اداریــــہ

کس کی بولی بول رہے ہیں یہ؟

 

ڈاکٹر باباصاحب بھیم راؤ امبیڈکر کے نزدیک جمہوریت محض حکم رانی کی ایک شکل نہیں ہے۔ بلکہ تمام انسانوں کے احترام اور توقیر کے رویے کا نام ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر وہ کہتے ہیں ’’سیاسی جمہوریت اس وقت تک باقی نہیں رہ سکتی جب تک کہ اس کی بنیاد میں سماجی جمہوریت نہ ہو۔‘‘ شاید انھیں اندیشہ ہو گیا تھا کہ بھارت سے انگریزوں کے انخلا کے بعد جمہوریت کی آڑ میں مخصوص طبقہ کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈورسمٹ کر رہ جایے گی اور کمزور اور حاشیہ پر رہنے والے طبقات کا سیاسی و سماجی مستقبل داؤ پر لگا دیا جایے گا۔ انھوں نے جمہوریت کو درپیش خطرات کا اندازہ کرلیا تھا۔ ھندوتونظریہ کے بانی وِنایک دامودر ساورکر نے ۱۹۳۰ میں صہیونیت اورھندوتو کے اجزائے ترکیبی پرایک تحریر مرتب کی تھی۔ ساورکر نے یہودی قومیت کے چار عوامل گنائے تھے جن میں نسل، مذہب، ثقافت اور زبان شامل ہیں۔ البتہ یہودیوں کی قومیت کی تکمیل کے لیے اس وقت ایک ’زمین‘ کی ضرورت بھی بتائی گئی۔ ساورکر نے بھارت کی قومیت کے لیے بھی ان ہی کو لازم قرار دیا تھا۔ وی ڈی ساورکر جیسے انتہاپسند مفکروں کے نزدیک جمہوریت ناقابلِ قبول ہے اور اس فکر کی بنیاد بھی اسی ’نسل پرستانہ قومیت‘ کی سوچ میں پنہاں ہے۔ بھارت کے پہلے اسپیکر ماوَلنکر کی صدارت میں کنسٹی ٹیونٹ اسمبلی آف انڈیا میں آئین کی پہلی شق پر بحث کے دوران آئین کی شق اول(ایک) میں ذیل کا جملہ درج کرنے پر ہندو مہاسبھا اور یونائٹیڈ پرووِنس ۰موجودہ اترپردیش) نے مخالفت کی تھی۔
Art 1(1): ”India, that is Bharat, shall be a union of states”i.
ہندو مہا سبھا چاہتی تھی کہ یونین آف اسٹیٹس کی جگہ ’’انڈیا دیٹ اِز آریہ وَرت یا ھندواستھان‘‘ لکھا جائے۔ انہیں ریاستوں کے اتحاد اور وفاقی نظام مملکت ہی پر اعتراض تھا۔ کلیت پسندانہ اور آمرانہ نظریات کے علمبرداروں نے ہمیشہ ہی تمام قوت اور اختیارات کواپنی مٹھی میں سمیٹ کررکھنے کی کوشش کی ہے اور عوام کو کچھ بھی حقوق و مراعات دینے پراعتراض کیا ہے۔ آئینِ ہند کے معمار سمجھے جانے والے ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر نے اسی سوچ و فکر کو مد نظر رکھتے ہوئے سیاسی جمہوریت کے ساتھ ساتھ ’سماجی جمہوریت‘ کو فروغ دینے پر زور دیا۔ آئین ساز اسمبلی کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ شمولیت و مشاورت پر مبنی تھی۔ لیکن آر ایس ایس، ہندو مہاسبھا اور ان کی نظریاتی وارث بی جے پی کی ڈکشنری میں لفظ مشاورت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ پلاننگ کمیشن کا نام بدل کر نیتی آیوگ کردیا گیا جو حکومت کے ایک تِھنک ٹینک کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس کے سی ای او امیتابھ کانت نے حکمراں طبقے کے حامی ’سوراجیہ ڈاٹ کام‘ ماہنامے اور ویب سائٹ کے تحت منعقدہ ایک آن لائن پروگرام کے دوران ایسی بات کہہ ڈالی کہ جمہوریت اور اس سے وابستہ شہریوں کے حقوق کو لیکر گرما گرم بحثیں شروع ہو گئیں۔ سوشل میڈیا پر ”TooMuchDemocracy” کے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگے۔ امیتابھ کانت کو ’’آتم نِربھر بھارت کے لیے روڈ میپ و حکمتِ عملی‘‘ کے موضوع پرخطاب کرنا تھا۔ اس دوران وہ بتا رہے تھے کہ حکومت کے اس خود مکتفی بھارت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ملک کے موجودہ ڈھانچے میں متعدد اصلاحات کی ضرورت ہے اور ان کو اس راہ میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ امتیابھ کانت نے کہہ ڈالا کہ ’’اسٹکچرل ریفارم‘‘ کی راہ میں ایک سد باب یہ ہے کہ بھارت میں جمہوریت کے نام پرضرورت سے زیادہ آزادی حاصل ہے اور اسی وجہ سے حکومت چاہتے ہویے بھی کئی اقدامات نہیں کر پا رہی ہے۔ دراصل متنازعہ تین زرعی قوانین کی کسانوں کے ذریعے شدید مخالفت کے تناظر میں بھارت کے ایک طاقتور سی ای او کا یہ بیان جمہوریت میں عوام کے حقِّ احتجاج سے وابستہ ہے۔ لگتا ہے کہ مرکزی حکومت حواس باختہ ہو گئی ہے یا پھر اس کو یقین سا ہو گیا ہے کہ وہ ہر کس و ناکس کی مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے گھوڑے سر پٹ دوڑانے میں کامیاب ہو کر رہے گی۔ اس سے قبل تک آرامدہ کرسی پر تکیہ لگائے، چائے کی چسکی لیتے جمہوریت، بیرونی حملہ آوروں کی تاریخ اور تبدیلئی مذہب نیز تقسیمِ وطن جیسے موضوعات پر تبصرے کرنا سَنگھیوں کا شعار ہوتا تھا لیکن آج کل بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ آر ایس ایس کی شاکھاؤوں کی ان چہ مہ گوئیوں کو قومی یا میڈیا کی بحثوں کا مرکز و محور بنایا جارہا ہے۔ معاملہ چاہے ریزرویشن کا ہو، ایک ملک ایک الیکشن ہو، گؤکشی’ کامن سِوِل کوڈ، سیکیولرزم و قومیت جیسے موضوعات ہوں، افسوس کہ حزب اختلاف اور دانشوروں کا بڑا حلقہ مختلف بحثوں کے دوران ایسا رویہ اپنارہا ہے کہ ان کو یا تو سانپ سونگھ گیا ہو یا اکثر لوگوں نے ہتھیار ڈال دیے ہوں۔ تو کیا جمہوریت اب اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے؟ غنیمت ہے کہ سوشل میڈیا ایک متبادل میڈیا کا کردار نبھا کرکسی حد تک اصول پسندی اور بنیادی اقدار کی پاسداری کا خیال رکھ رہا ہے۔
جمہوریت کو کمزور کرنے کے پیچھے کارفرما عوامل اور موجودہ اقتدار کے اقدام ات کے پیچھے جو فکرچلی آ رہی ہے وہ سیکو لرازم اور نیشنل ازم کو اپنے رنگ ڈھنگ میں ڈھالنے کا ایک ضدی رویہ ہے۔ ’’ ہندوتوا ہی راشٹری یتو ہے‘‘ کا نعرہ رام مندر تحریک کو ابال دینے کے لئے ملک بھر میں زور و شور سے عام کیا گیا۔ تب سے سیکولر ازم ، ڈیمو کریسی اور ہندو پن کی بحثوں کو خلط ملط کیا جا رہا ہے۔ رفتہ رفتہ متشدد قومیت کے جنون نے نہ صرف سیکولرازم بلکہ جمہوریت کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مفکر اسلام سید مودودیؒ نے اپنے کتابچہ ’’مسئلہ قومیت‘‘ میں ان الفاظ میں اسی خطرے کی تنبیہ کی تھی کہ ’’۔۔۔۔ جتنی جتنی "قومیت” شدید ہوتی جاتی ہے اسی قدر "عصبیت” میں بھی شدّت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جب کبھی ایک قوم اپنے مفاد کی خدمت اور اپنے مصالح کی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو ایک رشتہ اتحاد میں منسلک کرے گی، یا بالفاظ دیگر اپنے گرد "قومیت” کا حصار چُن لے گی تو لازماً وہ اس حصار کے اندر والوں اور باہر والوں کے درمیان اپنے اور غیر کا امتیاز کرے گی۔ اپنے کو ہر معاملہ میں غیر پر ترجیح دے گی۔ غیر کے مقابلہ میں اپنے کی حمایت کرے گی۔ جب کبھی دونوں کے مفاد ومصالح میں اختلاف واقع ہو گا تو وہ اپنے کے مفاد کی حفاظت کرے گی اور اس پر غیر کے مفاد کو قربان کر دے گی۔۔۔۔ اسی چیز کا نام عصبیت وحمیت ہے، اور قومیت کی یہ وہ لازمی خصوصیت ہے جو اس کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔‘‘ ساورکر کی نسلی و قوم پرستی پر مبنی قومیت کے یہ وہ لازمی کڑوے پھل ہیں جن کی نشاندہی اوپر کی گئی تھی اور آج ہم ملک میں فکری انتشار اور خلفشار کی جس کیفیت کا مشاہدہ کر رہے ہیں اس کی پیش قیاسی امبیڈکر نے بھی کی تھی۔ کیا امیتابھ کانت نہیں جانتے کہ اسی جمہوریت کے دائرہ میں رہتے ہوئے سابق میں نہرو اور پٹیل کے بعد اندرا گاندھی نے تعلیم، صنعت و زراعت کو ترقی دی، اناج میں خود مختاری حاصل کی، ۱۴ بینکوں کو قومیایا حالانکہ ۲۱ ماہ کی ایمرجنسی کو نافذ کرنے کا کالا داغ بھی اندرا کے دامن پر لگا ہے۔ اوربی جے پی کو اقتدارتک پہنچانے کے لیے ’رام مندر تحریک‘ چلا کرجوخونیں کھیل کھیلا گیا وہ بھی اسی جمہوریت کے تحت ملی آزادی اور احتجاج کے آئینی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے انجام دیا گیا۔ مزید بر آں دلی کے رام لیلا میدان میں ایک بد عنوانی کے معاملے اور خوابوں کے لوک پال بل کے مطالبے کے ساتھ مینیج کیے گیے ایک احتجاج کو ہائی جیک کرنے والے اسی گروہ کے لیڈر تھے۔ وہ سب جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے انجام دیا گیا۔ پھر جب اقتدار مل گیا تو دنیا دیکھ رہی ہے کہ کسان بل راجیہ سبھا میں کس دھونس دھاندھلی کے ساتھ پاس کروایا گیا اور کتنی جمہوریت برتی گئی؟ البتہ سی اے اے کے متنازعہ قانون کی مخالفت پر ہائے توبہ بھی یہی لوگ مچاتے رہے۔ یوں تو باقی چیزوں میں بھی جمہوریت کا تیاپانچہ کیا جا رہس ہے۔ لیکن جمہوریت ہے تبھی تو امیتابھ کانت اپنی بات کہہ پایے؟ تبھی تو سنگھ ملک اور آریائی نسل کی تاریخ تک بدل دینے کی بات کرنے کی ہمت کر پا رہا ہے؟ ٹووو مَچ! در اصل یہ معاملہ ’حاکمیت جمہور’ اور مطلق العنانیت‘ کے بیچ انتخاب کا ہے۔ اگر شہریوں کی امنگوں، آرزوؤں اور جذبات کا خون کر کے ملک کو ایک مخصوص نظریے سے ہانکنے کی ضد کی جایے گی تو ملک کی سلامتی اور اس کے معاشرتی و آئینی ڈھانچے کو اس سے چوٹ پہنچے گی۔ ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر نے ہندو دھرم کی تشبیہ ایک چار منزلہ عمارت سے کی ہے۔ اس عمارت کی جس منزل پر جو پیدا ہوا ہے وہ اسی منزل پر مرجاتا ہے۔ اس عمارت میں منزلوں کے چڑھنے اترنے کی کوئی راہ نہیں پائی جاتی۔ جمہوریت نے بھارت کی اس عمارت کے ہر شہری کو کہیں بھی آنے جانے، چڑھنے اور ترقی کرنے اور اپنے ما فی الضمیر کی ادائیگی کی آزادی عطا کی ہے اور اپنی سرکار کے انتخاب کا حق و اختیار بھی دیا۔ ایک متعین مدتِ کار تک حکومت کرنے کا حق حکمرانوں کو ان شہریوں کے ووٹ سے ملا ہے اور جب جب حکم راں اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں تب تب جمہوریت کو خطرے میں ڈالنے والے بیانات سامنے آتے ہیں بلکہ دانستہ طورپر انسانوں کے ذہنوں میں یہ بات باور کروائی جا رہی ہے کہ اب ان جمہوری اختیارات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ سوال کسی ایک اقلیت، ذات یا سماجی، سیاسی و کاروباری طبقے کا نہیں پورے ’’آئیڈیا آف انڈیا‘‘ کا ہے اس لیے مستقبل کے بھارت کو بنانے اور بگاڑنے کے لیے کارفرما عناصر کیا کردار ادا کر رہے ہیں ان کے بارے میں ہر فکر مند شہری کو فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت اور اس کی بار بار ناکامی کے دوران انہیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا انسانوں کا بنایا ہوا کوئی نظام ان کے لیے کافی ہے یا اس کے خالق و مالک کا دیا ہواکوئی کامل نظامِ حیات اس کو دنیوی و اخروی نجات کا سامان فراہم کرسکتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کو وہ اپنا لیں جو کہ حقیقی معنوں میں جمہور کی تمام تر مادی و روحانی ضروریات کابھی مکمل احاطہ کرتا ہو۔ ان کی اس کوشش کے نتیجے میں ایک آفاقی نظام اس ملک کو مل جائے جس میں ہر فرد کو عدل، مساوات اور انسانی ہمدردی کا عملی نمونہ بھی موجود ہے اورجو سماج کے ظالم و جابرعناصر کا ہاتھ روکنے کو جمہور کا فرض قرار دیتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020