ہندوستان کی تقسیم کا واقعہ اس خطے میں بہت زیادہ موضوع بحث رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ۱۴ اگست کو ‘تقسیم کی ہولناکیوں کے دن’ کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ اندیشہ ہے کہ اس سے پرانے زخموں کو کُریدنے ہی کا کام ہو گا۔ ۷۵ سال قبل ہمیں ’سیاسی آزادی‘ ضرور حاصل ہوئی لیکن معمارِ آئینِ ہند ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر جن خطرات کی پیش بینی کر رہے تھے ان میں سے ایک اہم خطرہ ’سماجی غلامی‘ بھی تھا۔ اسی لیے ڈاکٹر امبیڈکر جابرانہ سماجی درجہ بندی اور نسلی امتیاز وتفریق کی ہزاروں برس قدیم تہذیبی روایات کے خاتمے کے بغیر انگریزوں سے سیاسی آزادی حاصل کرنے کو بے سود خیال کرتے تھے۔ بھارت میں ساڑھے پانچ سو میں سے اوسطا ایک سو ارکانِ پارلیمنٹ دلت اور قبائلی ہوتے ہیں، ریاستی اسمبلیوں میں بھی ان کے لیے سیٹیں مختص ہیں۔ نچلی ذاتوں کی سیاسی نمائندگی کے باوجود وہ آج بھی ظلم اور اہانت کا شکار ہیں۔ شہریوں کی فعال شراکت داری کسی بھی جمہوریت کی اساس ہے اور یہ شراکت داری انہیں عزت و وقار عطا کیے بغیر ممکن نہیں۔ ہماری جمہوریت، جمہوریت کی روایتی تعریف سے ہٹ کر مساوات، بنیادی حقوق، آئین کی حکمرانی، شفاف و آزاد انتخابات، معاش و کاروبار کی آزادی، عہدے و اقتدار کے غلط استعمال پر کنٹرول اور حکمرانی میں شفافیت جیسی بنیادی خاصیتوں سے عبارت ہے۔ برطانیہ کے مشہور سابق وزیر اعظم وِنسٹن چَرچِل نے کہا تھا ’’بھارت محض ایک جغرافیائی اظہار ہے وہ ایک متحد ملک نہیں ہے۔‘‘ جبکہ ملک کا ایک طبقہ اس خطے کو’سناتن‘ یعنی ابد سے یا قدیم زمانے سے ’اکھنڈ‘یعنی متحد ملک تصور کرتا آیا ہے۔ لیکن اس نظریے میں تمام انسان مساوی درجہ نہیں رکھتے اور نہ مساوی حقوق کے مستحق ہوتے ہیں۔
مسلمان جو ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں تقسیم وطن کے بعد سے اب تک کے سب سے سنگین بحران کا شکار ہیں۔ ۱۹۵۷ کے بعد ان کی سیاسی نمائندگی تاریخی حد تک کم ہو گئی ہے، ان کا تشخص اور ان کی تاریخ خطرے میں ہے۔ بابا صاحب امبیڈکر اقلیتوں پر اکثریت کے تسلط کے بھی سخت خلاف تھے اور اس عمل کو جمہوری اقدار واصولوں کی خلاف ورزی گردانتے تھے۔ آج ہندو اکثریت کی مرضی اور ان کے مفادات کو یہاں کی مسلم اقلیت پر تھوپا جا رہا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی اپنے خطبہ مدراس میں ان حالات کی پیشن گوئی کی تھی اور تقسیم کے بعد بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے سامنے ایک لائحہ عمل بھی پیش کیا تھا۔ ان کے پیش قیاسی کے مطابق آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہندو قوم پرستی کی ایک ٹانگ یعنی ’انگریز دشمنی‘ تو ٹوٹ گئی ہے لیکن مسلم دشمنی کی دوسری ٹانگ باقی ہے، جارحانہ ہندو قوم پرستی کے علم بردار جس کی مدد سے ملک پر مکمل غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور اس کے لیے کوئی بھی ہتھکنڈہ استعمال کرنے میں ان کو باک نہیں ہے۔ آج سیکولر تکثیریت اور انتہا پسند ہندو قوم پرستی کے مابین راست ٹکراؤ چل رہا ہے جو صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ جمہوریت پسندوں کے لیے بھی ایک اہم موضوع ہے۔ راشٹر بھکتی اور دیش بھکتی کی پرانی بحثیں آج پھر زندہ ہو گئی ہیں۔ آئیڈیا آف انڈیا کی بات بھی ہوتی رہی ہے۔ لبرل ڈیموکریسی اور شورائی اجتماعی قیادت، آمریت وفوجی حکمرانی میں سے بھارت کے لیے پارلیمانی جمہوریت کا راستہ منتخب کیا گیا تھا لیکن اس کو بھی غیر مؤثر کرنے کی کوششیں جاری ہیں وغیرہ۔
وطن عزیز کو فاشزم کے چنگل میں جانے سے بچانا ہو گا اس کے لیے ملک کے ہر سچے اور مخلص شہری کو آگے آنا ہو گا۔ جیسا کہ جسٹس کاٹجو کی درد و آہ کہ "میرے ملک کو بچا لو‘‘ ملک کی دگرگوں صورت حال کی عکاس ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رَمنا نے بھی واضح کیا کہ آج کل ضروری مباحث کے بغیر پارلیمنٹ میں جس طرح بل منظور کروائے جا رہے ہیں وہ ایک افسوس ناک صورت حال ہے۔ حالاں کہ پارلیمنٹ میں تعمیری اور دانش مندانہ بحثوں کی روایت رہی ہے۔ شرد پوار جیسے سنیئر سیاست داں کو کہنا پڑا کہ اپنے ۵۵ سالہ سیاسی کریئر میں انہوں نے کبھی ایوان میں ایسا منظر نہیں دیکھا۔ کیا یہ وہی سحر ہے جس کا خواب مجاہدینِ آزادی نے دکھایا تھا؟
آج جب ملک وملت نہایت سنگین حالات سے دوچار ہے تو ان کا علاج بھی اتنی ہی سخت کڑوی دوا سے کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمان اس ملک کی تقدیر وتعمیر کے یکساں معمار وحقدار ہیں، وہ ملک کی تعمیر کے لیے اپنا خاکہ اہل وطن کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔ دعوت واصلاح کے محاذوں پر کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ‘ایک مقصد اور بنیادی اہداف پر مبنی مشترکہ ایجنڈے‘ پر متفق ہو کر شانہ بشانہ کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔ مسلمانوں کا اصل ہدف یہ ہو کہ وہ تمام انسانوں یعنی جمہور کو دنیوی واخروی نجات اور فلاح کی طرف لے جانے والی ایک فلاحی ریاست (ویلفیئر اسٹیٹ) کا نظریہ ایک متبادل کے طور پر پیش کریں۔ خدائی ہدایات کی بنیاد پر ایک ایسا نظامِ عدل قائم ہو جو جبر واستحصال سے پاک ہو۔ اس کے لیے ملک کی دینی، سیاسی اور تعلیمی قیادت کو ساتھ میں سر جوڑ کربیٹھنا ہوگا تاکہ ایک اجتماعی قیادت کی آواز بن کر ہم حکومت سے روبرو ہو سکیں۔ ملت کے اندرونی مسائل اور فسطائی چیلنج دونوں کا مقابلہ بھی اجتماعی لائحہ عمل سے ہی کیا جا سکے گا۔ اگلے پچیس برسوں میں بھی اگر یہ کام کرنے میں ہم کامیاب ہو جائیں تو اپنی نئی نسل کو اکثریتی سماج کی غلامی اور دینی ارتداد سے بچا سکتے ہیں اور اگر ایسا نہ کر سکیں تو ملک و ملت کو خانہ جنگی سے بچانا ممکن نہ ہوگا۔ ان حالات میں ملت کے نوجوانوں میں بیداری وفکر مندی اور قیادت میں احساسِ ذمہ داری کا ابھرنا ایک فالِ نیک ہی ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021