کسی بھی نظام میں اداروں پر عوام کے اعتماد کی برقراری اس کے صحت مند ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ جمہوریت کی صحت و بقا اس کے ستونوں کے مضبوط ہونے پر منحصر ہے۔ ملک کو بہتر ڈھنگ سے چلانے کے لیے انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ اور صحافت کے علاوہ اس کے دیگر اداروں کا آزادانہ طور پر کام کرنا ضروری ہے۔ انتخابات منعقد کرانے کی ذمہ داری جس انتخابی کمیشن کے کندھوں پر عاید ہوتی ہے اس نےاپنی ذمہ داری کو انجام دینے کے لیے خود کوبھی ووٹنگ کے دن تک محدود کر رکھا ہے۔ حالانکہ ایک سابق انتخابی کمشنر ٹی این سیشن نے فعال کردار ادا کرتے ہوئے ملک کو بتادیا تھا کہ اگر کوئی افسر چاہے تو وہ لاکھ دباؤ کے باوجود آیئنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دے سکتا ہے۔ لیکن فی زمانہ تفتیشی ، انتظامی، عدالتی و دیگر جمہوری ادارے جس انداز سے صاحب اقتدار کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے ہیں وہ کسی بھی طرح عوام ، جمہوریت اور کسی کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ آنے والے دنوں میں ملک کو آمریت اور کلیت پسندانہ نظام کی جانب لے جانے کا سبب بن رہے ہیں۔
اہم اعتراض
ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے لوک سبھا میں وقفہ سوالات کے دوران اہم مسئلہ اٹھاتے ہوئے کہاکہ ہماری جمہوریت کو سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے خطرے کا سامنا ہے۔ فیس بک اور ٹوئٹر جیسی عالمی کمپنیوں کو مختلف سیاسی قائدین، سیاسی جماعتیں اور ان کے کارکنان اپنے مخصوص سیاسی نظریات کو فروغ دینے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ حکمرانوں کے ساتھ مل کر فیس بک کے ذریعہ جس جارحیت کے ساتھ سماجی ہم آہنگی کونقصان پہنچایا جارہا ہے وہ ہماری جمہوریت کے لئے خطرناک ہے۔ کانگریس کی صدرکا کہنا ہے کہ نوجوانوں میں گمراہ کن معلومات عام کر کے ان میں جذباتی انداز سے نفرت بھری جارہی ہے اور فیس بک کو پلیٹ فارم بناکراپنے نظریات کی تشہیر کرنے والے بالواسطہ طور پر ان کمپنیوں کو منافع کماکر دے رہے ہیں جس سے وہ کمپنیاں بھی بخوبی واقف ہیں۔
کانگریس صدر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ’’وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے انتخابی سیاسی عمل میں فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کمپنیوں کی باضابطہ مداخلت کو ختم کرے‘‘۔ کیونکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں تمام سیاسی جماعتوں کو مساویانہ طور پرہر ایک کے نظریے کی تشہیر و تبلیغ کا موقع فراہم کرنے میں ناکام ہوئی ہیں۔
عالمی میڈیا کمپنی الجریزہ میں دی رپورٹرس کلیکٹیو نامی ایک رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ بڑے کاروباری گھرانوں، حکمرانوں اور فیس بک جیسی عالمی سوشل میڈیا کمپنیوں کے مابین ایک طرح کی ساز باز بڑھ رہی ہے جوکانگریس کے مقابلے میں حکمراں بی جے پی کو سستے نرخ پر اشتہارات کا موقع فراہم کرتی آئی ہیں ، اس رپورٹ نے 22 مہینوں کے دوران دس پارلیمانی اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کا باریک بینی سے جائزہ لیا اور پایا کہ دس لاکھ ناظرین کے لیے بی جے پی سے 41 ہزار 8 سو 44 روپئے چارج کیے گئے جبکہ اسی زمرے میں کانگریس سے 53 ہزار 7 سو 76 روپئے وصول کیے گئے ۔
ہمیں اپنی جمہوریت اور سماجی ہم آہنگی کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے خواہ کوئی بھی پارٹی اقتدار میں ہو۔ ساتھ ہی رکن پارلیمان راہل گاندھی نے بھی فیس بک اور اس کی مالک کمپنی میٹا کو ’’ جمہوریت کے لیے بدترین‘‘ قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ پچھلے سال نومبر میں کانگریس پارٹی نے فیس بک اور وہاٹس ایپ پر فیک نیوز اور نفرت انگیز بیانات کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا وور جوائنٹ پارلیمیانی کمیٹی کے ذریعہ اجانچ کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا ، بلکہ اکتوبر میں تو کسانوں کے احتجاج کے اثرات کو کم کرنے کے لیئے فیس بک ، وہاٹس ایپ اور انسٹا گرام کے سرور کو متاثر کرنے کے الزامات بھجی مرکزی حکومت پر لگ چکے ہیں ۔ تو کیا مالی منفعت کی خاطر عالمی کمپنیاں حکمراں طبقہ کے ہاتھوں میں اتنی آسانی سے کھیل رہی ہیں ؟
دوسرا اعتراض
نوکنگ نیوز داٹ کام سے وابستہ ملک کے ایک معتبر صحافی گِریجیش وشِشٹھ نے یو ٹیوب پر ای وی ایم کے حوالے سے ایک کمیونٹی سروے کروایا ہے۔ جس میں شریک اسّی فی صد لوگوں نے رائے ظاہر کی کہ ای وی ایم میں دھاندلی کے اعتراضات درست ہیں۔ایکژِٹ پول میں ٹی وی چینل جتنے ووٹروں سے رائے لیتے ہیں اس صحافی کی رائے شماری کا سیمپل اس سے زیادہ بڑاہے اور حیرت انگیز طور پر ای وی ایم کے تعلق سے ملک کے عوامی رجحان کی عکاسی کر رہا ہے ۔ ایک خود مختار جمہوریت میں آئین کے تحت جاری نظامِ حکومت میں انتخابی عمل کو شفاف اور خامیوں سے پاک رکھنا انتخابی کمیشن کی منصبی ذمہ داری ہے۔ مانا کہ جب بیلٹ پیپر پر ووٹوں کی مُہر ثبت کی جاتی تھی تب بھی انتخابی عمل پر رگنگ کر کے ڈاکہ ڈالا جاتا تھا۔ اور آج بھی لوکل باڈیز انتخابات میں بیلٹ پیپر ہی استعمال ہو رہے ہیں۔ لیکن اب مشینی آلات کے ذریعے ووٹنگ کرانے کے عمل میں ان کے ہیکنگ کے ذریعے غلط استعمال کا امکان کافی حد تک بڑھ گیا ہے اور وہ عوام اور قانون کی نظر سے بھی بچ نکلنے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے۔ تکنیک کے غلط استعمال کا معاملہ ملک کی سلامتی و سالمیت سے جڑا ہوا بھی ہو سکتاہے۔ حالانکہ بھارتی حکومت نے سابق میں سلامتی کی دلیل دیتے ہوئے چینی موبائیل ایپ پر پابندی عاید کی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ حکمراں اور دیگر سیاسی پارٹیاں مشینی ووٹنگ کے ظاہر و چھپے ہیر طرح کے خطروں سے آنکھیں موند کر بیٹھی ہیں؟
سابق وزیر اعلی اکھیلیش یادو نے اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے دوران آڈیو اور ویڈوز کے متعددحوالوں سے باضابطہ صدر جمہوریہ اور عدالت عالیہ کو متوجہ کرایا ہے کہ انتخابی افسران اور حکمراں بی جے پی کے ذریعہ سے ای وی ایم کو بدلاگیا ہے یا ان سے چھیر چھاڑ کی گئی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ حکومت، عدلیہ اور کسی نے بھی مذکورہ الزمات پر کان نہیں دھرے
بی جے پی کے رکنِ پارلیمان سبرامنیم سوامی نے اپنی کتاب ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں غیر آئینی اور چھیڑ چھاڑ کے قابل‘ مطبوعہ ۲۰۱۰ میں سیاسی، دستوری اور تکنیکی ماہرین کے حوالوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ بھارت میں ای وی ایم کے ذریعہ ووٹنگ کرانے کی اجازات نہیں دی جاسکتی کیونکہ وہ غیرشفاف ہے اور کمپوٹرماہرین نے متعدد بار بتایا ہے کہ انتخابی مشین کوہیک کیا جا سکتا ہے ۔ ساتھ ہی سن 1984 کے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق ای وی ایم کو ہر انتخاب کے لیے استعمال کرنا درست نہ ہوگا۔تسلی کی حد تک عوام کو الکیٹرانک ووٹنگ کے عمل سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ واضح ہو کہ دنیا بھر میں ایسی مشینوں پر انحصار اور اعتبار کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ جرمنی ، نیدرلینڈ آئرلینڈ اور اٹلی جیسے سو سے زائد ممالک میں ای وی ایم پر پابندی عائد ہے ۔
جن دنوں کانگریس نے ای وی ایم کے ذریعہ انتخابات کرانے کی تجویز پیش کی تھی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسی شدومد کے ساتھ اس عمل کو ملک کے مفادات کے خلاف بتایا تھا اور آج ہر طرح کی مخالفت کے باوجود حکمراں جماعت مشینوں کے استعمال پر ٹس سے مس نہیں ہونا چاہتی۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سوشل میڈیا اور الیکٹرانک مشین کے غلط استعمال سے ہونے والے خطرات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 27 تا 02 اپریل 2022