بھارت میں کورونا کی تیسری لہر آئی نہیں لیکن تیسرے سیاسی محاذ کی آہٹ دیکھی جا رہی ہے۔ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے بانی شرد پوار اور ممتا بنرجی کو دوبارہ اقتدار میں لے آنے والے پرشانت کشور کے درمیان یکے بعد دیگرے تین ملاقاتوں نے سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ اسی اثنا میں 22؍جون کو دلی میں ’حالاتِ حاضرہ کا جائزہ‘ لینے اور ایک ’متبادل وژن‘ تلاش کرنے کی غرض سے ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں ممتاز شخصیات کے علاوہ آٹھ پارٹیوں کے نمائندوں نے شرکت کی جب کہ کانگریس کے تین قائدین کو بلانے کے باوجود انہوں نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ راشٹر منچ ادارے کے یشونت سنہا کی دعوت پر تین طرح کے لوگ اس میٹنگ میں تبادلہ خیال کو پہنچے۔ سیاسی نمائندے، صحافی وتجزیہ نگار اور بعض نمایاں شخصیات جو رابطہ کار کے طور پر کام کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ عمرعبداللہ (نیشنل کانفرنس)، گھنشیام تیواری (ایس پی)، جَینت چودھری (آر ایل ڈی)، سشیل گپتا (عآپ)، نیلوتپل باسو (سی پی ایم)، بِنوئے وِسوَم (سی پی آئی)، مجید میمن (این سی پی) اور یشونت سنہا (ٹی ایم سی) اور دیگر دانشوروں کے بیچ دو گھنٹوں سے زیادہ تبادلہ خیال ہوا۔ بی ایس پی، آر جے ڈی اور ڈی ایم کے نے اپنی نمائندگی درج نہیں کرائی جب کہ جنوب میں مضبوط جگن موہن ریڈی کی وائی ایس آر کانگریس پارٹی، کے سی آر کی تلنگانہ راشٹر سمیتی پارٹی اور دیوے گوڈا کی جنتا دل سیکولر وغیرہ کہیں منظر نامے پر تھے ہی نہیں۔ شیو سینا اور بیجو جنتا دل ندارد رہے، نیز شمال مشرق سے بھی کوئی موجودگی نہیں تھی۔ لیکن پرشانت کشور کی سرگرمیوں میں شرد پوار کے شامل ہو جانے کے سبب سیاسی اٹکلوں میں تیزی آنا فطری ہے۔
کیا حزبِ اختلاف ملک میں موجودہ مودی مخالف ماحول سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے؟ متنازعہ سی اے اے اور کسان قوانین کے خلاف تحریکوں کے بعد کوویڈ پر قابو پانے میں حکومت کی ناکامی کے تناظر میں شاید ان کو لگتا ہے کہ ’مودی بمقابلہ تمام‘ کے امکانی فارمولے پر کام کرنے سے کوئی بات بن سکتی ہے۔ بالعموم انتخابات کے عین موقع پر اس طرح کی سیاسی ہلچل زیادہ نتیجہ خیز نہیں ہوتی اسی لیے تین سال قبل ہی اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش ہو رہی ہے کہ اگر وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کو شکست دینا ہے تو اس کی کیا حکمتِ عملی ہو سکتی ہے؟ اس کے لیے کون کون سے متبادل ممکن ہیں؟ موقع آنے پر کتنی پارٹیاں اکٹھا ہو سکتی ہیں؟ نظریاتی اختلافات کے باوجود نیا متبادل محاذ کن بنیادوں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے؟ ان سوالوں کے ساتھ دلی میں شرد پوار کی رہائش گاہ پر جو اجلاس منعقد ہوا اس میں حالات حاضرہ اور قومی ماحول کا جائزہ لینے کے لیے باہم گفتگو کرنے کی بات اسی مناسبت سے کہی گئی ہے۔ لیکن دھواں نکلنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں آگ ضرور لگی ہے اور اس کے پیچھے کی ’چنگاری‘ کے بطور ممتا بنرجی اور پرشانت کشور کا نام لیا جا رہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بھارت میں سب سے بزرگ اور سوجھ بوجھ نیز وسیع ترین انتظامی تجربہ اور تعلقات رکھنے والے سیاست داں کے طور پر شرد پوار کا ہی نام لیا جاتا ہے۔ ان سے پرشانت کشور کی تین تین ملاقاتوں نے عوام وخواص کی توجہ اپنے جانب مبذول کروالی ہے۔ مراٹھا لیڈر پَوار کو سیاسی مقناطیس کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ شرد پوار کے قریبی بتاتے ہیں کہ ان کے پاس موجود کیڈر حلفیہ کہتے ہیں کہ اگر ان کے ‘صاحب’ کہیں گے کہ بحر عرب میں کود جاؤ تو ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر وہ پانی میں چھلانگ لگا دیں گے۔ پوار کی خاصیت یہ ہے کہ ان کا خوش گوار رابطہ ملک کی تقریباً ہر پارٹی تک پھیلا ہوا ہے اور وہ کوئی کام ہاتھ میں لیتے ہیں تو اس کو انجام تک پہنچاتے ہیں۔ ان کی کمزوری یہ ہے کہ آج تک ان کو صرف اپنے بل بوتے پر کسی بھی ریاست میں حکومت بنانے میں کامیابی نہیں ملی ہے، ان کو اتحادیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ مزید یہ کہ سیاسی گلیاروں میں ان کا ذکر ایک ’نا قابلِ اعتماد‘ لیڈر کے طور پر کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پوار کو جو کرنا ہوتا ہے اسے وہ ظاہر نہیں کرتے اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں اسے کبھی نہیں کرتے۔ اگر ممتا بنرجی کے ارادوں میں خود وزیر اعظم بننا شامل نہیں ہے تو کوئی اور امیدوار شرد پوار کے قد کے سامنے ٹھیر نہیں سکتا۔ ویسے پی ایم کی کرسی کے دعویداروں میں گاندھی خاندان اور ملک کی سب سے قدیم نیز ایک قومی پارٹی کے لیڈر کے ناطے راہول گاندھی کا نام پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل چندر بابو نائیڈو، نتیش کمار، مایاوتی، ملائم سنگھ یادو، کے سی آر اور لالو پرساد یادو جیسے لیڈروں کے نام اعلیٰ ترین کرسی پر براجمان ہونے کا خواب دیکھنے والوں میں گردش میں رہے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک میں وی پی سنگھ، چندر شیکھر، گجرال، نرسمہاراؤ، واجپئی وغیرہ نے درجنوں پارٹیوں کی حمایت سے اتحاد کی سرکاریں چلائی ہیں۔ کچھ کامیابی سے چلیں تو کئی تجربے ناکام بھی ہوئے۔ لہٰذا یہ خیال کہ ایک پارٹی کی واضح اکثریت کے ساتھ مستحکم حکومت ہی ملک کی ترقی وبہتری کے کام کر سکتی ہے، محض آر ایس ایس اور بی جے پی کا چھوڑا ہوا شوشہ ہے تاکہ ووٹرز کسی متبادل کے بارے میں مثبت رائے بنا ہی نہ سکیں۔ شاید پرشانت اور پوار اس بات کو محسوس کرتے ہوئے یہ موقف لے رہے ہیں کہ تیسرا اور چوتھا محاذ کسی کام کا نہیں ہے بلکہ کانگریس کے بغیر ملک میں قومی متبادل ممکن نہ ہونے کی بات شرد پوار خود کہ رہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوششیں بڑی حد تک حقیقت پسندانہ اور زمینی حقائق کے ادراک واعتراف پر مبنی ہیں۔ اس گروپ نے اب تک جذباتی نعروں سے بھی پرہیز کیا ہے اور خیالی پلاؤ بھی نہیں بنا رہا ہے۔
سیاسی محاذوں کے بننے اور بگڑنے میں ایک اہم عنصر یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک ریاست میں دو حریف متحدہ محاذ کا حصہ نہیں بنتے کیوں کہ ان کو متعلقہ ریاست میں اپنی سیاسی زمین بچانے کی فکر پہلے کرنی ہوتی ہے۔ لیکن راشٹر منچ کے بینر تلے منعقدہ مشاورتی اجلاس میں ترنمول کانگریس کے نائب صدر یشونت سنہا کے ساتھ مغربی بنگال میں ان کے حریف کمیونسٹوں نے بھی شرکت کی۔ اب ان کو دیگر ریاستوں میں موجود حریفوں کو قومی سطح پر حلیف بنانے کا چیلینج در پیش ہو گا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آج ایک جائزہ اور مشاروتی نوعیت کی دکھائی دینے والی یہ کوشش آگے چل کر کسی ٹھوس لائحہ عمل اور دلی مخالف محاذ پر مُنتَج ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی کو کرسی سے بے دخل کرنے کے لیے اتنا سب کچھ ہوتا رہے اور مودی۔شاہ آنکھیں موند کر بیٹھ جائیں ایسا تو نہیں ہو گا۔ حکم راں جماعت سیاسی حکمت عملی کے لیے چاہے جس کسی کو این ڈی اے میں شامل کر لے لیکن ان کی انتخابی مہمات ہمیشہ کی طرح تعصب وتفرقہ کے مرکز ومحور پر ہی ٹک جاتی ہیں۔ لہذا سیاسی متبادل اور حزب اختلاف کو متحد کرنے کی کوشش اپنی جگہ لیکن معاشرتی سطح پر فرقہ پرستی کے زہر کا تریاق تلاش کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ عین ممکن ہے کہ مرکزی تفتیشی اور دیگر ایجنسیوں کو بروئے کار لا کر علاقائی لیڈروں کو مودی مخالف محاذ میں سرگرم ہونے سے روکنے کے لیے بلیک میل کرنے کی حکمت عملی پر پھر سے کام شروع ہو جائے۔ بلکہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل اگلے آٹھ ماہ میں منعقد شدنی اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات کی آہٹ کے بیچ دکھائی دے رہا ہے کہ کس طرح مقامی سطح پر مذہبی وفرقہ وارانہ اشتعال پیدا کرنے کے کام کیے جا رہے ہیں جن کا نہایت صبر وتحمل کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ایک آدھ غلطی سماج میں خانہ جنگی کی صورت پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ جس کا پورا فائدہ ان ہی طاقتوں کو ہو گا جن کو شکست دینے کے لیے یہ پاپڑ بیلے جا رہے ہیں۔ تب تک سماجی ہم آہنگی کو بحال رکھنا بھی متبادل محاذ کے سامنے ایک بڑا چیلینج بنا رہے گا جیسا کہ ممتا بنرجی نے اپنی ریاست میں پولرائزیشن کی اس فسطائی حکمت عملی کا مقابلہ اشتعال انگیزی سے بچ کر سمجھداری سے کیا ہے۔ لیکن وہ بی جے پی کی نفرتی فوج کے مقابلے میں ڈٹ کر اپنے نظریہ کو پر زور طریقہ سے پیش بھی کرتی رہیں۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 جون تا 3 جولائی 2021