اداریہ
ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم اور دفعہ 370 پر لیے گئے بڑے فیصلے کے بعد مرکزی حکومت اس بات پر اپنی پیٹھ تھپتھپاتے نہیں تھکتی تھی کہ کشمیر میں ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی اور نظم و قانون کو بھی بحال رکھا گیا ہے۔لیکن جلد ہی مغربی بنگال میں این آر سی کی طرز پر جانچ کے اندیشوں میں لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ اترپردیش میں سی اے اے ، این آر سی کے خلاف مزاحمت اور متوازی شاہین باغ کے قیام کے دوران پولیس کی زیادتیوں میں کم و بیش دو درجن جانیں ضائع ہوئیں۔ یہی کیا کم تھا کہ دلی میں کچھ ایسا تشدد برپا کردیا گیا کہ اب تک کی ہلاکتوں کی تعداد چار درجن کو پہنچ رہی ہے۔ خاص طور سے اسمبلی انتخابات کے بعد ریاست دلی میں حکومت نہ بناپانے سے جو غم و غصہ سخت گیر بھارتیہ جنتا پارٹی عناصر کے اندر در آیا تھا اُس کو پھٹ پڑنے کے لیے کسی بہانے کا انتظار تھا۔ بھیم آرمی کے چندر شیکھر راون کے ذریعے دی گئی بند کی کال پر لبیک کہتے ہوئے دلی کے جعفر آباد میں دھرنا منعقد کیا گیا۔ جس کو لے کر یہ تاثر بن گیا کہ دلی میں یہ دوسرا شاہین باغ بننے جارہا ہے۔ بس پھر کیا تھا کہ اسمبلی انتخابات کے شکست خوردہ بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے موقع کو غنیمت جانا اور سر عام ایک ڈی سی پی کی زیر سرپرستی خود پولیس اور انتظامیہ کو وارننگ دے ڈالی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اسے ’’موت کا ننگا ناچ‘‘ ہی کہا جاسکتا ہے۔
بھارت کے وزیراعظم نے اپنی دوسری معیاد کے ابتدا میں سب کا ساتھ سب کا وکاس کے اپنے پرانے نعرے میں ’سب کا وشواس‘ کو جوڑ کر نیا نعرہ دیا تھا تب ملک کی اکثریت ہی نہیں بلکہ اقلیتوں نے بھی بڑی حد تک وزیراعظم نریندر مودی کی مثبت سوچ کا خیرمقدم کیا تھا۔ لیکن ملک کی سب سے بڑی مسلم اکثریت والی ریاست کے ٹکڑے کردینے کے عمل سے مرکزی حکومت نے کشمیریوں کے دلوں کو بھی توڑدیا۔ ابھی ذرا سنبھلے بھی نہیں تھے کہ مسلم خواتین سے ہمدردی جتانے کی آڑ میں تین طلاق بل لے آئے اور مسلمانوں کو مزید زخم خوردہ کردیا۔ یہ گھاو بھرے بھی نہیں تھے کہ انتہائی متنازعہ شہریت ترمیمی قانون پارلیمنٹ میں پاس کروالیا۔ ظاہر ہے کہ حکومت کے سنگھی ایجنڈے کو عوام نے بھانپ لیا اور ایک عوامی مزاحمت نے جنم لے لیا۔
مہاتما گاندھی کی 150ویں سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منانے والی مودی حکومت آزاد ہندوستان کی تاریخ میں سب سے پرامن اور انوکھی نیز ہمہ مذہبی و ہمہ گروہی جمہوری ، سیکولر تحریک کو زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کرسکی۔ دلی انتخابی تشہیر کے دوران مزاحمتی تحریک کی علامت بن چکے شاہین باغ کو ایشو بنانے کے باوجود ملک اور سماج میں کوئی پولائرائزیشن نہیں ہوسکا۔ ایسے میں اگر وکاس کی بات پیچھے چھوٹ گئی اور کچھ اقوام کا ساتھ بھی چھوٹ گیاتو ’وشواس ‘ کی بلی چڑھانے میں پارٹی کا مفاد نظر آجائے تو تعجب نہیں۔
پچھلے کچھ دنوں سےتشدد کے دوران پولیس کے رول پر جتنے سوال اٹھائے گئے وہ بالکل فطری اور واجبی ہیں ۔ حزب اختلاف اور ملک کے تمام انصاف پسند باشندوں کا یہ مطالبہ بھی بالکل حق بجانب ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو، جن کی نگرانی میں و ماتحتی میں دلی کی پولیس کام کرتی ہے، اس ناکامی کی ہر ذمے داری کو اپنے سر لیتے ہوئے بلاتاخیر مستعفی ہوجانا چاہیے۔ سنگھ اور مودی کے حمایتی معروف صحافی ڈاکٹر وید پرتاب ویدک نے صاف لفظوں میں کہا کہ ’’دلی میں دو فرقوں کے بیچ اس طرح کا فساد ہوسکتا ہے اس کا تصور ہی ہماری جمہوریت کو داغ دار کرنے کے لیے کافی ہے‘‘۔1945کے بعد 1984میں سکھوں پر حملوں کا ذکر کرنے کے بعد ڈاکٹر ویدک کہتے ہیں کہ ’’جس قدر پرامن اور عدم تشدد کی راہ پر چلتے ہوئے یہ (شاہین باغ) دھرنے اور احتجاج ہورہے ہیں ان سے گاندھی جی کے ستیہ گرہ کی خوشبو آرہی ہے۔ ملک کے ہر ایک شخص کو،چاہے وہ صحیح ہو یا غلط، اس طرح کی مخالفت کرنے والے احتجاجوں کا پورا حق ہے لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ آخران دونوں (این آرسی ، سی اے اے) کی حمایت میں جلسے اور احتجاج کرنے کی ضرورت کیا تھی…. اس قانون کی حمایت میں کچھ لیڈروں کو انتہائی اشتعال انگیز تقریریں کرنے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔ کیا یہ جو دنگے ہوئے ہیں وہ انہی کارنامو ں کا انجام تو نہیں ہے؟۔ جو تحریک ہندو ۔ مسلم اتحاد کی مثال بن رہی تھی اسے اب فرقہ وارانہ شکل دینے کی ذمے داری کس پر ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو وید پرتاب ویدک نے تو کیے ہی ہیں، ملک کا ہر اصول پسند شخص ان سوالوں پر ہمارے وزیراعظم کے ’’من کی بات‘‘ کو جاننے کے لیے بے چین ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اب تک وزیراعظم کی مختلف تقریبات اور خطابات بھی ملک کے انتہائی حق دار موضوع سے بالکل عاری رہے۔ سماج میں تفریق اور تعصب کے بیج بو کر اس کی فصل کاٹنے والے گروہ کے چہرے بے نقاب ہوچکے ہیں۔ خود بی جے پی کے لیڈر گوتم گمبھیر بھی علانیہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ اس تشدد کا سبب بننے والی نفرت انگیز تقریر کے لیے کپل مشرا کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ یہاں تک کہ دلی ہائی کورٹ نے بھی چار بی جے پی لیڈروں کے نفرت انگیز بیانات پر پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کے لیے کہا لیکن اگلے ہی دن اس جج کا تبادلہ کردیاگیا۔ صاف ظاہر ہے کہہ بی جے پی پوری طاقت کے ساتھ کپل مشرا اور اس ٹولے کی پشت پناہی کررہی ہے جو ’ملی ٹنٹ ہندوتوا‘ نظریے کا علمبردار بنا ہوا ہے۔ دوسری طرف انتہائی مشکوک حالات میں ایک مقامی کونسلر طاہر حسین کے گھر کی چھت سے کچھ قابل اعتراض سامان کی برآمد کی آڑ لے کر پوری دہشت گردی کا ٹھیکرا ایک چھوٹے مسلم سیاست داں کے سر پر پھوڑا جارہا ہے۔ یہ بجائے خود ایک سازش کی نشان دہی کرتا ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے دلی کے تشدد کو بی جے پی کی اندرونی رسہ کشی کا شاخسانہ بھی قرار دیا جارہا ہے۔
ہندوتوا فاشزم نے بھلے ہی اپنے نفرت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا تہیہ کرلیا ہو لیکن اس بھیانک تخریب کاری اور نفرت انگیزی کے بیچ سے چھن چھن کر ہندووں اور سکھوں کی جانب سے مسلم پڑوسیوں کو بچانے ، پناہ دینے اور راحت پہنچانے کے قصے سامنے آرہے ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی جانب سے جگہ جگہ ہندووں کو بچانے اور مندروں کی حفاظت کرنے کی رپورٹیں بھی سامنے آرہی ہیں۔ ان مثبت اور حوصلہ افزا کہانیوں سے ہمیں حوصلہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ مانا جاسکتا ہے کہ ہندوتوا سوچ نے بھارت کو پھر سے ’وکاس‘ سے ہٹا کر ’وناش‘ کی ڈگر پر ڈال دیا ہے اور ملک کو 80کے دہے میں دھکیل دیا گیا ہے۔ جب ملک بھر میں بالخصوص بہار اور اترپردیش ، مہاراشٹرا اور گجرات وغیرہ فسادات کی آگ میں جھلستے رہتے تھے۔ لیکن کلمۃ اللہ کے علمبردار ہونے کے ناطے ہمارے لیے مایوسی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ دعوتی کام کو مزید تیز کرنے اور برادرانہ راوبط کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ موجودہ چیلنجوں کا انبیائی حکمت و دانش مندی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا۔