اداریــــہ

انتخاب جیتنا ہے یا اعتماد؟

 

ملک کی تاریخ میں دوسری بار ہوا ہے کہ مقامی انتخابات کو ’قومی میڈیا‘ نے توقع اور ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہوئے خبریں اور تجزیے پیش کیے ہیں۔ نو زائیدہ علاقہ، تحت مرکز جموں و کشمیر میں ایک الگ طرح کے جوش و خروش کے ساتھ بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے۔ یہ ۵ اگست ۲۰۱۹ کو دفعہ ۳۷۰ اور آئین کی شق ۳۵ (اے) کے اثرات کو زائل کیے جانے کے بعد پہلی بار ہونے والے انتخابات ہیں۔ بعض چینلوں نے پورا دن صرف ان ہی نتائج اور متعلقہ خبروں پر اپنا قیمتی ’ایئرٹائم‘ صرف کیا۔ اس سے قبل حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات کے دوران بھی تشہیری مہم اور نتائج کی خبروں کو خوب ’ہائپ‘ کر کے پیش کیا گیا تھا۔
۲۶ دسمبر کو روایتی کشمیری پہناوا ’’فیرن‘‘ پہن کر وزیر اعظم نے ریاست میں آیوشمان اسکیم لانچ کرتے ہوئے کشمیری عوام کو اس انتخاب پر مبارکباد دی اور اس مرحلے کو ’’تاریخی لمحہ‘‘ سے تعبیر کیا۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ’’ڈی ڈی سی انتخابات نے ثابت کر دیا کہ جموں و کشمیر میں جمہوری ادارے مزید طاقتور بن کر ابھرے ہیں۔‘‘ وزیر اعظم مودی نے سلامتی دستوں اور انتظامیہ کی ستائش کرتے ہویے اسے ایک ’تاریخی دن‘ بھی قرار دیا۔ عوام کو مبارکباد پیش کر کے اپنے عہدے کے اعتبار سے وزیر اعظم نے درست کام ہی کیا۔ شمالی ہند کے سرحدی علاقہ میں واقع اس ریاست کو اب ترقی اور امن دونوں کی ضرورت ہے۔ محض پڑوسی ملک اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی آڑ لے کر ریاست کی عوام کو ترقی کے قومی دھارے سے دور نہیں رکھا جا سکتا۔ جموں و کشمیر علاقہ تحت مرکز میں ہوئے انتخابات کے کُل آٹھ مراحل میں چلائی گئی تشہیری مہم کے دوران مرکز کی حکم راں جماعت نے سات علاقائی جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد کو ’’گُپکار گینگ‘‘ کا نام دے کر توہین آمیز کلمات کہے تھے اور آج یہی گپ کار الائنس ریاست میں سب سے بڑا گروپ بن کر ابھرا ہے۔ لوگوں کو یاد ہے کہ بہار میں گزشتہ سے قبل لالو پرساد کی پارٹی کے اتحادیوں نے نتیش کمار کو بھی ’خراب ڈی این اے والا‘ وغیرہ کہہ کر پکارا اور لعن طعن کیا تھا لیکن اسمبلی نتائج کے بعد نتیش کمار کو اپنی جانب کھینچ لایا گیا اور پھر اپنی تائید کے ذریعے حکومت تشکیل دی تھی۔ جس این سی پی کو مہاراشٹر انتخابات کے دوران بد عنوان قرار دیا گیا تھا اسی پارٹی سے توڑ کر لائے گیے اجیت پوار کو نائب وزیر اعلیٰ بنا کر پھڈنویس نے حکومت تشکیل دی تھی۔ اب تو اپنی سب سے قدیم سابقہ ہندوتوا وادی اتحادی شیو سینا کے خلاف انتہائی نفرت انگیز مہم ریاستی اور مرکزی بی جے پی نے چلا رکھی ہے۔ مغربی بنگال میں شاردا گھوٹالوں میں اہم ملزمین کے طور پر بدنام کرنے کے بعد ٹی ایم سی سے توڑ کر لایے گیے کئی لیڈروں کو سامنے پیش کر کے اب وہاں ممتا بینرجی حکومت کو بے دخل کرنے کی مہم جاری ہے۔ زیادہ دن نہیں گزرے کہ این ڈی اے سے انتہائی متنازعہ کسان قوانین کے خلاف برہم ہو کر کابینہ سے علیحدہ ہونے والے اکالی دل کے خلاف اب بی جے پی نے کیسا نفرت انگیز مورچہ کھول رکھا ہے۔ پی ڈی پی کو سابق میں ملک دشمن اور علیحدگی پسند قرار دینے کے بعد اسی محبوبہ مفتی کی کابینہ میں شامل ہو کر بی جے پی نے پہلی بار کشمیر میں اقتدار کا مزہ چکھا تھا۔
تمام تجزیہ نگار تسلیم کرتے ہیں کہ دراصل ۶۸ فی صد مسلم اکثریتی ریاست میں ایک ’ہندو وزیر اعلیٰ‘ کو کرسی پر بٹھانے کے بی جے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے وہی تمام ہتھکھنڈے آزمائے جا رہے ہیں جو گوا، کرناٹکا، مدھیہ پردیش، شمال مشرقی ریاستوں سمیت مہاراشٹر اور راجستھان وغیرہ میں اپنائے جا چکے ہیں۔ کہیں بی جے پی کی انتخابی مشین سرپٹ دوڑتی چلی گئی اور کہیں اس بے لگام گھوڑے کو لگام بھی لگی۔
بی جے پی نے حیدرآباد میں ’اویسی کے قلعہ میں سیندھ‘ کی بات مشہور کرکے ملک بھر میں ایک غلط پیغام دینے کی کوشش کی حالانکہ مجلس اتحاد المسلمین نے اپنی تمام ۴۴ سیٹوں پر کامیابی درج کی ہے۔ حسبِ عادت ہمالیائی ریاست کے ان انتخابات کے نتائج کو بھی بی جے پی نے اپنی موافقت میں ہونے کی بات کو ایک منظم پروپیگنڈے کی شکل میں پھیلایا۔ مرکزی وزیر ورما سے لے کر پورے کورونا لاک ڈاؤن میں منھ چھپا کر بیٹھنے والی وزیر اسمرتی ایرانی تک نے بیانات دیے کہ ہندو اکثریتی خطے جموں سے آگے نکل کر کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں کس طرح اس زعفرانی جماعت کو لوگوں میں مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ لیکن زمینی سچ کچھ اور ہی منظر دکھا رہا ہے۔ جس کی ایک جھلک جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہاں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے منتخب نمائندوں کو وہاں کی نوزائیدہ ’’اپنی پارٹی‘‘ میں شامل کروایا گیا، تین آزاد کونسلروں کی تائید حاصل کرلینے کی امید پر اور خود اپنی پارٹی کی دو سیٹیں ملا کر اب بی جے پی کی سرگرم پشت پناہی سے شوپیان میں ضلعی ترقیاتی کونسل (ڈی ڈی سی) میں اقتدار حاصل کرنے کا دعویٰ پیش کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ جب کہ وہاں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی اتحاد کو سات نشستوں پر کامیابی ملی ہے اور کانگریس کےایک رکن کونسل کی تائید کے ساتھ عوامی اتحاد برائے گُپ کار اعلامیہ (پیپلز الائنس فار گپکار ڈِکلیریشن) شوپیان ضلع کونسل پر قبضہ جمانے کی کوشش میں ہے۔ لیکن اب تین آزاد امیدوار شوپیان کی سیاسی قسمت کا فیصلہ کریں گے درآں حالیکہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے شوپیان ضلع صدر شوکت احمد گَنائی زیرِ حراست رکھے گیے ہیں۔ سابق وزیر اور کاروباری شخصیت الطاف بخاری کو پی ڈی پی نے بے دخل کر دیا تھا اور مبینہ طور پر پیپلز کانفرنس کے سجاد لون کی جانب سے مرکزی حکومت کے ہاتھوں کھیلنے سے انکار کے بعد الطاف بخاری نے مارچ ۲۰۲۰ میں ’’اپنی پارٹی‘‘ قائم کی۔ اب اس پارٹی کو ’راجا کی پارٹی‘ کہا جا رہا ہے جس کی زمامِ کار کسی اور کے ہاتھوں میں ہے۔ خطہ جموں سے لے کر وادی کشمیر اور سلامتی دستوں کے کنٹرول والے اضلاع تک کم و بیش یہی منظر نامہ ضلعی کونسل میں اقتدار پانے کی ہوڑ کے دوران نظر آ رہا ہے۔
ہندو اکثریتی جموں علاقوں میں بی جے ہی کو تمام دس اضلاع میں کامیابی نہیں ملی ہے بلکہ وہ کمزور ہوئی ہے اور وادی کشمیر میں بھی محض تین نشستیں ملی ہیں۔ کپوارا میں ایک لیڈی ریزرو سیٹ ہر بی جے پی امیدوار کو کُل ۳۶۴ ووٹ ملے۔ سری نگر میں اعجاز احمد ۸۰۰ ووٹ لے کر بھی اس لیے جیت سکے کہ الائنس امیدوار کا فارم مسترد ہو گیا تھا اور بی جے پی کے مد مقابل اتحاد کا امیدوار ہی موجود نہ تھا۔ گریز کی سیٹ سرحدی علاقے کی وہ سیٹ ہے جہاں اکثر فوج کا بسیرا رہتا ہے وہاں بی جے پی کے اعجاز حسین کو قریب دو ہزار ووٹ ملے۔ اس طرح کی تینوں نشستوں کی جیت کو حقیقت میں جمہوریت کی جیت بنانے کے لیے اب سے مرکز اور ریاستی انتظامیہ کو جی جان سے کوشش کرنے کا چیلینج در پیش ہے۔
انٹرنیٹ اور موبائل فون خدمات سے لمبی مدت تک محرومی، پہلے فوجی لاک ڈاؤن اور پھر کورونا لاک ڈاؤن کی مار جھیلنے والے کشمیریوں کے جذبات کو مندمل کرنے کے لیے لفاظی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ڈی ڈی سی انتخابات کے دوران بعض میڈیا نے اجاگر کیا کہ اب بھی بعض دور دراز علاقے ایسے ہیں جہاں پینے کا پانی اور بجلی تک نہیں۔ وولر جھیل کے قریب ستر اسّی سال سے بسنے والوں کو اب غیر قانونی قرار دیا جا رہا ہے اور جہاں پہلی بار میڈیا کا کیمرہ پہنچا وہاں کے لوگوں کو اب درد کا مداوا درکار ہے۔ علامتی کاموں (Tokenism) سے آگے بڑھ کر عوام کے دلوں کو جیتنے کی ضرورت ہے۔ حالات کے معمول پر آنے اور جمہوری عمل کے مظاہر صرف انتخابی عمل میں نہیں دکھائی دیتے بلکہ عوامی اعتماد کو جیتنے کا عمل ایک مستقل عمل ہے جو کسی دوسرے ملک کو کوستے رہنے سے حاصل نہیں ہوگا اور نہ مقامی سیاست دانوں کو مٹا کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اب اگر مرکز نے وہی غلطیاں دوہرائیں جو اس سے قبل کانگریس نے کی تھیں تو کشمیری مزید دور ہوتے چلے جائیں گے۔ اٹل بہاری واجپائی کی کشمیریت والی پالیسی کی دہائی دینے والی بی جے پی کے لیے آنے والے دن اس لحاظ سے اہم ہوں گے۔ وہ سیاست کے کھیل میں مقامی عوام ہی نہیں بلکہ ملک کی سالمیت کے ساتھ کھلواڑ نہ کر بیٹھے۔ نئے اتحادیوں کو سمجھنا ہوگا کہ وہ مستقبل میں صرف سیاسی اتحاد نہیں بنا رہے ہیں بلکہ اس بار ان کو ریاست کے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی ورثے کو براہ راست خطرے سے بچانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔
ساتھ ہی ان انتخابات نے کشمیر کے معاملے پر اب تک مرکز کی حکمت عملی کی خامیوں کی نشان دہی کر دی ہے۔ بی جے پی سمجھ رہی تھی کہ علاقائی پارٹیاں اور علیحدگی پسند طاقتیں انتخابات کا بائیکاٹ کردیں گی اور وہ آسانی سے اپنا وزیر اعلیٰ بنوانے کی راہ ہموار کرلے گی۔ لیکن کشمیریوں نے سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری ایمانداری کے ساتھ انتخاب میں حصہ لیا اور ۱۱۰ سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑا گروپ بن کر ابھرے ہیں جن کے پیچھے ایک عوامی مینڈیٹ صاف دکھائی دے رہاہے۔ اب مرکز اپنے آلہ کار لیڈروں کو سری نگر میں بٹھا کر سابقہ حکومتوں کی غلطی کو دوہرانے کا مرتکب ہوتا ہے تو دہائیوں سے لگے زخم مندمل کیسے ہوں گے؟ کہیں اب تک ملک کے آئین اور جمہوریت میں یقین رکھنے والے کشمیری قائدین مزید برگشتہ نہ ہو جائیں۔ اسی غم اور اندیشے کی نمائندگی اُن کے اِن بیانات سے ہو رہی ہے کہ ’’کشمیری اگر انتخابات میں حصہ نہیں لیتے تو پاکستانی ایجنٹ ہونے کا الزام لگتا ہے اب جب انتخابات میں حصہ لیا ہے تب بھی پاکستانی قرار دیے جا رہے ہیں۔‘‘ کشمیر کو ایک سیاسی مسئلہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے قابل قبول حل کی طرف پیش رفت ہوسکے نہ کہ اسے مذہبی یا جنونی انداز سے دیکھ کر کام بگاڑ دیا جائے!

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 3 جنوری تا 9 جنوری 2021