرا کرکٹ اسٹيڈيم کا 24 فروری کو افتتاح کريں گے۔ ٹرمپ کی گزرگاہ پر ايک جھگی جھونپڑی والی بستی (سلم ايريا) بھی موجود ہے جو گجرات کی شان و شوکت کا مظاہرہ کرانے کی راہ ميں ايک دھبہ معلوم ہو رہا ہے۔ چنانچہ اس "بدنما داغ” کو دنيا کے ايک بڑے سرمايہ دار کی نگاہوں سے پوشيدہ رکھنے کے ليے سڑک اور سلم کے درميان ايک ديوار تعمير کی جا رہی ہے، ٹرمپ کے دورے سے قبل ہی جس کی پول کھل گئی اور اب يہ ديوار ميڈيا اور سوشيل ميڈيا دونوں ميں خوب زيرِ بحث آگئی ہے۔ تين دہائيوں تک بی جے پی کی حليف رہی پارٹی شيو سينا نے بھی اس عمل کو ’’غريبی چھپاؤ‘‘ سے تعبير کيا ہے۔ نيز ياد دلايا ہے کہ اسی بی جے پی کے سابق قائدين کانگريس کے ’’غريبی ہٹاؤ‘‘ نعرے پر کس طرح طنز کسا کرتے تھے۔
ان شاہ خرچ تياريوں کا ذکر کرتے ہوئے شيو سينا نے طنز کيا ہے کہ آج مرکزی حکومت، امريکی صدر ٹرمپ کے کھانے پينے، نشست و برخاست، غسل خانے اور چھت وغيرہ کی آرائش جيسے امور پر ميٹنگوں کا انعقاد کر رہی ہے نيز يہ بھی طے کيا جا رہا ہے کہ امريکی صدر کے استقبال کے ليے بننے والے تشہيری مواد ميں گجراتی الفاظ و محاورے ’’کيم چھو‘‘ کے بجائے قومی لہجے ميں ’’نمستے‘‘ کا استعمال کيا جائے۔ سوال يہ بھی ہے کہ ڈالر کے مقابلے ميں گرتی ہوئی روپے کی قدر اور امريکی صدر کی جانب سے بھارتی آئی ٹی کمپنيوں اور طلباء کے ليے ويزا ميں کھڑی کی جانے والی دشواريوں ميں کيا ان اقدامات سے کوئی رعايت ملنے والی ہے بھی يا نہيں؟
قارئين بھولے نہيں ہوں گے کہ اس سے قبل جاپان اور چين کے رہنماؤں کو بھی اسی انداز سے گجرات لے جايا گيا تھا اور اس وقت بھی ترقی کے دکھاوے کی آڑ بننے والی بستيوں پر پردے ڈال کر ’’وکاس پُرش‘‘ کی لاج بچانے کا کام کيا گيا تھا۔ تلخ حقيقت يہ بھی ہے کہ غربت کی ديوار کے پيچھے بسنے والی آبادياں پانچ ٹريلين اکانومی اور ’’وشوگرو بھارت‘‘ نيز مضبوط بھارت جيسے نعروں کا منہ چڑا رہی ہيں۔ اسی گجرات ميں قريب 15 برس وزير اعليٰ رہے اور اب قريب 6 سال وزير اعظم کے عہدے پر فائز نريندر مودی کی شناخت سازی (ری برانڈنگ) ترقی کے موضوع کو مرکز و محور ميں رکھ کر کی گئی تھی تو اب کيا کمی رہ گئی ہے کہ ترقی کے نام سے شہرت دی گئی اس ’’ماڈل رياست‘‘ ميں ايسی بستياں آج بھی موجود ہيں جن کو دنيا کی نگاہوں سے چھپانے کی ضرورت آن پڑی ہے؟
گاندھی جی کی ڈيڑھ سو سالہ تقريبات منائی جا رہی ہيں اور اسی گاندھی کے سابرمتی آشرم کی گذرگاہ پرايک’ غربت کی ديوار‘بنانے کی ضرورت پڑ رہی ہو تو اسے کيا قومی الميہ نہ کہا جائے؟
ظاہر ہے کہ ملک کو ترقی کے ايک ايسے ماڈل کو اپنانا ہوگا جس ميں کسی امير کو کسی غريب سے آنکھ نہ چرانا پڑے۔ جس ميں امير اور غريب کے بيچ ديوار کھڑی کرنے کی ضرورت پيش نہ آئے اور جس ميں معاشرے کا سب سے ناتواں فرد بھی اميرالمومنين کے سامنے کھڑے ہو کر برملا سوال کرسکے کہ اے حکمراں! تيرے جسم پر دو کپڑے کہاں سے آگئے جب کہ ميرے حصے ميں ايک ہی کپڑا آيا ہے؟ ايک فلاحی رياست ميں گاندھی جی نے خواب ديکھا تھا کہ منصوبہ بناتے وقت حکومت ملک کے سب سے غريب طبقے کی بھلائی کو اوليت دی جائے۔ حکومتيں اپنے بجٹ ميں کارپوريٹ، سرمايہ دار، صنعت کار، سنسيکس، بينکروں وغيرہ کا جتنا خيال رکھتی ہيں اس سے زيادہ ديسی ہنر، کسانی، گھريلو صنعت، تعليم وصحت اور روٹی کپڑا اور مکان جيسی بنيادی ضروريات کو ترجيحِ اول بنائيں اور ان کے ليے فنڈز بھی مختص کريں ان تقاضوں کی تکميل ايک خدا ترس معاشرے کے ذريعے منتخب ايسی حکومت ہی کرسکتی ہے جو دنياوی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ اُخروی کاميابی و کامرانی کو بھی مطمح نظر رکھتی ہو۔